سانحہ 12 مئی وسیم اختر کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ
کچھ لوگوں کو وسیم اختر کا میئر بننا پسند نہیں،وکیل وسیم اختر
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سانحہ 12 مئی سے متعلق مقدمات میں وسیم اختر کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔
کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں سانحہ 12 مئی سے متعلق مقدمات کی سماعت ہوئی۔ وسیم اختر کے وکیل خواجہ نوید نے درخواست ضمانت پر عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ کچھ لوگوں کو وسیم اختر کا میئر بننا پسند نہیں، وسیم اختر میئر منتخب ہوئے تو راؤ انوار نے ایک ہی رات 27 مقدمات قائم کرلیے، تمام مقدمات تالی بجانے کے ہیں، پولیس نے عدالتی اجازت کے بغیر تھانے لے جاکر وسیم اختر کو 12 مئی کے 6 مقدمات میں ملوث کردیا، وسیم اختر سے کوئی تفتیش نہیں کی گئی، ان کا اعترافی بیان بے بنیاد ہے، اشتعال انگیز تقریر کے مقدمے میں خوش بخت شجاعت اور فاروق ستار کو سیکیورٹی فراہم کی جارہی ہے جب کہ وسیم کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ وسیم اختر کا نام ایف آئی آر میں نہیں ہے لیکن بعد میں کیا ہوا حقائق دیکھنے ہیں، اگر وسیم اختر کو جیل نا بھیجا جاتا تو ان پر بھی بغاوت کا کیس بن جاتا لیکن آپ اس بات سے انکار تو نہیں کرسکتے کہ 12مئی کو قتل غارت گری ہوئی، عدالت نے وسیم اختر سے استفسار کیا کہ جب واقعہ ہوا وہ کس عہدے پر اور کہاں تھے، جس پر وسیم اختر نے کہا کہ وہ اس وقت وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے داخلہ امور تھے اور جس وقت واقعہ ہوا اس وقت وہ گورنر ہاؤس میں تھے۔ ان پر قائم کئے جانے والے تمام مقدمات جھوٹے ہیں، کیا وہ مشیر ہوکر گاڑیاں جلائیں گے، پولیس نے ان کا خودساختہ اعترافی بیان بنالیا، جس میں انہیں اسلم عرف کالا کے گھر لے جایا جاتا ہے حالانکہ انہوں نے اسلم کالا کا گھر تک نہیں دیکھا، ان کا خاندن کراچی میں ہے، وہ شہر کے منتخب میئر ہیں، کہیں نہیں بھاگیں گے۔ ان کے بچے ہیں اور بیٹیوں کے رشتوں کامعاملہ ہے۔
عدالت نے سانحہ 12 مئی کے مقدمے میں پولیس کو چالان جمع کرانے کا حکم دے دیا جبکہ وسیم اختر کی ضمانت سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت 18 اکتوبر تک ملتوی کر دی ۔
کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں سانحہ 12 مئی سے متعلق مقدمات کی سماعت ہوئی۔ وسیم اختر کے وکیل خواجہ نوید نے درخواست ضمانت پر عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ کچھ لوگوں کو وسیم اختر کا میئر بننا پسند نہیں، وسیم اختر میئر منتخب ہوئے تو راؤ انوار نے ایک ہی رات 27 مقدمات قائم کرلیے، تمام مقدمات تالی بجانے کے ہیں، پولیس نے عدالتی اجازت کے بغیر تھانے لے جاکر وسیم اختر کو 12 مئی کے 6 مقدمات میں ملوث کردیا، وسیم اختر سے کوئی تفتیش نہیں کی گئی، ان کا اعترافی بیان بے بنیاد ہے، اشتعال انگیز تقریر کے مقدمے میں خوش بخت شجاعت اور فاروق ستار کو سیکیورٹی فراہم کی جارہی ہے جب کہ وسیم کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ وسیم اختر کا نام ایف آئی آر میں نہیں ہے لیکن بعد میں کیا ہوا حقائق دیکھنے ہیں، اگر وسیم اختر کو جیل نا بھیجا جاتا تو ان پر بھی بغاوت کا کیس بن جاتا لیکن آپ اس بات سے انکار تو نہیں کرسکتے کہ 12مئی کو قتل غارت گری ہوئی، عدالت نے وسیم اختر سے استفسار کیا کہ جب واقعہ ہوا وہ کس عہدے پر اور کہاں تھے، جس پر وسیم اختر نے کہا کہ وہ اس وقت وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے داخلہ امور تھے اور جس وقت واقعہ ہوا اس وقت وہ گورنر ہاؤس میں تھے۔ ان پر قائم کئے جانے والے تمام مقدمات جھوٹے ہیں، کیا وہ مشیر ہوکر گاڑیاں جلائیں گے، پولیس نے ان کا خودساختہ اعترافی بیان بنالیا، جس میں انہیں اسلم عرف کالا کے گھر لے جایا جاتا ہے حالانکہ انہوں نے اسلم کالا کا گھر تک نہیں دیکھا، ان کا خاندن کراچی میں ہے، وہ شہر کے منتخب میئر ہیں، کہیں نہیں بھاگیں گے۔ ان کے بچے ہیں اور بیٹیوں کے رشتوں کامعاملہ ہے۔
عدالت نے سانحہ 12 مئی کے مقدمے میں پولیس کو چالان جمع کرانے کا حکم دے دیا جبکہ وسیم اختر کی ضمانت سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت 18 اکتوبر تک ملتوی کر دی ۔