جمہوری اقدار اور بردبار پاکستان چوتھا حصہ
عراق ایران جنگ کے تسلسل کے ساتھ عرب ریاستوں کے مابین نفرت و تقسیم میں روز بروز اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے
صلاحیت اور صاحب دستار: پاکستان نے عالمی سازشی عناصر کی جانب سے مرتب شدہ اسکرپٹ کو سمجھتے ہوئے تاریخ عالم میں پہلی بار جمہوری اقدار کی پاسداری میں منتخب نمائندے کو ''سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر'' مقرر بنائے جانے کا راستہ اپنایا۔ اور دنیا پر واضح کیا کہ پاکستان ان جمہوری اقدار کی حقیقت کو پہچاننے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور وہ ان کو اپنے حق میں ہموار کرنے کی قابلیت سے بھی بہرہ مند ہے۔
اس لیے پوری دنیا نے دیکھا کہ ریاستوں کو کمزور و لاغر کردینے والے ان ہی اقدار کے استعمال سے قلیل عرصے کے دوران پاکستان نے ماضی قریب میں اپنے ساتھ ''مفتوح عالمی اداروں'' کے منافقانہ کردار کے باعث لگنے والے گہرے زخموں کو مندمل کرتے ہوئے خود کو ناقابل تسخیر بنائے جانے کی جانب انتہائی تیزی سے قدم بڑھانے شروع کر دیے تھے لیکن ان اقدار نے اپنے کرشماتی سحر سے ایشیاء کے بڑے ''جمہوری سیاستدان '' کو بھی اپنے حتمی نتائج کی گرفت میں لے لیا اور وہ اپنی مضبوط جمہوری حیثیت کو سمجھنے کے بجائے ان اقدار سے مغلوب ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جس کے عملی اقرار میں وہ خود کے لیے انتخابات میں دھاندلی کے مرتکب پائے جانا ناگزیر بنا بیٹھے تھے۔
ان کا یہ عمل نہ صرف ان قدروں کے حتمی نتائج کے عین مطابق تھا بلکہ ان کے اس طرح کے عمل کو یورپی نشاط ثانیہ میں مرتب شدہ اسکرپٹ کے مطابق یورپ کی طرح عالم اسلام کو بھی تقسیم و اختلاف کے مرحلے کی جانب گامزن کیے جانے میں استعمال کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ کیونکہ عالم اسلام کے اس ارتقائی مرحلے پر پاکستان اپنی تاریخی قدروں کے عملی اطلاق کے طفلی اقدامات میں بر سرپیکار تھا اور اس مرحلے پر انتخابات میں دھاندلی پاکستان اور اس کی ان ''تاریخی قدروں'' کو کمزور کرنے جیسا ہی عمل ثابت ہوا تھا۔
جو قدریں تحقیقات ابراہیمؑ کے نتیجے میں تقسیم و اختلاف کی بجائے عالم انسانیت کو جسد واحد ہونے اور ان کے درمیان ہمہ گیر یکسانیت پیدا کرنے کے نتائج فراہم کرتی ہیں کیونکہ ان قدروں نے صدیوں کے تسلسل میں یہ ثابت کردیا تھا کہ مکر و فریب کے خوگر یہود اور ظلم و جبر کی علامت یزید دونوں اولاد ابراہیمؑ سے متعلق ہیں۔ اسی لیے ان قدروں کی بنیاد ہی اس تحقیقاتی نکتہ پر ہے کہ۔
دستار کے ہر پیچ کی تحقیق ہے لازم
ہر صاحبِ دستار معزز نہیں ہوتا
چہیتے، کرارا جواب والکاسب: کوئی بھی ہوش مند انسان اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ سرد جنگ کے لگ بھگ نصف صدی پر محیط دورانیے میں ممالک عالم یا تو جمہوری امریکا کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے یا پھر رشین کامریڈ ان کی سپر بنے ہوئے تھے۔ دونوں بلاکوں نے اپنے حصے کے کردارکو اس خوبصورت اندازمیں سر انجام دیا کہ ہالی ووڈ کی کسی ایکشن تھرلر فلم کی طرح باہم دست وگریباں ہوئے بغیر عملی طور پر انھوں نے دنیا کو آپس میں بانٹ لیا۔
اس دوران اگر کہیں کسی ریاست میں ان کی پیدا کردہ تقسیم سے انکار کا شائبہ تک پیدا ہونے لگتا تو عالم انسانیت کی رہنمائی کے خود ساختہ فرائض پر براجمان دونوں بلاک آپس میں جنگ چھیڑدینے سے مشابہ حالات پیدا کرتے آئے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ غیر جانبدار ممالک کی تحریک سمیت تمام عالمی ادارے بھی اپنے اسکرپٹ سے آگے نہ بڑھ سکے تھے۔
ان معروضی حالات نے سازگار ماحول فراہم کیا تو نشاۃ ثانیہ میں تشکیل دیے گئے اقدار کو دنیا کے کونے کونے میں خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہا جانے لگا تھا، جب کہ ایک طرف یورپ بے وجہ شروع کی گئی صلیبی جنگوں کی حشرسامانیوں سمیت اپنی نشاط ثانیہ کی اقدار کے زخم چاٹنے پر مجبور تھا۔
دوسری جانب ایشیاء میں سیکولر ہندوستان اور ان جمہوری اقدار کے خالق اسرائیل کو تمام قدیم و جدید اقداری، اخلاقی و مقامی تاریخی قوانین سے عملی طور استثناء فراہم کیا جاچکا تھا جس کا تسلسل آج تک برقرار ہے جس کے نتائج میں ہم 67ء کی عرب اسرائیل جنگ میں سرزمین فلسطین پر غاصبانہ قبضے کی بنیاد پر قائم اسرائیل کے مفادات کی راہ ہموار کیے جانے اور ہندوستان کو ڈھاکا ریس کورس میں حاصل کردہ ''نام نہاد جیت '' کے نشے میں سرشار ہوکر اقوام عالم کے اکھاڑے میں سینا پھلائے اکڑ تے اِتراتے جمہوری قدروں کی داد لیتے دیکھ سکتے ہیں۔
اس لیے دونوں بلاکس اقوام عالم کے وسائل کو اپنے تصرف میں لینے کی خاطر جہاں منہ اٹھا ، چل دیے۔اس وقت اقوام عالم کے نقارخانے میں جمہوری امریکا اورکامریڈی سوویت یونین کا طوطی بول رہا تھا۔ یعنی جدید قدروں اور ان کے''چہیتوں''کی مستیوں نے دنیا میں تقسیم و اختلاف کی بنیادوں پر بہت اودھم مچا رکھی تھی۔
یورپی نشاۃ ثانیہ کی آخری ہچکیوں کی شکل لیے سوویت یونین اسی سرشاری اور خر مستی میں افغانستان کو روندنے لگا تو سر د جنگ کے سراسیمہ ممالک و اقوام عالم اس وقت پھٹ پڑے اور پاکستان ان سب کی امیدوں کا مرکز بن گیا۔ بلاشبہ سوویت یونین کا اگلا ہدف پاکستان ہی ہوتا۔
ان حالات میں اکثر ممالک اور عالمی ادارے کلمہء حق ادا کرتے اپنی تاریخی قدروں سے جڑے مستحکم پاکستان میں ہی کرہ ارض کی سلامتی اور جارحیت کے خاتمے کو ممکن بنائے جانے کے اقرار پر مجبور ہوکر پاکستان سے سوویت یونین کو کرارا جواب دینے کا مطالبہ کرنے لگے تھے جس میں خالق کائنات نے پاکستان کو سرخرو رکھا۔
یورپی نشاۃ ثانیہ سمیت اس کی سب سے کمسن لاڈلی ونخریلی اولادکمیونزم اپنی ستر سالہ حیات ہنگامہ خیزی کے عیوض دنیا کو یکم مئی یعنی لیبر ڈے کی ''قدر''فراہم کر گئی جسے آج جمہوری قدروں کے وہ پر خلوص چیلے بڑے تزک احتشام سے مناتے ہیں جو کسی بھی پیمانے پر لیبر قرارنہیں دیے جاسکتے۔ جب کہ پاکستانی قدروں کے مطابق چار ہزار برس پہلے حضرت ابراہیمؑ کی جانب سے تہذیب بیت المقدس اور تہذیب خانہ کعبہ کی بنیادیں رکھتے وقت ''الکاسب الحبیب اللہ ''ہونے کی ذمے داریاں ادا کرتے ہوئے تاحیات مزدوری کے نکتے کو واضح فرما دیا تھا۔
عالم اسلام ؛ تقسیم اور دباؤ: عالم اسلام میں کئی صدیوں کے اختلافات اور آپسی دوریوں کے خاتمے کے لیے پاکستان ہی کی جگر سوزیوں کے نتیجے میں باہمی ربط و تعلق کے ساتھ جسد واحد کا لطیف احساس ابھرنے لگا تھا، لیکن ایک طرف پاکستانی جمہوری رہنماؤں کی نام نہاد جمہوریت پسندی کے حتمی نتائج نے ہمارے اسلاف کی تاریخی قدروں کے عملی اطلاق کو متاثر کیا۔ تو دوسری جانب شاہِ ایران کی ''جمہوریت پسندی '' کے پیدا شدہ حالات کے حتمی و لازمی نتائج میں انقلاب ایران، عالم اسلام کو دو گروہوں میں تقسیم کردینے کا اعلان ثابت ہوا۔اور''انھوں''نے خوشی وکامرانی کے شادیانے بجانے شروع کردیے۔
''جو'' تقسیم و تحریف میں لاثانی ہیں۔''جنھوں'' نے یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے اسکرپٹ لکھنے سے بھی کئی صدیاں قبل عالم اسلام کی فکری تقسیم کے بیج بوئے تھے اور جنھیں تاریخ کے اس مرحلے پر اب اس بیج کو تناور درخت بنانے کی خاطر جدید قدروں اور ہیجانی معروضی حالات کے پانی سے سینچے جانے کا مرحلہ شروع کیا جانا ممکن بنانا تھا۔
اس لیے مختلف فرقوں کے اثر و نفوذ کے ساتھ ساتھ فارسی عربی تشخص کو بھی ہوا دی جانے لگی۔ (حالانکہ انقلاب ایران کی باگیں کسی فارسی کے بجائے ایک عربی کے ہاتھوں میں تھیں اور ہیں۔) شاید اسی لیے عراق ایران جنگ کے تسلسل کے ساتھ عرب ریاستوں کے مابین نفرت و تقسیم میں روز بروز اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے جس کے بھیانک حتمی نتائج میں داعش جیسی انسانیت دشمن تنظیموں کی محفوظ ترین پناہ گاہ کے طور پر عالم اسلام کی مقدس علامات و اقدار کی ترویج کا مرکز رہنے والا خطہ دنیا کے خطرناک ترین ممالک کا خطہ تصور کیا جانے لگا ہے جو کہ بلا شبہ عالم اسلام سے متعلق ایسا منظرنامہ پیش کرنے کی تمام تر ذمے داری ان ہی جدید قدروں کے مرہون منت وعیاں ہے کیونکہ جس طرح یورپی نشاۃ ثانیہ کے دوران بدقماش اور تمام تر اخلاقی حدود و قیود کے منکر افراد کی عیاشی کے اڈوں کے طور پر Dog Citiesکا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔
بالکل اسی طرح آج اس خطے میں بھی ایسے ہی افراد کی پرورش کی جانے لگی ہے ۔کتنی عجیب بات ہے کہ نشاۃ ثانیہ کے دوران ریاستوں پر ریاستیں تو فتح کی گئیں لیکن ان'' ڈوگ سٹیز''پر خود مختاری کا شباب چھایا رہا۔ بالکل اسی طرح موجودہ سپر پاور اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ دنیا پر حکومت تو کرنے لگی ہے لیکن دہشت گرد تنظیموں کے بدقماش ذہنی مریض حیرت انگیز طور ان کی دسترس سے ''دور ''ہیں اور اسی ''دوری ''کو جواز بناکر عمومی طور عالم اسلام اور خصوصی طور پاکستان کی تاریخی قدروں پر جدید قدروں کا دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے ۔
اس لیے پوری دنیا نے دیکھا کہ ریاستوں کو کمزور و لاغر کردینے والے ان ہی اقدار کے استعمال سے قلیل عرصے کے دوران پاکستان نے ماضی قریب میں اپنے ساتھ ''مفتوح عالمی اداروں'' کے منافقانہ کردار کے باعث لگنے والے گہرے زخموں کو مندمل کرتے ہوئے خود کو ناقابل تسخیر بنائے جانے کی جانب انتہائی تیزی سے قدم بڑھانے شروع کر دیے تھے لیکن ان اقدار نے اپنے کرشماتی سحر سے ایشیاء کے بڑے ''جمہوری سیاستدان '' کو بھی اپنے حتمی نتائج کی گرفت میں لے لیا اور وہ اپنی مضبوط جمہوری حیثیت کو سمجھنے کے بجائے ان اقدار سے مغلوب ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جس کے عملی اقرار میں وہ خود کے لیے انتخابات میں دھاندلی کے مرتکب پائے جانا ناگزیر بنا بیٹھے تھے۔
ان کا یہ عمل نہ صرف ان قدروں کے حتمی نتائج کے عین مطابق تھا بلکہ ان کے اس طرح کے عمل کو یورپی نشاط ثانیہ میں مرتب شدہ اسکرپٹ کے مطابق یورپ کی طرح عالم اسلام کو بھی تقسیم و اختلاف کے مرحلے کی جانب گامزن کیے جانے میں استعمال کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ کیونکہ عالم اسلام کے اس ارتقائی مرحلے پر پاکستان اپنی تاریخی قدروں کے عملی اطلاق کے طفلی اقدامات میں بر سرپیکار تھا اور اس مرحلے پر انتخابات میں دھاندلی پاکستان اور اس کی ان ''تاریخی قدروں'' کو کمزور کرنے جیسا ہی عمل ثابت ہوا تھا۔
جو قدریں تحقیقات ابراہیمؑ کے نتیجے میں تقسیم و اختلاف کی بجائے عالم انسانیت کو جسد واحد ہونے اور ان کے درمیان ہمہ گیر یکسانیت پیدا کرنے کے نتائج فراہم کرتی ہیں کیونکہ ان قدروں نے صدیوں کے تسلسل میں یہ ثابت کردیا تھا کہ مکر و فریب کے خوگر یہود اور ظلم و جبر کی علامت یزید دونوں اولاد ابراہیمؑ سے متعلق ہیں۔ اسی لیے ان قدروں کی بنیاد ہی اس تحقیقاتی نکتہ پر ہے کہ۔
دستار کے ہر پیچ کی تحقیق ہے لازم
ہر صاحبِ دستار معزز نہیں ہوتا
چہیتے، کرارا جواب والکاسب: کوئی بھی ہوش مند انسان اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ سرد جنگ کے لگ بھگ نصف صدی پر محیط دورانیے میں ممالک عالم یا تو جمہوری امریکا کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے یا پھر رشین کامریڈ ان کی سپر بنے ہوئے تھے۔ دونوں بلاکوں نے اپنے حصے کے کردارکو اس خوبصورت اندازمیں سر انجام دیا کہ ہالی ووڈ کی کسی ایکشن تھرلر فلم کی طرح باہم دست وگریباں ہوئے بغیر عملی طور پر انھوں نے دنیا کو آپس میں بانٹ لیا۔
اس دوران اگر کہیں کسی ریاست میں ان کی پیدا کردہ تقسیم سے انکار کا شائبہ تک پیدا ہونے لگتا تو عالم انسانیت کی رہنمائی کے خود ساختہ فرائض پر براجمان دونوں بلاک آپس میں جنگ چھیڑدینے سے مشابہ حالات پیدا کرتے آئے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ غیر جانبدار ممالک کی تحریک سمیت تمام عالمی ادارے بھی اپنے اسکرپٹ سے آگے نہ بڑھ سکے تھے۔
ان معروضی حالات نے سازگار ماحول فراہم کیا تو نشاۃ ثانیہ میں تشکیل دیے گئے اقدار کو دنیا کے کونے کونے میں خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہا جانے لگا تھا، جب کہ ایک طرف یورپ بے وجہ شروع کی گئی صلیبی جنگوں کی حشرسامانیوں سمیت اپنی نشاط ثانیہ کی اقدار کے زخم چاٹنے پر مجبور تھا۔
دوسری جانب ایشیاء میں سیکولر ہندوستان اور ان جمہوری اقدار کے خالق اسرائیل کو تمام قدیم و جدید اقداری، اخلاقی و مقامی تاریخی قوانین سے عملی طور استثناء فراہم کیا جاچکا تھا جس کا تسلسل آج تک برقرار ہے جس کے نتائج میں ہم 67ء کی عرب اسرائیل جنگ میں سرزمین فلسطین پر غاصبانہ قبضے کی بنیاد پر قائم اسرائیل کے مفادات کی راہ ہموار کیے جانے اور ہندوستان کو ڈھاکا ریس کورس میں حاصل کردہ ''نام نہاد جیت '' کے نشے میں سرشار ہوکر اقوام عالم کے اکھاڑے میں سینا پھلائے اکڑ تے اِتراتے جمہوری قدروں کی داد لیتے دیکھ سکتے ہیں۔
اس لیے دونوں بلاکس اقوام عالم کے وسائل کو اپنے تصرف میں لینے کی خاطر جہاں منہ اٹھا ، چل دیے۔اس وقت اقوام عالم کے نقارخانے میں جمہوری امریکا اورکامریڈی سوویت یونین کا طوطی بول رہا تھا۔ یعنی جدید قدروں اور ان کے''چہیتوں''کی مستیوں نے دنیا میں تقسیم و اختلاف کی بنیادوں پر بہت اودھم مچا رکھی تھی۔
یورپی نشاۃ ثانیہ کی آخری ہچکیوں کی شکل لیے سوویت یونین اسی سرشاری اور خر مستی میں افغانستان کو روندنے لگا تو سر د جنگ کے سراسیمہ ممالک و اقوام عالم اس وقت پھٹ پڑے اور پاکستان ان سب کی امیدوں کا مرکز بن گیا۔ بلاشبہ سوویت یونین کا اگلا ہدف پاکستان ہی ہوتا۔
ان حالات میں اکثر ممالک اور عالمی ادارے کلمہء حق ادا کرتے اپنی تاریخی قدروں سے جڑے مستحکم پاکستان میں ہی کرہ ارض کی سلامتی اور جارحیت کے خاتمے کو ممکن بنائے جانے کے اقرار پر مجبور ہوکر پاکستان سے سوویت یونین کو کرارا جواب دینے کا مطالبہ کرنے لگے تھے جس میں خالق کائنات نے پاکستان کو سرخرو رکھا۔
یورپی نشاۃ ثانیہ سمیت اس کی سب سے کمسن لاڈلی ونخریلی اولادکمیونزم اپنی ستر سالہ حیات ہنگامہ خیزی کے عیوض دنیا کو یکم مئی یعنی لیبر ڈے کی ''قدر''فراہم کر گئی جسے آج جمہوری قدروں کے وہ پر خلوص چیلے بڑے تزک احتشام سے مناتے ہیں جو کسی بھی پیمانے پر لیبر قرارنہیں دیے جاسکتے۔ جب کہ پاکستانی قدروں کے مطابق چار ہزار برس پہلے حضرت ابراہیمؑ کی جانب سے تہذیب بیت المقدس اور تہذیب خانہ کعبہ کی بنیادیں رکھتے وقت ''الکاسب الحبیب اللہ ''ہونے کی ذمے داریاں ادا کرتے ہوئے تاحیات مزدوری کے نکتے کو واضح فرما دیا تھا۔
عالم اسلام ؛ تقسیم اور دباؤ: عالم اسلام میں کئی صدیوں کے اختلافات اور آپسی دوریوں کے خاتمے کے لیے پاکستان ہی کی جگر سوزیوں کے نتیجے میں باہمی ربط و تعلق کے ساتھ جسد واحد کا لطیف احساس ابھرنے لگا تھا، لیکن ایک طرف پاکستانی جمہوری رہنماؤں کی نام نہاد جمہوریت پسندی کے حتمی نتائج نے ہمارے اسلاف کی تاریخی قدروں کے عملی اطلاق کو متاثر کیا۔ تو دوسری جانب شاہِ ایران کی ''جمہوریت پسندی '' کے پیدا شدہ حالات کے حتمی و لازمی نتائج میں انقلاب ایران، عالم اسلام کو دو گروہوں میں تقسیم کردینے کا اعلان ثابت ہوا۔اور''انھوں''نے خوشی وکامرانی کے شادیانے بجانے شروع کردیے۔
''جو'' تقسیم و تحریف میں لاثانی ہیں۔''جنھوں'' نے یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے اسکرپٹ لکھنے سے بھی کئی صدیاں قبل عالم اسلام کی فکری تقسیم کے بیج بوئے تھے اور جنھیں تاریخ کے اس مرحلے پر اب اس بیج کو تناور درخت بنانے کی خاطر جدید قدروں اور ہیجانی معروضی حالات کے پانی سے سینچے جانے کا مرحلہ شروع کیا جانا ممکن بنانا تھا۔
اس لیے مختلف فرقوں کے اثر و نفوذ کے ساتھ ساتھ فارسی عربی تشخص کو بھی ہوا دی جانے لگی۔ (حالانکہ انقلاب ایران کی باگیں کسی فارسی کے بجائے ایک عربی کے ہاتھوں میں تھیں اور ہیں۔) شاید اسی لیے عراق ایران جنگ کے تسلسل کے ساتھ عرب ریاستوں کے مابین نفرت و تقسیم میں روز بروز اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے جس کے بھیانک حتمی نتائج میں داعش جیسی انسانیت دشمن تنظیموں کی محفوظ ترین پناہ گاہ کے طور پر عالم اسلام کی مقدس علامات و اقدار کی ترویج کا مرکز رہنے والا خطہ دنیا کے خطرناک ترین ممالک کا خطہ تصور کیا جانے لگا ہے جو کہ بلا شبہ عالم اسلام سے متعلق ایسا منظرنامہ پیش کرنے کی تمام تر ذمے داری ان ہی جدید قدروں کے مرہون منت وعیاں ہے کیونکہ جس طرح یورپی نشاۃ ثانیہ کے دوران بدقماش اور تمام تر اخلاقی حدود و قیود کے منکر افراد کی عیاشی کے اڈوں کے طور پر Dog Citiesکا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔
بالکل اسی طرح آج اس خطے میں بھی ایسے ہی افراد کی پرورش کی جانے لگی ہے ۔کتنی عجیب بات ہے کہ نشاۃ ثانیہ کے دوران ریاستوں پر ریاستیں تو فتح کی گئیں لیکن ان'' ڈوگ سٹیز''پر خود مختاری کا شباب چھایا رہا۔ بالکل اسی طرح موجودہ سپر پاور اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ دنیا پر حکومت تو کرنے لگی ہے لیکن دہشت گرد تنظیموں کے بدقماش ذہنی مریض حیرت انگیز طور ان کی دسترس سے ''دور ''ہیں اور اسی ''دوری ''کو جواز بناکر عمومی طور عالم اسلام اور خصوصی طور پاکستان کی تاریخی قدروں پر جدید قدروں کا دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے ۔