باباجی اشفاق احمد صاحب کی یاد میں
افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، براڈکاسٹراورپیارے باباجی اشفاق احمدکی برسی اس طرح چپ چاپ گزرگئی
افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، براڈکاسٹراورپیارے باباجی اشفاق احمدکی برسی اس طرح چپ چاپ گزرگئی، جس طرح کہ آپ کسی قبرستان کے قریب سے خاموشی کے ساتھ گزرجاتے ہیں اورکبھی آپ کادھیان اس طرف نہیں جاتاکہ اس قبرستان کے مکین بھی کبھی اس طرح یہاں سے گزرے ہوں گے، چپ چاپ خاموشی کے ساتھ، آنے والے کل سے بے خبر۔یہ شام کے جھٹپٹے کا وقت تھا۔ قبرستان گہری اوراداس خاموشی میں ڈوباہوا تھا۔
میں اشفاق احمد صاحب کی قبر کے پاس کھڑاسوچ رہاتھاکہ اس طرح کی خاموشی توان کواپنی قبرکے لیے پسند نہیں تھی۔ان کی خواہش تھی کہ مرنے کے بعدان کی قبرکے پاس ٹھنڈے پانی کاایک نلکاہواورسرہانے کوئی ان پڑھ دیہاتی ڈھولکی بجابجاکرکوئی صوفیانہ کلام پڑھ رہاہو،جس طرح کہ بابالوکوں کی قبرپرہوتاہے۔ مگریہ دیکھ کرجی بہت اداس ہواکہ ان کی قبرپراس طرح کے کوئی آثارنہیں تھے اوروہی ویرانی تھی، جوباقی قبروں پر برس رہی تھی۔
پنجاب یونیورسٹی کے زمانہ طالب علمی میں، جن ادیبوں سے ملنے کی بڑی تمناتھی، ان میں اشفاق احمد کانام سرفہرست تھا۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ''ایک محبت سوافسانے'' سومرتبہ پڑھ چکاتھا۔''اجلے پھول'' میں ان کاافسانہ'' گڈریا'' قریب قریب حفظ ہوگیاتھا۔ مگریہ وہ زمانہ تھا، جب ان کی شہرت بطور افسانہ نگار کے کم اور بطورڈرامہ نگار اور براڈ کاسٹرکے زیادہ تھی۔افسانہ نگاری پران کی توجہ بہت کم ہوگئی تھی ۔نیوکیمپس اورداستان سرائے ماڈل ٹاون کے درمیان کچھ زیادہ فاصلہ نہیں تھا، لیکن بطورطالب علم کے ان سے براہ راست رابطہ کرنے کی ہمت ہی نہیں پڑتی تھی۔ تاہم اس عرصہ میںجب کبھی وہ نیوکیمپس میں کسی فنکشن میں مہمان خصوصی بن کرآتے توباقی طالب علموں کے ساتھ ان سے سوال وجواب کی نشست ہوجاتی تھی، جوکسی پرلطف تجربہ سے کم نہیں ہوتی تھی۔
ان کی گفتگو میں بھی داستان کہنے کے انداز میں ہوتا تھا۔مگر میں ذاتی طورپراس وقت بھی ان کی افسانہ نگاری ہی کاقائل تھااورآج بھی ان کی افسانہ نگاری ہی کاقائل ہوں۔یونیورسٹی سے فراغت کے بعد ہفت روزہ' ندا' سے وابستہ ہواتواس کے لیے جوپہلاادبی انٹرویومیں نے کیا، وہ اشفاق احمد صاحب کاتھا۔ وہ ان دنوںاردوسائنس بورڈ کی سرکاری نوکری سے تازہ تازہ ریٹائرہوئے تھے۔شروع سردیوں کاموسم تھا۔شام ہوچکی تھی، جب میں 'داستاں سرائے' ان کے گھرپہنچا۔ان کے ملازم نے مجھے ان کے ڈرائنگ روم میںبٹھایا،جو کافی کشادہ مگرسادہ تھااور کہا کہ 'صاحب' تھوڑی دیرمیں آرہے ہیں۔'صاحب' کے لفظ پرمیں ذراساچونکا، مگرپھرمیں نے سوچاکہ ملازموں کے لیے توان کے مالک 'صاحب' ہی ہوتے ہیں۔'باباجی' تووہ ہمارے ہیں۔کچھ ہی دیرمیں اشفاق احمد صاحب بھی ڈرائنگ روم میں آگئے اوراب میں اردوکے ایک عٖظیم افسانہ نگار کے روبروبیٹھاتھاا وراپنی قسمت پرنازاں تھا۔ سردی سے بچنے کے لیے گرم دھسہ انھوں نے اوڑھ رکھا تھا اور کسی باباجی کے اندازصوفہ پربیٹھ گئے تھے۔
کچھ دیرمیں ان کی گھریلوٹائپ کی چائے بھی آگئی اورمیں نے ایک کے بعدان کے سامنے اپنے سوالات رکھناشروع کردیے۔مگرآج کے کالم میں صرف ایک کاتذکرہ کروں گا۔ باقی کسی آیندہ کالم میں ۔ میں نے کہا سر، افسانہ نگاراشفاق احمد سے آپ 'صوفی اشفاق احمد' کیسے ہوگے، کہنے لگے، میں ولایت میں تھا، جب وہاں مجھے کسی نے کہاکہ ایک مشرق کی دانش بھی ہوتی ہے، میں نے ولایت سے واپس آکریہاں یونیورسٹی والوں سے پوچھا کہ مشرق کی دانش کیاچیزہے۔ کہنے لگے، خدانخواستہ ہماری یونیورسٹی میں تو نہیں جناب۔ یہ آپ کس چکرمیں پڑگئے ہیں۔ مگر میں نے ہمت نہیں ہاری اور ایسے لوگوں کی جستجو شروع کردی اورمیں ان میں سے کچھ کو ڈھونڈنے میں کامیاب بھی ہوگیا۔ جیسے جیسے میں ایسے لوگوں کے قریب ہوتاگیا، میری حیرت میں اضافہ ہوتاگیا۔ میں سوچتاتھاکہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک آدمی کے پاس کچھ بھی نہ ہو، پھر بھی وہ ناخوش نہ ہو، کسی سے ناراض نہ ہواورکسی کابرانہ چاہے ۔
میں ان بابالوکوں کی زندگیوں سے اتنا متاثرہواکہ میں نے ان پر باقاعدہ لکھناشروع کیا، کہانیاں لکھیں، ڈرامے لکھے،اس پرکچھ لوگوں نے کہا کہ میں بھی صوفی ہوگیاہوں،۔ یہ ان کی محبت ہے کہ وہ مجھے اس طرح سمجھتے ہیں۔ فیض احمد فیضؔ نے مزدورں پر شاعری کی، مگر وہ مزدورتو نہیں تھے۔ صوفی بننا اتنا آسان نہیں کہ آپ کسی بابالوک پرلکھ بابالوک ہوجائیں۔
یہ کہتے ہوئے اشفاق احمداداس ہوگئے اورایکاایکی پھرسے 'صاحب' معلوم ہونے لگے۔ اے حمید صاحب، جواشفاق احمد صاحب کے انتہائی قریبی اوربے تکلف دوست تھے، اپنی یادوں پرمبنی کتاب' داستان گو' میں لکھتے ہیں، اشفاق احمد کاالمیہ یہ تھا کہ اس کے اندرکہیںایک 'صاحب لوگ' چھپابیٹھاہواتھا۔اس'صاحب لوگ' نے اشفاق احمدکوپوراادیب بننے دیا، نہ پورا'بابالوک'ا وروہ تصوف اورادب کے درمیان لٹک کے رہ گیا۔'کبھی کبھی میں سوچتاہوںکہ یہ تنہااشفاق احمد صاحب کاالمیہ تو نہیں تھا، فیض احمد فیض نے بھی کہاتھا ،
وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے
جو عشق کو کام سمجھتے تھے
یاکام سے عاشقی کرتے تھے
ہم جیتے جی مصروف رہے
کچھ عشق کیا، کچھ کام کیا
کام عشق کے آڑے آتا رہا
اور عشق سے کام الجھتا ہوا
آخر تنگ آ کر ہم نے
دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا
میں اشفاق احمد صاحب کی قبر کے پاس کھڑاسوچ رہاتھاکہ اس طرح کی خاموشی توان کواپنی قبرکے لیے پسند نہیں تھی۔ان کی خواہش تھی کہ مرنے کے بعدان کی قبرکے پاس ٹھنڈے پانی کاایک نلکاہواورسرہانے کوئی ان پڑھ دیہاتی ڈھولکی بجابجاکرکوئی صوفیانہ کلام پڑھ رہاہو،جس طرح کہ بابالوکوں کی قبرپرہوتاہے۔ مگریہ دیکھ کرجی بہت اداس ہواکہ ان کی قبرپراس طرح کے کوئی آثارنہیں تھے اوروہی ویرانی تھی، جوباقی قبروں پر برس رہی تھی۔
پنجاب یونیورسٹی کے زمانہ طالب علمی میں، جن ادیبوں سے ملنے کی بڑی تمناتھی، ان میں اشفاق احمد کانام سرفہرست تھا۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ''ایک محبت سوافسانے'' سومرتبہ پڑھ چکاتھا۔''اجلے پھول'' میں ان کاافسانہ'' گڈریا'' قریب قریب حفظ ہوگیاتھا۔ مگریہ وہ زمانہ تھا، جب ان کی شہرت بطور افسانہ نگار کے کم اور بطورڈرامہ نگار اور براڈ کاسٹرکے زیادہ تھی۔افسانہ نگاری پران کی توجہ بہت کم ہوگئی تھی ۔نیوکیمپس اورداستان سرائے ماڈل ٹاون کے درمیان کچھ زیادہ فاصلہ نہیں تھا، لیکن بطورطالب علم کے ان سے براہ راست رابطہ کرنے کی ہمت ہی نہیں پڑتی تھی۔ تاہم اس عرصہ میںجب کبھی وہ نیوکیمپس میں کسی فنکشن میں مہمان خصوصی بن کرآتے توباقی طالب علموں کے ساتھ ان سے سوال وجواب کی نشست ہوجاتی تھی، جوکسی پرلطف تجربہ سے کم نہیں ہوتی تھی۔
ان کی گفتگو میں بھی داستان کہنے کے انداز میں ہوتا تھا۔مگر میں ذاتی طورپراس وقت بھی ان کی افسانہ نگاری ہی کاقائل تھااورآج بھی ان کی افسانہ نگاری ہی کاقائل ہوں۔یونیورسٹی سے فراغت کے بعد ہفت روزہ' ندا' سے وابستہ ہواتواس کے لیے جوپہلاادبی انٹرویومیں نے کیا، وہ اشفاق احمد صاحب کاتھا۔ وہ ان دنوںاردوسائنس بورڈ کی سرکاری نوکری سے تازہ تازہ ریٹائرہوئے تھے۔شروع سردیوں کاموسم تھا۔شام ہوچکی تھی، جب میں 'داستاں سرائے' ان کے گھرپہنچا۔ان کے ملازم نے مجھے ان کے ڈرائنگ روم میںبٹھایا،جو کافی کشادہ مگرسادہ تھااور کہا کہ 'صاحب' تھوڑی دیرمیں آرہے ہیں۔'صاحب' کے لفظ پرمیں ذراساچونکا، مگرپھرمیں نے سوچاکہ ملازموں کے لیے توان کے مالک 'صاحب' ہی ہوتے ہیں۔'باباجی' تووہ ہمارے ہیں۔کچھ ہی دیرمیں اشفاق احمد صاحب بھی ڈرائنگ روم میں آگئے اوراب میں اردوکے ایک عٖظیم افسانہ نگار کے روبروبیٹھاتھاا وراپنی قسمت پرنازاں تھا۔ سردی سے بچنے کے لیے گرم دھسہ انھوں نے اوڑھ رکھا تھا اور کسی باباجی کے اندازصوفہ پربیٹھ گئے تھے۔
کچھ دیرمیں ان کی گھریلوٹائپ کی چائے بھی آگئی اورمیں نے ایک کے بعدان کے سامنے اپنے سوالات رکھناشروع کردیے۔مگرآج کے کالم میں صرف ایک کاتذکرہ کروں گا۔ باقی کسی آیندہ کالم میں ۔ میں نے کہا سر، افسانہ نگاراشفاق احمد سے آپ 'صوفی اشفاق احمد' کیسے ہوگے، کہنے لگے، میں ولایت میں تھا، جب وہاں مجھے کسی نے کہاکہ ایک مشرق کی دانش بھی ہوتی ہے، میں نے ولایت سے واپس آکریہاں یونیورسٹی والوں سے پوچھا کہ مشرق کی دانش کیاچیزہے۔ کہنے لگے، خدانخواستہ ہماری یونیورسٹی میں تو نہیں جناب۔ یہ آپ کس چکرمیں پڑگئے ہیں۔ مگر میں نے ہمت نہیں ہاری اور ایسے لوگوں کی جستجو شروع کردی اورمیں ان میں سے کچھ کو ڈھونڈنے میں کامیاب بھی ہوگیا۔ جیسے جیسے میں ایسے لوگوں کے قریب ہوتاگیا، میری حیرت میں اضافہ ہوتاگیا۔ میں سوچتاتھاکہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک آدمی کے پاس کچھ بھی نہ ہو، پھر بھی وہ ناخوش نہ ہو، کسی سے ناراض نہ ہواورکسی کابرانہ چاہے ۔
میں ان بابالوکوں کی زندگیوں سے اتنا متاثرہواکہ میں نے ان پر باقاعدہ لکھناشروع کیا، کہانیاں لکھیں، ڈرامے لکھے،اس پرکچھ لوگوں نے کہا کہ میں بھی صوفی ہوگیاہوں،۔ یہ ان کی محبت ہے کہ وہ مجھے اس طرح سمجھتے ہیں۔ فیض احمد فیضؔ نے مزدورں پر شاعری کی، مگر وہ مزدورتو نہیں تھے۔ صوفی بننا اتنا آسان نہیں کہ آپ کسی بابالوک پرلکھ بابالوک ہوجائیں۔
یہ کہتے ہوئے اشفاق احمداداس ہوگئے اورایکاایکی پھرسے 'صاحب' معلوم ہونے لگے۔ اے حمید صاحب، جواشفاق احمد صاحب کے انتہائی قریبی اوربے تکلف دوست تھے، اپنی یادوں پرمبنی کتاب' داستان گو' میں لکھتے ہیں، اشفاق احمد کاالمیہ یہ تھا کہ اس کے اندرکہیںایک 'صاحب لوگ' چھپابیٹھاہواتھا۔اس'صاحب لوگ' نے اشفاق احمدکوپوراادیب بننے دیا، نہ پورا'بابالوک'ا وروہ تصوف اورادب کے درمیان لٹک کے رہ گیا۔'کبھی کبھی میں سوچتاہوںکہ یہ تنہااشفاق احمد صاحب کاالمیہ تو نہیں تھا، فیض احمد فیض نے بھی کہاتھا ،
وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے
جو عشق کو کام سمجھتے تھے
یاکام سے عاشقی کرتے تھے
ہم جیتے جی مصروف رہے
کچھ عشق کیا، کچھ کام کیا
کام عشق کے آڑے آتا رہا
اور عشق سے کام الجھتا ہوا
آخر تنگ آ کر ہم نے
دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا