حکومت غلطیاں خود درست کرے عدالت پر بوجھ نہ ڈالے چیف جسٹس
جو معاہدہ قانون کیخلاف ہو اس کی اہمیت نہیں، آئین کے منافی اقدامات قبول نہیں کرینگے، ریمارکس
ریکوڈک کیس میں سپریم کورٹ نے آبزرویشن دی ہے کہ اگر کوئی بین الاقوامی معاہدہ ملک کے قوانین کے مطابق نہیں تو اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
اسٹیل مل کے سودے کو اس بنیاد پر سپریم کورٹ نے کالعدم کیا تھا۔ منگل کو بلوچستان حکومت کے وکیل احمر بلال صوفی نے ریکوڈک معاہدے میں قوانین کی خلاف ورزیوںکا اعتراف کیا اور چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کو بتایا کہ بی ایچ پی کو قواعدکیخلاف رعایتیں دی گئیں، ریکارڈ دیکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ کابینہ کی منظوری کے بغیر ترمیم کے نام پر ایک نیا معاہدہ کیا گیا ،انھوں نے بتایا معاہدے میں رولز آف بزنس کی بھی خلاف ورزی ہوئی،احمر بلال صوفی کا کہنا تھا کہ کمپنی کوکان کنی کے لائسنس کیلیے کوئی یقین دہانی نہیںکرائی گئی تھی۔
عدالت نے معاہدے سے متعلق بعض سوالات کا جواب نہ دینے کا نوٹس لیا اور بلوچستان حکومت کے وکیل کو ہدایت کی کہ مقدمے کا مطالعہ کرکے اگلے دن ان سوالات کا جواب دیا جائے ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ غیر ملکی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت آئین کے آرٹیکل5کوملحوظ خاطر رکھنا چاہیے،آرٹیکل5 ذیلی شق2کے تحت پاکستان کی حدود میں موجود ہر شخص ملک کے قوانین کا پابند ہے،چیف جسٹس نے کہا اسٹیل مل کا معاہدہ ملک کے قوانین کے مطابق نہیں تھا اس لیے عدالت نے کالعدم کر دیا،ریکوڈک میں حکومت نے خود رعایتیں دیں آج مخالفت کررہی ہے۔چیف جسٹس نے آبزرویشن دی حکومت اپنی غلطیوںکو خود درست کرلے اس کا بوجھ عدالت پر نہ ڈالے،چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کسی اور ملک میں ایسا معاہدہ ممکن ہے جو ریکوڈک کا ہے،معاہدہ اگر پانچ روپے کا بھی ہو تب بھی فریقین اپنے اپنے مفادکا خیال رکھتے ہیں۔
لیکن یہاں توکھربوںکا معاہدہ ہوا اور حکومت نے اپنے مفاد کو دیکھا تک نہیں۔چیف جسٹس نے کہا اگر معاہدے میں غلطی ہو تو اس کی تصحیح بھی قانون کے مطابق ہوتی ہے،انھوں نے کہا اگر معاہدے میں ترمیم ضروری تھی توکابینہ کی منظوری کے بغیر ایسا نہیں ہو سکتا تھا،آئین صرف اس معاہدے کا خیرمقدم کر تا ہے جو قانون کے مطابق ہو۔ انھوں نے کہا افغانستان میں معدنیات کی کان کنی کے معاہدے ہم سے بہتر شرائط پر ہوئے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا معدنی وسائل وفاقی حکومت کی عملداری میں آتے ہیں ،بلوچستان ڈیولپمنٹ اتھارٹی حکومت پاکستان کی جانب سے معاہدے کی مجاز نہیں تھی،جسٹس گلزار نے کہا لگتا ہے گورنر نے پڑھے بغیر سادہ کاغذ پر بی ڈی اے کو اختیار دیا۔سماعت آج پھر ہوگی۔ثناء نیوزکے مطابق چیف جسٹس نے کہا آئین کے تحت ہر شخص قانون کا پابند ہے، خلاف آئین اقدامات قبول نہیں کریں گے ، جو معاہدہ قانون کے خلاف ہو اس کی کوئی اہمیت نہیں۔
اسٹیل مل کے سودے کو اس بنیاد پر سپریم کورٹ نے کالعدم کیا تھا۔ منگل کو بلوچستان حکومت کے وکیل احمر بلال صوفی نے ریکوڈک معاہدے میں قوانین کی خلاف ورزیوںکا اعتراف کیا اور چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کو بتایا کہ بی ایچ پی کو قواعدکیخلاف رعایتیں دی گئیں، ریکارڈ دیکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ کابینہ کی منظوری کے بغیر ترمیم کے نام پر ایک نیا معاہدہ کیا گیا ،انھوں نے بتایا معاہدے میں رولز آف بزنس کی بھی خلاف ورزی ہوئی،احمر بلال صوفی کا کہنا تھا کہ کمپنی کوکان کنی کے لائسنس کیلیے کوئی یقین دہانی نہیںکرائی گئی تھی۔
عدالت نے معاہدے سے متعلق بعض سوالات کا جواب نہ دینے کا نوٹس لیا اور بلوچستان حکومت کے وکیل کو ہدایت کی کہ مقدمے کا مطالعہ کرکے اگلے دن ان سوالات کا جواب دیا جائے ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ غیر ملکی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت آئین کے آرٹیکل5کوملحوظ خاطر رکھنا چاہیے،آرٹیکل5 ذیلی شق2کے تحت پاکستان کی حدود میں موجود ہر شخص ملک کے قوانین کا پابند ہے،چیف جسٹس نے کہا اسٹیل مل کا معاہدہ ملک کے قوانین کے مطابق نہیں تھا اس لیے عدالت نے کالعدم کر دیا،ریکوڈک میں حکومت نے خود رعایتیں دیں آج مخالفت کررہی ہے۔چیف جسٹس نے آبزرویشن دی حکومت اپنی غلطیوںکو خود درست کرلے اس کا بوجھ عدالت پر نہ ڈالے،چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کسی اور ملک میں ایسا معاہدہ ممکن ہے جو ریکوڈک کا ہے،معاہدہ اگر پانچ روپے کا بھی ہو تب بھی فریقین اپنے اپنے مفادکا خیال رکھتے ہیں۔
لیکن یہاں توکھربوںکا معاہدہ ہوا اور حکومت نے اپنے مفاد کو دیکھا تک نہیں۔چیف جسٹس نے کہا اگر معاہدے میں غلطی ہو تو اس کی تصحیح بھی قانون کے مطابق ہوتی ہے،انھوں نے کہا اگر معاہدے میں ترمیم ضروری تھی توکابینہ کی منظوری کے بغیر ایسا نہیں ہو سکتا تھا،آئین صرف اس معاہدے کا خیرمقدم کر تا ہے جو قانون کے مطابق ہو۔ انھوں نے کہا افغانستان میں معدنیات کی کان کنی کے معاہدے ہم سے بہتر شرائط پر ہوئے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا معدنی وسائل وفاقی حکومت کی عملداری میں آتے ہیں ،بلوچستان ڈیولپمنٹ اتھارٹی حکومت پاکستان کی جانب سے معاہدے کی مجاز نہیں تھی،جسٹس گلزار نے کہا لگتا ہے گورنر نے پڑھے بغیر سادہ کاغذ پر بی ڈی اے کو اختیار دیا۔سماعت آج پھر ہوگی۔ثناء نیوزکے مطابق چیف جسٹس نے کہا آئین کے تحت ہر شخص قانون کا پابند ہے، خلاف آئین اقدامات قبول نہیں کریں گے ، جو معاہدہ قانون کے خلاف ہو اس کی کوئی اہمیت نہیں۔