مُنی بیگم اور بلقیس خانم سے سندھی گیت گوائے
ریڈیو میزبان کے لئے مہتاب اکبر راشدی اُن کی پہلی ترجیح ہوں گی۔ مردوں میں قربان جیلانی اُن کا اولین انتخاب ہوں گے۔
ISLAMABAD:
آغاز سائنس کے مضمون سے کیا۔ اُسے خیرباد کہا، تو آرٹس کے مضامین سے جُوجھنے لگے۔ ''انٹرنیشنل ریلیشنز'' کی پگڈنڈی سے گزرتے ہوئے ''سوشل ورک ڈیپارٹمنٹ'' تک پہنچے۔ پہلی ملازمت اِسی شعبے میں کی۔ پھر قسمت ریڈیو کی جانب لے آئی۔ بس، اصل سفر وہیں سے شروع ہوتا ہے۔
یہ چار عشروں تک ریڈیو پاکستان سے منسلک رہنے والے معروف براڈ کاسٹر، نثار میمن کا قصّہ ہے، جو یقین رکھتے ہیں کہ براڈ کاسٹنگ کی اہمیت کل کی طرح آج بھی قائم ہے کہ انسان دیکھتا کم، سنتا زیادہ ہے۔ اسٹیشن ڈائریکٹر کی حیثیت سے ریٹائر ہونے والے نثار صاحب تبدیلیوں اور کمرشیل تقاضوں کو مدنظر رکھنے کی ضرورت تو تسلیم کرتے ہیں، البتہ پروگرام کے معیار پر سمجھوتا کرنے کے قائل نہیں۔ بہ طور پروڈیوسر اُنھوں نے بھرپور اور کام یاب زندگی گزری، مگر اِس پورے عرصے میں مائیک سے دُوری بنائے رکھی۔ اِس فاصلے کا سبب وہ یوں بیان کرتے ہیں،''ہمارے زمانے میں پروڈیوسرز کی ریڈیو سے آواز خال خال ہی سنائی دیتی تھی۔ اور ویسے بھی نہ تو اِس کی اجازت تھی، نہ ہی اِسے اچھا سمجھا جاتا تھا۔'' ریڈیو کے زوال کے تعلق سے کہتے ہیں،''اب تو سب خاکستر ہوگیا ہے۔ اور ایک ریڈیو ہی کیا، پورے معاشرے پر نظر ڈالیں، ہر ادارہ، ہر شعبہ نیچے آیا ہے۔ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ معاشرے کے ساتھ ریڈیو پاکستان بھی نیچے آگیا ہے۔''
نثار میمن 31 مئی 1946 کو دادو، سندھ میں پیدا ہوئے۔ وہیں شعور کی آنکھ کھولی۔ اپنے آبائی شہر کی بابت گفت گو کرتے ہوئے میر تقی میر کا مصرع: ''دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب'' ترمیم کے ساتھ پڑھتے ہوئے الفاظ کے رنگوں سے ایک مردم خیز علاقے کی تصویر کھینچتے ہیں، جو علم و ادب، کاروبار اور کھیلوں سے جُڑی شخصیات کا مسکن تھا۔ آج بھی دادو خوش گوار یاد کی صورت اُن کے ذہن میں محفوظ ہے۔ اُن کے والد، الحاج محمد ہاشم سرکاری ملازم تھے، ریٹائرمینٹ کے بعد وہ کاروبار کی جانب آگئے۔ محمد ہاشم نے دو شادیاں کیں، جن سے اُن کے تین بچے تھے۔ نثار میمن تیسرے ہیں۔ کہتے ہیں،''والد معتدل مزاج آدمی تھے۔ میں نے کبھی باپ کی مار نہیں کھائی۔ یہ ذمے داری والدہ نبھاتی تھیں۔'' بچپن میں خاصے باتونی ہوا کرتے تھے۔ شرارتیں بھی کیں۔ تمام کھیل کھیلے۔ 64ء میں میٹرک کرنے کے بعد وہ گورنمنٹ کالج، دادو کا حصہ بن گئے۔ پھر حالات اُنھیں کراچی لے آئے۔ ایس ایم سائنس کالج میں داخلہ لے لیا۔ کہتے ہیں،''اُس وقت دادو سے کراچی آنا ایسے ہی تھا، جیسے کراچی سے امریکا جانا۔ گھر والے بڑی مشکل سے راضی ہوئے تھے۔'' یہاں قیام ماموں کے ہاں تھا۔ 65ء کی جنگ واپس دادو لے گئی۔ وہاں خبر ملی کہ والد عارضۂ قلب میں مبتلا ہیں، جس کے پیش نظر اُنھوں نے وہیں ٹھہرنے کا فیصلہ کرلیا۔
دو برس سائنس میں ضایع کرنے کے بعد مضمون بدلا۔ دادو سے گریجویشن کا مرحلہ طے کیا۔ کالج کے زمانے میں ہم نصابی سرگرمیوں میں پیش پیش رہے۔ اُن دنوں وہ بینجو اور مائوتھ آرگن بجایا کرتے تھے۔ ڈرامے بھی کیے۔ کالج کی یونین کے سیکریٹری رہے۔ ماضی کھوجتے ہوئے بتاتے ہیں، بچپن میں اُنھیں ہاسٹل میں رہنے کا خبط تھا۔ یہ خواہش جامعہ کراچی میں زیر تعلیم ایک دوست کے وسیلے پوری ہوئی، جو دادو میں اُن کے پڑوسی تھے۔ اُن ہی کی تجویز پر نثار میمن نے اِس بابت سوچنا شروع کیا۔ اور یوں ہاسٹل میں قیام کا امکان روشن ہوتا گیا۔ والدین کو راضی کرنے کی ذمے داری بھی اُن کے دوست ہی نے نبھائی۔ یوں 69ء میں دوبارہ کراچی آگئے، اور اُن کے اپنے الفاظ میں، فیشن کے طور پر ''انٹرنیشنل ریلیشنز'' کے مضمون میں داخلہ لے لیا، مگر چند ماہ بعد اُوب گئے، اور ''سوشل ورک'' کی جانب دوڑے۔
72ء میں وہاں سے ماسٹرز کیا، جس کے بعد وہ حکومت سندھ کے ''سوشل ویلفیر ڈیپارٹمنٹ'' میں افسر لگ گئے۔ ڈیڑھ برس وہاں بیتا۔ اُن ہی دنوں ریڈیو پروڈیوسرز کی اسامیوں کا اعلان ہوا۔ نثار صاحب کے ایک رشتے دار نے، چُپکے سے اُن کے کوائف، درخواست کے ساتھ نتھی کرکے بھجوا دیے۔ چند روز بعد بلاوا آگیا۔ ٹیسٹ کے مراحل سے گزرنے کے بعد اپائنٹمنٹ لیٹر بھی نثار صاحب کی دہلیز تک پہنچ گیا۔ ریڈیو کا حصہ بننے کے بعد فروری 74ء میں وہ ٹریننگ کے لیے اسلام آباد پہنچ گئے۔
ساڑھے تین ماہ وہاں بیتے۔ خود کو خوش قسمت گرادنتے ہیں کہ وہاں اُنھیں عمر مہاجر جیسے نابغے سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ''وہ اسٹاف ٹریننگ اسکول (موجودہ پاکستان براڈ کاسٹنگ اکیڈمی) کے وائس پرنسپل تھے۔ حیدرآباد دکن سے اُن کا تعلق تھا۔ بہت بڑے آدمی تھے۔ بہادر یار جنگ جیسے شعلہ بیاں مقرر نے لکھا تھا: 'کاش میں عمر مہاجر کی طرح بول سکتا!' اقبال بانو کی آواز میں ریکارڈ ہونے والی فیض صاحب کی مشہور زمانہ نظم 'دشت تنہائی میں' اور آزاد کشمیر کا ترانہ 'میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن' اُنھوں نے ہی پروڈیوس کیے۔''
ٹریننگ کے بعد پوسٹنگ حیدرآباد میں ہوئی۔ روایت یہ تھی کہ نئے آنے والوں کو ڈیوٹی آفیسر بنا دیا جاتا، تاکہ وہ نئے ماحول سے ہم آہنگ ہوسکے۔ وہ بھی اِس تجربے سے گزرے۔ حیدرآباد میں لگ بھگ ڈیڑھ برس بیتے۔ اِس عرصے میں بہ طور پروڈیوسر سندھی میں نشر ہونے والے موسیقی کے پروگرام کیے۔ ڈاکومینٹریز بنائیں۔ اُن کے پیش کردہ خواتین کے ایک پروگرام کی میزبانی مہتاب اکبر راشدی کیا کرتی تھیں، جو خاصا مقبول تھا۔ 75ء کے اواخر میں کراچی کا رخ کیا، جہاں ابتداً سندھی پروگراموں کی ذمے داری نبھائی۔ اِس دوران ہر نوع کے تجربے سے گزرے۔ اسپورٹس پروگرام کے ذریعے اردو پروگراموں کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا۔
سینئر پروڈیوسر ہونے کے لیے دس برس انتظار کیا۔ مزید بارہ برس بیتے، تو پروگرام مینیجر ہوگئے۔ اِس حیثیت میں تین چار سال کام کیا۔ دو بار پوسٹنگ کوئٹہ میں ہوئی۔ خیرپور میں چند ماہ گزرے۔ لاڑکانہ میں ذمے داریاں نبھائیں۔ 2001 میں ڈپٹی کنٹرولر کا عہدہ سنبھالا۔ پھر کنٹرولر ہوگئے۔ ایف ایم 101 کے سربراہ کی حیثیت سے ذمے داریاں نبھائیں۔ ریڈیو پاکستان، کراچی اسٹیشن کے ڈائریکٹر کی کرسی پر بیٹھے۔ 2006 میں اِسی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ اگلے دو برس ایف ایم 101 کے ایڈوائزر رہے۔ پھر جامعہ کراچی کے شعبۂ ابلاغ عامہ کا حصہ بن گئے۔ دو برس ''ریڈیو پروگرام پروڈکشن'' کا مضمون پڑھایا، اور شعبے کے تحت چلنے والے ریڈیو اسٹیشن کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ تدریس کی حد تک تو معاملہ ٹھیک تھا، مگر ریڈیو اسٹیشن چلانے کا تجربہ خوش گوار نہیں رہا، جس کا سبب وہ ویژن کی کمی کو قرار دیتے ہیں۔ کہنا ہے، ریڈیو اسٹیشن چلانا یونیورسٹی کی ترجیحات میں شامل نہیں تھا۔ اِس وقت وہ، سرکاری اور غیرسرکاری اداروں کے لیے ''کیپیسٹی بلڈنگ'' کا کام کرنے والی ایک کنسلٹینسی فرم ''ایسوسی ایٹس اِن ڈیویلپمنٹ'' کی سندھ کی شاخ سے بہ طور مینیجر نتھی ہیں۔
ایف ایم فریکوینسی کے اثرات کا موضوع نکلا، پرائیویٹ اسٹیشنز سے ریڈیو پاکستان کا موازنہ شروع ہوا، تو کہنے لگے،''پہلے ایف ایم کے حوالے سے ابہام دُور ہونا چاہیے۔ دیکھیں، ریڈیو پاکستان نے 'اَن ہائوس' استعمال کے لیے 60 ہی کی دہائی میں ایف ایم کا تجربہ شروع کردیا تھا۔ روسی ٹرانسمیٹر نصب ہونے کے بعد، لگ بھگ 95-96 میں ایف ایم 106 کی فریکوینسی پر ریڈیو پاکستان نے 'ایف ایم گولڈ' کا آغاز کیا، جو ہمارے ایک اسٹیشن ڈائریکٹر کی بددیانتی کے باعث بند ہوگیا۔ خیر، بعد میں ڈائریکٹر جنرل، انور محمود صاحب نے 98ء میں اِس مرے ہوئے گھوڑے میں جان ڈالی۔ 106 کو ایف ایم 101 بنایا، جس کا میں، کراچی کی سطح پر پہلا اَن چارج تھا۔ یعنی ایف ایم کا آغاز ریڈیو پاکستان ہی سے ہوا تھا۔''
اپنے من پسند پروگراموں کا ذکر نثار میمن کو ماضی میں لے جاتا ہے۔ بتاتے ہیں، انھوں نے برسوں سندھی میں نشر ہونے والا ادبی پروگرام ''رسالو'' کیا، جس نے اُنھیں اپنی زمین سے متعارف کروایا، ادبی حلقوں سے جوڑا۔ بتاتے ہیں، اِس پروگرام کا نام اُن کے ساتھی، اقبال فریدی نے تجویز کیا تھا۔ پروگرام ''عالمی اسپورٹس رائونڈ اپ'' کا بھی ذکر آتا ہے۔ موسیقی کے پروگراموں سے بھی خوش گوار یادیں وابستہ ہیں کہ مُنی بیگم، بلقیس خانم اور گلشن آرا سید سے سندھی گیت گوائے۔ کئی سندھی موسیقاروں کے ساتھ کام کیا۔ اِس فہرست میں محمد جُمن بھی شامل ہیں۔ کہتے ہیں، محمد جُمن کی زندگی کا آخری آئٹم بھی اُنھوں نے ہی ریکارڈ کیا۔
نثار میمن پروڈیوسر ہوں، اور پروگرام کے لیے میزبان کا انتخاب کرنا ہو، تو مہتاب اکبر راشدی اُن کی پہلی ترجیح ہوں گی۔ مردوں میں قربان جیلانی اُن کا اولین انتخاب ہوں گے۔ ادبی پروگرام پیش کرنا ہو، تو فقیر محمد لاشاری اور عبدالرحمان نقاش جیسی آوازیں کھوجیں گے۔ اقبال جعفری، محمدنقی اور غزالہ رفیق کے علاوہ ریڈیو سیلون (سری لنکا) سے وابستہ گوپال شرما کی آواز کو بھی سراہتے ہیں۔
دوستوں سے ملنا، اُن سے رابطے میں رہنا خوشی کا باعث بنتا ہے۔ عام طور سے پینٹ شرٹ پہنتے ہیں۔ سردی کے موسم میں کو خود کو آرام دہ پاتے ہیں۔ دال چاول من پسند کھاجا ہے۔ منا ڈے کی گائیکی پسند ہے۔ محمد یوسف کو اپنے عہد کی بڑی اور اہم آواز قرار دیتے ہیں۔ دیوآنند کی فنی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ مدھو بالا کے حسن کو سراہتے ہیں۔ فلموں میں ''انداز'' اور ''سلسلہ'' اچھی لگیں۔ شاعری میں فیض کا ذکر کرتے ہے۔ مزاح نگاروں میں مشتاق احمد یوسفی اور ابن انشا کا نام لیتے ہیں۔ پروڈکشن کے شعبے میں عظیم سرور کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں۔ غلام حسین شیخ کو موسیقی کے پروگراموں کا بڑا پروڈیوسر گرادنتے ہیں۔ ساتھی پروڈیوسرز میں مرحوم اسلم بلوچ، فرحان ہاشمی، شگفتہ آفتاب اور ربیعہ اکرم کو سراہتے ہیں۔ 77ء میں شادی ہوئی۔ خدا نے ایک بیٹی، ایک بیٹے سے نوازا۔ دونوں بچوں نے ایم بی اے کیا۔ شفیق والد ہیں، بچوں سے دوستانہ روابط ہیں۔
آغاز سائنس کے مضمون سے کیا۔ اُسے خیرباد کہا، تو آرٹس کے مضامین سے جُوجھنے لگے۔ ''انٹرنیشنل ریلیشنز'' کی پگڈنڈی سے گزرتے ہوئے ''سوشل ورک ڈیپارٹمنٹ'' تک پہنچے۔ پہلی ملازمت اِسی شعبے میں کی۔ پھر قسمت ریڈیو کی جانب لے آئی۔ بس، اصل سفر وہیں سے شروع ہوتا ہے۔
یہ چار عشروں تک ریڈیو پاکستان سے منسلک رہنے والے معروف براڈ کاسٹر، نثار میمن کا قصّہ ہے، جو یقین رکھتے ہیں کہ براڈ کاسٹنگ کی اہمیت کل کی طرح آج بھی قائم ہے کہ انسان دیکھتا کم، سنتا زیادہ ہے۔ اسٹیشن ڈائریکٹر کی حیثیت سے ریٹائر ہونے والے نثار صاحب تبدیلیوں اور کمرشیل تقاضوں کو مدنظر رکھنے کی ضرورت تو تسلیم کرتے ہیں، البتہ پروگرام کے معیار پر سمجھوتا کرنے کے قائل نہیں۔ بہ طور پروڈیوسر اُنھوں نے بھرپور اور کام یاب زندگی گزری، مگر اِس پورے عرصے میں مائیک سے دُوری بنائے رکھی۔ اِس فاصلے کا سبب وہ یوں بیان کرتے ہیں،''ہمارے زمانے میں پروڈیوسرز کی ریڈیو سے آواز خال خال ہی سنائی دیتی تھی۔ اور ویسے بھی نہ تو اِس کی اجازت تھی، نہ ہی اِسے اچھا سمجھا جاتا تھا۔'' ریڈیو کے زوال کے تعلق سے کہتے ہیں،''اب تو سب خاکستر ہوگیا ہے۔ اور ایک ریڈیو ہی کیا، پورے معاشرے پر نظر ڈالیں، ہر ادارہ، ہر شعبہ نیچے آیا ہے۔ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ معاشرے کے ساتھ ریڈیو پاکستان بھی نیچے آگیا ہے۔''
نثار میمن 31 مئی 1946 کو دادو، سندھ میں پیدا ہوئے۔ وہیں شعور کی آنکھ کھولی۔ اپنے آبائی شہر کی بابت گفت گو کرتے ہوئے میر تقی میر کا مصرع: ''دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب'' ترمیم کے ساتھ پڑھتے ہوئے الفاظ کے رنگوں سے ایک مردم خیز علاقے کی تصویر کھینچتے ہیں، جو علم و ادب، کاروبار اور کھیلوں سے جُڑی شخصیات کا مسکن تھا۔ آج بھی دادو خوش گوار یاد کی صورت اُن کے ذہن میں محفوظ ہے۔ اُن کے والد، الحاج محمد ہاشم سرکاری ملازم تھے، ریٹائرمینٹ کے بعد وہ کاروبار کی جانب آگئے۔ محمد ہاشم نے دو شادیاں کیں، جن سے اُن کے تین بچے تھے۔ نثار میمن تیسرے ہیں۔ کہتے ہیں،''والد معتدل مزاج آدمی تھے۔ میں نے کبھی باپ کی مار نہیں کھائی۔ یہ ذمے داری والدہ نبھاتی تھیں۔'' بچپن میں خاصے باتونی ہوا کرتے تھے۔ شرارتیں بھی کیں۔ تمام کھیل کھیلے۔ 64ء میں میٹرک کرنے کے بعد وہ گورنمنٹ کالج، دادو کا حصہ بن گئے۔ پھر حالات اُنھیں کراچی لے آئے۔ ایس ایم سائنس کالج میں داخلہ لے لیا۔ کہتے ہیں،''اُس وقت دادو سے کراچی آنا ایسے ہی تھا، جیسے کراچی سے امریکا جانا۔ گھر والے بڑی مشکل سے راضی ہوئے تھے۔'' یہاں قیام ماموں کے ہاں تھا۔ 65ء کی جنگ واپس دادو لے گئی۔ وہاں خبر ملی کہ والد عارضۂ قلب میں مبتلا ہیں، جس کے پیش نظر اُنھوں نے وہیں ٹھہرنے کا فیصلہ کرلیا۔
دو برس سائنس میں ضایع کرنے کے بعد مضمون بدلا۔ دادو سے گریجویشن کا مرحلہ طے کیا۔ کالج کے زمانے میں ہم نصابی سرگرمیوں میں پیش پیش رہے۔ اُن دنوں وہ بینجو اور مائوتھ آرگن بجایا کرتے تھے۔ ڈرامے بھی کیے۔ کالج کی یونین کے سیکریٹری رہے۔ ماضی کھوجتے ہوئے بتاتے ہیں، بچپن میں اُنھیں ہاسٹل میں رہنے کا خبط تھا۔ یہ خواہش جامعہ کراچی میں زیر تعلیم ایک دوست کے وسیلے پوری ہوئی، جو دادو میں اُن کے پڑوسی تھے۔ اُن ہی کی تجویز پر نثار میمن نے اِس بابت سوچنا شروع کیا۔ اور یوں ہاسٹل میں قیام کا امکان روشن ہوتا گیا۔ والدین کو راضی کرنے کی ذمے داری بھی اُن کے دوست ہی نے نبھائی۔ یوں 69ء میں دوبارہ کراچی آگئے، اور اُن کے اپنے الفاظ میں، فیشن کے طور پر ''انٹرنیشنل ریلیشنز'' کے مضمون میں داخلہ لے لیا، مگر چند ماہ بعد اُوب گئے، اور ''سوشل ورک'' کی جانب دوڑے۔
72ء میں وہاں سے ماسٹرز کیا، جس کے بعد وہ حکومت سندھ کے ''سوشل ویلفیر ڈیپارٹمنٹ'' میں افسر لگ گئے۔ ڈیڑھ برس وہاں بیتا۔ اُن ہی دنوں ریڈیو پروڈیوسرز کی اسامیوں کا اعلان ہوا۔ نثار صاحب کے ایک رشتے دار نے، چُپکے سے اُن کے کوائف، درخواست کے ساتھ نتھی کرکے بھجوا دیے۔ چند روز بعد بلاوا آگیا۔ ٹیسٹ کے مراحل سے گزرنے کے بعد اپائنٹمنٹ لیٹر بھی نثار صاحب کی دہلیز تک پہنچ گیا۔ ریڈیو کا حصہ بننے کے بعد فروری 74ء میں وہ ٹریننگ کے لیے اسلام آباد پہنچ گئے۔
ساڑھے تین ماہ وہاں بیتے۔ خود کو خوش قسمت گرادنتے ہیں کہ وہاں اُنھیں عمر مہاجر جیسے نابغے سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ''وہ اسٹاف ٹریننگ اسکول (موجودہ پاکستان براڈ کاسٹنگ اکیڈمی) کے وائس پرنسپل تھے۔ حیدرآباد دکن سے اُن کا تعلق تھا۔ بہت بڑے آدمی تھے۔ بہادر یار جنگ جیسے شعلہ بیاں مقرر نے لکھا تھا: 'کاش میں عمر مہاجر کی طرح بول سکتا!' اقبال بانو کی آواز میں ریکارڈ ہونے والی فیض صاحب کی مشہور زمانہ نظم 'دشت تنہائی میں' اور آزاد کشمیر کا ترانہ 'میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن' اُنھوں نے ہی پروڈیوس کیے۔''
ٹریننگ کے بعد پوسٹنگ حیدرآباد میں ہوئی۔ روایت یہ تھی کہ نئے آنے والوں کو ڈیوٹی آفیسر بنا دیا جاتا، تاکہ وہ نئے ماحول سے ہم آہنگ ہوسکے۔ وہ بھی اِس تجربے سے گزرے۔ حیدرآباد میں لگ بھگ ڈیڑھ برس بیتے۔ اِس عرصے میں بہ طور پروڈیوسر سندھی میں نشر ہونے والے موسیقی کے پروگرام کیے۔ ڈاکومینٹریز بنائیں۔ اُن کے پیش کردہ خواتین کے ایک پروگرام کی میزبانی مہتاب اکبر راشدی کیا کرتی تھیں، جو خاصا مقبول تھا۔ 75ء کے اواخر میں کراچی کا رخ کیا، جہاں ابتداً سندھی پروگراموں کی ذمے داری نبھائی۔ اِس دوران ہر نوع کے تجربے سے گزرے۔ اسپورٹس پروگرام کے ذریعے اردو پروگراموں کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا۔
سینئر پروڈیوسر ہونے کے لیے دس برس انتظار کیا۔ مزید بارہ برس بیتے، تو پروگرام مینیجر ہوگئے۔ اِس حیثیت میں تین چار سال کام کیا۔ دو بار پوسٹنگ کوئٹہ میں ہوئی۔ خیرپور میں چند ماہ گزرے۔ لاڑکانہ میں ذمے داریاں نبھائیں۔ 2001 میں ڈپٹی کنٹرولر کا عہدہ سنبھالا۔ پھر کنٹرولر ہوگئے۔ ایف ایم 101 کے سربراہ کی حیثیت سے ذمے داریاں نبھائیں۔ ریڈیو پاکستان، کراچی اسٹیشن کے ڈائریکٹر کی کرسی پر بیٹھے۔ 2006 میں اِسی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ اگلے دو برس ایف ایم 101 کے ایڈوائزر رہے۔ پھر جامعہ کراچی کے شعبۂ ابلاغ عامہ کا حصہ بن گئے۔ دو برس ''ریڈیو پروگرام پروڈکشن'' کا مضمون پڑھایا، اور شعبے کے تحت چلنے والے ریڈیو اسٹیشن کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ تدریس کی حد تک تو معاملہ ٹھیک تھا، مگر ریڈیو اسٹیشن چلانے کا تجربہ خوش گوار نہیں رہا، جس کا سبب وہ ویژن کی کمی کو قرار دیتے ہیں۔ کہنا ہے، ریڈیو اسٹیشن چلانا یونیورسٹی کی ترجیحات میں شامل نہیں تھا۔ اِس وقت وہ، سرکاری اور غیرسرکاری اداروں کے لیے ''کیپیسٹی بلڈنگ'' کا کام کرنے والی ایک کنسلٹینسی فرم ''ایسوسی ایٹس اِن ڈیویلپمنٹ'' کی سندھ کی شاخ سے بہ طور مینیجر نتھی ہیں۔
ایف ایم فریکوینسی کے اثرات کا موضوع نکلا، پرائیویٹ اسٹیشنز سے ریڈیو پاکستان کا موازنہ شروع ہوا، تو کہنے لگے،''پہلے ایف ایم کے حوالے سے ابہام دُور ہونا چاہیے۔ دیکھیں، ریڈیو پاکستان نے 'اَن ہائوس' استعمال کے لیے 60 ہی کی دہائی میں ایف ایم کا تجربہ شروع کردیا تھا۔ روسی ٹرانسمیٹر نصب ہونے کے بعد، لگ بھگ 95-96 میں ایف ایم 106 کی فریکوینسی پر ریڈیو پاکستان نے 'ایف ایم گولڈ' کا آغاز کیا، جو ہمارے ایک اسٹیشن ڈائریکٹر کی بددیانتی کے باعث بند ہوگیا۔ خیر، بعد میں ڈائریکٹر جنرل، انور محمود صاحب نے 98ء میں اِس مرے ہوئے گھوڑے میں جان ڈالی۔ 106 کو ایف ایم 101 بنایا، جس کا میں، کراچی کی سطح پر پہلا اَن چارج تھا۔ یعنی ایف ایم کا آغاز ریڈیو پاکستان ہی سے ہوا تھا۔''
اپنے من پسند پروگراموں کا ذکر نثار میمن کو ماضی میں لے جاتا ہے۔ بتاتے ہیں، انھوں نے برسوں سندھی میں نشر ہونے والا ادبی پروگرام ''رسالو'' کیا، جس نے اُنھیں اپنی زمین سے متعارف کروایا، ادبی حلقوں سے جوڑا۔ بتاتے ہیں، اِس پروگرام کا نام اُن کے ساتھی، اقبال فریدی نے تجویز کیا تھا۔ پروگرام ''عالمی اسپورٹس رائونڈ اپ'' کا بھی ذکر آتا ہے۔ موسیقی کے پروگراموں سے بھی خوش گوار یادیں وابستہ ہیں کہ مُنی بیگم، بلقیس خانم اور گلشن آرا سید سے سندھی گیت گوائے۔ کئی سندھی موسیقاروں کے ساتھ کام کیا۔ اِس فہرست میں محمد جُمن بھی شامل ہیں۔ کہتے ہیں، محمد جُمن کی زندگی کا آخری آئٹم بھی اُنھوں نے ہی ریکارڈ کیا۔
نثار میمن پروڈیوسر ہوں، اور پروگرام کے لیے میزبان کا انتخاب کرنا ہو، تو مہتاب اکبر راشدی اُن کی پہلی ترجیح ہوں گی۔ مردوں میں قربان جیلانی اُن کا اولین انتخاب ہوں گے۔ ادبی پروگرام پیش کرنا ہو، تو فقیر محمد لاشاری اور عبدالرحمان نقاش جیسی آوازیں کھوجیں گے۔ اقبال جعفری، محمدنقی اور غزالہ رفیق کے علاوہ ریڈیو سیلون (سری لنکا) سے وابستہ گوپال شرما کی آواز کو بھی سراہتے ہیں۔
دوستوں سے ملنا، اُن سے رابطے میں رہنا خوشی کا باعث بنتا ہے۔ عام طور سے پینٹ شرٹ پہنتے ہیں۔ سردی کے موسم میں کو خود کو آرام دہ پاتے ہیں۔ دال چاول من پسند کھاجا ہے۔ منا ڈے کی گائیکی پسند ہے۔ محمد یوسف کو اپنے عہد کی بڑی اور اہم آواز قرار دیتے ہیں۔ دیوآنند کی فنی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ مدھو بالا کے حسن کو سراہتے ہیں۔ فلموں میں ''انداز'' اور ''سلسلہ'' اچھی لگیں۔ شاعری میں فیض کا ذکر کرتے ہے۔ مزاح نگاروں میں مشتاق احمد یوسفی اور ابن انشا کا نام لیتے ہیں۔ پروڈکشن کے شعبے میں عظیم سرور کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں۔ غلام حسین شیخ کو موسیقی کے پروگراموں کا بڑا پروڈیوسر گرادنتے ہیں۔ ساتھی پروڈیوسرز میں مرحوم اسلم بلوچ، فرحان ہاشمی، شگفتہ آفتاب اور ربیعہ اکرم کو سراہتے ہیں۔ 77ء میں شادی ہوئی۔ خدا نے ایک بیٹی، ایک بیٹے سے نوازا۔ دونوں بچوں نے ایم بی اے کیا۔ شفیق والد ہیں، بچوں سے دوستانہ روابط ہیں۔