پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں ایک سنہرا دن
6 اکتوبر 2016 کا دن پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں ایک سنہرے دن کی طرح یاد کیا جائے گا۔
6 اکتوبر 2016 کا دن پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں ایک سنہرے دن کی طرح یاد کیا جائے گا۔ یہ وہ دن ہے جب سینیٹ اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں Anti Honour Killing Law اور Anti Rape Law متفقہ طور پر منظور کیے گئے۔ اس کے لیے پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹرز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی نے سالہا سال جدوجہد کی اور بدترین حالات میں بھی دل گرفتہ نہیں ہوئے۔
ملک کی نصف سے زیادہ آبادی کے حقوق اور انھیں انصاف فراہم کرنے کے کام میں سینیٹر صغریٰ امام پیش پیش رہیں اور سینیٹ سے ان کی رکنیت کی مدت ختم ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر پاکستانی عورت کو انصاف دلانے کی اس لڑائی میں دل و جان سے مصروف رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں افراد کو ان کی جماعتوں اور ملک بھر کے جمہوریت پسند اور انصاف کی لڑائی لڑنے والوں کی طرف سے داد و تحسین مل رہی ہے۔
اس بل کی منظوری کے بعد غیرت کے نام پر قتل اور ریپ کے واقعات کی روک تھام کے لیے اس گھناؤنے جرم کی سزا میں اضافہ کیا گیا ہے جب کہ غیرت کے نام پر قتل کرنے والے کو معافی کی صورت میں بھی عمر قید ہوگی، زیادتی کیس میں متاثرہ شخص اور ملزم دونوں کا ڈی این اے ٹیسٹ لازمی ہوگا، بچوں اور ذہنی اور جسمانی معذور افراد کے ساتھ جنسی تشدد کے مجرم کو موت کی سزا ہوگی۔
اس قانون کے تحت عمر قید کی سزا کم نہیں کی جاسکے گی اور اس کے ساتھ ہی تھانے کی حدود میں کسی خاتون کے ریپ پر دہری سزا دی جائے گی جب کہ ریپ سے متعلق کیس کا فیصلہ 90 روز میں سنایا جائے گا۔ بل کی منظوری کے بعد یہ کہا گیا کہ غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بل میں قصاص کا حق برقرار رکھا گیا ہے، اب بھی صلح نامہ ہوسکے گا، تاہم قصاص کے حق کے باوجود عمر قید کی سزا ہوگی اور غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات میں اب پہلے کی طرح صلح نہیں ہوسکے گی۔
ریپ کی روک تھام کا قانون متاثرہ خواتین اور مردوں دونوں کے لیے ہوگا جب کہ ریپ کے مقدمے میں درست تفتیش نہ کرنے والے پولیس اہلکار یا تفتیش میں رکاوٹ ڈالنے اور متاثرہ فرد کی شناخت ظاہر کرنے والوں کو 3 برس قید کی سزا ہوگی۔ بچوں اور ذہنی و جسمانی معذور افراد کے ساتھ جنسی تشدد کے مجرم کو موت کی سزا ہوگی جب کہ جیل میں کسی عورت کے ساتھ ہونے والے ریپ کے مجرم کو بھی پھانسی اور جسمانی تشدد پر عمر قید کی سزا ہوگی۔ اس بل کے تحت زیادتی سے متاثرہ فرد کا طبی معائنہ لازمی قرار دیا گیا ہے، پولیس متاثرہ فرد کو قانونی حق اور تحفظ فراہم کرنے کی پابند ہوگی، جب کہ متاثرہ فرد اور ملزم دونوں کا ڈی این اے ٹیسٹ بھی ہوگا۔
سینیٹ اور پارلیمنٹ جس پر حقوق انسانی کی انجمنوں اور خواتین کے پریشر گروپوں کی طرف سے کڑی تنقید ہوتی رہی ہے لیکن اب پارلیمنٹ نے اپنا کام کر دیا ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ان قوانین پر ان کی روح کے مطابق عمل کیا جائے۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ کی تمام سیاسی پارٹیوں کے تمام اراکین اور موجودہ حکومت کو سراہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے خوشی منانے کا موقع اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہ دونوں بل پاکستان پیپلز پارٹی کے قانون سازوں نے تیار کیے اور انھیں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا۔
سینیٹر بابر نے کہا کہ پارلیمنٹ نے قانون کا یہ سقم دور کردیا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کرنے والے کو اس کے رشتے دار معاف کردیتے تھے، اب اسے کم از کم 25 سال سلاخوں کے پیچھے گزارنے پڑیں گے۔ انھوں نے کہا کہ یہ سقم دور کرنے سے پارلیمنٹ نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ غیرت کے نام پر قتل عمد کرنے والا مذہب کے مقدس نام کے پیچھے نہیں چھپ سکتا۔ اسی طرح ڈی این اے ٹیسٹ ضروری قرار دے کر پارلیمنٹ نے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا راستہ کھول دیا ہے تاکہ سزا سے کوئی شخص بچ نہیں سکے۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ نئے قوانین سے خواتین کو نیا حوصلہ ملے گا اور وہ قومی اور سماجی ترقی میں بھرپور کردار ادا کرسکیں گی۔ انھوں نے کہا کہ اس قانون سازی سے یہ بیانیہ بھی سامنے آگیا کہ قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے اور کوئی بھی شخص کسی بھی بہانے سے خواتین کے استحصال کو روکنے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔
جنرل ضیاء الحق نے جب بھٹو صاحب کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کیا تو انھیں اپنے حمایتوں کی اشد ضرورت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے قدامت پسند اور مذہبی حلقوں سے اپنے حلیف تلاش کیے۔ انھیں اس تلاش میں کسی قسم کی مشکل نہیں ہوئی۔
یہ وہ لوگ تھے جو پاکستان کو ایک رجعت پرست ریاست بنانے کے خواب دیکھتے رہے تھے۔ ان کا وہ عالم ہوا کہ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ ایسے تمام افراد اور مذہبی جماعتوں نے اپنا سارا وزن جنرل ضیاء الحق کے بنائے ہوئے قوانین کے پلڑے میں ڈال دیا۔ یہ وہی قوانین تھے جنہوں نے عورت، بالخصوص پاکستان کے چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں رہنے والی عورت کے لیے زندگی کو جہنم بنا دیا۔ اسی کے بعد عورت کچھ لوگوں کی نظر میں پاؤں کی جوتی بن گئی اور وہ اس کے ساتھ سلوک بھی ویسا ہی کرنے لگے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں معمولی باتوں پر عورتوں اور بچیوں کا قتل روز مرہ بن گیا۔ گذشتہ تیس برسوں کے دوران ہمارے یہاں غیرت کے نام پر کتنے ہی قتل ہوئے اور تمام قاتل 'ناکافی شہادت' کی بنا پر رہا ہوئے اور اگر کسی کو سزا ہوئی تب بھی لین دین یا راضی نامے کے ذریعے قاتل چھوٹ گئے۔ یہ ایک ایسی افسوس ناک صورت حال تھی جس نے باشعور عورتوں کے ساتھ ہی بہت سے مردوں کو بھی مضطرب رکھا اور اب یہ دو بل جو قانون بن گئے ہیں، وہ ایسے ہی انصاف پسند مردوں اور عورتوں کی مشترک کاوش کا نتیجہ ہیں۔
ان قوانین کا منظور ہوجانا یقیناً باضمیر اور با شعور پاکستانی عورتوں اور مردوں کی کوششوں کا ثمر ہیں لیکن اس سے بھی اعلیٰ و ارفع قوانین اگر قانون کی کتابوں میں سوتے رہیں، تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان قوانین کی روح کو سمجھا اور سمجھایا جائے اور ان پر عمل کیا جائے ۔ پاکستان ایک ایسا سماج ہے جہاں اچھے اچھے پڑھے لکھے اور اہم عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگ بھی ان معاملات کی سنگینی کو نہیں سمجھتے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ان قوانین کے بارے میں ابتدائی جماعتوں سے لڑکوں اور لڑکیوں کو یہ سمجھایا جائے کہ وہ دنیا میں یکساں حقوق اور یکساں فرائض رکھتے ہیں۔ کوئی بچہ اس لیے اپنی بہن سے افضل نہیں کہ وہ لڑکا ہے۔ اسے اور اس کے باپ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گھر کی عورتوں پر تشدد، فخر کی بات نہیں ذلت کا سبب ہے۔
سیکڑوں اور ہزاروں برس پرانی روایات جو ہمارے لاشعور کا حصہ ہیں، انھیں یک لخت نہیں بھلایا جاسکتا لیکن آہستہ آہستہ ہم اپنے بچوں کو یہ باور کرا سکتے ہیں کہ لڑکیاں بھی وہ سب کچھ کرسکتی ہیں جو لڑکے کرتے ہیں اور بعض حالات میں آج پاکستان اور جنوبی ایشیا کے دوسرے ملکوں کی لڑکیاں تیز رفتاری سے آگے نکل رہی ہیں۔ وہ اپنے گھر، خاندان برادری اور ملک کے لیے عزت اور اعزاز کا سبب بن رہی ہیں۔
پاکستان میں ہماری سینیٹ اور پارلیمان نے اپنے مشترکہ اجلاس میں عورتوں کو انصاف فراہم کرنے کے لیے یہ دو قوانین پاس کرکے اپنا اور ہم سب کا سرفخر سے اونچا کردیا ہے۔ اس موقعے پر ہماری پارلیمان اور ہماری سینیٹ کو بہت مبارکباد۔ کمزور طبقات کو انصاف کی فراہمی جمہوریت کا بنیادی فریضہ ہے۔ جمہوریت اسی طرح جڑ پکڑ سکتی ہے اور اسی طرح ہم عالمی برادری میں سر اونچا کرسکتے ہیں۔
ملک کی نصف سے زیادہ آبادی کے حقوق اور انھیں انصاف فراہم کرنے کے کام میں سینیٹر صغریٰ امام پیش پیش رہیں اور سینیٹ سے ان کی رکنیت کی مدت ختم ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر پاکستانی عورت کو انصاف دلانے کی اس لڑائی میں دل و جان سے مصروف رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں افراد کو ان کی جماعتوں اور ملک بھر کے جمہوریت پسند اور انصاف کی لڑائی لڑنے والوں کی طرف سے داد و تحسین مل رہی ہے۔
اس بل کی منظوری کے بعد غیرت کے نام پر قتل اور ریپ کے واقعات کی روک تھام کے لیے اس گھناؤنے جرم کی سزا میں اضافہ کیا گیا ہے جب کہ غیرت کے نام پر قتل کرنے والے کو معافی کی صورت میں بھی عمر قید ہوگی، زیادتی کیس میں متاثرہ شخص اور ملزم دونوں کا ڈی این اے ٹیسٹ لازمی ہوگا، بچوں اور ذہنی اور جسمانی معذور افراد کے ساتھ جنسی تشدد کے مجرم کو موت کی سزا ہوگی۔
اس قانون کے تحت عمر قید کی سزا کم نہیں کی جاسکے گی اور اس کے ساتھ ہی تھانے کی حدود میں کسی خاتون کے ریپ پر دہری سزا دی جائے گی جب کہ ریپ سے متعلق کیس کا فیصلہ 90 روز میں سنایا جائے گا۔ بل کی منظوری کے بعد یہ کہا گیا کہ غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بل میں قصاص کا حق برقرار رکھا گیا ہے، اب بھی صلح نامہ ہوسکے گا، تاہم قصاص کے حق کے باوجود عمر قید کی سزا ہوگی اور غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات میں اب پہلے کی طرح صلح نہیں ہوسکے گی۔
ریپ کی روک تھام کا قانون متاثرہ خواتین اور مردوں دونوں کے لیے ہوگا جب کہ ریپ کے مقدمے میں درست تفتیش نہ کرنے والے پولیس اہلکار یا تفتیش میں رکاوٹ ڈالنے اور متاثرہ فرد کی شناخت ظاہر کرنے والوں کو 3 برس قید کی سزا ہوگی۔ بچوں اور ذہنی و جسمانی معذور افراد کے ساتھ جنسی تشدد کے مجرم کو موت کی سزا ہوگی جب کہ جیل میں کسی عورت کے ساتھ ہونے والے ریپ کے مجرم کو بھی پھانسی اور جسمانی تشدد پر عمر قید کی سزا ہوگی۔ اس بل کے تحت زیادتی سے متاثرہ فرد کا طبی معائنہ لازمی قرار دیا گیا ہے، پولیس متاثرہ فرد کو قانونی حق اور تحفظ فراہم کرنے کی پابند ہوگی، جب کہ متاثرہ فرد اور ملزم دونوں کا ڈی این اے ٹیسٹ بھی ہوگا۔
سینیٹ اور پارلیمنٹ جس پر حقوق انسانی کی انجمنوں اور خواتین کے پریشر گروپوں کی طرف سے کڑی تنقید ہوتی رہی ہے لیکن اب پارلیمنٹ نے اپنا کام کر دیا ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ان قوانین پر ان کی روح کے مطابق عمل کیا جائے۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ کی تمام سیاسی پارٹیوں کے تمام اراکین اور موجودہ حکومت کو سراہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے خوشی منانے کا موقع اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہ دونوں بل پاکستان پیپلز پارٹی کے قانون سازوں نے تیار کیے اور انھیں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا۔
سینیٹر بابر نے کہا کہ پارلیمنٹ نے قانون کا یہ سقم دور کردیا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کرنے والے کو اس کے رشتے دار معاف کردیتے تھے، اب اسے کم از کم 25 سال سلاخوں کے پیچھے گزارنے پڑیں گے۔ انھوں نے کہا کہ یہ سقم دور کرنے سے پارلیمنٹ نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ غیرت کے نام پر قتل عمد کرنے والا مذہب کے مقدس نام کے پیچھے نہیں چھپ سکتا۔ اسی طرح ڈی این اے ٹیسٹ ضروری قرار دے کر پارلیمنٹ نے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا راستہ کھول دیا ہے تاکہ سزا سے کوئی شخص بچ نہیں سکے۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ نئے قوانین سے خواتین کو نیا حوصلہ ملے گا اور وہ قومی اور سماجی ترقی میں بھرپور کردار ادا کرسکیں گی۔ انھوں نے کہا کہ اس قانون سازی سے یہ بیانیہ بھی سامنے آگیا کہ قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے اور کوئی بھی شخص کسی بھی بہانے سے خواتین کے استحصال کو روکنے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔
جنرل ضیاء الحق نے جب بھٹو صاحب کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کیا تو انھیں اپنے حمایتوں کی اشد ضرورت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے قدامت پسند اور مذہبی حلقوں سے اپنے حلیف تلاش کیے۔ انھیں اس تلاش میں کسی قسم کی مشکل نہیں ہوئی۔
یہ وہ لوگ تھے جو پاکستان کو ایک رجعت پرست ریاست بنانے کے خواب دیکھتے رہے تھے۔ ان کا وہ عالم ہوا کہ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ ایسے تمام افراد اور مذہبی جماعتوں نے اپنا سارا وزن جنرل ضیاء الحق کے بنائے ہوئے قوانین کے پلڑے میں ڈال دیا۔ یہ وہی قوانین تھے جنہوں نے عورت، بالخصوص پاکستان کے چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں رہنے والی عورت کے لیے زندگی کو جہنم بنا دیا۔ اسی کے بعد عورت کچھ لوگوں کی نظر میں پاؤں کی جوتی بن گئی اور وہ اس کے ساتھ سلوک بھی ویسا ہی کرنے لگے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں معمولی باتوں پر عورتوں اور بچیوں کا قتل روز مرہ بن گیا۔ گذشتہ تیس برسوں کے دوران ہمارے یہاں غیرت کے نام پر کتنے ہی قتل ہوئے اور تمام قاتل 'ناکافی شہادت' کی بنا پر رہا ہوئے اور اگر کسی کو سزا ہوئی تب بھی لین دین یا راضی نامے کے ذریعے قاتل چھوٹ گئے۔ یہ ایک ایسی افسوس ناک صورت حال تھی جس نے باشعور عورتوں کے ساتھ ہی بہت سے مردوں کو بھی مضطرب رکھا اور اب یہ دو بل جو قانون بن گئے ہیں، وہ ایسے ہی انصاف پسند مردوں اور عورتوں کی مشترک کاوش کا نتیجہ ہیں۔
ان قوانین کا منظور ہوجانا یقیناً باضمیر اور با شعور پاکستانی عورتوں اور مردوں کی کوششوں کا ثمر ہیں لیکن اس سے بھی اعلیٰ و ارفع قوانین اگر قانون کی کتابوں میں سوتے رہیں، تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان قوانین کی روح کو سمجھا اور سمجھایا جائے اور ان پر عمل کیا جائے ۔ پاکستان ایک ایسا سماج ہے جہاں اچھے اچھے پڑھے لکھے اور اہم عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگ بھی ان معاملات کی سنگینی کو نہیں سمجھتے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ان قوانین کے بارے میں ابتدائی جماعتوں سے لڑکوں اور لڑکیوں کو یہ سمجھایا جائے کہ وہ دنیا میں یکساں حقوق اور یکساں فرائض رکھتے ہیں۔ کوئی بچہ اس لیے اپنی بہن سے افضل نہیں کہ وہ لڑکا ہے۔ اسے اور اس کے باپ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گھر کی عورتوں پر تشدد، فخر کی بات نہیں ذلت کا سبب ہے۔
سیکڑوں اور ہزاروں برس پرانی روایات جو ہمارے لاشعور کا حصہ ہیں، انھیں یک لخت نہیں بھلایا جاسکتا لیکن آہستہ آہستہ ہم اپنے بچوں کو یہ باور کرا سکتے ہیں کہ لڑکیاں بھی وہ سب کچھ کرسکتی ہیں جو لڑکے کرتے ہیں اور بعض حالات میں آج پاکستان اور جنوبی ایشیا کے دوسرے ملکوں کی لڑکیاں تیز رفتاری سے آگے نکل رہی ہیں۔ وہ اپنے گھر، خاندان برادری اور ملک کے لیے عزت اور اعزاز کا سبب بن رہی ہیں۔
پاکستان میں ہماری سینیٹ اور پارلیمان نے اپنے مشترکہ اجلاس میں عورتوں کو انصاف فراہم کرنے کے لیے یہ دو قوانین پاس کرکے اپنا اور ہم سب کا سرفخر سے اونچا کردیا ہے۔ اس موقعے پر ہماری پارلیمان اور ہماری سینیٹ کو بہت مبارکباد۔ کمزور طبقات کو انصاف کی فراہمی جمہوریت کا بنیادی فریضہ ہے۔ جمہوریت اسی طرح جڑ پکڑ سکتی ہے اور اسی طرح ہم عالمی برادری میں سر اونچا کرسکتے ہیں۔