کربلا… نشان منزل
دیکھا جائے تو جناب امام اور ان کے رفقاء اور اہل بیت کی کربلا کے میدان میں شہادت ہر کلمہ گو کے لیے ایک قیمتی ورثہ ہے
RIYADH:
غالباً عدمؔؔ صاحب کا شعر ہے
جب خیر و شر میں دقتِ تفریق ہوگئی
بے ساختہ حسینؓ کی تخلیق ہو گئی
دیکھا جائے تو جناب امام اور ان کے رفقاء اور اہل بیت کی کربلا کے میدان میں شہادت ہر کلمہ گو کے لیے ایک قیمتی ورثہ ہے کہ اس کی معرفت ان شہداء نے ہمیں زندگی کا وہ ڈھب سکھایا جو رہتی دنیا تک زندہ، پایندہ اور رخشندہ رہے گا۔
انتہائی افسوس کی بات ہے کہ تاریخ کے پیچ و خم اور مذہب کے نام پر نفاق اور ذاتی مفادات کی تجارت کرنے والے کچھ گروہوں نے اس اجتماعی اور بیش قیمت ورثے کو بھی فرقہ بندی کی آگ کا ایندھن بنا دیا ہے۔ ہم سب کا مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ کسی بھی کلمہ گو کا دل اہل بیت کی محبت اور جناب امامؓ کی عظیم قربانی کی تحسین سے خالی نہیں ہے اور یہ علاقہ ان منطقوں میں سے ہے جو فرقوں اور عقیدوں کی تفریق سے باہر اور بالاتر ہیں۔
مجھے پروگرام کے مطابق اس بار عاشورے کے روز انقرہ یونیورسٹی کے احمد ندیم قاسمی سیمینار کے حوالے سے ترکی میں ہونا تھا اور خیال تھا کہ وہاں بچشم خود دیکھ کر احباب سے مل کر یہ جاننے کی کوشش کروں گا کہ برصغیر کے علاوہ اور اس سے قدیم تر اسلامی تاریخ اور تہذیب کے تین مراکز یعنی عرب ممالک، ایران اور ترکی میں عاشورہ محرم کو کس طرح سے دیکھا اور منایا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے چھوٹے بھائی احسن اسلام کی اچانک علالت کی وجہ سے مجھے رکنا پڑ گیا ہے۔
دنیا کے 26 ملکوں میں (اور کئی میں بار بار) جانے کے باوجود عجیب اتفاق ہے کہ آج تک ترکی، ایران اور بنگلہ دیش نہیں جا سکا کہ ہر بار کسی نہ کسی وجہ سے پروگرام ملتوی ہو جاتا ہے۔ یقینا اس میں بھی کوئی بہتری ہو گی اور تقدیر کی تقویم میں اس کا وقت نہیں آیا ہو گا۔ البتہ جہاں تک اردو کے مرثائی ادب کا تعلق ہے اس کی معرفت سانحۂ کربلا کی ایسی تفصیلات اہل ہنر اور صاحبان نظر نے محفوظ کر دی ہیں کہ کہیں کہیں تو آپ اپنے آپ کو اس وقت اور فضا میں موجود محسوس کرنے لگتے ہیں۔
کلاسیکی ادب میں ہر چھوٹے بڑے شاعر کے دیوان میں آپ کو مرثیے کے نمونے مل جاتے ہیں لیکن انیسویں صدی میں میر انیس مرزا دبیر اور ان کے بعض ساتھیوں نے اس صنف کو جو رفعت اور عظمت عطا کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ریڈیو، اخبارات، جرائد اور بالخصوص ٹیلی وژن میں عاشورہ محرم اور واقعۂ کربلا سے متعلق تحریریںاور پروگرام بھی کثرت سے دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں شہدائے کربلا کو بہت محبت اور عقیدت سے نہ صرف یاد کیا جاتا ہے بلکہ ان کی عظیم قربانی کو مولانا محمد علی جوہر کے اس مشہور شعر کی تفسیر بنا کر بھی پیش کیا جاتا ہے کہ؎
قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
لیکن یہاں میں سوشل میڈیا میں اس حوالے سے پوسٹ کی جانے والی بعض فتنہ انگیز اور فساد پرور ویڈیوز کی طرف اشارہ ضرور کرنا چاہوں گا جن میں فرقہ پرستی اور جاہلانہ تعصبات کے جذبات کو ہوا دی جاتی ہے۔ ان ویڈیوز کی اصل حقیقت کیا ہے؟ اور کون لوگ ان کو بناتے اور تشہیر دیتے ہیں۔ ان کے بارے میں میرے پاس کوئی مصدقہ معلومات نہیں ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ یہ جعلی ہوں اور خاص طور پر کچھ مذموم مقاصد کو پورا کرنے کے لیے تیار کی گئی ہوں مگر امر واقعہ یہی ہے کہ یہ روش بہت خطرناک اور فتنہ انگیز ہے۔ اس طرح کی نفرت انگیز باتیں ایک ایسے ردعمل کو جنم دیتی ہیں جہاں ایک کے بعد ایک غلط اور فتنہ انگیز بات سامنے آنے لگتی ہے اور یہ سارا کھیل ان عظیم اور ہر ایک کی محبوب ہستیوں کے نام پر کھیلا جاتا ہے جو اصل میں ہمارے اتحاد اور مرکزیت کی علامت ہیں۔
خیال تھا کہ اس کالم کے درمیان اور اپنے ''سلام'' سے پہلے جناب امامؓ کی بے مثال شخصیت اور عظیم قربانی کے بارے میں جدید شعرا کے کچھ ایسے اشعار بھی درج کروں گا جنہوں نے بہت زیادہ متاثر کیا ہے مگر اب اس کی گنجائش نہیں رہی سو اس فریضے کو آیندہ پر ملتوی کرتے ہوئے نظم کی صورت میں کہا گیا ایک سلام اس دعا کے ساتھ پیش خدمت ہے کہ رب کریم ہم سب کو اس عظیم قربانی کی روح کو سمجھنے اور اسے اس دینی اور قومی اتحاد کا نشان منزل بنانے کی توفیق دے جس کے یہ جنتی لوگ علمبردار تھے اور جو ہمارے پیارے رسولؐ اور آقائے دوجہاں کے پیغام کی ایک عملی اور روشن تفسیر ہے۔ یہ سلام سات مارچ 1971ء کو لکھا گیا تھا لیکن آج 45 برس گزرنے کے بعد بھی اس کی ایک ایک سطر آج ہی کی لکھی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ دعا ہے کہ رب کریم ہماری کوتاہیوں کو معاف اور مشکلوں کو آسان کرے کہ بقول حالی؎
اے خاصۂ خاصان رُسل وقت دعا ہے
اُمت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
خدا وہ وقت جلد لائے کہ ہم فرقوں اور گروہوں کی تفریق سے بالاتر ہوکر اپنے دین اور کربلا کے اصل پیغام کو سمجھ پائیں۔
میں نوحہ گر ہوں
میں اپنے چاروں طرف بکھرتے ہوئے زمانوں کا نوحہ گر ہوں
میں آنے والی رتوں کے دامن میں عورتوں کی
اداس باہوں کو دیکھتا ہوں
اور ان کے بچوں کی تیز چیخوں کو سن رہا ہوں
اور ان کے مردوں کی سرد لاشوں کو گن رہا ہوں
زمیں کے گولے پہ زرد، کالے تمام نقطے لہو کی سرخی میں جل رہے ہیں
نئی زمینوں کے خواب لے کر مسافران بقا
یادوں کے رہگزاروں میں چل رہے ہیں
میں نوحہ گر ہوں مسافروں کا جو اپنے رستے سے بے خبر ہیں
میں ہوش والوں کی بے حواسی کا نوحہ گرہوں
حسینؓ! میں اپنے ساتھیوں کی سیہ لباسی کا نوحہ گرہوں
ہمارے آگے بھی کربلا ہے! ہمارے پیچھے بھی کربلا ہے
حسینؓ! میں اپنے کارواں کی جہت شناسی کا نوحہ گر ہوں
نئے یزیدوں کو فاش کرنا ہے کام میرا
تیرے سفر کی جراحتوں سے
ملا ہے مجھ کو مقام میرا
حسینؓ! تجھ کو سلام میرا
حسینؓ! تجھ کو سلام میرا۔
غالباً عدمؔؔ صاحب کا شعر ہے
جب خیر و شر میں دقتِ تفریق ہوگئی
بے ساختہ حسینؓ کی تخلیق ہو گئی
دیکھا جائے تو جناب امام اور ان کے رفقاء اور اہل بیت کی کربلا کے میدان میں شہادت ہر کلمہ گو کے لیے ایک قیمتی ورثہ ہے کہ اس کی معرفت ان شہداء نے ہمیں زندگی کا وہ ڈھب سکھایا جو رہتی دنیا تک زندہ، پایندہ اور رخشندہ رہے گا۔
انتہائی افسوس کی بات ہے کہ تاریخ کے پیچ و خم اور مذہب کے نام پر نفاق اور ذاتی مفادات کی تجارت کرنے والے کچھ گروہوں نے اس اجتماعی اور بیش قیمت ورثے کو بھی فرقہ بندی کی آگ کا ایندھن بنا دیا ہے۔ ہم سب کا مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ کسی بھی کلمہ گو کا دل اہل بیت کی محبت اور جناب امامؓ کی عظیم قربانی کی تحسین سے خالی نہیں ہے اور یہ علاقہ ان منطقوں میں سے ہے جو فرقوں اور عقیدوں کی تفریق سے باہر اور بالاتر ہیں۔
مجھے پروگرام کے مطابق اس بار عاشورے کے روز انقرہ یونیورسٹی کے احمد ندیم قاسمی سیمینار کے حوالے سے ترکی میں ہونا تھا اور خیال تھا کہ وہاں بچشم خود دیکھ کر احباب سے مل کر یہ جاننے کی کوشش کروں گا کہ برصغیر کے علاوہ اور اس سے قدیم تر اسلامی تاریخ اور تہذیب کے تین مراکز یعنی عرب ممالک، ایران اور ترکی میں عاشورہ محرم کو کس طرح سے دیکھا اور منایا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے چھوٹے بھائی احسن اسلام کی اچانک علالت کی وجہ سے مجھے رکنا پڑ گیا ہے۔
دنیا کے 26 ملکوں میں (اور کئی میں بار بار) جانے کے باوجود عجیب اتفاق ہے کہ آج تک ترکی، ایران اور بنگلہ دیش نہیں جا سکا کہ ہر بار کسی نہ کسی وجہ سے پروگرام ملتوی ہو جاتا ہے۔ یقینا اس میں بھی کوئی بہتری ہو گی اور تقدیر کی تقویم میں اس کا وقت نہیں آیا ہو گا۔ البتہ جہاں تک اردو کے مرثائی ادب کا تعلق ہے اس کی معرفت سانحۂ کربلا کی ایسی تفصیلات اہل ہنر اور صاحبان نظر نے محفوظ کر دی ہیں کہ کہیں کہیں تو آپ اپنے آپ کو اس وقت اور فضا میں موجود محسوس کرنے لگتے ہیں۔
کلاسیکی ادب میں ہر چھوٹے بڑے شاعر کے دیوان میں آپ کو مرثیے کے نمونے مل جاتے ہیں لیکن انیسویں صدی میں میر انیس مرزا دبیر اور ان کے بعض ساتھیوں نے اس صنف کو جو رفعت اور عظمت عطا کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ریڈیو، اخبارات، جرائد اور بالخصوص ٹیلی وژن میں عاشورہ محرم اور واقعۂ کربلا سے متعلق تحریریںاور پروگرام بھی کثرت سے دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں شہدائے کربلا کو بہت محبت اور عقیدت سے نہ صرف یاد کیا جاتا ہے بلکہ ان کی عظیم قربانی کو مولانا محمد علی جوہر کے اس مشہور شعر کی تفسیر بنا کر بھی پیش کیا جاتا ہے کہ؎
قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
لیکن یہاں میں سوشل میڈیا میں اس حوالے سے پوسٹ کی جانے والی بعض فتنہ انگیز اور فساد پرور ویڈیوز کی طرف اشارہ ضرور کرنا چاہوں گا جن میں فرقہ پرستی اور جاہلانہ تعصبات کے جذبات کو ہوا دی جاتی ہے۔ ان ویڈیوز کی اصل حقیقت کیا ہے؟ اور کون لوگ ان کو بناتے اور تشہیر دیتے ہیں۔ ان کے بارے میں میرے پاس کوئی مصدقہ معلومات نہیں ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ یہ جعلی ہوں اور خاص طور پر کچھ مذموم مقاصد کو پورا کرنے کے لیے تیار کی گئی ہوں مگر امر واقعہ یہی ہے کہ یہ روش بہت خطرناک اور فتنہ انگیز ہے۔ اس طرح کی نفرت انگیز باتیں ایک ایسے ردعمل کو جنم دیتی ہیں جہاں ایک کے بعد ایک غلط اور فتنہ انگیز بات سامنے آنے لگتی ہے اور یہ سارا کھیل ان عظیم اور ہر ایک کی محبوب ہستیوں کے نام پر کھیلا جاتا ہے جو اصل میں ہمارے اتحاد اور مرکزیت کی علامت ہیں۔
خیال تھا کہ اس کالم کے درمیان اور اپنے ''سلام'' سے پہلے جناب امامؓ کی بے مثال شخصیت اور عظیم قربانی کے بارے میں جدید شعرا کے کچھ ایسے اشعار بھی درج کروں گا جنہوں نے بہت زیادہ متاثر کیا ہے مگر اب اس کی گنجائش نہیں رہی سو اس فریضے کو آیندہ پر ملتوی کرتے ہوئے نظم کی صورت میں کہا گیا ایک سلام اس دعا کے ساتھ پیش خدمت ہے کہ رب کریم ہم سب کو اس عظیم قربانی کی روح کو سمجھنے اور اسے اس دینی اور قومی اتحاد کا نشان منزل بنانے کی توفیق دے جس کے یہ جنتی لوگ علمبردار تھے اور جو ہمارے پیارے رسولؐ اور آقائے دوجہاں کے پیغام کی ایک عملی اور روشن تفسیر ہے۔ یہ سلام سات مارچ 1971ء کو لکھا گیا تھا لیکن آج 45 برس گزرنے کے بعد بھی اس کی ایک ایک سطر آج ہی کی لکھی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ دعا ہے کہ رب کریم ہماری کوتاہیوں کو معاف اور مشکلوں کو آسان کرے کہ بقول حالی؎
اے خاصۂ خاصان رُسل وقت دعا ہے
اُمت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
خدا وہ وقت جلد لائے کہ ہم فرقوں اور گروہوں کی تفریق سے بالاتر ہوکر اپنے دین اور کربلا کے اصل پیغام کو سمجھ پائیں۔
میں نوحہ گر ہوں
میں اپنے چاروں طرف بکھرتے ہوئے زمانوں کا نوحہ گر ہوں
میں آنے والی رتوں کے دامن میں عورتوں کی
اداس باہوں کو دیکھتا ہوں
اور ان کے بچوں کی تیز چیخوں کو سن رہا ہوں
اور ان کے مردوں کی سرد لاشوں کو گن رہا ہوں
زمیں کے گولے پہ زرد، کالے تمام نقطے لہو کی سرخی میں جل رہے ہیں
نئی زمینوں کے خواب لے کر مسافران بقا
یادوں کے رہگزاروں میں چل رہے ہیں
میں نوحہ گر ہوں مسافروں کا جو اپنے رستے سے بے خبر ہیں
میں ہوش والوں کی بے حواسی کا نوحہ گرہوں
حسینؓ! میں اپنے ساتھیوں کی سیہ لباسی کا نوحہ گرہوں
ہمارے آگے بھی کربلا ہے! ہمارے پیچھے بھی کربلا ہے
حسینؓ! میں اپنے کارواں کی جہت شناسی کا نوحہ گر ہوں
نئے یزیدوں کو فاش کرنا ہے کام میرا
تیرے سفر کی جراحتوں سے
ملا ہے مجھ کو مقام میرا
حسینؓ! تجھ کو سلام میرا
حسینؓ! تجھ کو سلام میرا۔