استعفے کیوں نہیں دیتے
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان گزشتہ 6 ماہ سے پاناما لیکس کے ایشو پر مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان گزشتہ 6 ماہ سے پاناما لیکس کے ایشو پر مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ وہ ایسا کیوں نہ کریں۔ اُن کے بقول احتجاج اُن کا جمہوری حق ہے۔ ویسے بھی وہ 2014ء سے احتجاجی سیاست ہی کو اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہیں۔ پانامہ لیکس کا معاملہ نہ بھی ہوتا تو وہ کسی اورایشو پر سیاست کر رہے ہوتے، لیکن پانامہ لیکس کو وہ ایسا سنہری موقعہ سمجھ رہے ہیں جس سے وہ اپنی دھرنے والی ناکامیوں کو کامیابیوں میں بدل سکتے ہیں اور 2018ء کا الیکشن جیتنے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔
کرپشن کے خلاف اُن کے دعوے اِس لحاظ سے کوئی اہمیت نہیں رکھتے کیونکہ اُنہوں نے اپنا سارا زور صرف پانامہ پیپرز ہی تک محدود رکھا ہوا ہے۔ کہنے کو تو وہ اکثر یہ کہتے رہتے ہیں کہ پاکستان میں روزانہ دو ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے لیکن وہ اُسے ختم کرنے کی بجائے صرف میاں نواز شریف کو پانامہ لیکس کے تناظر میں اقتدار سے الگ ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اِس مقصد کے لیے وہ ہرکرپٹ شخص یا پارٹی سے بھی سمجھوتہ کرنے کو تیار ہیں۔
ان کے ارد گر د بھی ایسے لوگ جمع ہیں جن کا دامن کرپشن سے پاک نہیں۔ خان صاحب کی مشکل یہ ہے کہ کوئی اُن کے قول و فعل پر اعتبار کرنے کوتیار نہیں۔ وہ کس وقت یو ٹرن لے لیں کسی کو نہیں معلوم۔ اُنہیں ڈر لاحق ہے کہ کوئی اُن کی تحریک کو ہائی جیک نہ کر لے۔کامیاب جلسے اور جلوسوں نے اُن کے مزاج کو اور بھی آمرانہ بنا ڈالا ہے۔ وہ سولو فلائٹ ہی کے ذریعے تمام کامیابیاں اکیلے ہی سمیٹ لینے کے خواہش مند ہیں۔ جس طرح 1992ء میں کرکٹ کاورلڈ کپ جیت جانے کا سہرا وہ صرف اپنے سر باندھتے رہے ہیں۔
اِسی طرح وہ موجودہ تحریک کی کامیابی کا بھی حصول کنندہ خود کو ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کیونکہ ایک جہاندیدہ اور مضبوط سیاسی پارٹی ہے اِس لیے خان صاحب کو یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ وہ کہیں اُن سے یہ اعزاز چھین نہ لے۔ وہ پیپلزپارٹی کو اپنے سے زیادہ دور بھی نہیں کرنا چاہتے اور اُس کی قربت سے بھی خوفزدہ ہیں۔ اُن کی شخصیت کایہ ملا جلا تاثر اُنہیں اب تک کامیاب بھی نہیں ہونے دے رہا۔ وہ بلاول بھٹو زرداری کو ساتھ ملانا بھی چاہتے ہیں لیکن اُن کے والد آصف علی زرداری کو مائنس کر دینے کی شرط کے ساتھ۔ اور شایداِسی لیے وہ اب تک تنہا اور اکیلے ہیں۔
رائے ونڈ میں کامیاب جلسے نے اُن کے اندر رعونت کو مزید تقویت بخشی ہے اور وہ اب اسلام آباد بندکر دینے کی دھمکیوں پر اُتر آئے ہیں۔ جمہوریت میں احتجاج کرنا بے شک آئینی اور دستوری ہے لیکن کسی شہر کو بند کر دینا، آئین اُس کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام آباد پاکستان کا دارالحکومت ہے۔ احتجاج کی آڑ میں انتشار پھیلا کرکسی شہر کو بند کر دینا جمہوری حق نہیں۔ نواز شریف حکومت کو گرانے کے لیے سب سے بہتر اور آسان طریقہ پارلیمنٹ سے استعفے دینے کا ہے۔
جلاؤ گھیراؤ کر کے وہ ملک اور جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہوں گے۔ جو کام وہ دو سال سے سڑکوں پر رہ کر نہیں کر پائے ہیں پارلیمنٹ سے اجتماعی استعفے کی شکل میں وہ باآسانی کر سکتے ہیں، لیکن ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ یہ آپشن استعمال کرنے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں، وہ پارلیمنٹ میں جانا بھی نہیں چاہتے۔ نواز شریف کو وزیرِ اعظم بھی نہیں مانتے۔ پھرکیوں اب تک پارلیمنٹ سے ناتا جوڑے ہوئے ہیں۔
وہ بطور پارلیمنٹیرین تمام مراعات بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اُس کے احترام اور تقدس سے بھی انکاری ہیں۔ وہ نواز شریف کو معزول بھی کرنا چاہتے ہیں لیکن جائز اور مناسب طریقوں سے نہیں۔ ہو سکتا ہے خان صاحب کے قریبی دوستوں کی یہ خواہش ہو کہ اِس طرح وہ نواز شریف سے اپنی دیرینہ دشمنی کا انتقام لے پائیں۔ مگر خان صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ اِس طرح وہ نہ ملک وقوم کی کوئی خدمت کر رہے ہوںگے اور نہ جمہوریت کی۔ انتشار اور انارکی پھیلا کر وہ غیرجمہوری قوتوں کو دعوتِ مداخلت دے رہے ہوں گے۔
خان صاحب کی پارٹی نے ویسے تو جوش و جذبات میں 2014ء میں قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیے تھے، لیکن بعد ازاں دھرنے کی ناکامی کے بعد وہ خود ہی پارلیمنٹ میں واپس آ گئے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پارلیمنٹ سے استعفے دینے کا وہ وقت قطعاً مناسب نہیں تھا۔ اُس وقت کوئی بھی دوسرا شخص اُن کی آواز میں اپنی آواز ملانے کو تیار نہ تھا۔ وہ اکیلے ہی یہ سب کچھ کر بیٹھے تھے، مگر اب صورتحال مختلف ہے۔ پانامہ کا ایشو ایک ایسا ایشو ہے جس پر اُنہیں دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ وہ اگرآج پارلیمنٹ میں اجتماعی استعفے جمع کرا دیں تو عین ممکن ہے پیپلزپارٹی بھی یہ آپشن استعمال کرنے کا سوچ بچار کر لے۔
ویسے بھی تیس پینتیس سیٹوں پر ضمنی الیکشن کروانا حکومت کے لیے آسان نہیں ہو گا۔ پھر اتنی بڑی تعداد میں اچانک ممبرانِ اسمبلی کا استعفیٰ دیدینا کسی بھی حکومت کی کریڈبیلٹی کے لیے ایک بڑا سوال پیدا کر سکتا ہے۔ خانصاحب دو برس سے جتنی توانائی اور دولت احتجاجی جلسوں اور جلوسوں پر خرچ کر رہے ہیں اور نتیجے میں ابھی تک کچھ بھی حاصل نہیں کر پائے اُنہیں چاہیے کہ اسمبلیوں سے فوراً اپنے استعفے جمع کرا دیں۔ پھر نہ کسی دھرنے کی ضرورت ہو گی اور نہ کسی شہر کو بندکر دینے کی حاجت۔ سارا مقصد چند مہینوں میں حاصل ہو جائے گا، مگر لگتا ہے خان صاحب یہ آپشن استعمال کرنے سے اِس لیے گریزاں ہیں کہ وہ خود ابھی نئے الیکشن کے لیے تیار نہیں ہیں۔
تمام سچے جھوٹے دعوؤں کے برعکس وہ اِس حقیقت سے مکمل آشنا ہیں کہ موجودہ سیاسی ماحول میں اگر نئے الیکشن ہو جاتے ہیں تو تحریکِ انصاف اُس کی متحمل نہیں ہو پائے گی۔ اُس کے پاس ایسے مضبوط اُمیدوار ہی نہیں ہیں جو اُسے اگلا الیکشن جتانے کی ضمانت دے پائیں۔ خود خیبر پختون خوا میں اُنہوں نے ابھی تک کوئی ایسا کارنامہ سرانجام نہیں دیا جس کے بل بوتے پر وہ سارے پاکستان میں حکومت کرنے کا خود کو اہل ثابت کر پائیں۔ کرپشن کے خلاف جتنی سرگرمی وہ زبانی کلامی دکھاتے ہیں عملاً اور حقیقتاً اُس کے سدباب کے لیے اُنہوں نے ابھی تک کچھ نہیں کیا۔ یہ جوش اور جذبہ صرف بیانوں اور تقریروں تک ہی محدود ہے۔
میڈیا کی مہر بانیوں نے اُنہیں اب تک پاکستانی سیاست میں سرگرم رکھا ہوا ہے ورنہ فارغ ہو چکے ہوتے۔خان صاحب کے لیے صائب اور مناسب مشورہ یہی ہے کہ اسلام آباد بند کرنے کی بجائے اسمبلیوں سے اجتماعی استعفوں پر غورکریں ورنہ ہو سکتا ہے میاںصاحب خود اسمبلیوں کو تحلیل کر دینے کا آپشن استعمال کر جائیں۔ کیونکہ انتشار اور انارکی سے نمٹنے کے لیے میاں صاحب کے پاس پھر صرف یہی ایک آپشن باقی رہ جائے گا جسے بروکار لاکر وہ مارشل لاء کا راستہ بھی روک پائیں گے اور جمہوریت کو بھی بچا پائیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون یہ آپشن پہلے استعمال کرتا ہے اورکون خود کشی کے سیاست پر عمل پیرا ہوتا ہے۔
کرپشن کے خلاف اُن کے دعوے اِس لحاظ سے کوئی اہمیت نہیں رکھتے کیونکہ اُنہوں نے اپنا سارا زور صرف پانامہ پیپرز ہی تک محدود رکھا ہوا ہے۔ کہنے کو تو وہ اکثر یہ کہتے رہتے ہیں کہ پاکستان میں روزانہ دو ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے لیکن وہ اُسے ختم کرنے کی بجائے صرف میاں نواز شریف کو پانامہ لیکس کے تناظر میں اقتدار سے الگ ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اِس مقصد کے لیے وہ ہرکرپٹ شخص یا پارٹی سے بھی سمجھوتہ کرنے کو تیار ہیں۔
ان کے ارد گر د بھی ایسے لوگ جمع ہیں جن کا دامن کرپشن سے پاک نہیں۔ خان صاحب کی مشکل یہ ہے کہ کوئی اُن کے قول و فعل پر اعتبار کرنے کوتیار نہیں۔ وہ کس وقت یو ٹرن لے لیں کسی کو نہیں معلوم۔ اُنہیں ڈر لاحق ہے کہ کوئی اُن کی تحریک کو ہائی جیک نہ کر لے۔کامیاب جلسے اور جلوسوں نے اُن کے مزاج کو اور بھی آمرانہ بنا ڈالا ہے۔ وہ سولو فلائٹ ہی کے ذریعے تمام کامیابیاں اکیلے ہی سمیٹ لینے کے خواہش مند ہیں۔ جس طرح 1992ء میں کرکٹ کاورلڈ کپ جیت جانے کا سہرا وہ صرف اپنے سر باندھتے رہے ہیں۔
اِسی طرح وہ موجودہ تحریک کی کامیابی کا بھی حصول کنندہ خود کو ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کیونکہ ایک جہاندیدہ اور مضبوط سیاسی پارٹی ہے اِس لیے خان صاحب کو یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ وہ کہیں اُن سے یہ اعزاز چھین نہ لے۔ وہ پیپلزپارٹی کو اپنے سے زیادہ دور بھی نہیں کرنا چاہتے اور اُس کی قربت سے بھی خوفزدہ ہیں۔ اُن کی شخصیت کایہ ملا جلا تاثر اُنہیں اب تک کامیاب بھی نہیں ہونے دے رہا۔ وہ بلاول بھٹو زرداری کو ساتھ ملانا بھی چاہتے ہیں لیکن اُن کے والد آصف علی زرداری کو مائنس کر دینے کی شرط کے ساتھ۔ اور شایداِسی لیے وہ اب تک تنہا اور اکیلے ہیں۔
رائے ونڈ میں کامیاب جلسے نے اُن کے اندر رعونت کو مزید تقویت بخشی ہے اور وہ اب اسلام آباد بندکر دینے کی دھمکیوں پر اُتر آئے ہیں۔ جمہوریت میں احتجاج کرنا بے شک آئینی اور دستوری ہے لیکن کسی شہر کو بند کر دینا، آئین اُس کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام آباد پاکستان کا دارالحکومت ہے۔ احتجاج کی آڑ میں انتشار پھیلا کرکسی شہر کو بند کر دینا جمہوری حق نہیں۔ نواز شریف حکومت کو گرانے کے لیے سب سے بہتر اور آسان طریقہ پارلیمنٹ سے استعفے دینے کا ہے۔
جلاؤ گھیراؤ کر کے وہ ملک اور جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہوں گے۔ جو کام وہ دو سال سے سڑکوں پر رہ کر نہیں کر پائے ہیں پارلیمنٹ سے اجتماعی استعفے کی شکل میں وہ باآسانی کر سکتے ہیں، لیکن ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ یہ آپشن استعمال کرنے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں، وہ پارلیمنٹ میں جانا بھی نہیں چاہتے۔ نواز شریف کو وزیرِ اعظم بھی نہیں مانتے۔ پھرکیوں اب تک پارلیمنٹ سے ناتا جوڑے ہوئے ہیں۔
وہ بطور پارلیمنٹیرین تمام مراعات بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اُس کے احترام اور تقدس سے بھی انکاری ہیں۔ وہ نواز شریف کو معزول بھی کرنا چاہتے ہیں لیکن جائز اور مناسب طریقوں سے نہیں۔ ہو سکتا ہے خان صاحب کے قریبی دوستوں کی یہ خواہش ہو کہ اِس طرح وہ نواز شریف سے اپنی دیرینہ دشمنی کا انتقام لے پائیں۔ مگر خان صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ اِس طرح وہ نہ ملک وقوم کی کوئی خدمت کر رہے ہوںگے اور نہ جمہوریت کی۔ انتشار اور انارکی پھیلا کر وہ غیرجمہوری قوتوں کو دعوتِ مداخلت دے رہے ہوں گے۔
خان صاحب کی پارٹی نے ویسے تو جوش و جذبات میں 2014ء میں قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیے تھے، لیکن بعد ازاں دھرنے کی ناکامی کے بعد وہ خود ہی پارلیمنٹ میں واپس آ گئے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پارلیمنٹ سے استعفے دینے کا وہ وقت قطعاً مناسب نہیں تھا۔ اُس وقت کوئی بھی دوسرا شخص اُن کی آواز میں اپنی آواز ملانے کو تیار نہ تھا۔ وہ اکیلے ہی یہ سب کچھ کر بیٹھے تھے، مگر اب صورتحال مختلف ہے۔ پانامہ کا ایشو ایک ایسا ایشو ہے جس پر اُنہیں دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ وہ اگرآج پارلیمنٹ میں اجتماعی استعفے جمع کرا دیں تو عین ممکن ہے پیپلزپارٹی بھی یہ آپشن استعمال کرنے کا سوچ بچار کر لے۔
ویسے بھی تیس پینتیس سیٹوں پر ضمنی الیکشن کروانا حکومت کے لیے آسان نہیں ہو گا۔ پھر اتنی بڑی تعداد میں اچانک ممبرانِ اسمبلی کا استعفیٰ دیدینا کسی بھی حکومت کی کریڈبیلٹی کے لیے ایک بڑا سوال پیدا کر سکتا ہے۔ خانصاحب دو برس سے جتنی توانائی اور دولت احتجاجی جلسوں اور جلوسوں پر خرچ کر رہے ہیں اور نتیجے میں ابھی تک کچھ بھی حاصل نہیں کر پائے اُنہیں چاہیے کہ اسمبلیوں سے فوراً اپنے استعفے جمع کرا دیں۔ پھر نہ کسی دھرنے کی ضرورت ہو گی اور نہ کسی شہر کو بندکر دینے کی حاجت۔ سارا مقصد چند مہینوں میں حاصل ہو جائے گا، مگر لگتا ہے خان صاحب یہ آپشن استعمال کرنے سے اِس لیے گریزاں ہیں کہ وہ خود ابھی نئے الیکشن کے لیے تیار نہیں ہیں۔
تمام سچے جھوٹے دعوؤں کے برعکس وہ اِس حقیقت سے مکمل آشنا ہیں کہ موجودہ سیاسی ماحول میں اگر نئے الیکشن ہو جاتے ہیں تو تحریکِ انصاف اُس کی متحمل نہیں ہو پائے گی۔ اُس کے پاس ایسے مضبوط اُمیدوار ہی نہیں ہیں جو اُسے اگلا الیکشن جتانے کی ضمانت دے پائیں۔ خود خیبر پختون خوا میں اُنہوں نے ابھی تک کوئی ایسا کارنامہ سرانجام نہیں دیا جس کے بل بوتے پر وہ سارے پاکستان میں حکومت کرنے کا خود کو اہل ثابت کر پائیں۔ کرپشن کے خلاف جتنی سرگرمی وہ زبانی کلامی دکھاتے ہیں عملاً اور حقیقتاً اُس کے سدباب کے لیے اُنہوں نے ابھی تک کچھ نہیں کیا۔ یہ جوش اور جذبہ صرف بیانوں اور تقریروں تک ہی محدود ہے۔
میڈیا کی مہر بانیوں نے اُنہیں اب تک پاکستانی سیاست میں سرگرم رکھا ہوا ہے ورنہ فارغ ہو چکے ہوتے۔خان صاحب کے لیے صائب اور مناسب مشورہ یہی ہے کہ اسلام آباد بند کرنے کی بجائے اسمبلیوں سے اجتماعی استعفوں پر غورکریں ورنہ ہو سکتا ہے میاںصاحب خود اسمبلیوں کو تحلیل کر دینے کا آپشن استعمال کر جائیں۔ کیونکہ انتشار اور انارکی سے نمٹنے کے لیے میاں صاحب کے پاس پھر صرف یہی ایک آپشن باقی رہ جائے گا جسے بروکار لاکر وہ مارشل لاء کا راستہ بھی روک پائیں گے اور جمہوریت کو بھی بچا پائیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون یہ آپشن پہلے استعمال کرتا ہے اورکون خود کشی کے سیاست پر عمل پیرا ہوتا ہے۔