حج 2016 آنکھوں دیکھا حال ساتویں اور آخری قسط

مسجد نبوی سے فارغ ہو کر جنت البقیع حاضری دی۔ خوب استغفار اور دعائیں کیں اور اگلے دن واپسی کا سامان پکڑ لیا۔

جہاز رکتے ہی ”حاجی“ صاحبان ”پاکستانی“ بن گئے۔ جہاز سے انہوں نے جلدی اور پھر VIP پروٹوکول سے اپنا سامان اور زم زم اُٹھا کر لے گئے اور حج وہیں چھوڑ گئے۔

NEW DELHI:
 

مدینہ روانگی


15 ذی الحج، 16 ستمبر، بروز جمعہ ہم نے مدینہ روانگی کی۔ بس عموماً 7 گھنٹے لیتی ہے تو ہم نے 4 ویل GMC کروائی کہ 4 گھنٹوں میں سکون سے پہنچ جائیں گے۔

صبح 4 بجے لابی میں پہنچے تو معلوم ہوا سعودی سسٹم ڈاؤن ہے جس سے ہمارا مدینہ شریف جانے کا اجازت نامہ نکلے گا۔ اللہ اللہ کرکے 7:30 پر وہ ملا۔ حج پر آنے کے ساتھ ہی آپ کے پاسپورٹ لے لئے جاتے ہیں۔ وہ آپ کو واپسی پر ایئرپورٹ پر ملتے ہیں اور آپ کے ساتھ ساتھ ہر جگہ سفر کرتے رہتے ہیں کہ آپ کی خبر رہے اور کوئی حاجی کھسک نہ پائے مگر اس سسٹم کی وجہ سے جتنی خواری ہمیں اُٹھانی پڑی اللہ ہی جانتا ہے۔ ڈرائیور اناڑی تھا، راستوں کا علم نہیں تھا۔ اوپر سے مدینہ کے بارڈر پر پہنچتے ہی زوال کا ٹائم ہوگیا اور سب لوگ جمعہ پڑھنے چلے گئے۔ اب نہ کوئی انٹری کرنے والا نہ کوئی دہائی سننے والا۔

2 گھنٹے اس میں لگے اور پھر مزید 2 گھنٹے اناڑی ڈرائیور کے ساتھ ہوٹل ڈھونڈنے میں اور یوں گروپ آرگنائزرز کی غلطیوں کے خمیازے میں 3000 ریال کی GMC لینے کے باوجود ہم سوا آٹھ گھنٹوں میں ہوٹل پہنچے۔

مدینہ بارڈر پر انتظار کرتے ہوئے عبداللہ نے ایک اونٹ دیکھا جولق و دق تپتے ہوئے صحرا میں کالی پہاڑیوں کے ساتھ چلا جا رہا تھا وہ سوچنے لگا کہ پیدل چلنے کی سنت شاید اب اونٹ ہی پوری کرتے ہوں۔

اُس نے دعا کو ہاتھ اُٹھائے۔ اے اللہ میں نبی پاک ﷺ کے دربار میں حاضری دینا چاہتا ہوں تمام حاجیوں میں، میں وہ واحد بدنصیب ہوں جسے محمد ﷺ سے محبت کا دعویٰ نہیں کہ دعویٰ دلیل مانگتا ہے میں تو بس تھوڑی کوشش ہی کر لیتا ہوں کہ زندگی سنت کے مطابق ڈھل جائے محبت تو بڑی دور کی بات ہے۔

حج 2016، آنکھوں دیکھا حال (پہلی قسط)
حج 2016، آنکھوں دیکھا حال (دوسری قسط)

حج 2016، آنکھوں دیکھا حال (تیسری قسط)

حج 2016، آنکھوں دیکھا حال (چوتھی قسط)

حج 2016، آنکھوں دیکھا حال (پانچویں قسط)

حج 2016، آنکھوں دیکھا حال (چھٹی قسط)

 

 

محبت


آج دنیا بھری پڑی ہے محبت کے دعوے، محبت کی رسمیں، محبت کے وعدے، محبت کے فتنے اور محبت کی باتوں سے۔ مگر کبھی کبھی دل میں خیال آتا ہے کہ کیا محبت کا کوئی وجود بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ کیا یہ واقعی کہیں پائی بھی جاتی ہے؟ کیا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی محبوب کے لئے محبت تیاگ دے؟ چھوڑ دے اپنی مرضی اور مان لے جو محبوب چاہتا ہے۔ چل پڑے اس راہ پر جہاں محبوب موجود ہے۔

محبت کی تعریف کیا ہو؟ رقیب کون ہو؟ مثال کیا ہو؟

مجھے نہیں لگتا کہ اب محبت کی کوئی خالص قسم دنیا میں باقی بچی ہے۔ انسانوں میں تو کم از کم نہیں اور محبت کی تعریف تو شاید ممکن بھی نہیں۔ یہ تو محبت ہے جو انسان کو ڈیفائن کرتی ہے نہ کہ انسان محبت کو۔

آپ یقیناً میری باتوں سے اختلاف کر رہے ہونگے اور پتہ نہیں کون کون سی مثالیں آپ کے ذہن میں گردش کر رہی ہونگی مگر کیا ہم ان مثالوں کو محبت کی کسوٹی پر پرکھ پائیں گے؟ محبت چھوڑ دیتی ہے، محبت روند دیتی ہے، محبت جلا ڈالتی ہے، محبت مار دیتی ہے اور اسے کوئی فکر نہیں ہوتی کہ کیا ہوا۔ محبت جِلا بخشتی ہے۔ نم آنکھوں سے آغاز لینے والی محبت کی معراج بندگی ہے۔ ایک چُپ ہے جو تکتی رہتی ہے کہ کب دروازہ کھلے، کب دیدار ہو، کب وہ پوچھیں، کب وہ نام لیں، کب وہ خوش ہوجائیں، کب وہ مَن جائیں اور کب وہ کہہ دیں کہ جا! راضی ہوا۔

محبت کی ضد نفرت تھوڑا ہی ہے۔ نفرت تو ایک حیوانی جذبہ ہے۔ یہ حسد کی ماں ہے۔ انسانوں میں بھلا اِس کا کیا کام؟ محبت کی ضد تو آزادی ہے۔ محبت میں آدمی قید ہی تو ہوتا ہے۔ جو محبوب چاہے، جب چاہے، جیسے چاہے، جہاں چاہے وہاں حاضری دینی ہی پڑتی ہے۔ نہ اپنی مرضی چلے نہ خواہش بلکہ اِن کا اُلٹ ہی کرنا پڑتا ہے۔ محبت میں آنکھیں ترجمہ کرتی ہیں معنی دل پہناتا ہے اور ذہن و گمان کی کسک کو وجود بخشتا ہے۔

محبت میں سب سے بڑا رقیب نفس ہے۔ یہ نہیں ملنے دیتا محبوب سے اور انسان نادانی میں اِس سے ہی محبت کر بیٹھتا ہے پھر جو چاہے آجائے جیت نفس کی ہی ہوتی ہے۔

ماں باپ محبت کرتے ہیں اپنی اولادوں سے۔

جی ٹھیک کہا آپ نے۔ کبھی کرتے ہونگے یا شاید وقتی طور پر۔ ماں باپ آپ کے پیدا ہونے پر خوشیاں مناتے ہیں۔ آپ کو کھلاتے پلاتے ہیں۔ آپ کا نام رکھتے ہیں، اچھے بُرے وقت میں خیال رکھتے ہیں۔ مگر جب آپ بڑے ہوجاتے ہیں تو انہیں اپنے ہر اچھے کرم کا حساب چاہئے ہوتا ہے۔ ایک گھر میں ایک ہی والدین کی چار اولادیں۔ جو پیسہ کمائے، وہ پیارا، اُس کی بیوی بھی اور بچے بھی۔ اور جو کسی قابل نہ ہو پائے اسکی عزت گھر کے نوکر سے بھی گئی۔ غصّہ آئے تو عاق کردیں، گھر سے نکال دیں اور بھلا یہ کیسی محبت کہ دنیا بنانے کا سامان کردیا مگر اِسی اولاد کی آخرت کی کوئی فکر نہیں؟ کیا فرق رہ گیا بچے پالنے میں اور فیکٹری لگانے میں؟

جو کام بدلے کی نیت سے کیا جائے بھلا وہ بھی محبت میں شمار ہوسکتا ہے؟

حکمرانوں کو اپنی عوام سے محبت ہے۔

جی خوب کہا۔ جس ملک میں غریب کے بچے کچرے کے ڈھیر پر رزق کے لئے کتوں سے لڑیں۔ وہاں پوری صداقت سے آپ کی بات کا یقین ہو ہی جاتا ہے۔ جس ملک میں گناہ و ثواب، نیکی و بدی، سزا و جزا کا گمان تک مر گیا ہو وہاں ایسے جملے بولنا تہذیب کی عصمت دری کے برابر ہیں۔

اَجی چھوڑئیے یہ باتیں، بیوی آخر شوہر سے محبت کرتی ہی ہے اسی لئے تو اپنا میکہ چھوڑ کے چلی آتی ہے۔

جی بھائی، صحیح کہا آپ نے۔ سالوں کی رفاقتوں کے بعد ایک جملہ غلط نکل جائے، ایک دن بُرا گزر جائے، آمدنی کم ہوجائے، بیماری آجائے، توجہ کہیں اور لگ جائے۔ یہی بیوی کہتی ہے کہ میں نے آج تک سکھ کی کوئی گھڑی نہ دیکھی۔ بچے اُٹھائے اور یہ جا وہ جا۔ اب شوہر بیچارہ مناتا پھرے۔ یہی حال خاوند حضرات کا ہے۔ حسن زائل ہوجائے، بیماری آجائے یا بات میں سختی ہوجائے تو وہ اِسے چھوڑ اوروں کی تمنا کریں۔ پا سکیں یا نہیں، تمنائیں تو روز مچلتی ہیں۔ تُف ہے ایسی محبت پر۔ محبوب کے سامنے کسی اور کا خیال بھی آجائے تو یہ محبت میں شرک ہے اور یہاں ایسے بھی کہ گھنٹوں محبوب کے سامنے کھڑے اور بیٹھے دلوں میں کسی اور کے خیال سجائے بیٹھے ہیں اور پھر دعویٰ محبت کا۔ واہ بھئی واہ۔ کیا معصومیت ہے۔

چلیں یہ تو مانیں گے کہ لڑکے کو لڑکی سے محبت ہوسکتی ہے یا یہ بھی نہیں۔

یہ بھی اچھی کہی۔ رات رات بھر کے نائٹ پیکجز، گھنٹوں باتیں، ساتھ جینے مرنے کی قسمیں، زندگی نبھانے کے وعدے، مگر شادی ہوجائے تو؟ اب یہی نائٹ پیکجز، وعدے اور قسمیں کہیں اور؟ کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ محبت ہی تھی یا کوئی جسمانی طلب؟ آج کل کی محبتوں کا نشہ تو چھ ماہ میں ہی اُتر جاتا ہے۔

چلیں، آپ تو کوئی مولوی صاحب لگتے ہیں، اللہ کے لئے تو بندہ محبت کرتا ہی ہے۔

جی صحیح کہا آپ نے۔ لوگ پتہ نہیں بندوں سے اللہ کے لئے محبت کا دعوی کیسے کر لیتے ہیں مجھے تو آج تک اللہ سے اللہ کے لئے محبت نہ ہوسکی، اور سونے پہ سہاگہ، بندوں سے اللہ کے لئے ناراض بھی ہوجاتے ہیں، قطع تعلق بھی کر لیتے ہیں۔ اگر اللہ نے کہہ دیا کہ جس سے تم تمام عمر میرے نام پر ناراض رہے اسے تو میں نے بخش دیا تھا تو پھر؟ مجھے لگتا ہے کہ محبت صرف یک طرفہ ہوتی ہے۔ دو طرفہ تو بزنس ہوتا ہے۔

اور جو بندہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے، اس کا کیا؟


جی، وہ تو اچھی بات ہے کرنی بھی چاہئے۔ اللہ جلاّ جلالہٗ اور رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق بنتا ہے مگر سیانے کہتے ہیں کہ محبت وہ خوشبو ہے جو چھپائے نہیں چھپتی۔ یہ آنکھوں، چہروں اور رویوں میں نظر آنے لگتی ہے۔ دلوں پہ راج کرتی ہے، ذہنوں میں گونجتی ہے اور شخصیت کو نکھار دیتی ہے۔ تو پھر وہ محبت جو ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں یہ آنکھوں میں کیوں نہیں چمکتی؟ نہ چہروں پر دمکتی ہے، نہ سانسوں میں دہکتی ہے، نہ دلوں پر راج کرتی ہے، نہ خوشبو پھیلاتی ہے، نہ شخصیت میں بہار لاتی ہے، نہ راتوں کو رُلاتی ہے، نہ لہجوں میں سلگتی ہے، نہ طبیعت میں مچلتی ہے، نہ نیندوں سے اُٹھاتی ہے، نہ سوتوں کو جگاتی ہے، نہ ہی اعمال بدلتی ہے، نہ ہی سر چڑھ کے بولتی ہے، نہ ہی کہیں رکھ چھوڑتی ہے، نہ ہی ہجرت کراتی ہے، نہ ہی آس دلاتی ہے، نہ ہی رب سے ملاتی ہے۔ ایسی خالی خولی بے اثر محبت کو بھلا کون محبت مانے؟

مجھے تو نظر نہیں آسکی آپ کی یہ محبت اگر آپ کے پاس کوئی اور مثال یا ثبوت ہو تو پیش کریں۔

جہاں تک رہی اپنی بات، میں تو محبت کا ڈھونگ رچائے ہوئے ہوں اس کی بارگاہ میں، جو تمنّا دیکھ کے مراد بر لاتا ہے۔ کیا پتہ کب اِس بہروپیئے کو اصل کر دے۔

اے اللہ بس تو قبول کرلے اور شرفِ زیارت نصیب فرما۔

 

مدینہ شریف


مدینے کی فضاء میں ٹھنڈک ہے۔ یہاں رحم برستا ہے۔ ہر چیز میں ایک خاص تناسب، ایک ڈسپلن ہے، عبداللہ سوچنے لگا کہ سنت شریعت کا ڈسپلن ہے۔ یہ اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (SOPs) ہی تو بتائی ہے۔ ہر وہ طریقہ جو سنت کے مطابق نہیں وہ ڈسپلن کی خلاف ورزی ہے ایسے شخص کا کورٹ مارشل ہونا چاہئے۔ اسکی سوچ کہیں اور نکل گئی۔

کیا ولایت میں بھی کورٹ مارشل ہوجاتا ہے؟ نہیں نہیں، اللہ مہربان ہیں وہ دوسرا تیسرا کیا، مرتے دم تک چانس دیتے ہیں۔

عبداللہ نے غسل کیا۔ سفید کپڑے پہنے۔ خوشبو لگائی (وہ لانا بھول گیا تھا اورکچھ نہ خریدنے کی نیت کی تھی اس کے روم میٹ وحید صاحب نے اسے تحفۃً دی)، صدقہ کیا اور مسجد نبوی جاپہنچا۔

 

بارگاہِ نبوی ﷺ میں حاضری


مسجد نبوی میں داخل ہوتے ہی دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کی، روضہ پاک ﷺ پر حاضری دی۔ یہاں ایک بے وقوف احرام پہنے آگیا تھا کہ یہاں حاضری کے لئے بھی احرام کی نیت کی تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ روضہ رسول ﷺ مدینہ میں ہے پاکستان میں ہوتا تو یہاں بھی طواف شروع ہوجانا تھا۔

کچھ لوگ اُلٹے پاؤں واپس آ رہے تھے جبکہ کچھ بیچ بیچ کھڑے ہوئے دعائیں مانگ رہے تھے اور انہیں کوئی پرواہ نہیں کہ کون زد میں آ رہا ہے۔ انسان پھر انسان ہے کتنا فوکس کرے پریشان ہو ہی جاتا ہے۔ عبداللہ نے حتی الامکان کوشش کرکے دل سے دعائیں مانگیں۔

پھر اصحاب صفہ کے چبوترے پر بیٹھ گیا، اُس نے سوچا کہ 40 نمازیں تو ڈیڑھ دن میں ہو نہیں سکتیں تو کیوں نہ 40 نمازوں کی قضائے عمری سے ادائیگی کرکے اللہ کی رحمت کے طفیل شاید وہ اصل 40 نمازیں ہی لکھی جائیں۔ حدیث قوی ہے یا ضعیف، کرنا ہر صورت بہتر ہے نہ کرنے سے۔

مسجد نبوی سے فارغ ہو کر جنت البقیع حاضری دی۔ خوب استغفار اور دعائیں کیں اور اگلے دن واپسی کا سامان پکڑ لیا۔

 

واپسی کا سفر


16 ذی الحجہ 18 ستمبر بروز اتوار رات 10:30 کی فلائٹ تھی مدینہ ایئرپورٹ سے۔ ہوٹل سے چیک آؤٹ کرکے ایک بار پھر روضہ رسول ﷺ پر حاضری دی۔ واپس آنے کی دعائیں کیں اور عمرے کے بعد ایئرپورٹ روانہ۔

25 منٹ میں مدینہ کے طیبہ ایئرپورٹ پر پہنچ گئے۔ یہاں سے شُرطوں نے بس سے اُترنے نہ دیا۔ پورے گروپ کی نمازِ مغرب تقریباً قضاء ہوگئی۔ ایئرپورٹ امیگریشن کے مراحل با احسن خوبی ادا ہوگئے۔ رش کوئی نہ تھا۔ PIA کا سسٹم ڈاؤن تھا جس کی وجہ سے ایک گھنٹہ تاخیر سے بورڈنگ شروع ہوئی۔ یہاں وحید صاحب کا بیگ گم ہوگیا۔ عبداللہ نے بڑی دعا مانگی اِن کیلئے کہ اِنہوں نے عطر کا تحفہ دیا تھا۔ یہاں سے 9 ریال کی 5 لیِٹر کی آبِ زم زم کی بوتل بھی ملی۔ ہر حاجی کو صرف ایک لے جانے کی اجازت تھی۔

کچھ عرصے میں وحید صاحب کا بیگ بھی واپس مل گیا جو ایک ترکی غلطی سے اپنی ٹرالی میں رکھ بیٹھا تھا۔ سب نے اللہ کا شکر ادا کیا۔

اپنے وقت سے 20 منٹ پہلے PIA روانہ ہوگئی اور یوں گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اندراج کی حقدار ٹھہری۔

واپسی پر کھانا باسی تھا اور خواتین ایئرہوسٹس کا موڈ بہت خراب تھا۔ ان کو دیکھ کر اندازہ کرنا مشکل تھا کہ جہاز میں ان میں سے زیادہ عمر کس کی ہے۔

اسلام آباد ایئرپورٹ پر امیگریشن اور چیکنگ کے مراحل آسان تھے مگر سامان اور زم زم آنے میں کوئی ڈیڑھ گھنٹہ لگا۔

جہاز رکتے ہی "حاجی" صاحبان "پاکستانی" بن گئے۔ جہاز سے انہوں نے جلدی اور پھر VIP پروٹوکول سے اپنا سامان اور زم زم اُٹھا کر لے گئے اور حج وہیں چھوڑ گئے۔

اور یوں 15 دن کا ایگزیکٹو حج مکمل ہوا۔ اللہ ہم سب کا قبول کرے۔ (آمین)

 

چند گزارشات



  • حج زندگی میں ایک بار فرض ہے۔ اگر کرلیا ہے اور ازراہ تکلف یا فیشن کے لئے دوبارہ کرنا چاہ رہے ہیں تو نہ کریں وہاں بہت رش ہے لوگوں کو مزید تکلیف نہ دیں۔

  • حج جوانی میں کرلیں اور سال بھر سے ہلکی پھلکی ورزش کریں حج کی نیت سے ثواب بھی ملے گا اور حج بھی سہولت سے ہوجائے گا۔

  • ایک VIP حج 30 سے 35 ہزار ریال کا ہوتا ہے ایسے بھی لوگ ہیں جو لاکھ، ڈیڑھ لاکھ خرچ کردیتے ہیں اگر آپ کرچکے ہیں تو یہ رقم حاجی کیمپ میں جاکر نئے اور لاوارث حاجیوں میں تقسیم کردیں آپ کے کچھ سو ریال اُن کا حج بہتر کردیں گے اور آپ ایک حج کے پیسوں میں 70, 60 حجاج کرام کا حج بہتر بنا سکتے ہیں۔

  • آپ کو اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کا واسطہ سیلفیاں نہ کھینچیں اور موبائل سائیلنٹ پر رکھیں۔

  • اپنے حج سے کام رکھیں اور دوسروں کو ہر بات پر فتویٰ نہ دیں۔

  • لائیو کمنٹری اور براڈ کاسٹ نہ کریں۔

  • حکومتی قانون اور اعلانات کی پابندی کریں۔

  • اجازت سے زیادہ وزن کا سامان اور آبِ زم زم نہ لے جائیں۔

  • کھانا کم کھائیں۔

  • لوگوں کی تکلیف کا خیال رکھیں۔

  • ہر چیز صرف اِسی لئے افورڈ نہ کریں کہ آپ کرسکتے ہیں۔

  • ساتھ جانے والے مولوی حضرات اور گروپ آرگنائزر بھی انسان ہیں۔ فرمائشی پروگرام کسی اور موقع کے لئے سنبھال رکھیں۔

  • سب لوگوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
Load Next Story