آئیں امن کی خاطر بلاول بھٹو کا استقبال کریں

ملک میں منظم آمریت، دہشتگردی، بربریت، خوف اور دھماکے کا راج تھا

وہ 18اکتوبر کا دن تھا،ملک پر آمریت کے کالے بادل چھائے ہوئے تھے،ملک میں منظم آمریت، دہشتگردی، بربریت، خوف اور دھماکے کا راج تھا۔غیر جمہوری قوتیں ملک کے ہر ادارے کو مفلوج کرچکی تھی۔آمریت کے لے پالک چاروں صوبوں میں اقتدارپر قابض تھے۔

عوام،ادارے سب پر آمریت کے تالے تھے جو بھی آواز اُٹھا تا اس کی آواز دبا دی جاتی تھی،ان حالات میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی بہادر بیٹی محترمہ بینظیر بھٹونے سرکفن پر باندھ کر آمریت کو للکارا۔

جب سالارجمہوریت نے وطن واپسی کا اعلان کاکیاتواقتدار کے ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی انھیں یقین ہو گیاکہ اب تاج بھی اُچھلیں گے اور تخت بھی گریں گے۔

اب ملکی و غیر ملکی قوتوں نے ملکراپنے سازشی حربے استعمال کرنا شروع کردیے،نہ صرف انھوں نے محترمہ کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں بلکہ یہاں تک کہا کہ...''آپکی سلامتی ہمار ے ساتھ تعلقات پر منحصر ہے"مگر وہ بھول گئے کہ وہ تو زینب کی کنیز تھی اور امام حسین کو ماننے والی تھی۔نوک نیزہ پر جان دینے والی دینے والی تھی۔

وہ تو اپنے عوام سے کیا ہوا وعدہ نبھانے آئی کہ ہمارا جینا اکٹھا ہے ۔ہمارا مرنا اکٹھا ہے، وہ تو وطن کی راہ میں قربان ہونے کی ریت نبھانے آئی تھی۔18اکتوبر 2007ء کو جب شہید رانی نے صوبائی دارلحکومت "کراچیـ"میں قدم رکھا تو اپنی محبوب قائد کو دیکھنے کے لیے عوام کا جیسے سمندر اتر آیا ہو۔ شہر کراچی کی وہ سب راہیںجو کہ برسوں سے صرف دہشتگردی ،ظلم و بربریت،دھماکے اور خوف وہراس کے بادل دیکھتی آئیںتھی ،انھیں شاہراؤں نے دیکھا کہ جیسے کوئی چودھویں کا چاند زمین پر اتر آیا ہو شہر کی فضا ان نعروں سے گونج اُٹھی۔

گھر گھر سے بھٹو نکلے گا...تم کتنے بھٹو ماروگے

ماروی ملیر کی...بینظیر...بینظیر

چاروں صوبوں کی زنجیر...بینظیر...بینظیر

بچے ،بوڑھے اور عورتیں سب محو رقص تھیں، ہر طرف پارٹی کا ترنگالہرا رہا تھا، پارٹی رنگ کی ٹوپیاں ، استقبالی بینرکی بھرمار تھی اور "دلاں تیر بجاں" پر ہر شخص جھوم رہا تھا۔آمروں کے خواب چکنا چور ہوچکے تھے۔


مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں اپنی قائد کے ساتھ بزنس کلاس میں سفر کررہا تھا کہBBC کے نمایندے نے بی بی صاحبہ سے پوچھا کہ آپ کا کیا اندازہ ہے آپ کے استقبال کے لیے وہاں کتنے لوگ موجود ہونگے تو بی بی نے جواب دیا کہ آپ اپنے کراچی میںموجود نمایندے سے پوچھیں کیونکہ میں آپکوبتاؤنگی تو شاید آپ یقین نہ کریں۔

جب BBC کے نمایندے نے سیٹلائٹ فون پر کراچی میں موجود اپنے نمایندے سے رابطہ کیا تو وہ ہکا بکا رہ گیا،جب بی بی سی نے اُ س سے عوام کی تعداد پوچھی تو اُ س کا جواب تھا "count less" ۔ سالار جمہوریت کا قافلہ عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندرکے ساتھ کارساز روڑ سے گزر رہا تھاکہ آمریت کے پجاری اور موت کے سوداگروں نے شاہراہ فیصل کی تمام اسٹریٹ لائٹ بند کرادیں،قافلہ جوں ہی کارساز برج کے قریب پہنچا،ایک زوردار دھماکہ ہوا،ہر طرف آہوں اور چیخوںکی آوازیں سنائی دے رہی تھی۔یہ پہلا دھماکہ تھا جو کہ سازش کے تحت کیا گیا تھا کہ لوگ تتر بتر ہوجائیںتاکہ پارٹی قیادت کو باآسانی دہشتگردی کا نشانہ بنایاجائے،مگر وہ تو جانثار تھے ،اپنی قائدکے لیے جان دینے آئے تھے،دیکھتے ہی دیکھتے جانثاروں نے اپنی قائد کے ٹرک کے گردانسانی حصاربنالیا۔

اچانک انسانیت کے دشمنوں نے دوسرا دھماکہ کیا۔میں سلا م پیش کرتا ہوں اُن جانثاروں کو جنہوں نے اپنی قائد کے ساتھ عہدوفا نبھاتے ہوئے جان کا نذرانہ پیش کیا۔

جانثاری کے اس جذبے نے ایک نئی تاریخ رقم کردی وہ بے نام سپاہی تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف میں لکھواگئے۔ان جانثاروں نے اپنی زندگی بچانے کا موقع ہونے کے باوجود اپنی جان اپنی محبوب قائد پر نچھاور کرنے کو ترجیح دی اور تاریخ میں امر ہوگئے۔ 19اکتوبر کی صبح غم میں ڈوبی ہوئی ،سحر خون سے لت پت تھی،شہر قائد کی فضا سوگوار تھی ہر سو خوف و دہشت کا عالم تھا ۔اس صورتحال میں حکمرانوں کا خیال تھا کہ اب محترمہ، بلاول ہاؤس میں قید ہو کر بیٹھ جائینگی یا پردیس واپس لوٹ جائینگی۔مگر یہ کیا ؟ بہادر باپ کی بہادر بیٹی اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ سیکیورٹی کی پرواہ کیے بغیر اپنے غمگین اور زخموں سے چور کارکنوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے جناح اسپتا ل،سول اسپتال اور لیاری پہنچ گئیں۔

انھوں نے امن دشمنوں او ر انسانیت کے دشمنوں کو واضح پیغام دیا کہ بھٹو خاندان کا ڈر اور خوف سے دور دورتک واسطہ نہیں۔بھٹو خاندان کی یہی خاصیت انھیں نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیاکے تمام سیاسی خاندانوں میں ممتاز کرتی ہے۔

آج ایک بار پھر اس تاریخ کو دہرانے قائد عوام اورمادرجمہوریت کانواسہ، شہید جمہوریت اورمردحُرکا لخت جگر،فرزندمہران ،فرزند ایشیا بلاول بھٹو زرداری ظلم وبربریت کے خلاف اعلان جنگ کرچکا ہے۔حق و سچ کا علم لیے حُسین کا یہ پیروکارشہرقائد میں نکل پڑا ہے وہ کراچی کے عوام کے لیے امن،پیار،ترقی اور خوشحالی کا پیغام لے کر نکلاہے۔آئیں ہم سب مل کر رنگ نسل، زبان اورمذہب سے بالاترہوکراس جوشیلے نوجوان کا ساتھ دیں،وہ شہیدوں کا وارث ہے اور شہیدوں کے مشن کو لے کر آگے بڑھا ہے،آئیںاور آگے بڑھیںدہشتگردی سے متاثر اس شہر کو دوبارہ عروس العبادبنانے میں اس ولولہ انگیز قیادت کا ساتھ دیں۔

آج ہم سب عہد کریںکہ چاہے ہم کوئی بھی زبان بولتے ہوں،ہمارا تعلق کسی بھی رنگ و نسل سے ہو، ہمارے فرقے و مذہب جدا جدا کیوں نہ ہو۔ہمارامشن، ہمارا مقصدخوشحال اور پرامن کراچی ہی ہوگاکیونکہ پرامن کراچی کا مطلب پرامن سندھ ہے اور پرامن سندھ کا مطلب پرامن اور خوشحال پاکستان ہے۔

بلاول بھٹو کی یہی سوچ ہے کہ کراچی شہر کو نسلی،لسانی یا مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہونے سے بچایا جائے اور اسی سوچ میں کراچی کی ترقی کا راز ہے۔یہی سوچ ،فکر و فلسفہ ہی کراچی کی ترقی کا ضامن ہے ۔اس شہر کی ترقی و خوشحالی کا دارومدار امن پر ہے اور یہ امن صرف پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے ہی فراہم ہوسکتا ہے کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر بے نظیر بھٹو خاندان نے اس ملک کے غریب عوام کی ترقی ، امن ،پیار اور خوشحالی کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔

16 اکتوبر کی ریلی صرف ایک پارٹی کی ریلی نہیں ہے بلکہ یہ ریلی استحکام پاکستان کی ریلی ہے ۔یہ ریلی موجودہ جنگی حالات میں دفاع پاکستان کی ریلی ہے،یہ ریلی امن کے پیامبر کی ریلی ہے۔آئیں ہم سب مل کر انسانی زنجیر بنائیں اور اس ولولہ انگیز نوجوان کے اس قافلے میں یہ نعرہ لگاتے ہوئے شامل ہوں۔

پاکستان کھپے ۔پاکستان زندہ باد۔
Load Next Story