جامعات کو بچائیے

کسی معاشرے کی شناخت اس کی تہذیب وتمدن اور علم وآگہی سے ہوتی ہے

muqtidakhan@hotmail.com

لاہور:
چند روز قبل اخبارات میں ایک چھوٹی سی خبر شایع ہوئی تھی کہ وفاقی جامعہ اردو کے شیخ الجامعہ ڈاکٹر سلیمان ڈی محمد کی پی ایچ ڈی کی ڈگری کو ہائیر ایجوکیشن کمیشن (HEC) نے سرقہ قرار دے دیا۔ یہ ایک کالمی خبر تھی، جو سٹی پیج پر غیر اہم جگہ پر شایع ہوئی۔ مگر قومی زندگی کے لحاظ سے غیر اہم نہیں ہے ۔

کسی معاشرے کی شناخت اس کی تہذیب وتمدن اور علم وآگہی سے ہوتی ہے۔ جامعات کسی ملک کی اہم ترین علمی و تحقیقی درسگاہیں ہوتی ہیں، جو علم و آگہی اور تہذیب و تمدن کا مرکز ہوتی ہیں۔ کیونکہ جامعات فروغ علم کے ساتھ تہذیب و تمدن کی بنیاد بھی رکھتی ہیں۔ جامعات ہی نئے نظریات، نئے تصورات، نئے خیالات اور نئی افکار کی آبیاری کرنے کے ساتھ نئی ایجادات اور دریافتوں کی راہ دکھاتی ہیں اور لوگوں کو جدت طرازی پر آمادہ کرتی ہیں۔ دنیا کو اس مقام تک پہنچانے میں مضبوط و مربوط تعلیمی نظام اور جامعات میں ہونے والی تحقیق کا کلیدی کردار ہے۔

بھارت کے سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم کہا کرتے تھے کہ ''مجھے دنیا کے ان گنت ممالک کے دوروں کا موقع ملا۔ میں ممالک کی ظاہری شان و شوکت سے کبھی متاثر نہیں ہوا۔ بلکہ ہمیشہ ان ممالک کے تعلیمی نظام کا مشاہدہ کرنے کے بعد کسی فیصلے پر پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اگر کسی ملک کے بازار نت نئی اشیاء سے بھرے ہوں، خوب چہل پہل اور رونق ہو، مگر تعلیمی نظام کمزور ہو، تو پیش گوئی کر دیتا ہوں کہ یہ ملک زوال آمادہ ہے۔ جب کہ وہ ملک جس کے بازاروں میں رونق کم اور مصنوعات بھی واجبی سی ہوں، مگر تعلیمی نظام مضبوط ہو، تو کہہ دیتا ہوں کہ اس ملک کا مستقبل انتہائی تابناک ہے''۔

جب ہم برطانیہ کا تذکرہ کرتے ہیں، تو اس کی دو خصوصیات اس کا بنیادی تعارف بنتی ہیں۔ اول، میگنا کارٹا، جس نے اس کے نظم حکمرانی کو ایک واضح سمت دی اور جمہوریت کی بنیاد رکھی۔ دوئم، آکسفورڈ اور کیمبرج کی جامعات، جنھوں نے سوچنے اور سمجھنے والے دماغ پیدا کیے، جو برطانیہ کو دنیا بھر میں ممتاز و محترم بنانے کا باعث بنے۔ انھی دو جامعات کا کمال تھا کہ دو صدیوں تک برطانیہ کی سلطنت اتنی وسیع ہو گئی تھی کہ اس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ آج امریکا دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ یہ عالمی طاقت اپنی سیاسی حکمت عملیوں اور جدید ٹیکنالوجی کے سبب بنا ہے۔ اسے اس مقام تک پہنچانے میں اس کی جامعات کا کلیدی کردار ہے۔ جن کے باعث اس نے ہر شعبہ حیات میں تحقیق و تجرباتت کی بنیاد پر نئی نئی تخلیقات کیں، جو اس کی ناقابل تسخیر ترقی کا باعث بنیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج امریکا صرف سیاسی، معاشی اور تزویراتی طور پر عالمی سطح پر بلند تر نہیں ہے، بلکہ اس کی جامعات بھی دنیا کی بہترین جامعات تسلیم کی جاتی ہیں۔


اس کے برعکس پاکستان فکری، سیاسی، سماجی اور معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ملک میں پرائمری تعلیم کے ذریعے خواندگی کی شرح میں اضافے کی کوشش کی گئی اور نہ ہی جامعات کے ذریعے اعلیٰ تعلیم کے فروغ اور تحقیق پر توجہ دی گئی۔ المیہ یہ ہے کہ تعلیم روز اول سے مقتدر اشرافیہ کی ترجیح نہیں رہی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ریاستی منتظمہ نے اپنی کرپشن، بدعنوانی اور پیشہ ورانہ نااہلی کے سبب تعلیم کے رہے سہے اہداف بھی پس پشت ڈال دیے۔ نتیجتاً تعلیم جیسا اہم اور کلیدی شعبہ بدترین فرسودگی کا شکار ہوتا چلا گیا۔ ان حلقوں کی کوتاہ بینی اور موقع پرستی کے باعث پبلک سیکٹر کے تعلیمی ادارے بالخصوص جامعات مختلف نوعیت کے پیشہ ورانہ مسائل اور مالیاتی الجھنوں میں مبتلا ہو چکی ہیں۔

جس کی وجہ سے تحقیقی کاموں میں رکاوٹیں آ رہی ہے۔ جب کہ اساتذہ کی تنخواہیں اور دیگر مراعات کی تاخیر سے ادائیگی کے باعث ان میں بے دلی پھیل رہی ہے۔ جس کے براہ راست اثرات تدریسی عمل پر مرتب ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف نجی شعبہ میں قائم جامعات خالصتاً تجارتی نقطہ نظر کے ساتھ کام کر رہی ہیں، جو تعلیم و تحقیق کے میدان میں کوئی گراں قدر حصہ ڈالنے کے بجائے مزید تعلیمی پسماندگی کا سبب بنی ہوئی ہیں۔ اس بارے میں معروف سائنسدان اور محقق ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے اپنے ایک مضمون میں کھل کر اظہار کیا ہے۔

اب جہاں تک جامعہ اردو کا تعلق ہے، تو 1949ء میں بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اس کی بنیاد کالج کے طور پر رکھی تھی۔ ان کی خواہش جامعہ بنانے کی تھی، مگر اس وقت کے نامساعد حالات میں کالج کا قیام بھی بڑا کارنامہ تھا۔ 1972ء میں دیگر تعلیمی اداروں کے ساتھ اس کالج کو بھی قومیا لیا گیا تھا۔ قومی زبان کے نام پر قائم ہونے کی وجہ سے اسے صوبے کے بجائے وفاقی حکومت نے اپنے کنٹرول میں رکھا۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی کے دوران جب نجی شعبہ میں جامعات کے قیام کی اجازت دینے کا اصولی فیصلہ کیا گیا تو 2002ء میں اسے بھی جامعہ کا درجہ دے دیا گیا۔

اس جامعہ کے تین کیمپس ہیں، دو کراچی (عبدالحق اور گلشن اقبال کیمپس) اور ایک اسلام آباد میں۔ اس میں نیچرل اور سماجی سائنسز کے تمام شعبہ جات کے علاوہ مینجمنٹ سائنسز، قانون اور تعلیم کی فیکلٹیاں بھی ہیں۔ اس وقت اس جامعہ میں 14 ہزار کے لگ بھگ طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ یوں یہ ملک کی چند بڑی جامعات میں سے ایک ہے۔جب تک یہ کالج تھا، اس کے تمام شعبہ جات میں ملک کے عمدہ اساتذہ درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ تھے۔ جن کا انتخاب میرٹ پر ہوا کرتا تھا۔ لیکن 2002ء میں جامعہ کا درجہ دینے کے بعد سیاسی رسہ کشی شروع ہو گئی۔ گزشتہ 14 برس کے دوران بمشکل ایک یا دو ہی مستقل شیخ الجامعہ کی تقرری ہوئی ہے۔ زیادہ تر قائم مقام شیخ الجامعہ ہی کے ذریعہ کام چلایا جاتا رہا ہے۔ جب ڈاکٹر ظفر اقبال بطور شیخ الجامعہ مقرر کیے گئے تو ان پر بھی الزامات لگے پھر معاملات اتنے بگڑے کہ وہ اپنا عہدہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ان کی جگہ ڈاکٹر سلیمان ڈی محمد کو قائم مقام شیخ الجامعہ بنا دیا گیا۔ مگروہ بھی متنازعہ ہو گئے۔

کسی جامعہ میں قائم مقام شیخ الجامعہ کی موجودگی اور پھر اس کے متنازع ہو جانے کی صورت میں ان گنت انتظامی اور مالیاتی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ خاص طور پر تدریس اور تحقیق جیسی فوری ترجیحات بری طرح متاثر ہونے لگتی ہیں۔ اس کے علاوہ اساتذہ کی ترقیاں اور ریٹائر ہونے والے اساتذہ کے واجبات کی ادائیگی جیسے معاملات میں تعطل جامعہ کی ہموار کارکردگی میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اس صورتحال کے تناظر میں ہم صدر مملکت اور رئیس الجامعہ ممنون حسین سے درخواست کریں گے کہ وہ جامعہ اردو جیسی بڑی وفاقی جامعہ کے معاملات میں خصوصی دلچسپی لیں اور اس جامعہ میںایک اہل اور مستقل شیخ الجامعہ کا میرٹ پر تقرر کر دیں، تا کہ پبلک سیکٹر کی ایک بڑی جامعہ تباہ ہونے سے بچ جائے۔
Load Next Story