اسلحہ کلچر
گزشتہ دنوں کراچی کے علاقے عزیز آباد میں ایک مکان سے شہر کی تاریخ میں اسلحے کی سب سے بڑی کھیپ پکڑی گئی۔
گزشتہ دنوں کراچی کے علاقے عزیز آباد میں ایک مکان سے شہر کی تاریخ میں اسلحے کی سب سے بڑی کھیپ پکڑی گئی۔ یہ اسلحے ایک ایسے مکان سے برآمد ہوا جو جنوری 2015 سے بند پڑا تھا ۔ اسلحہ میں اینٹی ایئر کرافٹ گن، ایل ایم جی، ایس ایم جی، ایم 16 رائفل، اسنائپر گن اور ہزاروں کی تعداد میں رائفل گرنیڈ اور مختلف اقسام کے ہزاروں کارتوس اور گولیاں بھی شامل ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ گھر سے جتنا اسلحہ برآمد ہوا ہے اتنا کراچی کی تاریخ میں اب تک کسی کارروائی میں نہیں پکڑا گیا۔ یہ اسلحہ شہر کا امن و امان خراب کرنے کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔ پولیس ذرایع کے مطابق یہ اسلحہ افغانستان میں نیٹو کے زیر استعمال اسلحے کے معیار کا ہے اور کراچی کے سیاسی حلقوں میں یہ افواہ گردش کرنے لگی ہے کہ سابق دور میں نیٹو کے کنٹینرز غائب ہوئے تھے اور جن چند کنٹینروں میں اسلحہ تھا، ان کا کوئی سراغ نہ مل سکا تھا، کیا یہ وہی اسلحہ ہے؟ اب یہ قیاس آرائی ہے اور قیاس آرائیوں کی بہتی گنگا میں نے بھی ہاتھ دھو لیے۔ ورنہ تو ملک میںعدالتیں ہیں، سیکیورٹی ادارے ہیں اور انتظامی ڈھانچہ ہے جسے یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ کون مجرم ہے اور کون ملزم۔
خبر یہ نہیں کہ اتنی بھاری تعداد میں اسلحہ پکڑا گیا ہے بلکہ خبر یہ ہے کہ یہ اسلحہ پولیس کی زیر حراست چند افراد کی نشان دہی پر برآمد کیا گیا ہے اور اس برآمد کیے جانے والے اسلحے کا مقدمہ'' نامعلوم افراد''کے خلاف درج کر لیا گیا ہے۔پاکستان میں غیر قانونی یا غیر لائسنس یافتہ اسلحہ رکھنے کی سزا کیا ہے، محض چند روپے جرمانہ اور معمولی قید، اسی لیے تو مجرم کٹہرے میں لانے سے پہلے ہی مک مکا کر لیتے ہیں یا نامعلوم افراد کہہ کر چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ اسلحہ برآمدگی پر دی جانے والی بریفنگ کو دیکھیے اور اندازہ کیجیے کہ عوام کی آنکھوں میں کیسے دھول جھونکی جاتی ہے۔
یہ اسلحہ کراچی کے عزیز آباد نامی علاقے کے ایک مکان سے برآمد ہوا۔ عزیز آباد کس سیاسی جماعت کا گڑھ رہا ہے، وہاں سیکیورٹی موجود ہے۔ مگر کراچی پولیس حکام کی نظر میں یہ سب '' نامعلوم افراد'' تھے اور ہیں۔ پولیس حکام ہی کا کہنا ہے کہ جس مکان سے اسلحہ برآمد ہو ا ، اسے فروخت کرنے والے نے بتایا کہ یہ مکان اس نے ایک سیاسی جماعت کے دباؤ پر فروخت کیا تھا، اس مکان کے موجودہ مالک تک بھی پولیس رسائی حاصل کر چکی ہے۔ میرے نزدیک یہ ہی اصلی خبر ہے، اس لیے ہے کہ اتنی ڈھیر ساری ''معلومات'' کے باوجود پولیس نے مقدمہ ''نامعلوم افراد'' کے خلاف درج کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک یہ ''معلوم'' افراد ''نامعلوم'' رہیں گے؟
ان نامعلوم افراد ہی کی وجہ سے آج پاکستان میں غیر قانونی ہتھیاروں کی تعداد لگ بھگ ڈھائی کروڑ ہے جن میںسے ڈیڑھ کروڑ سے زائد بغیر لائسنس ہتھیار ہیں۔ ان ہتھیاروں کے بارے میں حکومت کے پاس کوئی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ پاکستان میں غیر قانونی اسلحہ کا سب بڑا ذریعہ افغانستان ہے، ملک میں کلاشنکوف کلچر کی وجہ افغان لڑائی ہے۔
وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ درہ آدم خیل، بلوچستان اور پنجاب کے زیرانتظام قبائلی علاقوں میں بھی غیر قانونی طور پر ہتھیار تیار کیے جاتے ہیں اور حالات یہ بھی ہیں کہ پاکستان میں جگہ جگہ غیر قانونی اسلحہ ورکشاپیں قائم ہیں، جہاں اسکریپ سے لوہے سے ایسی کلاشنکوف رائفلیں تیار کی جاتی ہیں، جو اسمارٹ فون سے بھی سستی ہوتی ہیں۔اصل ایم پی فائیو مشین گن کی قیمت ہزاروں ڈالر ہے جب کہ مقامی افراد کی تیار کردہ گن سات ہزار روپے میں مل جاتی ہے ۔
ایک تحقیق کے مطابق لاہور میں ناجائز اسلحہ کی آمد آج بھی جاری ہے۔ منشیات کی طرح اسلحہ بھی بسوں اور ٹرکوں کے ذریعے آرہا ہے اور اس کی بڑی وجہ نہ ہونے کے برابر سزا اور جرمانہ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق خیبر پختونخواہ کے قبائلی علاقوں میں غیر قانونی اسلحہ لوہے کے وزن کے حساب سے تیارکیا جاتا ہے، جو لاہور میں دگنی قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے۔ رائیونڈ، مانگا منڈی، شاہدرہ، شفیق آباد اور نیلاگنبد ناجائز اسلحے کی بڑی مارکیٹیں ہیں۔
لوگ طاقت کا مظاہرہ کرتے اور شوقیہ طور پر ناجائز اسلحہ رکھتے ہیں جب کہ ناجائز اسلحے پر دی جانے والی سزا 6ماہ کی ہے اور معمولی جرمانے سے لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب کہ دنیا بھر میں اس حوالے سے سخت ترین قوانین بنائے گئے ہیں، ابھی حال ہی میں لندن میں غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے جرم میں 2 پاکستانی نژاد شہریوں کو 16 سال تک کی سزا سنا دی گئی ہے۔ امریکا میں آج کل غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے حوالے سے سخت قوانین بنانے کے حوالے سے بحث کی جارہی ہے۔
بھارت جسے ہم اپنے سے کم تر ملک سمجھتے ہیں وہاں بھی قانون کی پاسداری اور اسلحہ کے حوالے سے سخت قوانین موجود ہیں، سنجے دت کو بھی اس حوالے جیل کی ہوا کھانا پڑی ہے۔ آپ یہ جان کر بھی حیران ہوں گے کہ ایک کروڑ سے زائد آبادی کے شہر میں صرف 3سو رجسٹرڈ اسلحہ ڈیلر ہیں۔ لاہور میں غیر قانونی اسلحے کی دھڑا دھڑ آمد اور مہلک استعمال کو روکنے کے لیے جہاں نئے قواعد و ضوابط کی انتہائی ضرورت ہے، وہیں اس پر سختی سے عمل درآمد بھی اتنا ہی اہم ہے۔
اگر ملک کو اسلحے سے پاک کر دیا جائے تو یہ ملک امن کا گہوارہ بن سکتا ہے مگر افسوس اس حوالے سے کبھی کسی حکومت نے سنجیدگی کا مظاہر ہ نہیں کیا ۔ غیرقانونی اسلحے کے خلاف پہلاآپریشن 80 کی دہائی کے وسط میں کیا گیا تھا، مگر یہ آپریشن بری طرح ناکام ہوا۔ اسلحہ کے خلاف دوسراآپریشن بے نظیربھٹوکی دوسری حکومت میں 90 کی دہائی کے وسط میں شروع کیا گیا۔ غیرقانونی اسلحہ سے صاف کرنے کے لیے تیسر ا آپریشن میاں نواز شریف کے دوسرے دورحکومت میں شروع ہوا، مگر سیاسی دباؤ کاشکار ہوکراس آپریشن کو روکنا پڑا۔
جنرل(ر) پرویزمشرف کے دورمیں حکومت کی جانب سے باقاعدہ طورپرقومی سطح پر ''آرمز کنٹرول پروگرام'' شروع کیا گیا، جس کا مقصد شہریوںسے غیرقانونی اسلحہ کی ضبطی کے ذریعے ایک مہم شروع کرنا تھا۔ اس حوالے سے جون 2001میں حکومت کی جانب سے غیرقانونی اسلحہ رکھنے والے افراد کو رضاکارانہ طورپراسلحہ جمع کراکرعام معافی کااعلان کرکے دوہفتے کی مہلت دی گئی، مگریہ مہم بھی بری طرح ناکام ہوگئی۔
موجودہ حکومت سے بھی تمام سیاسی ودینی جماعتوں، غیرسرکاری تنظیموں اورشہریوں کی جانب سے کراچی کو اسلحے سے پاک کرنے کامطالبہ بار بار کیا گیا، جس کے بعد سندھ حکومت نے کراچی کو اسلحے سے پاک کرنے کی مہم کا آغاز کیا، جو گزشتہ سال 26 ستمبر سے 12اکتوبر تک پندرہ روز جاری رہی۔ اس مہم پر سندھ حکومت کی جانب سے 30 کروڑ روپے خرچ کیے گئے، لیکن دو کروڑ آبادی والے شہر کراچی سے 15 روزہ اس مہم کے دوران صرف 16 افراد نے اپنے ہتھیار جمع کرائے۔
اب اگر پولیس کے زیر حراست افراد کی نشان دہی پر یہ بھاری تعداد میں اسلحہ برآمد کر ہی لیا گیا ہے تو صاحبان اقتدار اتنا تو معلوم کر کے عوام کو بتا دیں کہ نامعلوم افراد نے یہ اسلحہ کن مقاصد کے لیے ذخیرہ کیا تھا۔ ؟مگرمعلوم یہ ہو رہا ہے کہ شاید اب ایسا کرنے میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑے یاکچھ دنوں بعد معاملہ ویسے ہی ٹھنڈا ہو جائے،اور نامعلوم افراد کو '' معلوم '' کرنے کی نوبت ہی نہ آئے، ادھر بلاول بھٹو زرداری نے'' انکل الطاف'' کو کراچی کی '' حقیقت'' مان لیا ہے، اور کراچی صوبہ سندھ کا صدر مقام ہے جس کا پایہ تخت اس وقت بلاول بھٹو زرداری کے قدموں تلے ہے۔
بلاول اب کافی سمجھ دار بلکہ ہوشیار ہو گیا ہے، اور بھٹوز کی سیاست اور زرداری کی سیاست دونوں کی لاج رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔بحرکیف اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے سنجیدہ کوششیں کی جائیں اور نئے قوانین بنا کر ان پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے تاکہ غیر محفوظ ہوتے ملک کو محفوظ بنایا جاسکے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ گھر سے جتنا اسلحہ برآمد ہوا ہے اتنا کراچی کی تاریخ میں اب تک کسی کارروائی میں نہیں پکڑا گیا۔ یہ اسلحہ شہر کا امن و امان خراب کرنے کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔ پولیس ذرایع کے مطابق یہ اسلحہ افغانستان میں نیٹو کے زیر استعمال اسلحے کے معیار کا ہے اور کراچی کے سیاسی حلقوں میں یہ افواہ گردش کرنے لگی ہے کہ سابق دور میں نیٹو کے کنٹینرز غائب ہوئے تھے اور جن چند کنٹینروں میں اسلحہ تھا، ان کا کوئی سراغ نہ مل سکا تھا، کیا یہ وہی اسلحہ ہے؟ اب یہ قیاس آرائی ہے اور قیاس آرائیوں کی بہتی گنگا میں نے بھی ہاتھ دھو لیے۔ ورنہ تو ملک میںعدالتیں ہیں، سیکیورٹی ادارے ہیں اور انتظامی ڈھانچہ ہے جسے یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ کون مجرم ہے اور کون ملزم۔
خبر یہ نہیں کہ اتنی بھاری تعداد میں اسلحہ پکڑا گیا ہے بلکہ خبر یہ ہے کہ یہ اسلحہ پولیس کی زیر حراست چند افراد کی نشان دہی پر برآمد کیا گیا ہے اور اس برآمد کیے جانے والے اسلحے کا مقدمہ'' نامعلوم افراد''کے خلاف درج کر لیا گیا ہے۔پاکستان میں غیر قانونی یا غیر لائسنس یافتہ اسلحہ رکھنے کی سزا کیا ہے، محض چند روپے جرمانہ اور معمولی قید، اسی لیے تو مجرم کٹہرے میں لانے سے پہلے ہی مک مکا کر لیتے ہیں یا نامعلوم افراد کہہ کر چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ اسلحہ برآمدگی پر دی جانے والی بریفنگ کو دیکھیے اور اندازہ کیجیے کہ عوام کی آنکھوں میں کیسے دھول جھونکی جاتی ہے۔
یہ اسلحہ کراچی کے عزیز آباد نامی علاقے کے ایک مکان سے برآمد ہوا۔ عزیز آباد کس سیاسی جماعت کا گڑھ رہا ہے، وہاں سیکیورٹی موجود ہے۔ مگر کراچی پولیس حکام کی نظر میں یہ سب '' نامعلوم افراد'' تھے اور ہیں۔ پولیس حکام ہی کا کہنا ہے کہ جس مکان سے اسلحہ برآمد ہو ا ، اسے فروخت کرنے والے نے بتایا کہ یہ مکان اس نے ایک سیاسی جماعت کے دباؤ پر فروخت کیا تھا، اس مکان کے موجودہ مالک تک بھی پولیس رسائی حاصل کر چکی ہے۔ میرے نزدیک یہ ہی اصلی خبر ہے، اس لیے ہے کہ اتنی ڈھیر ساری ''معلومات'' کے باوجود پولیس نے مقدمہ ''نامعلوم افراد'' کے خلاف درج کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک یہ ''معلوم'' افراد ''نامعلوم'' رہیں گے؟
ان نامعلوم افراد ہی کی وجہ سے آج پاکستان میں غیر قانونی ہتھیاروں کی تعداد لگ بھگ ڈھائی کروڑ ہے جن میںسے ڈیڑھ کروڑ سے زائد بغیر لائسنس ہتھیار ہیں۔ ان ہتھیاروں کے بارے میں حکومت کے پاس کوئی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ پاکستان میں غیر قانونی اسلحہ کا سب بڑا ذریعہ افغانستان ہے، ملک میں کلاشنکوف کلچر کی وجہ افغان لڑائی ہے۔
وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ درہ آدم خیل، بلوچستان اور پنجاب کے زیرانتظام قبائلی علاقوں میں بھی غیر قانونی طور پر ہتھیار تیار کیے جاتے ہیں اور حالات یہ بھی ہیں کہ پاکستان میں جگہ جگہ غیر قانونی اسلحہ ورکشاپیں قائم ہیں، جہاں اسکریپ سے لوہے سے ایسی کلاشنکوف رائفلیں تیار کی جاتی ہیں، جو اسمارٹ فون سے بھی سستی ہوتی ہیں۔اصل ایم پی فائیو مشین گن کی قیمت ہزاروں ڈالر ہے جب کہ مقامی افراد کی تیار کردہ گن سات ہزار روپے میں مل جاتی ہے ۔
ایک تحقیق کے مطابق لاہور میں ناجائز اسلحہ کی آمد آج بھی جاری ہے۔ منشیات کی طرح اسلحہ بھی بسوں اور ٹرکوں کے ذریعے آرہا ہے اور اس کی بڑی وجہ نہ ہونے کے برابر سزا اور جرمانہ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق خیبر پختونخواہ کے قبائلی علاقوں میں غیر قانونی اسلحہ لوہے کے وزن کے حساب سے تیارکیا جاتا ہے، جو لاہور میں دگنی قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے۔ رائیونڈ، مانگا منڈی، شاہدرہ، شفیق آباد اور نیلاگنبد ناجائز اسلحے کی بڑی مارکیٹیں ہیں۔
لوگ طاقت کا مظاہرہ کرتے اور شوقیہ طور پر ناجائز اسلحہ رکھتے ہیں جب کہ ناجائز اسلحے پر دی جانے والی سزا 6ماہ کی ہے اور معمولی جرمانے سے لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب کہ دنیا بھر میں اس حوالے سے سخت ترین قوانین بنائے گئے ہیں، ابھی حال ہی میں لندن میں غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے جرم میں 2 پاکستانی نژاد شہریوں کو 16 سال تک کی سزا سنا دی گئی ہے۔ امریکا میں آج کل غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے حوالے سے سخت قوانین بنانے کے حوالے سے بحث کی جارہی ہے۔
بھارت جسے ہم اپنے سے کم تر ملک سمجھتے ہیں وہاں بھی قانون کی پاسداری اور اسلحہ کے حوالے سے سخت قوانین موجود ہیں، سنجے دت کو بھی اس حوالے جیل کی ہوا کھانا پڑی ہے۔ آپ یہ جان کر بھی حیران ہوں گے کہ ایک کروڑ سے زائد آبادی کے شہر میں صرف 3سو رجسٹرڈ اسلحہ ڈیلر ہیں۔ لاہور میں غیر قانونی اسلحے کی دھڑا دھڑ آمد اور مہلک استعمال کو روکنے کے لیے جہاں نئے قواعد و ضوابط کی انتہائی ضرورت ہے، وہیں اس پر سختی سے عمل درآمد بھی اتنا ہی اہم ہے۔
اگر ملک کو اسلحے سے پاک کر دیا جائے تو یہ ملک امن کا گہوارہ بن سکتا ہے مگر افسوس اس حوالے سے کبھی کسی حکومت نے سنجیدگی کا مظاہر ہ نہیں کیا ۔ غیرقانونی اسلحے کے خلاف پہلاآپریشن 80 کی دہائی کے وسط میں کیا گیا تھا، مگر یہ آپریشن بری طرح ناکام ہوا۔ اسلحہ کے خلاف دوسراآپریشن بے نظیربھٹوکی دوسری حکومت میں 90 کی دہائی کے وسط میں شروع کیا گیا۔ غیرقانونی اسلحہ سے صاف کرنے کے لیے تیسر ا آپریشن میاں نواز شریف کے دوسرے دورحکومت میں شروع ہوا، مگر سیاسی دباؤ کاشکار ہوکراس آپریشن کو روکنا پڑا۔
جنرل(ر) پرویزمشرف کے دورمیں حکومت کی جانب سے باقاعدہ طورپرقومی سطح پر ''آرمز کنٹرول پروگرام'' شروع کیا گیا، جس کا مقصد شہریوںسے غیرقانونی اسلحہ کی ضبطی کے ذریعے ایک مہم شروع کرنا تھا۔ اس حوالے سے جون 2001میں حکومت کی جانب سے غیرقانونی اسلحہ رکھنے والے افراد کو رضاکارانہ طورپراسلحہ جمع کراکرعام معافی کااعلان کرکے دوہفتے کی مہلت دی گئی، مگریہ مہم بھی بری طرح ناکام ہوگئی۔
موجودہ حکومت سے بھی تمام سیاسی ودینی جماعتوں، غیرسرکاری تنظیموں اورشہریوں کی جانب سے کراچی کو اسلحے سے پاک کرنے کامطالبہ بار بار کیا گیا، جس کے بعد سندھ حکومت نے کراچی کو اسلحے سے پاک کرنے کی مہم کا آغاز کیا، جو گزشتہ سال 26 ستمبر سے 12اکتوبر تک پندرہ روز جاری رہی۔ اس مہم پر سندھ حکومت کی جانب سے 30 کروڑ روپے خرچ کیے گئے، لیکن دو کروڑ آبادی والے شہر کراچی سے 15 روزہ اس مہم کے دوران صرف 16 افراد نے اپنے ہتھیار جمع کرائے۔
اب اگر پولیس کے زیر حراست افراد کی نشان دہی پر یہ بھاری تعداد میں اسلحہ برآمد کر ہی لیا گیا ہے تو صاحبان اقتدار اتنا تو معلوم کر کے عوام کو بتا دیں کہ نامعلوم افراد نے یہ اسلحہ کن مقاصد کے لیے ذخیرہ کیا تھا۔ ؟مگرمعلوم یہ ہو رہا ہے کہ شاید اب ایسا کرنے میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑے یاکچھ دنوں بعد معاملہ ویسے ہی ٹھنڈا ہو جائے،اور نامعلوم افراد کو '' معلوم '' کرنے کی نوبت ہی نہ آئے، ادھر بلاول بھٹو زرداری نے'' انکل الطاف'' کو کراچی کی '' حقیقت'' مان لیا ہے، اور کراچی صوبہ سندھ کا صدر مقام ہے جس کا پایہ تخت اس وقت بلاول بھٹو زرداری کے قدموں تلے ہے۔
بلاول اب کافی سمجھ دار بلکہ ہوشیار ہو گیا ہے، اور بھٹوز کی سیاست اور زرداری کی سیاست دونوں کی لاج رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔بحرکیف اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے سنجیدہ کوششیں کی جائیں اور نئے قوانین بنا کر ان پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے تاکہ غیر محفوظ ہوتے ملک کو محفوظ بنایا جاسکے۔