3500 ایتھلیٹس کو ماہ صیام میں مقابلوں کاچیلنج درپیش
مسلمان کھلاڑی گیمز کے اختتام تک روزے موخر کرسکتے ہیں،ملائیشین فتویٰ کونسل
لندن اولمپکس میں شریک 3500مسلمان ایتھلیٹس کو ماہ صیام میں مقابلوں کا خصوصی چیلنج درپیش ہے، کئی صرف مقابلے کے دن روزہ چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں، بعض ایونٹ کے بعد اپنے روزے پورے کرنے کے خواہاں ہیں، ملائیشیا کی قومی فتویٰ کونسل کا کہنا ہے کہ ایتھلیٹس گیمز کے اختتام تک روزے موخر کرسکتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق1980 کے ماسکو گیمز کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب اولمپکس گیمز ماہ رمضان میں منعقد ہورہے ہیں، لندن گیمز میں مختلف ممالک کے تقریباً 3500 مسلمان ایتھلیٹس شرکت کریںگے، انگلینڈ میں تقریباً 17 گھنٹے تک دن کی روشنی رہتی ہے، ایسے میں کھلاڑیوں کو روزے کی حالت میں ٹریننگ اور مقابلوں میں حصہ لینے کا سخت چیلنج درپیش ہوگا، اکثر مسلم ممالک کی قومی باڈیز کی جانب سے ایتھلیٹس پر واضح کردیا گیاکہ روزہ رکھنا یا پھر گیمز کے بعد تک موخر کرنا ان کا ذاتی فیصلہ ہوگا۔
ویمنز ویٹ لفٹنگ میں پہلی مرتبہ متحدہ عرب امارات کی نمائندگی کرنے والی 17 سالہ اسکول گرل خدیجہ محمد کا کہنا ہے کہ میں ایونٹ کے دوران ٹریننگ بھی روزے کی ہی حالت میں کروں گی، صرف مقابلے والے دن ہی روزہ چھوڑوں گی،ابوظبی سے تعلق رکھنے والے جوڈو پلیئر حمید ال ڈیرائی کا کہنا ہے کہ میں اپنے روزے مقابلے کے اختتام تک موخر کردوں گا کیونکہ مجھے ان مقابلوں کیلیے سخت ٹریننگ کرنی ہوتی ہے۔
ادھر ملائیشیا کی قومی فتویٰ کونسل کے سینئر ممبر مفتی حارث ثانی ذکریا کا کہنا ہے کہ ایتھلیٹس اولمپکس میں ملک کا نام روشن کرنے کیلیے جارہے ہیں، اس لیے وہ وطن واپسی پر چھوٹ جانے والے روزے پورے کرسکتے ہیں، انھوں نے کہا کہ قرآن کا بھی کہنا ہے کہ اگر آپ کو کوئی مشن مکمل کرنا ہو تو پھرروزے موخر کرسکتے ہیں مگر جتنے روزے چھوڑیں گے وہ بعد میں لازمی طور پر رکھنا ہوںگے۔
تفصیلات کے مطابق1980 کے ماسکو گیمز کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب اولمپکس گیمز ماہ رمضان میں منعقد ہورہے ہیں، لندن گیمز میں مختلف ممالک کے تقریباً 3500 مسلمان ایتھلیٹس شرکت کریںگے، انگلینڈ میں تقریباً 17 گھنٹے تک دن کی روشنی رہتی ہے، ایسے میں کھلاڑیوں کو روزے کی حالت میں ٹریننگ اور مقابلوں میں حصہ لینے کا سخت چیلنج درپیش ہوگا، اکثر مسلم ممالک کی قومی باڈیز کی جانب سے ایتھلیٹس پر واضح کردیا گیاکہ روزہ رکھنا یا پھر گیمز کے بعد تک موخر کرنا ان کا ذاتی فیصلہ ہوگا۔
ویمنز ویٹ لفٹنگ میں پہلی مرتبہ متحدہ عرب امارات کی نمائندگی کرنے والی 17 سالہ اسکول گرل خدیجہ محمد کا کہنا ہے کہ میں ایونٹ کے دوران ٹریننگ بھی روزے کی ہی حالت میں کروں گی، صرف مقابلے والے دن ہی روزہ چھوڑوں گی،ابوظبی سے تعلق رکھنے والے جوڈو پلیئر حمید ال ڈیرائی کا کہنا ہے کہ میں اپنے روزے مقابلے کے اختتام تک موخر کردوں گا کیونکہ مجھے ان مقابلوں کیلیے سخت ٹریننگ کرنی ہوتی ہے۔
ادھر ملائیشیا کی قومی فتویٰ کونسل کے سینئر ممبر مفتی حارث ثانی ذکریا کا کہنا ہے کہ ایتھلیٹس اولمپکس میں ملک کا نام روشن کرنے کیلیے جارہے ہیں، اس لیے وہ وطن واپسی پر چھوٹ جانے والے روزے پورے کرسکتے ہیں، انھوں نے کہا کہ قرآن کا بھی کہنا ہے کہ اگر آپ کو کوئی مشن مکمل کرنا ہو تو پھرروزے موخر کرسکتے ہیں مگر جتنے روزے چھوڑیں گے وہ بعد میں لازمی طور پر رکھنا ہوںگے۔