زنگ آلود لوگ
گندا پانی پینے پر مجبور شہریوں کی تقدیر کے مالک منرل واٹر سے غسل کرتے ہیں
پیارے قاری،اگرمیں تجھے ایک ایسے ملک کی خبر دوں، جسے قدرت نے اپنی تمام نعمتوں سے نوازا ہو۔ جہاں زمین زرخیز ہو، وادیاں سرسبزہوں، دریا سبک روی سے بہتے ہوں، ہوا سہانی، سردی،گرمی خزاں، بہار، چاروں موسم رنگ بکھیرتے ہوں، تو تیرے ذہن میں اُس ملک کی بھلا کیسی تصور ابھرے گی؟
اوراگر تجھے خبر ملے کہ وہاں کے پہاڑ قدرت کی وجاہت کا شاہکار ہیں، سمندروں میں کائناتی سکون تیرتا ہو، ساحلوں پر بحری بیڑے آکر لگتے ہوں،آس پاس کی ریاستوں سے قافلے آتے ہوں اور وہاں کے باسی جفاکش، پرامن اور مہمان نواز ہوں۔۔۔ تو اے پڑھنے والے، تیرے من میں اس ملک کی کیسی شبیہ بنے گی؟
شاید تجھے ایک حسین وادی دکھائی دے۔۔۔ شاید تیرا تخیل ایک پرکشش منظر کھینچے۔۔۔ ایک ریاست جہاں جگہ جگہ ترقی کی علامات ہوں۔ تہذیب کے مینار تیرے آنکھوں کے سامنے ابھریں، بلند و بالا عمارتیں، جن کے درمیان شہری ایک خاص نوع کے اطمینان سے چلتے پھرتے ہوں کہ نہ تو اُنھیں اپنے مال و اسباب کی چوری کا اندیشہ ، نہ ہی اپنی جانوں کا خطرہ ۔ پختہ سڑکوں پر بنا شور کیے گاڑیاں آتی جاتی ہوں، فضا آلودگی سے پاک ہو اور شہر کے چاروں اُور سبزے سے ڈھکے پہاڑوں ہوں۔ بچے میدانوں میں کھیلتے ہوں اور عورتیں خوف سے آزاد بازاروں میں بھاؤ تاؤ کرتی ہوں۔ الغرض ہر طرف خوش حالی اور سکون ہو۔
میرے عزیز، تیرا تخیل درست پہنچا کہ اگرکوئی ریاست قدرت کی نعمتوں سے لدی پھندی ہو، جہاں قدرتی وسائل کی فراوانی ہو، بندرگاہوں پر گہماگہمی رہے، بازار رات گئے تک کھلے رہتے ہوں، اور صبح سے شام تک عوام کام میں مصروف رہیں، اس کی ترقی یقینی ہے۔وہاں ضرور دودھ اور شہید کی نہریں بہتی ہوں گی،ہن برستا ہوگا، وہ ریاست اپنے پڑوسیوں کے لیے مثال ہوگی۔۔۔ مگرٹھہر جا کہ تیرا اندازہ غلط ہے۔ بدقسمتی سے صورت حال اس کے برعکس ہے۔۔۔اس ریاست کا حال یہ کہ ایک چوتھائی آبادی غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔۔۔ ایک بڑا طبقہ پینے کے صاف پانی سے محروم ۔ روٹی، کپڑا اور مکان جیسی بنیادی سہولیات کا فقدان ۔۔۔ درس گاہیں کھنڈر بن گئیں۔۔۔ میدان اجڑ گئے۔۔۔ امن وامان خواب ہوا۔۔۔ عدم تحفظ عروج پر ، ناامیدی ہر شے میں سرایت کر گئی۔ اب جدھر نگاہ کر، وہاں غربت، ناخواندگی، عدم تحفظ اور سہولیات سے محرومی کا نوحہ ہے، جو ہر گزرتے دن کے ساتھ ناامیدی کو جنم دے رہا ہے۔
اور یہ بدبختی بے سبب نہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تو یہی کہ ادھر شاعر اور ادیب مرکزی دھارے سے کٹ گئے، اساتذہ اور محقق اپنے رتبے سے محروم ہوئے، اور دانشور بے وقعت ٹھہرے۔ ایک وجہ یہ بھی ٹھہری کہ جنھوں نے دانشوروں کی خالی گدی سنبھالی(گو وہ اس قابل نہیں تھے) انھوں نے عوام کو لاحاصل مباحث میں الجھا دیا۔ غیرمتعلقہ معاملات۔ بے معنی مذاکرے۔ وہ بحث کرتے ہیں کہ عشروں قبل قائم ہونے والی اس ریاست کی اساس مذہبی افکار تھے یا سیکولر فکر؟ وہ اس پر گھنٹوں مکالمے کرتے ہیں کہ اُنھیں آزادی دلانے والے قائد کے ذہن میں اسلامی اصول تھے یا مغربی نظریات؟ وہ آج بھی الجھن کا شکار ہیں کہ ان کا قومی ترانے کس کے قلم سے نکلا؟ اُن کی سماعتوں پر بے حسی کا پردہ پڑا ہے، سوچ پر عقیدے کا پہرہ ہے۔
انھیں اس سے غرض نہیں کہ عوام کوکن مسائل کا سامنا ہے، وہ کن مصائب سے دوچار ہیں، ان کی ضروریات کیا ہیں۔ انھیں غرض نہیں کہ شہروں میں بسنے والوں کے خواب کیا ہیں۔ خودساختہ دانشورفقط بولنے کے خبط میں مبتلا ہیں، دن رات ورق سیاہ کر رہے ہیں۔ مسلسل چیخ رہے ہیں اور ان کا شور پسے ہوئے عوام کو مزیدکمزورکر رہا ہے، کیونکہ یہ مباحث ان نام نہاد اسکالروںکی شہرت کو توپنکھ لگا رہے ہیں، مگر عوام کو مزید تقسیم کر رہے ہیں، وہ نظریات کے خانوں میں بٹ رہے ہیں۔
اور یہ بدبختی بے سبب نہیں۔۔۔ اس کی کئی وجوہات ہیںاور اس کی ایک وجہ غافل حکمران ہیں۔ جنھوں نے اپنے عوام کو فقط کھوکھلے نعروں، جھوٹے وعدوں کے سواکچھ نہیں دیا۔ جنھیں ریاست کی نہیں، اپنے خاندانوں کی فکر ہے۔ جنھیں عوام سے زیادہ اپنے بیٹوں کی پروا ۔ جنھیں جمہوری نظام نہیں، بادشادہت بھاتی ہے۔ ان کے اثاثے بیرون ملک ۔ ان کی اولاد مغربی شہروں کی قدیم درس گاہوں سے اکتساب فیض کرتی ہے۔جھونپڑی میں رہنے والے انسانوں کی قسمت کے یہ فیصلہ ساز محلوں میں بستے ہیں۔ گندا پانی پینے پر مجبور شہریوں کی تقدیر کے مالک منرل واٹر سے غسل کرتے ہیں۔ ادھر بچے عدم تحفظ کا شکار ہیں، مگر اُن کی حفاظت پر ہزاروں محافظ مامور ۔ مائیں فاقوں پر مجبور ہیں، مگر یہ مغلیہ کھانے ہضم کرنے کے لیے یہ ادویہ کا استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے مردوں کے بدن کارخانوں میں گھل گئے، مگر اُن کے جسم ٹھنڈے اور پرسکون کمروں میں توانا ہوتے جاتے ہیں۔
اے پڑھنے والے،یہ بدبختی بے سبب نہیں کہ یہاں صاحب اقتدار کا اکلوتا مقصد اقتدار کو طول دینا ہے اور حزب اختلاف کا اکلوتامقصد اقتدار کا حصول۔ یہاں الزامات کا شور ہے۔ بڑھکیں مارنے کی مشق باقاعدگی سے انجام دی جاتی ہے۔جلسے جلوس ہوتے ہیں، دھرنے دیے جاتے ہیں۔مغلظات بکی جاتی ہیں۔ پریس کانفرنسیں ہوتی ہیں، ٹیلی فونک خطاب ہوتے ہیں، مگر عوام کے مسائل کا حل تلاش نہیں کیا جاتا۔ کبھی غربت کے خلاف احتجاج نہیں ہوتا۔کبھی ناخواندگی کے خلاف مہم نہیں چلائی، عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے آواز نہیں اٹھائی، امن و امان کے لیے ریلی نہیں نکالی۔ اور جب ان پر مصیبت آن پڑتی ہے، حالات کٹھن ہوجاتے ہیں، تو یہ عوام کو بھول بھال کر برطانیہ، دبئی اور سعودی عرب چلے جاتے ہیں۔
تو میرے قاری، میرے بھائی، میرے دوست، ایسی ریاست اپنے تمام تر وسائل کے باوجود، زمین کی زرخیز ی، بہتے دریا ، چار موسموں کے باوجود، محنتی اور مخلص باسیوں کے باوجود۔۔بدحالی ہی کا شکار رہتی ہے ، انتشار اس کی رگوں میں سرایت کرجاتا ہے، اس کے ستون ڈھنے لگتے ہیں، اوراس کی چھت گرتی معلوم ہوتی ہے کہ یہاں زنگ آلود لوگ صاحب اختیار ہیں۔یہاں زنگ آلود لوگ دانش کا کاروبار کرتے ہیں اور یوںہرگزرتے دن کے ساتھ ناامیدی بڑھتی جارہی ہے۔
اوراگر تجھے خبر ملے کہ وہاں کے پہاڑ قدرت کی وجاہت کا شاہکار ہیں، سمندروں میں کائناتی سکون تیرتا ہو، ساحلوں پر بحری بیڑے آکر لگتے ہوں،آس پاس کی ریاستوں سے قافلے آتے ہوں اور وہاں کے باسی جفاکش، پرامن اور مہمان نواز ہوں۔۔۔ تو اے پڑھنے والے، تیرے من میں اس ملک کی کیسی شبیہ بنے گی؟
شاید تجھے ایک حسین وادی دکھائی دے۔۔۔ شاید تیرا تخیل ایک پرکشش منظر کھینچے۔۔۔ ایک ریاست جہاں جگہ جگہ ترقی کی علامات ہوں۔ تہذیب کے مینار تیرے آنکھوں کے سامنے ابھریں، بلند و بالا عمارتیں، جن کے درمیان شہری ایک خاص نوع کے اطمینان سے چلتے پھرتے ہوں کہ نہ تو اُنھیں اپنے مال و اسباب کی چوری کا اندیشہ ، نہ ہی اپنی جانوں کا خطرہ ۔ پختہ سڑکوں پر بنا شور کیے گاڑیاں آتی جاتی ہوں، فضا آلودگی سے پاک ہو اور شہر کے چاروں اُور سبزے سے ڈھکے پہاڑوں ہوں۔ بچے میدانوں میں کھیلتے ہوں اور عورتیں خوف سے آزاد بازاروں میں بھاؤ تاؤ کرتی ہوں۔ الغرض ہر طرف خوش حالی اور سکون ہو۔
میرے عزیز، تیرا تخیل درست پہنچا کہ اگرکوئی ریاست قدرت کی نعمتوں سے لدی پھندی ہو، جہاں قدرتی وسائل کی فراوانی ہو، بندرگاہوں پر گہماگہمی رہے، بازار رات گئے تک کھلے رہتے ہوں، اور صبح سے شام تک عوام کام میں مصروف رہیں، اس کی ترقی یقینی ہے۔وہاں ضرور دودھ اور شہید کی نہریں بہتی ہوں گی،ہن برستا ہوگا، وہ ریاست اپنے پڑوسیوں کے لیے مثال ہوگی۔۔۔ مگرٹھہر جا کہ تیرا اندازہ غلط ہے۔ بدقسمتی سے صورت حال اس کے برعکس ہے۔۔۔اس ریاست کا حال یہ کہ ایک چوتھائی آبادی غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔۔۔ ایک بڑا طبقہ پینے کے صاف پانی سے محروم ۔ روٹی، کپڑا اور مکان جیسی بنیادی سہولیات کا فقدان ۔۔۔ درس گاہیں کھنڈر بن گئیں۔۔۔ میدان اجڑ گئے۔۔۔ امن وامان خواب ہوا۔۔۔ عدم تحفظ عروج پر ، ناامیدی ہر شے میں سرایت کر گئی۔ اب جدھر نگاہ کر، وہاں غربت، ناخواندگی، عدم تحفظ اور سہولیات سے محرومی کا نوحہ ہے، جو ہر گزرتے دن کے ساتھ ناامیدی کو جنم دے رہا ہے۔
اور یہ بدبختی بے سبب نہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تو یہی کہ ادھر شاعر اور ادیب مرکزی دھارے سے کٹ گئے، اساتذہ اور محقق اپنے رتبے سے محروم ہوئے، اور دانشور بے وقعت ٹھہرے۔ ایک وجہ یہ بھی ٹھہری کہ جنھوں نے دانشوروں کی خالی گدی سنبھالی(گو وہ اس قابل نہیں تھے) انھوں نے عوام کو لاحاصل مباحث میں الجھا دیا۔ غیرمتعلقہ معاملات۔ بے معنی مذاکرے۔ وہ بحث کرتے ہیں کہ عشروں قبل قائم ہونے والی اس ریاست کی اساس مذہبی افکار تھے یا سیکولر فکر؟ وہ اس پر گھنٹوں مکالمے کرتے ہیں کہ اُنھیں آزادی دلانے والے قائد کے ذہن میں اسلامی اصول تھے یا مغربی نظریات؟ وہ آج بھی الجھن کا شکار ہیں کہ ان کا قومی ترانے کس کے قلم سے نکلا؟ اُن کی سماعتوں پر بے حسی کا پردہ پڑا ہے، سوچ پر عقیدے کا پہرہ ہے۔
انھیں اس سے غرض نہیں کہ عوام کوکن مسائل کا سامنا ہے، وہ کن مصائب سے دوچار ہیں، ان کی ضروریات کیا ہیں۔ انھیں غرض نہیں کہ شہروں میں بسنے والوں کے خواب کیا ہیں۔ خودساختہ دانشورفقط بولنے کے خبط میں مبتلا ہیں، دن رات ورق سیاہ کر رہے ہیں۔ مسلسل چیخ رہے ہیں اور ان کا شور پسے ہوئے عوام کو مزیدکمزورکر رہا ہے، کیونکہ یہ مباحث ان نام نہاد اسکالروںکی شہرت کو توپنکھ لگا رہے ہیں، مگر عوام کو مزید تقسیم کر رہے ہیں، وہ نظریات کے خانوں میں بٹ رہے ہیں۔
اور یہ بدبختی بے سبب نہیں۔۔۔ اس کی کئی وجوہات ہیںاور اس کی ایک وجہ غافل حکمران ہیں۔ جنھوں نے اپنے عوام کو فقط کھوکھلے نعروں، جھوٹے وعدوں کے سواکچھ نہیں دیا۔ جنھیں ریاست کی نہیں، اپنے خاندانوں کی فکر ہے۔ جنھیں عوام سے زیادہ اپنے بیٹوں کی پروا ۔ جنھیں جمہوری نظام نہیں، بادشادہت بھاتی ہے۔ ان کے اثاثے بیرون ملک ۔ ان کی اولاد مغربی شہروں کی قدیم درس گاہوں سے اکتساب فیض کرتی ہے۔جھونپڑی میں رہنے والے انسانوں کی قسمت کے یہ فیصلہ ساز محلوں میں بستے ہیں۔ گندا پانی پینے پر مجبور شہریوں کی تقدیر کے مالک منرل واٹر سے غسل کرتے ہیں۔ ادھر بچے عدم تحفظ کا شکار ہیں، مگر اُن کی حفاظت پر ہزاروں محافظ مامور ۔ مائیں فاقوں پر مجبور ہیں، مگر یہ مغلیہ کھانے ہضم کرنے کے لیے یہ ادویہ کا استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے مردوں کے بدن کارخانوں میں گھل گئے، مگر اُن کے جسم ٹھنڈے اور پرسکون کمروں میں توانا ہوتے جاتے ہیں۔
اے پڑھنے والے،یہ بدبختی بے سبب نہیں کہ یہاں صاحب اقتدار کا اکلوتا مقصد اقتدار کو طول دینا ہے اور حزب اختلاف کا اکلوتامقصد اقتدار کا حصول۔ یہاں الزامات کا شور ہے۔ بڑھکیں مارنے کی مشق باقاعدگی سے انجام دی جاتی ہے۔جلسے جلوس ہوتے ہیں، دھرنے دیے جاتے ہیں۔مغلظات بکی جاتی ہیں۔ پریس کانفرنسیں ہوتی ہیں، ٹیلی فونک خطاب ہوتے ہیں، مگر عوام کے مسائل کا حل تلاش نہیں کیا جاتا۔ کبھی غربت کے خلاف احتجاج نہیں ہوتا۔کبھی ناخواندگی کے خلاف مہم نہیں چلائی، عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے آواز نہیں اٹھائی، امن و امان کے لیے ریلی نہیں نکالی۔ اور جب ان پر مصیبت آن پڑتی ہے، حالات کٹھن ہوجاتے ہیں، تو یہ عوام کو بھول بھال کر برطانیہ، دبئی اور سعودی عرب چلے جاتے ہیں۔
تو میرے قاری، میرے بھائی، میرے دوست، ایسی ریاست اپنے تمام تر وسائل کے باوجود، زمین کی زرخیز ی، بہتے دریا ، چار موسموں کے باوجود، محنتی اور مخلص باسیوں کے باوجود۔۔بدحالی ہی کا شکار رہتی ہے ، انتشار اس کی رگوں میں سرایت کرجاتا ہے، اس کے ستون ڈھنے لگتے ہیں، اوراس کی چھت گرتی معلوم ہوتی ہے کہ یہاں زنگ آلود لوگ صاحب اختیار ہیں۔یہاں زنگ آلود لوگ دانش کا کاروبار کرتے ہیں اور یوںہرگزرتے دن کے ساتھ ناامیدی بڑھتی جارہی ہے۔