کیڑوں سے عالمی معیشت کو سالانہ77 ارب ڈالر کانقصان
دیمک سب سے زیادہ نقصان دہ،ٹڈی دل، سنڈیاں، پتنگے ودیگر بھی انتہائی مہلک قرار
عالمی معیشت کو حملہ آور کیڑوں سے ہر سال 77ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے، ان میں دیمک سب سے زیادہ نقصان دہ ہے جبکہ ٹڈی دل، بگ، سنڈیاں، پتنگے و دیگر کیڑے بھی انتہائی ملک ہیں۔
نیچرل کمیونی کیشنز نامی جرنل میں چھپنے والی تحقیقی رپورٹ کے مطابق یہ اندازہ انتہائی کم ہوسکتا ہے کیونکہ یہ دنیا کے ایک چھوٹے حصے کا احاطہ کرتا ہے، موسمی تبدیلی رواں صدی کے وسط تک اس 20 فیصد متاثرہ علاقے کو مزید بڑھا دے گی۔ مذکورہ تحقیق میں ریسرچرز نے اشیا، خدمات، صحت عامہ اور زرعی پیداوار پر غیرمقامی اجسام کے اثرات پر کی گئیں 700 سے زیادہ سائنسی اسٹڈیز کا جائزہ لیا۔
تحقیقی رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ ان میں سے بیشتر اسٹڈیز شمالی امریکا اور یورپ میں کی گئیں تھی جس کا مطلب ہے کہ فصلیں کھانے اور بیماریاں لانے والے ان کیڑوں کی تباہ کاریاں صحیحی طرح نہیں جانچی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق سب سے تباہ کن کیڑا دیمک کی ایک قسم فارموسان سب ٹیرینین ٹرمیٹ ہے جو بڑی تعداد میں ایک ساتھ رہتی ہیں اور لکڑی کی مصنوعات اور درختوں کا صفایا کردیتی ہیں، یہ دیمک امریکا کے بڑے علاقے میں پھیلی ہوئی ہے اور اس کو ختم کرنا ناممکن ہوگیا ہے جبکہ بحرالکاہل کے ریجن سے دنیا بھر میں پھیلنے والی ٹڈی دل بھی انتہائی مہلک ہے جو پھول گوبھی، بندگوبھی اور ایسی فیملی کی دیگر فصلوں کو کھا جاتی ہے، اسی طرح خاص طور پر کینیڈا میں موجود سبزدرختوں کو کھانے والی لانگ ہورن بیٹل، پتنگے، جنگلات پر حملہ کرنے والی ایشین لانگ ہونڈ بیٹل، سنڈیاں ودیگر کیڑے بھی مہلک ہیں۔
فرانس کے نیشنل سینٹر فار سائنٹیفک ریسرچ کے محقیقین کی ٹیم کا کہنا ہے کہ کیڑے جانوروں میں سے انسانی معاشرے کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ہیں، حملہ آور کیڑوں کی وجہ سے عالمی سطح پر صحت کا بل 6ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے جس میں بڑا کردار ایک خاص قسم کے مچھر کے کاٹنے سے پھیلنے والا ڈنگی بخار ہے۔
ریسرچرز کی ٹیم کے سربراہ فرینک کورچیمپ کے مطابق متعدد حملہ آور کیڑے درجہ حرارت کی رکاوٹوں کے باعث مخصوص علاقوں تک محدود ہیں تاہم موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں یہ ایسے علاقوں میں بھی حملے کرنے کے قابل ہوجائیں گے جو اب تک ان کے لیے موافق نہیں ہیں، دنیا میں کیڑوں کی 25لاکھ اقسام ہیں جن میں سے انتہائی کم یعنی صرف 2200 نئے علاقوں میں منتقل ہوئی ہیں مگریہ اقسام جہاں گئیں وہاں تباہی مچادی۔
یہ کیڑے فی الوقت بین الاقوامی تجارت کے ذریعے دنیا میں پھیل رہے ہیں تاہم ان سے نمٹنے کا بہترین راستہ کیڑے مار ادویہ ہیں نہ جینیاتی تبدیلیاں بلکہ بہترین حل 'بائیوسیکیورٹی' ہے جس میں بحری جہازوں اور فضائی کارگو کی معائنہ کاری، ہائی رسک درآمدات کی لازمی ٹریٹمنٹ کے لیے قانون سازی اور نئے علاقوں میںان کا پھیلائو فوری روکنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق کیڑے سالانہ عالمی زرعی پیداوار کا 30 سے 40 فیصد کھا جاتے ہیں جو 1ارب عوام کی خوراک کی ضروریات کیلیے کافی ہے، اسی طرح مچھروں سے پھیلنے والی بیماریوں سے سالانہ لاکھوں لوگ مرجاتے ہیں۔
نیچرل کمیونی کیشنز نامی جرنل میں چھپنے والی تحقیقی رپورٹ کے مطابق یہ اندازہ انتہائی کم ہوسکتا ہے کیونکہ یہ دنیا کے ایک چھوٹے حصے کا احاطہ کرتا ہے، موسمی تبدیلی رواں صدی کے وسط تک اس 20 فیصد متاثرہ علاقے کو مزید بڑھا دے گی۔ مذکورہ تحقیق میں ریسرچرز نے اشیا، خدمات، صحت عامہ اور زرعی پیداوار پر غیرمقامی اجسام کے اثرات پر کی گئیں 700 سے زیادہ سائنسی اسٹڈیز کا جائزہ لیا۔
تحقیقی رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ ان میں سے بیشتر اسٹڈیز شمالی امریکا اور یورپ میں کی گئیں تھی جس کا مطلب ہے کہ فصلیں کھانے اور بیماریاں لانے والے ان کیڑوں کی تباہ کاریاں صحیحی طرح نہیں جانچی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق سب سے تباہ کن کیڑا دیمک کی ایک قسم فارموسان سب ٹیرینین ٹرمیٹ ہے جو بڑی تعداد میں ایک ساتھ رہتی ہیں اور لکڑی کی مصنوعات اور درختوں کا صفایا کردیتی ہیں، یہ دیمک امریکا کے بڑے علاقے میں پھیلی ہوئی ہے اور اس کو ختم کرنا ناممکن ہوگیا ہے جبکہ بحرالکاہل کے ریجن سے دنیا بھر میں پھیلنے والی ٹڈی دل بھی انتہائی مہلک ہے جو پھول گوبھی، بندگوبھی اور ایسی فیملی کی دیگر فصلوں کو کھا جاتی ہے، اسی طرح خاص طور پر کینیڈا میں موجود سبزدرختوں کو کھانے والی لانگ ہورن بیٹل، پتنگے، جنگلات پر حملہ کرنے والی ایشین لانگ ہونڈ بیٹل، سنڈیاں ودیگر کیڑے بھی مہلک ہیں۔
فرانس کے نیشنل سینٹر فار سائنٹیفک ریسرچ کے محقیقین کی ٹیم کا کہنا ہے کہ کیڑے جانوروں میں سے انسانی معاشرے کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ہیں، حملہ آور کیڑوں کی وجہ سے عالمی سطح پر صحت کا بل 6ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے جس میں بڑا کردار ایک خاص قسم کے مچھر کے کاٹنے سے پھیلنے والا ڈنگی بخار ہے۔
ریسرچرز کی ٹیم کے سربراہ فرینک کورچیمپ کے مطابق متعدد حملہ آور کیڑے درجہ حرارت کی رکاوٹوں کے باعث مخصوص علاقوں تک محدود ہیں تاہم موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں یہ ایسے علاقوں میں بھی حملے کرنے کے قابل ہوجائیں گے جو اب تک ان کے لیے موافق نہیں ہیں، دنیا میں کیڑوں کی 25لاکھ اقسام ہیں جن میں سے انتہائی کم یعنی صرف 2200 نئے علاقوں میں منتقل ہوئی ہیں مگریہ اقسام جہاں گئیں وہاں تباہی مچادی۔
یہ کیڑے فی الوقت بین الاقوامی تجارت کے ذریعے دنیا میں پھیل رہے ہیں تاہم ان سے نمٹنے کا بہترین راستہ کیڑے مار ادویہ ہیں نہ جینیاتی تبدیلیاں بلکہ بہترین حل 'بائیوسیکیورٹی' ہے جس میں بحری جہازوں اور فضائی کارگو کی معائنہ کاری، ہائی رسک درآمدات کی لازمی ٹریٹمنٹ کے لیے قانون سازی اور نئے علاقوں میںان کا پھیلائو فوری روکنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق کیڑے سالانہ عالمی زرعی پیداوار کا 30 سے 40 فیصد کھا جاتے ہیں جو 1ارب عوام کی خوراک کی ضروریات کیلیے کافی ہے، اسی طرح مچھروں سے پھیلنے والی بیماریوں سے سالانہ لاکھوں لوگ مرجاتے ہیں۔