مغرور ڈونلڈ ٹرمپ سرنگوں

ایک ٹیپ ریکارڈنگ نے امریکی صدارتی امیدوار کی حقیقی شخصیت کے گھناؤنے پہلو آشکارا کر دئیے

ایک ٹیپ ریکارڈنگ نے امریکی صدارتی امیدوار کی حقیقی شخصیت کے گھناؤنے پہلو آشکارا کر دئیے ۔ فوٹو : فائل

اس کو اپنی دولت، شہرت اور مردانہ حسن پر بہت غرور تھا۔ انہی مادی قوتوں کے سہارے ڈونلڈ ٹرمپ اتنا آگے بڑھ گیا کہ دنیا کی اکلوتی سپرپاور کا سربراہ بننے کے خواب دیکھنے لگا۔ مگر ٹرمپ نہیں جانتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا ایک قانون... مکافات عمل اس سے بھی زیادہ طاقتور و قوی ہے۔ یہ عمل دیر سے حرکت میں آتا ہے، مگر جب آجائے تو بڑے بڑے مغروروں اور پھنے بازوں کو ملیامیٹ کرڈالتا ہے۔ پچھلے دنوں ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی مکافات عمل کے زودار جھٹکے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس جھٹکے نے ٹرمپ کی انا کے پھولے غبارے سے ساری ہوا نکال پھینکی۔

جون 2015ء میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ آمدہ امریکی صدارتی الیکشن میں حصہ لے گا اور اپنی انتخابی مہم شروع کردی۔ جیت کی خاطر ٹرمپ نے ایک خاص حربہ اپنالیا... یہ کہ متنازع معاملات پر نہایت جذبات انگیزبیان دو اور مخالفین کی ایسی کی تیسی کر ڈالو۔ ٹرمپ نے پھر سیاست اور انتخابی مہمات میں ایسے نادر و نایاب منفی ہتھکنڈے اپنائے کہ پوری دنیا حیران رہ گئی۔ بہرحال ٹرمپ جس بین الاقوامی شہرت کا خواہاں تھا، وہ ان ہتھکنڈوں کے ذریعے اسے مل گئی۔

ٹرمپ نے دوران انتخابی مہم اسلام، مسلمانوں اور پاکستان پر بھی کیچڑ اچھالا اور رکیک الفاظ استعمال کیے۔ انتخابی مہم کے اوائل ہی میں اس نے اعلان کردیا کہ اگر وہ صدر منتخب ہوا، تو امریکا میں مسلمانوں کی آمد پر پابندی لگادے گا۔ دسمبر 2015ء میں ٹرمپ نے صحافی، ولی گیٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے پابندی کا طریق کار کچھ یوں واضح کیا:

گیٹ: کیا ایئرلائن کے نمائندے، کسٹمز ایجنٹ اور سرحدی محافظ ہر کسی کی مذہبی شناخت دریافت کریں گے؟

ٹرمپ: ہاں اور مسلمان اپنا مذہب ظاہر کردیں گے۔

گیٹ: اگر انہوں نے مسلمان ہونے کا اقرار کیا، تو وہ امریکا میں داخل نہیں ہوسکیں گے۔

ٹرمپ: آپ نے درست کہا، میں صدر بنا، تو وہ امریکا میں قدم نہیں رکھ سکتے۔

ٹرمپ شام کے مہاجرین کا شدید مخالف ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ وہ امریکا نہ آنے پائیں۔ اسے یقین ہے، یہ شامی مسلمان آخر ''ٹروجن ہارس'' ثابت ہوں گے۔ نومبر 2015ء میں پیرس دھماکوں کے بعد ٹرمپ نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا کہ امریکا میں رہتے بستے مسلمانوں کا ''ڈیٹا بیس'' تیار کیا جائے۔ مقصد یہ تھا کہ ان مسلمانوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جاسکے۔انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ پاکستان پر بھی حملے کرتا رہا۔ ٹرمپ نے دنیا کی اکلوتی اسلامی ایٹمی طاقت کو ''خطرناک'' قرار دیا اور کہا کہ امریکا کو چاہیے، وہ بھارتی حکومت کے ہاتھ مضبوط کرے تاکہ پاکستان زیادہ طاقتور نہ ہوسکے۔


دلچسپ بات یہ کہ پوری انتخابی مہم میں سفید فام برتری کا پرچارک ٹرمپ اپنے بیانات تبدیل کرتا رہا۔ کبھی وہ مسلمانوں کے لیے نسبتاً نرم الفاظ استعمال کرتا۔ لیکن جیسے ہی دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا، وہ اس کا الزام مسلمانوں پر لگا کر ان پر برسنے لگتا۔ ٹرمپ کا یہ پل میں تولہ پل میں ماشہ جیسا رویہ عیاں کرتا ہے کہ وہ ایک لالچی،منافق اورجاہ پسند انسان ہے... ایسا شخص جو اقتدار حاصل کرنے کی خاطر گدھے کو بھی باپ بنالے۔

کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا دادا، فریڈرک ٹرمپ 1885ء میں لازمی فوجی سروس سے بچنے کے لیے جرمنی سے امریکا بھاگ آیا تھا۔وہ بہ لحاظ پیشہ فریڈرک نائی تھا۔ امریکا پہنچ کر اس نے چھ سال بطور نائی مختلف دکانوں میں کام کیا اور خاصے ڈالر اکٹھے کرلیے۔ 1891ء میں وہ امریکی شہر، سیتل پہنچا اور جمع شدہ رقم سے وہاں ایک ریستوراں خرید لیا جس میں عصمت فروشی کا دھندا ہوتا تھا۔ فروری 1894ء میں اس نے ریستوراں فروخت کیا اور مونٹی کرسٹو نامی شہر چلاگیا۔ وہاں اس نے یو ایس لینڈ آفس کے اہل کاروں کو رشوت دی اور ایک وسیع قطعہ زمین پر غیر قانونی ہوٹل تعمیر کرلیا۔ جب ہوٹل چل پڑا، تو دس ماہ بعد فریڈرک نے قطعہ زمین پھر لینڈ آفس کے کرپٹ افسروں کو رشوت دے کر اونے پونے داموں خرید لیا۔

غیر اخلاقی دھندوں نے فریڈرک کو خاصا امیر بنادیا۔ 1901ء تک یاد وطن اسے بری طور ستانے لگی تھی۔ لہٰذا وہ اسی سال واپس جرمنی چلاگیا۔ وہاں اس نے پڑوسی غریب لڑکی سے شادی کرلی۔ تاہم جرمن حکومت کی نظر میں وہ لازمی فوجی سروس سے بھاگا ہوا ایک بھگوڑا اور مجرم تھا۔ لہٰذا فریڈرک کی شہریت منسوخ کردی گئی۔ اب اسے مجبوراً بیوی سمیت واپس امریکا آنا پڑا۔ فریڈرک واپس امریکہ آکر پھر اپنے روایتی دھندے کرنے لگا۔ وہ جو کمائی کرتا، اس سے زمین یا فلیٹ خرید لیتا۔ فلیٹ وہ کرائے پر چڑھا دیتا۔ مئی 1918ء میں وہ اچانک فلو کا شکار ہوکر صرف انتالیس سال کی عمر میں چل بسا۔ اس کی موت کے وقت ڈونلڈ ٹرمپ کا باپ، فریڈ تیرہ سال کا تھا۔

اب فریڈرک کی بیوی، الزبتھ اپنے متوفی شوہر کا کاروبار سنبھالنے لگی اور اس نے بیٹے کو بھی شریک کار بنالیا۔ فریڈ بھی باپ کی طرح چالاک و ہوشیار تھا۔ جلد اسے معلوم ہوگیا کہ وہ سرکاری لینڈ آفس کے لالچی افسروں کو منہ مانگی رشوت دے کر من چاہی زمینوں پر قبضہ کرسکتا ہے۔ اس چلن سے فریڈ نے کئی زمینوں پر قبضہ کیا، ناجائز طور پر ان کی رجسٹری اپنے نام کرائی اور وہاں فلیٹ تعمیر کرلیے۔ جلد ہی فریڈ کا شمار نیویارک میں رئیل اسٹیٹ کے بڑے سیٹھوں میں ہونے لگا۔ دولت گھر کی باندی بن گئی۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے باپ دادا کی درج بالا تاریخ عیاں کرتی ہے کہ انہوں نے جرمنی سے امریکا پہنچ کر غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہتھکنڈے اپنائے اور فرش سے عرش تک جاپہنچے۔ مگر ان کی ترقی و کامرانی کا راز محنت و دیانت داری نہیں عیاری و مکاری میں پوشیدہ تھا اور یہی منفی خصوصیات ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی ورثے میں ملیں۔امریکی صدر بننے کا یہ امیدوار ٹیکس چوری، فراڈ سے لے کر زنا تک ہر قبیح و گھٹیا جرم میں ملوث رہا ہے۔ تعجب یہ کہ قدامت پسند ریپبلکن پارٹی نے کیونکر اسے اپنا امیدوار منتخب کرلیا؟ شاید امریکی قدامت پسند عوام کو یقین تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ روایتی سیاست دانوں سے مختلف ہے۔ لہٰذا ممکن ہے، وہ اپنے عہد صدارت میں ایسی کارکردگی دکھا دے کہ امریکی عوام کے تمام مسائل حل ہوجائیں لیکن ایک ٹیپ ریکارڈنگ نے قدامت پسندوں کے تمام سہانے خواب چکنا چور کردیئے۔

2005ء میں ٹرمپ نے ایک مقبول امریکی ٹی وی پروگرام ''ایسس ہالی وڈ'' (Access Hollywood) میں انٹرویو ریکارڈ کرایا تھا۔ پروگرام سے پہلے اور بعد میں وہ میزبان، بلی بش سے مختلف امور پر گفتگو بھی کرتا رہا۔ ٹرمپ کو علم نہ تھا کہ ان باتوں کی بھی ریکارڈنگ ہورہی ہے۔ چناں چہ وہ کھل کر، اپنے روایتی انداز میں باتیں کرتا رہا۔ دوران گفتگو اس نے اپنی جنسی مہمات کی داستانیں سنائیں اور خواتین کے متعلق نہایت غلیظ اور فحش انداز میں باتیں کیں۔ یہی ٹیپ پچھلے دنوں منظرعام پر آگئی۔

انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ بڑی ڈھٹائی سے سب کی پگڑیاں اچھالتا رہا اور اس نے ایک بار بھی معافی نہ مانگی۔ طوعاً و کراہاً کبھی معذرت کرنا پڑی، تو وہ گول مول الفاظ میں بات ٹال جاتا۔ لیکن خواتین کے بارے میں ناشائستہ گفتگو کی ٹیپ سامنے آئی، تو ٹرمپ پر اپنے پرائے سبھی لعن و طعن کرنے لگے۔ شدید تنقید نے ٹرمپ کا سارا غرور کافور کر ڈالا اور وہ واضح انداز میں معافی مانگنے پر مجبور ہوگیا۔ یہ ٹیپ یقینا صدارتی الیکشن کے نتیجے پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔

ایک سیانے کا کہنا ہے ''اگر کسی نے آپ کو تکلیف دی، تو بدلہ لینے کی ضرورت نہیں۔ بس آرام سے بیٹھ کر انتظار کیجیے۔ خوش قسمت ہوئے، تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو تکلیف دینے والے کو کیسے عذاب میں مبتلا کردیا۔'' چناں چہ اب ہم مسلمان ڈونلڈ ٹرمپ کی حالت زار کا نظارہ کرتے توبہ توبہ کررہے ہیں، عبرت پکڑ رہے ہیں۔

امریکی میڈیا کے مطابق امریکی صدارتی الیکشن کی تین سو سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ (ریپبلکن) پارٹی نے اپنے ہی امیدوار کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اسے خطرہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس کا دامن داغدار کر ڈالے گا۔ امریکی صدارتی الیکشن میں نت نئی اختراعات متعارف کرانے والے ٹرمپ کے متعلق ریپبلکن پارٹی کے سابق صدارتی امیدوار، مٹ رومنی کا جملہ گویا سمندر کو کوزے میں سمیٹے کے مترادف ہے۔'' اس نے اپنی حرکتوں سے امریکا کو پوری دنیا میں بدنام کر ڈالا اور امریکی عوام کا سر شرمندگی سے جھکادیا۔''
Load Next Story