ایک یادگارانٹرنیشنل کانفرنس
ملک ایک دوسرے کے کامیاب تجربات سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمیں خود توقع نہیں تھی کہ ان حالات میں نیوٹیک کی دعوت پر پندرہ ملکوں کے وفود فنی تعلیم و تربیت کی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد پہنچ جائیں گے۔ آج کے دور میں قومیں تنہائی میں زندہ نہیں رہ سکتیں، ملک ایک دوسرے کے کامیاب تجربات سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سائنس اور ٹیکنالوجی میں زیادہ تر نئی ایجادات یورپ اور امریکا کی تجربہ گاہوں میں ہوئیں مگر بیسویں صدی کی دوسری نصف صدی میں جاپان نئی ٹیکنالوجی کی نقل کرکے اقتصادی سپر پاور بن گیا۔ چین جب تک تنہائی کے قلعے میں بند رہا عالمی اقتصادی میدان میں اپنا نقش ثبت نہ کرسکا جونہی وہ isolationکی چادر اُتار کر فولادی پردوں سے باہر نکلا اور ترقی یافتہ ملکوںسے گھلنے ملنے اور ان کے تجربات سے مستفید ہونے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوا،تو چند دہائیوں میں معاشی ترقیّ کی دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑ گیا۔
ہمارے عالمی دوست اور خیرخواہ ہمیں کہتے ہیںکہ" آپ پرقدرت کے بے پناہ احسان ہیںمگرآپ نااہل ہیں۔ قدرت کے عطاکردہ بے پناہ وسائل ہوں اور بیس کروڑ ذہین اور محنتی لوگوں کی افرادی قوّت ،آپکو تودنیاکے پہلے دس ملکوں میں ہونا چاہیے تھا"۔ اگر ہم وہ مقام حاصل نہیں کرسکے تو یہ ہماری غلط ترجیحات کا نتیجہ ہے۔ اس سے بڑا سانحہ کیا ہوگا کہ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ ہماری ترجیحِ اوّل نہ بن سکا۔ ہم نے نصف صدی سے زیادہ عرصہ فنی ہنرمندی جیسے اہم ترین شعبے کو نظر انداز کیے رکھا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہی شعبہ ہماری بقاء کا ضامن ہے۔
بیس کروڑ آبادی میں سے ساٹھ فیصد نوجوان ہیں۔گیارہ کروڑ نوجوانوں کے لیے سرکاری نوکریاں ندارد۔اگر وہ بے روزگار رہیں گے تو ان کی فراغت اور فرسٹریشن انھیں گمراہ کردیگی۔کچھ جرائم کی دنیا میں چلے جائیں گے اور کچھ مافیاز کے ہتھے چڑھ جائیں گے لیکن اگر انھی نوجوانوں کو موزوںہنر سکھا دیا جائے تو وہ اپنے خاندان کے کفیل اور ملک کے مفید شہری بن جائیں گے۔
جن ملکوں نے اسکل ڈویلپمنٹ کی افادیّت کا بروقت ادراک کرلیا وہ آج دنیا کے چوہدری ہیں ،دنیا میں انھی کی پالیسیاں چلتی ہیں ، انھی کی زبان اورانھی کی تہذیب رائج ہے ۔سب ان کی غلامی اورپیروی کرتے ہیں۔ پاکستان نے پچھلے دس بارہ سالوں سے اس پر توجہ دینی شروع کی ہے، تھوڑے عرصے میں ، غیر ملکی ماہرین کی مدد سے فنی تعلیم و تربیت (TVET) کے شعبے میں ہم نے کئی اہم سنگِ میل عبور کرلیے ہیں مگر عالمی سطح یا کم از کم ہمسایہ ملکوں کے برابر آنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
جرمنی میں انڈسٹری کی مدد سے فنی تربیت کا بہترین نظام رائج ہے، آسٹریلیا کا ووکیشنل کوالیفکیشن فریم ورک بہترین سمجھا جاتا ہے، برطانیہ میں صنعتکاروں پر مشتمل سیکٹر اسکل کونسلز بہت فعّال ہیں اور فنی تعلیم و تربیت کے شعبے میں بھرپور کردار ادا کرتی ہیں۔ چین اور کوریا کی اقتصادی ترقّی میں TVETسیکٹر کا کلیدی کردار ہے۔ ملائیشیا اور ترکی نے اسی کی مدد سے اپنے ملکوں میں غربت کا خاتمہ کیا ہے، سنگاپور کے ماہرین سے ان کی ترقّی کا راز پوچھیں تو وہ سیاسی قیادت کے بعد انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن (ITE) سنگاپور کا نام لیتے ہیں، فلپائن ہوٹلنگ اور ہاسپیٹیلیٹی سیکٹر میں ایک رول ماڈل بن گیا ہے۔
سری لنکا فنی تربیت کے جدید طریقے یعنی CBTاور Recognition of Prior Learningمیں پورے ساؤتھ ایشیا سے آگے نکل گیا ہے۔ ہمیں بھی ان کامیاب تجربات سے سیکھنے اور Best practicesکو اپنانے کی ضرورت ہے اوریہی ضرورت اسلام آباد میں انٹرنیشنل TVETکانفرنس کے انعقاد کا محرّک بنی۔
جنوبی ایشیا کے دونوں ایٹمی ملکوںکے درمیان کشیدگی عروج پر تھی اور بھارت کی جنونی حکومت نے کشمیری نوجوانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کے بعد پاکستان کی سرحد پر چھیڑ چھاڑ شروع کررکھی تھی ۔اِن حالات میں ایک ملک نے آنے سے معذرت کی تو خدشہ ہوا کہ شائد کوئی بھی نہ آئے مگر اسٹاف کو متحرّک کیا گیا، باقی ملکوں کو سیکیورٹی کے اصل حالات اور میڈیا کی مبالغہ آمیزیوں سے آگاہ کرکے انھیں شرکت پر آمادہ کیا گیا۔
تین اکتوبر کی صبح لوگوںنے اسلام آباد کے پنج ستارہ ہوٹل کا کھچا کھچ بھرا ہوا ہا ل دیکھ کر خوشگوار حیرت کا اظہار کیا۔بڑی تعداد میں سفارتکار، صنعتکار اور حکومتی اہلکار موجود تھے سب نے اس کا خاص طور پر ذکر کیاکہ تمام اسٹیک ہولڈرز یعنی ملک کے نامور صنعتکار، فنی تربیت کے اداروں کے سربراہان، حکومتی نمایندے اور صوبائی TEVTAکے سینئر افسران ایک چھت تلے موجود ہیں۔
افتتاحی تقریب کے آغاز میں سورۂ رحمٰن کی آیات نے پورے ہال پر سحر طاری کردیا۔راقم کوخطاب کے لیے بلایا گیا تو مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے فوراً بعد کہاکہ "یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ پندرہ ملکوں کے نمایندوں کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے اصل پاکستان دیکھ لیں جو اُس پاکستان سے بالکل مختلف ہے جو وہ ٹی وی اسکرین پر دیکھتے ہیں وہ خوددیکھ لیں گے کہ اصل پاکستان اُنکے تصوّر سے کہیں زیادہ خوبصورت اور کہیں زیادہ محفوظ اورپرامن ہے" پھر فنی تعلیم و تربیت کے شعبے کو درپیش چیلنجز کی نشاندہی کی گئی کہ "اس شعبے میں ریگولیشن، یکساں معیار کا قیام، تربیت کا پست معیار، عالمی سطح کے تربیتی اداروں کا فقدان، انڈسٹری کا عدمِ تعاون اور تربیت یافتہ نوجوانوں کو روزگار اور کاروبارکے لیے مددکی فراہمی ہمارے بڑے چیلنجز ہیں جنکا حل ہمیں دوسرے ملکوں کے تعاون اور مشترکہ کوششوں سے ڈھونڈنا ہے اور ہم اس ہال میں ایک دوسرے سے سیکھنے کے لیے جمع ہوئے ہیں"۔
اسٹیج پر وزیرِ تعلیم انجینئر بلیغ الرحمان، اسلام آباد کے نومنتحب مئیر عنصر عزیز، جرمنی، سری لنکا اور تاجکستان کے سفیر موجود تھے، بلیغ الرحمان صاحب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ناطے موضوع پر مکمل دسترس رکھتے ہیں، انھوں نے اس کے مختلف پہلوؤں کا بڑی تفصیل سے احاطہ کیا۔
جرمنی کی سفیر صاحبہ نے TVETسیکٹر میں اصلاحات کے لیے اپنی اور یورپین یونین کی سپورٹ اور تعاون جاری رکھنے کا عندیہ دیا۔ دارلحکومت کے میئر نے اسلام آباد کی خوبصورتی کا ذکر کیا اور غیر ملکی مندوبین کو اس خوبصورت شہر میںآمد پر خوش آمدید کہا، چائے پر سفارتکار اور ملکی اور غیر ملکی مہمان کانفرنس کے حسنِ انتظام کی دل کھول کر تحسین کرتے رہے۔
کانفرنس کے بقیہ سیشن بھی بھرپور، مفید اور معلومات افزا تھے، جرمنی، آسٹریلیا، برطانیہ، چین، کوریا، ملائیشیا اور سری لنکا کے نمایندوں نے سلائیڈوں کی مدد سے اپنے اپنے کامیاب تجربات سے حاضرین کو آگاہ کیا۔ پاکستان میں اسکل ڈویلپمنٹ کے سلسلے میں انڈسٹری کے کردار کے بارے میں پاکستان کے تین معروف صنعتکاروں جناب رزاق داؤد، انڈس موٹرز کے سربراہ جناب پرویز غیاث اور کریسنٹ گروپ کے ہمایوں مظہر کا انتخاب کیا گیا تھا، تینوں نے بڑی عمدہ گفتگو کی۔
رزاق داؤد صاحب نے اپنے تربیتی ادارے DESCONکے بارے میں بھی حاضرین کو آگاہ کیا اور دوسرے صنعتکاروں کو بھی تربیتی میدان میں آگے بڑھ کر حصّہ لینے کی تحریک دی۔ پہلے روز کے اختتام پر غیر ملکی مندوبین پرکانفرنس کا بھرپور اثر تھا اور وہ باربار Amasingاور Very Impresiveکے الفاظ سے اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔ بہت سے معروف صنعتکار راقم سے ملکر کہتے رہے کہ "ہم بہت motivate ہوئے ہیںاب ہم بھی اس ملک کے نوجوانوں کو ہنر مند بنانے میں دل و جان سے حصّہ لیں گے"۔
دوسرے روز غیر ملکی مندوبین کو اسلام آباد میں واقع کنسٹرکشن ٹیکنالوجی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ(CTTI)کا دورہ کرایا گیا اور سبب نے اسے عالمی معیار کا ادارہ قرار دیا۔ اس کے بعد گروپ ڈسکشن کا سیشن تھا شرکاء کو پانچ گروپوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور ان کی بحث و تمحیص کے لیے انتہائی اہم موضوعات کا انتخاب کیا گیا تھا۔
پانچوں گروپوں نے سیر حاصل بحث کے بعد سفارشات مرتّب کیں جو ہرگروپ کے نمایندے (moderator) نے اسٹیج پر آکر سلائیڈوں کے ذریعے تمام حاضرین کے ساتھ شیئر کیں، سوالات کے جواب دیے اور اپنے نقطہء نظر کی وضاحت کی۔ مختلف گروپوں کی مرتب کردہ سفارشات ہم حکومت کے علاوہ صنعتکاروں اور تربیتی اداروں کو بھی بھجوائیں گے۔
آخری سیشن کے بعد مختلف ملکوں کے نمایندے اسٹیج پر آکر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے رہے، چند باتوں کاسب نے خاص طور پر ذکر کیا کہ "پاکستان ہماری توقع سے کہیں زیادہ خوبصورت اور ترقّی یافتہ ہے"۔" پاکستانی اعلیٰ پائے کے منتظم بھی ہیںاوربیحد مہمان نواز بھی، ہم آدھی رات کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترے تو نیوٹیک کے پانچ افسر ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے ، ہم علی الصبح تین بجے ہوٹل میں پہنچے تو اسوقت بھی نیوٹیک کے افسران ہمیں ریسیو کرنے کے لیے موجود تھے جسطرح ہمارا خیال رکھا گیا ہم کبھی نہیں بھول سکتے"، "مقررین اور موضوعات کا انتخاب بہت عمدہ تھا"۔
بہت سے شرکاء نے فیصل مسجد کے شکوہ و جلال کا خاص طور پر ذکر کیا۔ تمام شرکاء نے اسے 'عالمی معیار کی یادگار کانفرنس 'قرار دیا۔ اس عالمی کانفرنس سے پاکستان میں فنی تربیت کا معیار بلند کرنے میں مدد ملیگی اور ہمارے نوجوانوں کو بیرونِ ممالک میں روزگار ملنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ تمام غیرملکی مہمان پاکستان کے بارے میں انتہائی مثبت تاثر لے کر اور یہ عندیہ دیکر رخصت ہوئے کہ جلد ہی وہ پھر پاکستان آئیں گے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی میں زیادہ تر نئی ایجادات یورپ اور امریکا کی تجربہ گاہوں میں ہوئیں مگر بیسویں صدی کی دوسری نصف صدی میں جاپان نئی ٹیکنالوجی کی نقل کرکے اقتصادی سپر پاور بن گیا۔ چین جب تک تنہائی کے قلعے میں بند رہا عالمی اقتصادی میدان میں اپنا نقش ثبت نہ کرسکا جونہی وہ isolationکی چادر اُتار کر فولادی پردوں سے باہر نکلا اور ترقی یافتہ ملکوںسے گھلنے ملنے اور ان کے تجربات سے مستفید ہونے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوا،تو چند دہائیوں میں معاشی ترقیّ کی دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑ گیا۔
ہمارے عالمی دوست اور خیرخواہ ہمیں کہتے ہیںکہ" آپ پرقدرت کے بے پناہ احسان ہیںمگرآپ نااہل ہیں۔ قدرت کے عطاکردہ بے پناہ وسائل ہوں اور بیس کروڑ ذہین اور محنتی لوگوں کی افرادی قوّت ،آپکو تودنیاکے پہلے دس ملکوں میں ہونا چاہیے تھا"۔ اگر ہم وہ مقام حاصل نہیں کرسکے تو یہ ہماری غلط ترجیحات کا نتیجہ ہے۔ اس سے بڑا سانحہ کیا ہوگا کہ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ ہماری ترجیحِ اوّل نہ بن سکا۔ ہم نے نصف صدی سے زیادہ عرصہ فنی ہنرمندی جیسے اہم ترین شعبے کو نظر انداز کیے رکھا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہی شعبہ ہماری بقاء کا ضامن ہے۔
بیس کروڑ آبادی میں سے ساٹھ فیصد نوجوان ہیں۔گیارہ کروڑ نوجوانوں کے لیے سرکاری نوکریاں ندارد۔اگر وہ بے روزگار رہیں گے تو ان کی فراغت اور فرسٹریشن انھیں گمراہ کردیگی۔کچھ جرائم کی دنیا میں چلے جائیں گے اور کچھ مافیاز کے ہتھے چڑھ جائیں گے لیکن اگر انھی نوجوانوں کو موزوںہنر سکھا دیا جائے تو وہ اپنے خاندان کے کفیل اور ملک کے مفید شہری بن جائیں گے۔
جن ملکوں نے اسکل ڈویلپمنٹ کی افادیّت کا بروقت ادراک کرلیا وہ آج دنیا کے چوہدری ہیں ،دنیا میں انھی کی پالیسیاں چلتی ہیں ، انھی کی زبان اورانھی کی تہذیب رائج ہے ۔سب ان کی غلامی اورپیروی کرتے ہیں۔ پاکستان نے پچھلے دس بارہ سالوں سے اس پر توجہ دینی شروع کی ہے، تھوڑے عرصے میں ، غیر ملکی ماہرین کی مدد سے فنی تعلیم و تربیت (TVET) کے شعبے میں ہم نے کئی اہم سنگِ میل عبور کرلیے ہیں مگر عالمی سطح یا کم از کم ہمسایہ ملکوں کے برابر آنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
جرمنی میں انڈسٹری کی مدد سے فنی تربیت کا بہترین نظام رائج ہے، آسٹریلیا کا ووکیشنل کوالیفکیشن فریم ورک بہترین سمجھا جاتا ہے، برطانیہ میں صنعتکاروں پر مشتمل سیکٹر اسکل کونسلز بہت فعّال ہیں اور فنی تعلیم و تربیت کے شعبے میں بھرپور کردار ادا کرتی ہیں۔ چین اور کوریا کی اقتصادی ترقّی میں TVETسیکٹر کا کلیدی کردار ہے۔ ملائیشیا اور ترکی نے اسی کی مدد سے اپنے ملکوں میں غربت کا خاتمہ کیا ہے، سنگاپور کے ماہرین سے ان کی ترقّی کا راز پوچھیں تو وہ سیاسی قیادت کے بعد انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن (ITE) سنگاپور کا نام لیتے ہیں، فلپائن ہوٹلنگ اور ہاسپیٹیلیٹی سیکٹر میں ایک رول ماڈل بن گیا ہے۔
سری لنکا فنی تربیت کے جدید طریقے یعنی CBTاور Recognition of Prior Learningمیں پورے ساؤتھ ایشیا سے آگے نکل گیا ہے۔ ہمیں بھی ان کامیاب تجربات سے سیکھنے اور Best practicesکو اپنانے کی ضرورت ہے اوریہی ضرورت اسلام آباد میں انٹرنیشنل TVETکانفرنس کے انعقاد کا محرّک بنی۔
جنوبی ایشیا کے دونوں ایٹمی ملکوںکے درمیان کشیدگی عروج پر تھی اور بھارت کی جنونی حکومت نے کشمیری نوجوانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کے بعد پاکستان کی سرحد پر چھیڑ چھاڑ شروع کررکھی تھی ۔اِن حالات میں ایک ملک نے آنے سے معذرت کی تو خدشہ ہوا کہ شائد کوئی بھی نہ آئے مگر اسٹاف کو متحرّک کیا گیا، باقی ملکوں کو سیکیورٹی کے اصل حالات اور میڈیا کی مبالغہ آمیزیوں سے آگاہ کرکے انھیں شرکت پر آمادہ کیا گیا۔
تین اکتوبر کی صبح لوگوںنے اسلام آباد کے پنج ستارہ ہوٹل کا کھچا کھچ بھرا ہوا ہا ل دیکھ کر خوشگوار حیرت کا اظہار کیا۔بڑی تعداد میں سفارتکار، صنعتکار اور حکومتی اہلکار موجود تھے سب نے اس کا خاص طور پر ذکر کیاکہ تمام اسٹیک ہولڈرز یعنی ملک کے نامور صنعتکار، فنی تربیت کے اداروں کے سربراہان، حکومتی نمایندے اور صوبائی TEVTAکے سینئر افسران ایک چھت تلے موجود ہیں۔
افتتاحی تقریب کے آغاز میں سورۂ رحمٰن کی آیات نے پورے ہال پر سحر طاری کردیا۔راقم کوخطاب کے لیے بلایا گیا تو مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے فوراً بعد کہاکہ "یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ پندرہ ملکوں کے نمایندوں کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے اصل پاکستان دیکھ لیں جو اُس پاکستان سے بالکل مختلف ہے جو وہ ٹی وی اسکرین پر دیکھتے ہیں وہ خوددیکھ لیں گے کہ اصل پاکستان اُنکے تصوّر سے کہیں زیادہ خوبصورت اور کہیں زیادہ محفوظ اورپرامن ہے" پھر فنی تعلیم و تربیت کے شعبے کو درپیش چیلنجز کی نشاندہی کی گئی کہ "اس شعبے میں ریگولیشن، یکساں معیار کا قیام، تربیت کا پست معیار، عالمی سطح کے تربیتی اداروں کا فقدان، انڈسٹری کا عدمِ تعاون اور تربیت یافتہ نوجوانوں کو روزگار اور کاروبارکے لیے مددکی فراہمی ہمارے بڑے چیلنجز ہیں جنکا حل ہمیں دوسرے ملکوں کے تعاون اور مشترکہ کوششوں سے ڈھونڈنا ہے اور ہم اس ہال میں ایک دوسرے سے سیکھنے کے لیے جمع ہوئے ہیں"۔
اسٹیج پر وزیرِ تعلیم انجینئر بلیغ الرحمان، اسلام آباد کے نومنتحب مئیر عنصر عزیز، جرمنی، سری لنکا اور تاجکستان کے سفیر موجود تھے، بلیغ الرحمان صاحب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ناطے موضوع پر مکمل دسترس رکھتے ہیں، انھوں نے اس کے مختلف پہلوؤں کا بڑی تفصیل سے احاطہ کیا۔
جرمنی کی سفیر صاحبہ نے TVETسیکٹر میں اصلاحات کے لیے اپنی اور یورپین یونین کی سپورٹ اور تعاون جاری رکھنے کا عندیہ دیا۔ دارلحکومت کے میئر نے اسلام آباد کی خوبصورتی کا ذکر کیا اور غیر ملکی مندوبین کو اس خوبصورت شہر میںآمد پر خوش آمدید کہا، چائے پر سفارتکار اور ملکی اور غیر ملکی مہمان کانفرنس کے حسنِ انتظام کی دل کھول کر تحسین کرتے رہے۔
کانفرنس کے بقیہ سیشن بھی بھرپور، مفید اور معلومات افزا تھے، جرمنی، آسٹریلیا، برطانیہ، چین، کوریا، ملائیشیا اور سری لنکا کے نمایندوں نے سلائیڈوں کی مدد سے اپنے اپنے کامیاب تجربات سے حاضرین کو آگاہ کیا۔ پاکستان میں اسکل ڈویلپمنٹ کے سلسلے میں انڈسٹری کے کردار کے بارے میں پاکستان کے تین معروف صنعتکاروں جناب رزاق داؤد، انڈس موٹرز کے سربراہ جناب پرویز غیاث اور کریسنٹ گروپ کے ہمایوں مظہر کا انتخاب کیا گیا تھا، تینوں نے بڑی عمدہ گفتگو کی۔
رزاق داؤد صاحب نے اپنے تربیتی ادارے DESCONکے بارے میں بھی حاضرین کو آگاہ کیا اور دوسرے صنعتکاروں کو بھی تربیتی میدان میں آگے بڑھ کر حصّہ لینے کی تحریک دی۔ پہلے روز کے اختتام پر غیر ملکی مندوبین پرکانفرنس کا بھرپور اثر تھا اور وہ باربار Amasingاور Very Impresiveکے الفاظ سے اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔ بہت سے معروف صنعتکار راقم سے ملکر کہتے رہے کہ "ہم بہت motivate ہوئے ہیںاب ہم بھی اس ملک کے نوجوانوں کو ہنر مند بنانے میں دل و جان سے حصّہ لیں گے"۔
دوسرے روز غیر ملکی مندوبین کو اسلام آباد میں واقع کنسٹرکشن ٹیکنالوجی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ(CTTI)کا دورہ کرایا گیا اور سبب نے اسے عالمی معیار کا ادارہ قرار دیا۔ اس کے بعد گروپ ڈسکشن کا سیشن تھا شرکاء کو پانچ گروپوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور ان کی بحث و تمحیص کے لیے انتہائی اہم موضوعات کا انتخاب کیا گیا تھا۔
پانچوں گروپوں نے سیر حاصل بحث کے بعد سفارشات مرتّب کیں جو ہرگروپ کے نمایندے (moderator) نے اسٹیج پر آکر سلائیڈوں کے ذریعے تمام حاضرین کے ساتھ شیئر کیں، سوالات کے جواب دیے اور اپنے نقطہء نظر کی وضاحت کی۔ مختلف گروپوں کی مرتب کردہ سفارشات ہم حکومت کے علاوہ صنعتکاروں اور تربیتی اداروں کو بھی بھجوائیں گے۔
آخری سیشن کے بعد مختلف ملکوں کے نمایندے اسٹیج پر آکر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے رہے، چند باتوں کاسب نے خاص طور پر ذکر کیا کہ "پاکستان ہماری توقع سے کہیں زیادہ خوبصورت اور ترقّی یافتہ ہے"۔" پاکستانی اعلیٰ پائے کے منتظم بھی ہیںاوربیحد مہمان نواز بھی، ہم آدھی رات کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترے تو نیوٹیک کے پانچ افسر ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے ، ہم علی الصبح تین بجے ہوٹل میں پہنچے تو اسوقت بھی نیوٹیک کے افسران ہمیں ریسیو کرنے کے لیے موجود تھے جسطرح ہمارا خیال رکھا گیا ہم کبھی نہیں بھول سکتے"، "مقررین اور موضوعات کا انتخاب بہت عمدہ تھا"۔
بہت سے شرکاء نے فیصل مسجد کے شکوہ و جلال کا خاص طور پر ذکر کیا۔ تمام شرکاء نے اسے 'عالمی معیار کی یادگار کانفرنس 'قرار دیا۔ اس عالمی کانفرنس سے پاکستان میں فنی تربیت کا معیار بلند کرنے میں مدد ملیگی اور ہمارے نوجوانوں کو بیرونِ ممالک میں روزگار ملنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ تمام غیرملکی مہمان پاکستان کے بارے میں انتہائی مثبت تاثر لے کر اور یہ عندیہ دیکر رخصت ہوئے کہ جلد ہی وہ پھر پاکستان آئیں گے۔