ہندوی اور ریختہ سے ’ہندوستانی‘ تک
جب ہندوستان کی مشترکہ زبان کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا
برصغیر کا مورخ جب بھی انیسویں اور بیسویں صدی کے زمانے پر قلم اٹھائے گا، تب اسے ہندوستانی باشندوں کی باہمی چپقلش اپنی گرفت میں لے لے گی۔۔۔ تنازعات میں گھِرے بٹوارے کے لمحے کو رقم کرتے ہوئے، اُسے مذہب کے پس منظر کے ساتھ سب سے گنجلک باب جو ملے گا، اس کا عنوان 'زبان' ہوگا۔۔۔
ہندوستان بھر میں یک ساں طور پر بولی جانے والی زبان، جسے انگریز کے دور میں جداگانہ رسم الخط کے ذریعے باقاعدہ 'اردو' اور 'ہندی' بنا دیا جاتا ہے، تاریخی طور پر ہندوی، ریختہ اور ہندوستانی سے موسوم یہ زبان انیسویں صدی کے آغاز میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں باقاعدہ دو حصوں میں تقسیم کردی گئی۔ اس سے پہلے رسم الخط کہیں سہولت کی بنا پر دیوناگری بھی رہا ہوگا، لیکن شاطر انگریز نے 'تقسیم کرو اور حکومت کرو' کے اصول کے تحت اسے باقاعدہ الگ، الگ کرکے یہاں کے دو بڑے مذہبی گروہوں میں بانٹ دیا۔
دیو ناگری رسم الخط والی بھاشا باقاعدہ ہندی سے موسوم ہوئی اور اس میں عربی وفارسی الفاظ کے بہ جائے سنسکرت اور برج بھاشا کے نامانوس الفاظ شامل کیے گئے۔ اسی طرح دوسری طرف بھی عام بول چال کے الفاظ کی جگہ عربی وفارسی کی مشکل تراکیب کی روایت بھی سامنے آئی۔
1857ء کے بعد ہندی کے حوالے سے زیادہ کام ہوا۔ الولال جی نے ہندوؤں کی کتاب ''پریم ساگر'' کو ہندی میں شایع کیا۔ ڈاکٹر تارا چند کے بقول ''عیسائی تبلیغی جماعتوں نے انجیل کا ہندی ترجمہ کر کے ہندی کی اہمیت بڑھائی۔'' اردو برصغیر کی وہ زبان تھی، جس پر ہندو مسلم اتحاد کی شان دار عمارت کھڑی کی جاسکتی تھی، لیکن اردو جاننے والے ہندوؤں کو ہندی کی ترغیب دی گئی کہ وہ ہندو ہیں، تو انہیں ہندوستان کی دیسی چیزیں استعمال کرنی چاہییں۔
پنڈت کرشن پرشاد کول کے مطابق عربی و فارسی کے الفاظ والی زبان کو مسلمانوں کی زبان قرار دیا گیا۔ عالَم یہ تھا کہ یوپی کے وزیرتعلیم مسٹر سمپورنانند نے اپنی اردو دشمنی کا سب سے بڑا سبب یہ بتایا تھا کہ 'میری بیٹی نے بھگوان کے بہ جائے خدا کا لفظ کہا! خدا کی طرح اور بھی بہت سے لفظ جو مسلمانوں کے بنیادی عقائد سے تعلق رکھتے ہیں، آہستہ آہستہ غیرشعوری طور پر اردو کے ذریعے ہندوؤں کے دماغوں میں داخل ہوگئے ہیں اور اس طرح ان کے مذہبی عقائد متاثر ہونے کا خطرہ ہے!'
اگرچہ 1837ء میں مسلمانوں کو مطمئن کرنے کے لیے فارسی کی جگہ اردو کو سرکاری زبان بنانے کا اعلان کیا گیا، لیکن ساتھ ہی لارڈ میکالے کی وہ یادداشت منظر عام پر آئی جس میں کہا گیا کہ ہندوستان کی ساری تعلیم انگریزی زبان میں ہونی چاہیے۔ 1867ء میں بنارس کے ہندوؤں نے اردو کے خلاف تحریک کا آغاز کیا جسے دیکھتے ہوئے ہی سرسید نے کہا ''یہ پہلا موقع تھا جب مجھے یقین ہوگیا کہ اب ہندوؤں اور مسلمانوں کا بطور ایک قوم ساتھ چلنا محال ہے۔''
بنارس کے کمشنر الیگزینڈر شیکسپیئر (Alexander Shakespeare) نے کہا،''آج پہلی دفعہ آپ سے خاص مسلمانوں کی ترقی کا سنا ہے۔ اس سے قبل آپ ہمیشہ ہندوستانیوں کی بھلائی کی بات کرتے تھے۔'' سرسید نے کہا ''اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ یہ دونوں قومیں کسی کام میں دل و جان سے شریک نہ ہوسکیں گی، ابھی تو بہت کم ہے، آگے اس سے بھی زیادہ مخالفت اور عناد نظر آئے گا اور جو زندہ رہے گا وہ دیکھے گا۔'' شیکسپیئر نے کہا،''اگر ایسا ہوا، تو مجھے افسوس ہوگا۔'' سر سید نے کہا،''مجھے بھی نہایت افسوس ہے، مگر اپنی پیش گوئی پر مجھے پورا یقین ہے۔''
4 دسمبر 1871ء کو گورنر بنگال مسٹر جی کیمبل نے عدالتوں اور دفاتر سے اردو کو خارج کردیا۔ گورنر اودھ انتھونی میکڈونلڈ نے 18 اپریل 1900ء کو عدالتوں میں ہندی رائج کر دی، پھر مسلمانوں کی تحریک کے بعد ہندی کے ساتھ اردو کی بھی اجازت ملی۔ انتھونی میکڈونلڈ کے اس اقدام سے مسلمانوں میں ہندوؤں کے غلبہ ہونے کا احساس پیدا ہوا، جس کا نتیجہ 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کی صورت میں نکلا۔
٭دو رسم الخط والی 'ہندوستانی' کی آشا
1917ء میں موہن داس گاندھی نے اعلان کیا کہ ''برصغیر کی قومی زبان بننے کی اہل صرف ہندی ہے، جو دونوں رسم الخط میں لکھی جائے۔'' بعد میں وہ بھی ہندی کے بہ جائے ہندوستانی کی اصطلاح استعمال کرنے لگے۔ اس ضمن میں 1925ء میں کانگریس نے اپنے کراچی کے اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی کہ دونوں رسم الخط والی زبان ہندوستان کی قومی زبان ہوگی، مگر بقول سجاد ظہیر کہ یہ باتیں کی گئیں کہ ''ہمیں ڈر ہے کہ ہندوستانی کا مبہم نام لے کر ہمارے ملک پر اردو نہ ٹھونس دی جائے۔''
1937ء میں کانگریسی وزارتوں کے دوران عملاً ہندی کو قومی زبان بنانے کا اعلان ہوا تو مسلم لیگ نے اس پر بھرپور احتجاج کیا، حتیٰ کہ 1944ء میں موہن داس گاندھی بھی ہندوستانی کے بہ جائے 'ہندی ہندوستانی' کی اصطلاح استعمال کرنے لگے اور انہوں نے اردو کو قرآنی حروف میں لکھنے والی زبان قرار دے ڈالا۔ مئی 1938ء میں کانگریس کی طرف سے ہندی کو لازمی مضمون قرار دے دیا گیا۔
1937-38ء میں دوبارہ دونوں رسم الخط کے حامل مشترکہ زبان کی کوششوں کا سلسلہ رہا، جس کے لیے کانگریس کے راہ نما ڈاکٹر سید محمود نے بابو راجندر پرشاد کی صدارت میں کمیٹیاں بھی بنا دیں، اس ہی اثنا میں مولوی عبدالحق نے مشترکہ زبان کی لغت بھی مرتب کرا دی، مگر فارسی اور عربی الفاظ پر کانگریس نے رواج کی بنیاد کو نہ مانا اور یوں تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔
27 فروری 1945ء کو موہن داس گاندھی نے ایک بار پھر مشترکہ زبان کے لیے ڈول ڈالا، جس پر مولوی عبدالحق نے کہا اگر دس سال پہلے آپ میری تجویز مان لیتے، تو اتنا نقصان نہ ہوتا، جس پر گاندھی نے کہا آج میں اپنی غلطی کا کفارہ ادا کر رہا ہوں اور وہ 'ہندی ساہیتہ سمیلن' سے مستعفی ہوگئے۔ مشترکہ زبان کی یہ بحث ایک بار پھر بے نتیجہ رہی۔
اسی اثنا میں میں انتخابات ہوگئے۔ مسلم لیگ کو غیرمعمولی کام یابی حاصل ہوئی اور پاکستان بن گیا اور یہاں 1956ء تا 1971ء بہ یک وقت اردو اور بنگلا قومی زبانیں قرار پائیں۔ اُس وقت کے ڈاک ٹکٹ اور سکوں پر دو مختلف زبانیں دیکھ کر بے اختیار دو رسم الخط والی ایک زبان کا خواب یاد آجاتا ہے، جو شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔
٭مسلم لیگ اور اردو
آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کے وقت سے ہی اردو کا تحفظ اور فروغ اس کے منشور میں شامل رہا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل مسلم لیگ نے اردو کی حمایت میں متعدد قراردادیں منظور کیں۔ ایسی ہی ایک قرار داد 1916ء میں قائداعظم کی زیرصدارت اجلاس میں منظور کی گئی اور مسلمانوں کے رابطے کی زبان کی حیثیت سے اس کے تحفظ کا مطالبہ کیا گیا۔
1937ء میں قائداعظم نے مولوی عبدالحق کو مسلم لیگ کے اجلاس میں اردو ہندی کے مسئلے پر شرکت کی دعوت دی۔ جس کے بعد اردو کے تعلق سے مولوی عبدالحق مسلم لیگ کے ہم نوا بن گئے۔ 18 اکتوبر 1937ء کو قائداعظم کے زیر صدارت مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں راجا صاحب محمودآباد کی تجویز پر اردو کی حمایت میں قرارداد منظور کی گئی۔
اپریل 1938ء میں اردو ہندی کے مسئلے پر نواب زادہ لیاقت علی خان نے کہا،''ہم نے اس ہندوستان کی خاطر عربی چھوڑی، ترکی چھوڑی اور وہ زبان اختیار کی جو اس ملک کے سوا کہیں نہیں بولی جاتی تھی۔ اب ہم سے کہا جاتا ہے کہ والمیکی (ہندو مت کے پیشوا، جنہیں ان کی مقدس کتاب رامائن کا مصنف کہا جاتا ہے) کی زبان بولیں، ہم نہیں بولیں گے، ہم ہندو مسلم اتحاد کی خاطر بہت آگے بڑھ چکے ہیں۔ اب نہ بڑھیں گے۔ جسے ہم سے ملنا ہو یہاں آکر ملے ہم اپنی آخری حد پر کھڑے ہیں۔''
قائداعظم نے قیام پاکستان سے قبل متعدد مواقع پر واضح کردیا تھا کہ پاکستان کی سرکاری زبان صرف اردو ہوگی۔ قائداعظم گو کہ اردو نہ جانتے تھے لیکن آپ نے ہمیشہ اردو ہی کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا۔ جمیل الدین عالی لکھتے ہیں کہ 1943ء تک قائداعظم عوامی جلسوں میں انگریزی میں تقریر کرتے تھے اور ان کا اردو ترجمہ بھی نہ ہوتا تھا۔ انھوں نے اپنی پہلی اردو تقریر 1943ء میں رام لیلاگراؤنڈ میں ایک لاکھ کے مجمع سے کی۔ قائد کی زبان سے اردو کے ابتدائی چند الفاظ سن کر مجمع خوشی سے دیوانہ ہو گیا، پھر 1946ء میں خود ہمارے کالج میں منعقد ایک اجتماع سے قائداعظم نے بلند آواز میں فرمایا تھا کہ ''پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی۔''
اردو کے حوالے سے 1946ء کا مسلم لیگ کونسل کا اجلاس قابل ذکر ہے۔ جب فیروز خان نون نے اپنی تقریر انگریزی میں شروع کی، تو ہر طرف سے ''اردو۔۔۔اردو!'' کی آوازیں بلند ہونے لگیں، جس پر انہوں نے چند جملے اردو میں کہے پھر انگریزی میں شروع ہوگئے پھر ''اردو۔۔اردو!'' کی صدائیں آنے لگیں، تو انہوں نے کہا ''مسٹر جناح! بھی تو انگریزی میں تقریر کرتے ہیں!'' یہ سننا تھا کہ قائد اپنی نشست سے اٹھے اور واضح الفاظ میں فرمایا ''فیروز خان نون نے میرے پیچھے پناہ لی ہے، لہٰذا میں اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان کی زبان اردو ہوگی۔ ''
٭تقسیم کے بعد کیا ہوا؟
بٹوارے سے پہلے مسلم لیگ نے نہ صرف اعلانیہ اردو کے لیے بات کی، بل کہ جب 1946ء میں جب پاک وہند کی پہلی عبوری حکومت بنی تو سردار عبدالرب نشتر وزیر ڈاک و تار بنائے گئے، تو ریلوے کے نظام الاوقات اردو میں آویزاں کرائے گئے اور ٹکٹوں اور فارم پر کوائف اور شہروں کے نام اردو میں لکھوائے گئے، لیکن قیام پاکستان کے فقط نصف برس بعد فروری 1948ء میں مرکزی اسمبلی میں قومی زبان موضوع بنی، تو دستورساز اسمبلی کے رکن دھرمیندر ناتھ دت نے اردو کے ساتھ بنگلا کو بھی قومی زبان قرار دینے کی تجویز دے ڈالی۔
لیاقت علی خان نے اس کی سخت مخالفت کی، جب کہ مشرقی پاکستان کی فضا بنگلا زبان کے حق میں نظر آنے لگی۔ ایسے میں قائداعظم نے بیماری کے باوجود ڈھاکا جانے کا فیصلہ کیا۔ اُن دنوں پاکستان کے پاس کراچی سے براہ راست ڈھاکا جانے والا کوئی طیارہ نہ تھا، قائداعظم جہاز میں تیل ڈلوانے کے لیے کلکتہ ہوائی اڈے پر نہیں اترنا چاہتے تھے۔ انہوں نے خطرہ مول لیتے ہوئے جہاز میں بہت سا تیل ڈلوایا اور پرانے ڈیکوٹا طیارے میں براہ راست ڈھاکا پہنچے اور ڈھاکا یونیورسٹی کے جلسہ عام کے موقع پر کہا، میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو، اردو اور صرف اردو ہوگی۔
پاکستان کی سرکاری زبان جو مملکت کے مختلف صوبوں کے درمیان افہام و تفہیم کا ذریعہ ہو، صرف ایک ہی ہوسکتی ہے اور وہ اردو ہے اس کے سوا کوئی نہیں! البتہ صوبے اگر چاہیں، تو اردو کے ساتھ اپنی زبان کو اختیار کر سکتے ہیں۔ سرحد کی دوسری طرف تقسیم کے بعد 'مسلمان' زبان کے لیے خاطرخواہ جگہ نہ رہی، دیوناگری کا بول بالا ہوگیا۔ یہاں تک کہ 'ریختہ' کے نام سے مقبولیت حاصل کرنے والی اردو ادب کی ویب سائٹ پر اگرچہ ہندی اور رومن کے ساتھ اردو رسم الخط بھی دست یاب ہے، لیکن سماجی ذرایع اِبلاغ پر اب 'ریختہ' پر دیوناگری کا غلبہ ہے اور اردو رسم الخط شاذوونادر ہی دکھائی دیتا ہے۔
٭ 'انجمن ترقی پسند مصنفین' مسلمانوں کی جماعت!
انجمن ترقی پسند مصنفین کے معتمد ڈاکٹر عبدالعلیم جو اردو کو 'ہندوستانی' کرنے کے چکر میں بہ کثرت ہندی کے الفاظ استعمال کرتے تھے۔ ایک دفعہ گوالیار کے ایک جلسے میں ڈاکٹر امرناتھ نے انجمن کے نام پر اعتراض کردیا کہ یہ عربی و فارسی الفاظ معلوم ہوتے ہیں، لہٰذا ''انجمن ترقی پسند مصنفین'' مسلمانوں کی جماعت ہے۔ ڈاکٹر عبدالعلیم کے بقول اس واقعے کے بعد میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہ پورے ہندوستان کی ٹھیکے داری کا دعویٰ کرنے والی جماعت اتنی تنگ نظر ہو سکتی ہے!
٭لفظ 'ہندی' بھی ہندی نہیں!
تین اگست 2016ء کو پنجاب اسمبلی میں بچوں کے ایک کارٹون پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس میں ہندی استعمال ہوتی ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دونوں زبانوں میں فقط رسم الخط کے سوا کوئی چیز مختلف نہیں۔ رواں اور اِبلاغ کرنے والا ہر لفظ اردو /ہندی ہے، چاہے اس کا اصل عربی وفارسی ہو یا سنسکرت اور پراکرت۔ یہاں یہ امر بھی دل چسپی سے خالی نہیں کہ لفظ 'ہندی' تک فارسی ترکیب پر ہے۔
ہند علاقے کا نام ہے اور اس کے ساتھ 'ی' کا اضافہ صفت نسبتی کہلاتا ہے، جیسا کہ دہلوی، لکھنوی، جالندھری، انبالوی وغیرہ ہیں۔ اس کے باوجود محض رسم الخط کی بنیاد پر ہندی کو اردو سے ایک جدا زبان بنا دیا گیا ہے۔ اردو کے علم وادب کے خزانے کو دیوناگری میں شایع کرکے اسے ہندی قرار دیا جا رہا ہے۔ ہندوستان میں سات عشروں کی مسلسل کوششوں کے باوجود اردو موجود ہے۔
دیوناگری رسم الخط رائج ہے، لیکن بول چال میں واضح طور پر عربی وفارسی کے وہ الفاظ (جنہیں اردو کہہ کر دھتکاردیا جاتا تھا) آج بے تکلفی سے برتے جارہے ہیں۔ ہندی قرار دی جانے والی فلموں میں جو الفاظ استعمال ہو رہے ہیں ان میں رب، دل، فطرت، خیال، وفا، بے وفا، الفت، وعدہ، آغوش، ہم سفر، تنہائی، درد، دیدار، احساس، فرصت، غم، خط، محبوب، ناداں، لفظ، عاشق، عبادت، حسرت، زلف، اقرار، خاص، جنون، قصور، برکت، لاجواب، جام، دعا، روح، قسمت، شادی، چمن، رسوائی، شب، شام وسَحر، آزادی، دوست، عورت، شرم، زہر، بہادر، صرف، راحت، قربت اور سرمئی وغیرہ جیسے الفاظ شامل ہیں۔
پریم کے ساتھ محبت اور عشق، جیون کے ساتھ زندگی، وشواس کے ساتھ اعتبار، آتما ہتیا کے ساتھ خودکُشی، سنسار کے ساتھ دنیا جیسے لفظ خوب روا ہیں، پھر سپنا (خواب)، ساگر (سمندر)، سمے (وقت) گگن (آسمان)، دھرتی (زمین) تو ہمارے ہاں بھی خوب مستعمل ہیں۔ حکومت کو اگرچہ سرکار کہنا رائج نہیں، تاہم حکومتی اداروں کے لیے سرکاری کا لفظ خوب جما ہوا ہے۔ انتہا تو یہ ہے کہ بھارتی فلموں کو جنت، باغی، باغ باں، سلطان اور رئیس وغیرہ جیسے نام دے کر بھی اسے اردو تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ کارزار سیاست میں 'عام آدمی پارٹی' کو دیکھیے، تو وہ بھی خالص ہندی میں 'سادھارن منشیہ پارٹی' بنتا ہے، جو اب بھی وہاں عام فہم نہیں۔
٭اگر خالص ہندی ہو تو؟
بھارتی فلمی صنعت میں اردو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، یہ فلمیں اردو کو دیس نکالا دینے والے بنگلا دیش میں بھی سمجھ لی جاتی ہے اور ہندوستان کے ہم سائے میں واقع نیپال، بھوٹان سے سری لنکا جیسے ممالک تک میں مقبول بھی ہوتی ہے۔ عالمی شہرت کا یہ عالم ہے کہ 2015ء میں امریکی صدر باراک اوباما بھی بھارت جاتے ہیں تو شاہ رخ خان کی فلم کا مکالمہ ''بڑے بڑے شہروں میں چھوٹی چھوٹی باتیں ہوجاتی ہیں'' دُہراتے ہیں۔
ایک ویب سائٹ نے مشہور مکالموں اور گیتوں کے مُکھڑوں کو شدھ ہندی میں ڈھالا تو یہ صورت کچھ اس طرح بنی: موگیمبو خوش ہوا (موگیمبو پرسّن ہوا)، دل تو بچہ ہے جی (ہردے تو بالک ہے جی)، تاریخ پہ تاریخ ملتی رہی، لیکن انصاف نہیں ملا مائی لارڈ (دن پہ دن ملتے رہے، کنتو نیائے نہیں ملا، مائی لارڈ)، رشتے میں تو ہم تمہارے باپ لگتے ہیں (سمبندھ سے توہم تمہارے پِتا لگتے ہیں)، ڈان کو پکڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے (ڈان کو پکڑنا کٹھن ہی نہیں، اسمبھو ہے)، کتنے آدمی تھے؟ (کتنے ویکتی تھے؟)، آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے (آپ کی درشتی نے سمجھا پریم کی یوگیہ مجھے)، یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں (یہ سنسار یہ سمیلن، میرے کام کی نہیں)، زندگی ایک سفر ہے سہانا (جیون ایک یاترا ہے سہانا)، دل دیا ہے جاں بھی دیں گے (ہردے دیا ہے پران بھی دیں گے) او حسینہ زلفوں والی جان جہاں (او سندری کشوں والی پری آتما)، دوست، دوست نہ رہا، پیار، پیار نہ رہا، زندگی ہمیں ترا اعتبار نہ رہا (مِتر، مِتر نہ رہا، پریم، پریم نہ رہا، جیون، ہمیں تیرا وشواس نہ رہا)
ہندوستان بھر میں یک ساں طور پر بولی جانے والی زبان، جسے انگریز کے دور میں جداگانہ رسم الخط کے ذریعے باقاعدہ 'اردو' اور 'ہندی' بنا دیا جاتا ہے، تاریخی طور پر ہندوی، ریختہ اور ہندوستانی سے موسوم یہ زبان انیسویں صدی کے آغاز میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں باقاعدہ دو حصوں میں تقسیم کردی گئی۔ اس سے پہلے رسم الخط کہیں سہولت کی بنا پر دیوناگری بھی رہا ہوگا، لیکن شاطر انگریز نے 'تقسیم کرو اور حکومت کرو' کے اصول کے تحت اسے باقاعدہ الگ، الگ کرکے یہاں کے دو بڑے مذہبی گروہوں میں بانٹ دیا۔
دیو ناگری رسم الخط والی بھاشا باقاعدہ ہندی سے موسوم ہوئی اور اس میں عربی وفارسی الفاظ کے بہ جائے سنسکرت اور برج بھاشا کے نامانوس الفاظ شامل کیے گئے۔ اسی طرح دوسری طرف بھی عام بول چال کے الفاظ کی جگہ عربی وفارسی کی مشکل تراکیب کی روایت بھی سامنے آئی۔
1857ء کے بعد ہندی کے حوالے سے زیادہ کام ہوا۔ الولال جی نے ہندوؤں کی کتاب ''پریم ساگر'' کو ہندی میں شایع کیا۔ ڈاکٹر تارا چند کے بقول ''عیسائی تبلیغی جماعتوں نے انجیل کا ہندی ترجمہ کر کے ہندی کی اہمیت بڑھائی۔'' اردو برصغیر کی وہ زبان تھی، جس پر ہندو مسلم اتحاد کی شان دار عمارت کھڑی کی جاسکتی تھی، لیکن اردو جاننے والے ہندوؤں کو ہندی کی ترغیب دی گئی کہ وہ ہندو ہیں، تو انہیں ہندوستان کی دیسی چیزیں استعمال کرنی چاہییں۔
پنڈت کرشن پرشاد کول کے مطابق عربی و فارسی کے الفاظ والی زبان کو مسلمانوں کی زبان قرار دیا گیا۔ عالَم یہ تھا کہ یوپی کے وزیرتعلیم مسٹر سمپورنانند نے اپنی اردو دشمنی کا سب سے بڑا سبب یہ بتایا تھا کہ 'میری بیٹی نے بھگوان کے بہ جائے خدا کا لفظ کہا! خدا کی طرح اور بھی بہت سے لفظ جو مسلمانوں کے بنیادی عقائد سے تعلق رکھتے ہیں، آہستہ آہستہ غیرشعوری طور پر اردو کے ذریعے ہندوؤں کے دماغوں میں داخل ہوگئے ہیں اور اس طرح ان کے مذہبی عقائد متاثر ہونے کا خطرہ ہے!'
اگرچہ 1837ء میں مسلمانوں کو مطمئن کرنے کے لیے فارسی کی جگہ اردو کو سرکاری زبان بنانے کا اعلان کیا گیا، لیکن ساتھ ہی لارڈ میکالے کی وہ یادداشت منظر عام پر آئی جس میں کہا گیا کہ ہندوستان کی ساری تعلیم انگریزی زبان میں ہونی چاہیے۔ 1867ء میں بنارس کے ہندوؤں نے اردو کے خلاف تحریک کا آغاز کیا جسے دیکھتے ہوئے ہی سرسید نے کہا ''یہ پہلا موقع تھا جب مجھے یقین ہوگیا کہ اب ہندوؤں اور مسلمانوں کا بطور ایک قوم ساتھ چلنا محال ہے۔''
بنارس کے کمشنر الیگزینڈر شیکسپیئر (Alexander Shakespeare) نے کہا،''آج پہلی دفعہ آپ سے خاص مسلمانوں کی ترقی کا سنا ہے۔ اس سے قبل آپ ہمیشہ ہندوستانیوں کی بھلائی کی بات کرتے تھے۔'' سرسید نے کہا ''اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ یہ دونوں قومیں کسی کام میں دل و جان سے شریک نہ ہوسکیں گی، ابھی تو بہت کم ہے، آگے اس سے بھی زیادہ مخالفت اور عناد نظر آئے گا اور جو زندہ رہے گا وہ دیکھے گا۔'' شیکسپیئر نے کہا،''اگر ایسا ہوا، تو مجھے افسوس ہوگا۔'' سر سید نے کہا،''مجھے بھی نہایت افسوس ہے، مگر اپنی پیش گوئی پر مجھے پورا یقین ہے۔''
4 دسمبر 1871ء کو گورنر بنگال مسٹر جی کیمبل نے عدالتوں اور دفاتر سے اردو کو خارج کردیا۔ گورنر اودھ انتھونی میکڈونلڈ نے 18 اپریل 1900ء کو عدالتوں میں ہندی رائج کر دی، پھر مسلمانوں کی تحریک کے بعد ہندی کے ساتھ اردو کی بھی اجازت ملی۔ انتھونی میکڈونلڈ کے اس اقدام سے مسلمانوں میں ہندوؤں کے غلبہ ہونے کا احساس پیدا ہوا، جس کا نتیجہ 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کی صورت میں نکلا۔
٭دو رسم الخط والی 'ہندوستانی' کی آشا
1917ء میں موہن داس گاندھی نے اعلان کیا کہ ''برصغیر کی قومی زبان بننے کی اہل صرف ہندی ہے، جو دونوں رسم الخط میں لکھی جائے۔'' بعد میں وہ بھی ہندی کے بہ جائے ہندوستانی کی اصطلاح استعمال کرنے لگے۔ اس ضمن میں 1925ء میں کانگریس نے اپنے کراچی کے اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی کہ دونوں رسم الخط والی زبان ہندوستان کی قومی زبان ہوگی، مگر بقول سجاد ظہیر کہ یہ باتیں کی گئیں کہ ''ہمیں ڈر ہے کہ ہندوستانی کا مبہم نام لے کر ہمارے ملک پر اردو نہ ٹھونس دی جائے۔''
1937ء میں کانگریسی وزارتوں کے دوران عملاً ہندی کو قومی زبان بنانے کا اعلان ہوا تو مسلم لیگ نے اس پر بھرپور احتجاج کیا، حتیٰ کہ 1944ء میں موہن داس گاندھی بھی ہندوستانی کے بہ جائے 'ہندی ہندوستانی' کی اصطلاح استعمال کرنے لگے اور انہوں نے اردو کو قرآنی حروف میں لکھنے والی زبان قرار دے ڈالا۔ مئی 1938ء میں کانگریس کی طرف سے ہندی کو لازمی مضمون قرار دے دیا گیا۔
1937-38ء میں دوبارہ دونوں رسم الخط کے حامل مشترکہ زبان کی کوششوں کا سلسلہ رہا، جس کے لیے کانگریس کے راہ نما ڈاکٹر سید محمود نے بابو راجندر پرشاد کی صدارت میں کمیٹیاں بھی بنا دیں، اس ہی اثنا میں مولوی عبدالحق نے مشترکہ زبان کی لغت بھی مرتب کرا دی، مگر فارسی اور عربی الفاظ پر کانگریس نے رواج کی بنیاد کو نہ مانا اور یوں تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔
27 فروری 1945ء کو موہن داس گاندھی نے ایک بار پھر مشترکہ زبان کے لیے ڈول ڈالا، جس پر مولوی عبدالحق نے کہا اگر دس سال پہلے آپ میری تجویز مان لیتے، تو اتنا نقصان نہ ہوتا، جس پر گاندھی نے کہا آج میں اپنی غلطی کا کفارہ ادا کر رہا ہوں اور وہ 'ہندی ساہیتہ سمیلن' سے مستعفی ہوگئے۔ مشترکہ زبان کی یہ بحث ایک بار پھر بے نتیجہ رہی۔
اسی اثنا میں میں انتخابات ہوگئے۔ مسلم لیگ کو غیرمعمولی کام یابی حاصل ہوئی اور پاکستان بن گیا اور یہاں 1956ء تا 1971ء بہ یک وقت اردو اور بنگلا قومی زبانیں قرار پائیں۔ اُس وقت کے ڈاک ٹکٹ اور سکوں پر دو مختلف زبانیں دیکھ کر بے اختیار دو رسم الخط والی ایک زبان کا خواب یاد آجاتا ہے، جو شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔
٭مسلم لیگ اور اردو
آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کے وقت سے ہی اردو کا تحفظ اور فروغ اس کے منشور میں شامل رہا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل مسلم لیگ نے اردو کی حمایت میں متعدد قراردادیں منظور کیں۔ ایسی ہی ایک قرار داد 1916ء میں قائداعظم کی زیرصدارت اجلاس میں منظور کی گئی اور مسلمانوں کے رابطے کی زبان کی حیثیت سے اس کے تحفظ کا مطالبہ کیا گیا۔
1937ء میں قائداعظم نے مولوی عبدالحق کو مسلم لیگ کے اجلاس میں اردو ہندی کے مسئلے پر شرکت کی دعوت دی۔ جس کے بعد اردو کے تعلق سے مولوی عبدالحق مسلم لیگ کے ہم نوا بن گئے۔ 18 اکتوبر 1937ء کو قائداعظم کے زیر صدارت مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں راجا صاحب محمودآباد کی تجویز پر اردو کی حمایت میں قرارداد منظور کی گئی۔
اپریل 1938ء میں اردو ہندی کے مسئلے پر نواب زادہ لیاقت علی خان نے کہا،''ہم نے اس ہندوستان کی خاطر عربی چھوڑی، ترکی چھوڑی اور وہ زبان اختیار کی جو اس ملک کے سوا کہیں نہیں بولی جاتی تھی۔ اب ہم سے کہا جاتا ہے کہ والمیکی (ہندو مت کے پیشوا، جنہیں ان کی مقدس کتاب رامائن کا مصنف کہا جاتا ہے) کی زبان بولیں، ہم نہیں بولیں گے، ہم ہندو مسلم اتحاد کی خاطر بہت آگے بڑھ چکے ہیں۔ اب نہ بڑھیں گے۔ جسے ہم سے ملنا ہو یہاں آکر ملے ہم اپنی آخری حد پر کھڑے ہیں۔''
قائداعظم نے قیام پاکستان سے قبل متعدد مواقع پر واضح کردیا تھا کہ پاکستان کی سرکاری زبان صرف اردو ہوگی۔ قائداعظم گو کہ اردو نہ جانتے تھے لیکن آپ نے ہمیشہ اردو ہی کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا۔ جمیل الدین عالی لکھتے ہیں کہ 1943ء تک قائداعظم عوامی جلسوں میں انگریزی میں تقریر کرتے تھے اور ان کا اردو ترجمہ بھی نہ ہوتا تھا۔ انھوں نے اپنی پہلی اردو تقریر 1943ء میں رام لیلاگراؤنڈ میں ایک لاکھ کے مجمع سے کی۔ قائد کی زبان سے اردو کے ابتدائی چند الفاظ سن کر مجمع خوشی سے دیوانہ ہو گیا، پھر 1946ء میں خود ہمارے کالج میں منعقد ایک اجتماع سے قائداعظم نے بلند آواز میں فرمایا تھا کہ ''پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی۔''
اردو کے حوالے سے 1946ء کا مسلم لیگ کونسل کا اجلاس قابل ذکر ہے۔ جب فیروز خان نون نے اپنی تقریر انگریزی میں شروع کی، تو ہر طرف سے ''اردو۔۔۔اردو!'' کی آوازیں بلند ہونے لگیں، جس پر انہوں نے چند جملے اردو میں کہے پھر انگریزی میں شروع ہوگئے پھر ''اردو۔۔اردو!'' کی صدائیں آنے لگیں، تو انہوں نے کہا ''مسٹر جناح! بھی تو انگریزی میں تقریر کرتے ہیں!'' یہ سننا تھا کہ قائد اپنی نشست سے اٹھے اور واضح الفاظ میں فرمایا ''فیروز خان نون نے میرے پیچھے پناہ لی ہے، لہٰذا میں اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان کی زبان اردو ہوگی۔ ''
٭تقسیم کے بعد کیا ہوا؟
بٹوارے سے پہلے مسلم لیگ نے نہ صرف اعلانیہ اردو کے لیے بات کی، بل کہ جب 1946ء میں جب پاک وہند کی پہلی عبوری حکومت بنی تو سردار عبدالرب نشتر وزیر ڈاک و تار بنائے گئے، تو ریلوے کے نظام الاوقات اردو میں آویزاں کرائے گئے اور ٹکٹوں اور فارم پر کوائف اور شہروں کے نام اردو میں لکھوائے گئے، لیکن قیام پاکستان کے فقط نصف برس بعد فروری 1948ء میں مرکزی اسمبلی میں قومی زبان موضوع بنی، تو دستورساز اسمبلی کے رکن دھرمیندر ناتھ دت نے اردو کے ساتھ بنگلا کو بھی قومی زبان قرار دینے کی تجویز دے ڈالی۔
لیاقت علی خان نے اس کی سخت مخالفت کی، جب کہ مشرقی پاکستان کی فضا بنگلا زبان کے حق میں نظر آنے لگی۔ ایسے میں قائداعظم نے بیماری کے باوجود ڈھاکا جانے کا فیصلہ کیا۔ اُن دنوں پاکستان کے پاس کراچی سے براہ راست ڈھاکا جانے والا کوئی طیارہ نہ تھا، قائداعظم جہاز میں تیل ڈلوانے کے لیے کلکتہ ہوائی اڈے پر نہیں اترنا چاہتے تھے۔ انہوں نے خطرہ مول لیتے ہوئے جہاز میں بہت سا تیل ڈلوایا اور پرانے ڈیکوٹا طیارے میں براہ راست ڈھاکا پہنچے اور ڈھاکا یونیورسٹی کے جلسہ عام کے موقع پر کہا، میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو، اردو اور صرف اردو ہوگی۔
پاکستان کی سرکاری زبان جو مملکت کے مختلف صوبوں کے درمیان افہام و تفہیم کا ذریعہ ہو، صرف ایک ہی ہوسکتی ہے اور وہ اردو ہے اس کے سوا کوئی نہیں! البتہ صوبے اگر چاہیں، تو اردو کے ساتھ اپنی زبان کو اختیار کر سکتے ہیں۔ سرحد کی دوسری طرف تقسیم کے بعد 'مسلمان' زبان کے لیے خاطرخواہ جگہ نہ رہی، دیوناگری کا بول بالا ہوگیا۔ یہاں تک کہ 'ریختہ' کے نام سے مقبولیت حاصل کرنے والی اردو ادب کی ویب سائٹ پر اگرچہ ہندی اور رومن کے ساتھ اردو رسم الخط بھی دست یاب ہے، لیکن سماجی ذرایع اِبلاغ پر اب 'ریختہ' پر دیوناگری کا غلبہ ہے اور اردو رسم الخط شاذوونادر ہی دکھائی دیتا ہے۔
٭ 'انجمن ترقی پسند مصنفین' مسلمانوں کی جماعت!
انجمن ترقی پسند مصنفین کے معتمد ڈاکٹر عبدالعلیم جو اردو کو 'ہندوستانی' کرنے کے چکر میں بہ کثرت ہندی کے الفاظ استعمال کرتے تھے۔ ایک دفعہ گوالیار کے ایک جلسے میں ڈاکٹر امرناتھ نے انجمن کے نام پر اعتراض کردیا کہ یہ عربی و فارسی الفاظ معلوم ہوتے ہیں، لہٰذا ''انجمن ترقی پسند مصنفین'' مسلمانوں کی جماعت ہے۔ ڈاکٹر عبدالعلیم کے بقول اس واقعے کے بعد میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہ پورے ہندوستان کی ٹھیکے داری کا دعویٰ کرنے والی جماعت اتنی تنگ نظر ہو سکتی ہے!
٭لفظ 'ہندی' بھی ہندی نہیں!
تین اگست 2016ء کو پنجاب اسمبلی میں بچوں کے ایک کارٹون پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس میں ہندی استعمال ہوتی ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دونوں زبانوں میں فقط رسم الخط کے سوا کوئی چیز مختلف نہیں۔ رواں اور اِبلاغ کرنے والا ہر لفظ اردو /ہندی ہے، چاہے اس کا اصل عربی وفارسی ہو یا سنسکرت اور پراکرت۔ یہاں یہ امر بھی دل چسپی سے خالی نہیں کہ لفظ 'ہندی' تک فارسی ترکیب پر ہے۔
ہند علاقے کا نام ہے اور اس کے ساتھ 'ی' کا اضافہ صفت نسبتی کہلاتا ہے، جیسا کہ دہلوی، لکھنوی، جالندھری، انبالوی وغیرہ ہیں۔ اس کے باوجود محض رسم الخط کی بنیاد پر ہندی کو اردو سے ایک جدا زبان بنا دیا گیا ہے۔ اردو کے علم وادب کے خزانے کو دیوناگری میں شایع کرکے اسے ہندی قرار دیا جا رہا ہے۔ ہندوستان میں سات عشروں کی مسلسل کوششوں کے باوجود اردو موجود ہے۔
دیوناگری رسم الخط رائج ہے، لیکن بول چال میں واضح طور پر عربی وفارسی کے وہ الفاظ (جنہیں اردو کہہ کر دھتکاردیا جاتا تھا) آج بے تکلفی سے برتے جارہے ہیں۔ ہندی قرار دی جانے والی فلموں میں جو الفاظ استعمال ہو رہے ہیں ان میں رب، دل، فطرت، خیال، وفا، بے وفا، الفت، وعدہ، آغوش، ہم سفر، تنہائی، درد، دیدار، احساس، فرصت، غم، خط، محبوب، ناداں، لفظ، عاشق، عبادت، حسرت، زلف، اقرار، خاص، جنون، قصور، برکت، لاجواب، جام، دعا، روح، قسمت، شادی، چمن، رسوائی، شب، شام وسَحر، آزادی، دوست، عورت، شرم، زہر، بہادر، صرف، راحت، قربت اور سرمئی وغیرہ جیسے الفاظ شامل ہیں۔
پریم کے ساتھ محبت اور عشق، جیون کے ساتھ زندگی، وشواس کے ساتھ اعتبار، آتما ہتیا کے ساتھ خودکُشی، سنسار کے ساتھ دنیا جیسے لفظ خوب روا ہیں، پھر سپنا (خواب)، ساگر (سمندر)، سمے (وقت) گگن (آسمان)، دھرتی (زمین) تو ہمارے ہاں بھی خوب مستعمل ہیں۔ حکومت کو اگرچہ سرکار کہنا رائج نہیں، تاہم حکومتی اداروں کے لیے سرکاری کا لفظ خوب جما ہوا ہے۔ انتہا تو یہ ہے کہ بھارتی فلموں کو جنت، باغی، باغ باں، سلطان اور رئیس وغیرہ جیسے نام دے کر بھی اسے اردو تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ کارزار سیاست میں 'عام آدمی پارٹی' کو دیکھیے، تو وہ بھی خالص ہندی میں 'سادھارن منشیہ پارٹی' بنتا ہے، جو اب بھی وہاں عام فہم نہیں۔
٭اگر خالص ہندی ہو تو؟
بھارتی فلمی صنعت میں اردو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، یہ فلمیں اردو کو دیس نکالا دینے والے بنگلا دیش میں بھی سمجھ لی جاتی ہے اور ہندوستان کے ہم سائے میں واقع نیپال، بھوٹان سے سری لنکا جیسے ممالک تک میں مقبول بھی ہوتی ہے۔ عالمی شہرت کا یہ عالم ہے کہ 2015ء میں امریکی صدر باراک اوباما بھی بھارت جاتے ہیں تو شاہ رخ خان کی فلم کا مکالمہ ''بڑے بڑے شہروں میں چھوٹی چھوٹی باتیں ہوجاتی ہیں'' دُہراتے ہیں۔
ایک ویب سائٹ نے مشہور مکالموں اور گیتوں کے مُکھڑوں کو شدھ ہندی میں ڈھالا تو یہ صورت کچھ اس طرح بنی: موگیمبو خوش ہوا (موگیمبو پرسّن ہوا)، دل تو بچہ ہے جی (ہردے تو بالک ہے جی)، تاریخ پہ تاریخ ملتی رہی، لیکن انصاف نہیں ملا مائی لارڈ (دن پہ دن ملتے رہے، کنتو نیائے نہیں ملا، مائی لارڈ)، رشتے میں تو ہم تمہارے باپ لگتے ہیں (سمبندھ سے توہم تمہارے پِتا لگتے ہیں)، ڈان کو پکڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے (ڈان کو پکڑنا کٹھن ہی نہیں، اسمبھو ہے)، کتنے آدمی تھے؟ (کتنے ویکتی تھے؟)، آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے (آپ کی درشتی نے سمجھا پریم کی یوگیہ مجھے)، یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں (یہ سنسار یہ سمیلن، میرے کام کی نہیں)، زندگی ایک سفر ہے سہانا (جیون ایک یاترا ہے سہانا)، دل دیا ہے جاں بھی دیں گے (ہردے دیا ہے پران بھی دیں گے) او حسینہ زلفوں والی جان جہاں (او سندری کشوں والی پری آتما)، دوست، دوست نہ رہا، پیار، پیار نہ رہا، زندگی ہمیں ترا اعتبار نہ رہا (مِتر، مِتر نہ رہا، پریم، پریم نہ رہا، جیون، ہمیں تیرا وشواس نہ رہا)