غیرحقیقی الزامات کا کھیل
پاکستان کی قومی اسمبلی میں کشمیر میں ہونے والے ظلم و تشدد پر متفقہ قرار داد منظور کی تھی
پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ جب تک نریندر مودی بھارت کے وزیراعظم ہیں پاک بھارت تعلقات میں بہتری کا کوئی امکان نہیں۔ جب کوئی اہم شخص کسی کے بارے میں ایسا تبصرہ کرتا ہے تو یہ مایوس کن بات ہوتی ہے۔
مودی منتخب وزیراعظم ہیں وہ اور ان کی پارٹی بی جے پی ایک کھلے' اور غیر جانبدار الیکشن کے نتیجے میں برسراقتدار آئی ہے جو جمہوریت کا نتیجہ ہے اور اسی وجہ سے انھیں ملک میں سب سے چوٹی کا درجہ عطا کیا گیا۔ میں ذاتی طور پر مودی اور ان کی پارٹی کے نظریے کو پسند نہیں کرتا لیکن چونکہ وہ بھارت کے وزیراعظم ہیں اور بھارت کا ایک شہری ہونے کی حیثیت سے مجھے ان کی اہمیت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان کی قومی اسمبلی میں کشمیر میں ہونے والے ظلم و تشدد پر متفقہ قرار داد منظور کی تھی۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے اقوام متحدہ میں بھی اس مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ 70 سال گزر گئے ہیں لیکن ابھی تک دونوں ملکوں میں تعلقات کو معمول پر لانے کی کوئی صورت نظر نہیں آئی کیونکہ پاکستان عالمی فورمز پر مسئلہ کشمیر اٹھا دیتا ہے حالانکہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی بھارتی ہم منصب مسز اندرا گاندھی کے مابین 1970ء میں شملہ کے مقام پر یہ معاہدہ عمل میں آیا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے بغیر پاکستان اور بھارت خود طے کریں گے۔
لارڈ ریڈ کلف لندن کی آکسفورڈ اسٹریٹ کے ایک فلیٹ میں قیام پذیر تھے جب میں ان سے ملنے گیا تو انھوں نے خود میرے لیے فلیٹ کا دروازہ کھولا۔ مجھے یقین ہی نہ آیا کہ لندن کے اتنے مشہور لارڈ فلیٹ میں خدام کی فوج ظفر موج کے بغیر ہی اکیلے رہ رہے ہوں گے۔ میں جب ان کے فلیٹ پر پہنچا تو انھوں نے پوچھا کیا میں چائے کا ایک کپ پینا پسند کروں گا جب میں نے اثبات میں جواب دیا تو وہ خود اٹھ کر کچن میں چلے گئے اور میرے لیے چائے کی پیالی تیار کی۔
مجھے پتہ تھا کہ تقسیم کے موقع پر پاکستان اور بھارت کی سرحد کے تعین کے لیے وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ریڈ کلف کو 40 ہزار روپے بطور فیس دینے کا اعلان کیا تھا لیکن تقسیم کے موقع پر ہونے والی قتل و غارت سے ریڈ کلف کو اتنا زیادہ صدمہ ہوا کہ اس نے طے شدہ فیس قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ تقسیم کے نتیجے میں 10 لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہو گئے اور لاکھوں کی تعداد میں قتل و غارت گری کا بھی شکار ہوئے۔ ریڈ کلف کے ضمیر نے 40 ہزار روپے کی فیس قبول کرنا گوارا نہ کیا۔
میرے ساتھ بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ انھیں کشمیر کے معاملے پر دونوں ملکوں کے جنگ کرنے پر بڑی حیرت ہوئی ہے کیونکہ تقسیم کے موقع پر تو میں نے اسے غیر اہم علاقہ تصور کیا تھا۔ انھوں نے تحصیل گورداسپور کو بھارت کے حوالے کرنے کا الزام لارڈ ماؤنٹ بیٹن پر عائد کیا جو کشمیر تک پہنچنے کا زمینی راستہ تھا۔ اگر گورداسپور بھارت کو نہ دیا جاتا تو اس کے پاس کشمیر تک پہنچنے کا کوئی راستہ ہی نہ ہوتا۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی چالبازی کا ایک اور ثبوت اس کے ہاتھ سے لکھے ہوئے ایک خط سے بھی ملتا ہے جو ایک تباہ شدہ طیارے کے ملبے میں سے نکالا گیا۔ یہ طیارہ پاکستان کے شمالی علاقے میں گر کر تباہ ہوا۔ یہ خط لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنے خصوصی معتمد کو دستی طور پر پہنچانے کے لیے دیا تھا جو اس طیارے میں سفر کر رہا تھا۔
پاکستان نے اس واقعے کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی سازش کا ایک حصہ قرار دیا جو اس بنا پر پاکستان سے ناراض تھا کہ اسے مشترکہ گورنر جنرل بنانے سے کیوں انکار کیا گیا۔ مجھے لارڈ ریڈ کلف کے انکشاف پر بڑی حیرت ہوئی جب اس نے بتایا کہ برصغیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی لائن لگاتے ہوئے انھوں نے لاہور کو بھارت کے حصے میں ڈال دیا تھا لیکن تب اسے احساس ہوا کہ پاکستان کے حصے میں تو کوئی بھی اہم شہر نہیں آیا چنانچہ لاہور پاکستان کو دے دیا گیا۔
جہاں تک کشمیر کے حالات کا تعلق ہے تو اس کی ذمے داری میرے خیال میں پاکستان پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ جب برطانوی حکومت ختم کی گئی تو جموں کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنی ریاست کی آزادی کا اعلان کر دیا لیکن پاکستان نے مہاراجہ کا یہ اعلان تسلیم نہ کیا جب کہ بھارت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو بھی اس وقت تک کشمیر کے اپنے ساتھ الحاق کے لیے تیار نہیں تھے جب تک کہ کشمیر کے مقبول عوامی لیڈر شیخ عبداللہ بذات خود بھارت کے ساتھ الحاق کی خواہش ظاہر نہ کریں۔
نہرو کی طرف سے اقرار میں اس قدر تاخیر ہو گئی کہ عسکریت پسند سرینگر ایئرپورٹ پہنچ گئے، اس پر بھارت کو بھی اپنی فوج وہاں بھیجنا پڑی۔ اس معرکہ میں سب سے پہلے جان دینے والے کا نام کیپٹن رائے بتایا گیا ہے۔ پاکستانی دستے اگر پہلے سرینگر ایئرپورٹ پہنچ کر کنٹرول سنبھال لیتے تو آج کہانی مختلف ہوتی۔ میرا خیال ہے کہ سرتاج عزیز کا مودی کو مورد الزام ٹھہرانا بجا نہیں تھا کیونکہ جب مودی نے اسلام آباد میں اسٹاپ اوور کیا تو کشمیر تاریخی طور پر بھارت کے ساتھ الحاق کر چکا تھا۔ مودی نے یہ دورہ خیرسگالی کے طور پر کیا یہی وجہ ہے کہ انھوں نے میاں محمد نواز شریف کی نواسی کی سالگرہ کی تقریب میں بھی شرکت کی۔
پاکستان کے نزدیک سب سے زیادہ اہمیت اسلام کی ہے یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اسے ریاست کا مذہب بنا رکھا ہے اور چونکہ مودی ہندوتوا کے پیروکار ہیں جو کہ بی جے پی کی سرپرست جماعت آر ایس ایس کی سرکاری لائن ہے تو اس وجہ سے بھارت نے مسلمانوں کے خلاف جو بھی زیادتی ہو گی اس کا الزام مودی پر ہی آئے گا۔ میرے خیال میں مذہب کی بنیاد پر جو سرحد تعمیر کی جاتی ہے وہ ہمیشہ ہی مشکلات کا باعث رہتی ہے۔
پاکستان اور بھارت اس وجہ سے بھی ایک دوسرے سے دور ہیں کیونکہ ایک کا مذہب ہندو ازم ہے دوسرے کا اسلام۔ میں سوچتا ہوں کہ کاش کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا یہ خواب سچا ہو جائے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت آپس میں ویسے ہی رہیں جس طرح کہ امریکا اور کینیڈا رہ رہے ہیں۔ قائداعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں رہنے والوں کے لیے مذہبی تفریق ختم ہو جائے گی اور سب کے سب پاکستانی ہونگے خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب یا عقیدے سے ہو، سب کے حقوق مساوی ہوں گے۔
مودی منتخب وزیراعظم ہیں وہ اور ان کی پارٹی بی جے پی ایک کھلے' اور غیر جانبدار الیکشن کے نتیجے میں برسراقتدار آئی ہے جو جمہوریت کا نتیجہ ہے اور اسی وجہ سے انھیں ملک میں سب سے چوٹی کا درجہ عطا کیا گیا۔ میں ذاتی طور پر مودی اور ان کی پارٹی کے نظریے کو پسند نہیں کرتا لیکن چونکہ وہ بھارت کے وزیراعظم ہیں اور بھارت کا ایک شہری ہونے کی حیثیت سے مجھے ان کی اہمیت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان کی قومی اسمبلی میں کشمیر میں ہونے والے ظلم و تشدد پر متفقہ قرار داد منظور کی تھی۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے اقوام متحدہ میں بھی اس مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ 70 سال گزر گئے ہیں لیکن ابھی تک دونوں ملکوں میں تعلقات کو معمول پر لانے کی کوئی صورت نظر نہیں آئی کیونکہ پاکستان عالمی فورمز پر مسئلہ کشمیر اٹھا دیتا ہے حالانکہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی بھارتی ہم منصب مسز اندرا گاندھی کے مابین 1970ء میں شملہ کے مقام پر یہ معاہدہ عمل میں آیا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے بغیر پاکستان اور بھارت خود طے کریں گے۔
لارڈ ریڈ کلف لندن کی آکسفورڈ اسٹریٹ کے ایک فلیٹ میں قیام پذیر تھے جب میں ان سے ملنے گیا تو انھوں نے خود میرے لیے فلیٹ کا دروازہ کھولا۔ مجھے یقین ہی نہ آیا کہ لندن کے اتنے مشہور لارڈ فلیٹ میں خدام کی فوج ظفر موج کے بغیر ہی اکیلے رہ رہے ہوں گے۔ میں جب ان کے فلیٹ پر پہنچا تو انھوں نے پوچھا کیا میں چائے کا ایک کپ پینا پسند کروں گا جب میں نے اثبات میں جواب دیا تو وہ خود اٹھ کر کچن میں چلے گئے اور میرے لیے چائے کی پیالی تیار کی۔
مجھے پتہ تھا کہ تقسیم کے موقع پر پاکستان اور بھارت کی سرحد کے تعین کے لیے وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ریڈ کلف کو 40 ہزار روپے بطور فیس دینے کا اعلان کیا تھا لیکن تقسیم کے موقع پر ہونے والی قتل و غارت سے ریڈ کلف کو اتنا زیادہ صدمہ ہوا کہ اس نے طے شدہ فیس قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ تقسیم کے نتیجے میں 10 لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہو گئے اور لاکھوں کی تعداد میں قتل و غارت گری کا بھی شکار ہوئے۔ ریڈ کلف کے ضمیر نے 40 ہزار روپے کی فیس قبول کرنا گوارا نہ کیا۔
میرے ساتھ بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ انھیں کشمیر کے معاملے پر دونوں ملکوں کے جنگ کرنے پر بڑی حیرت ہوئی ہے کیونکہ تقسیم کے موقع پر تو میں نے اسے غیر اہم علاقہ تصور کیا تھا۔ انھوں نے تحصیل گورداسپور کو بھارت کے حوالے کرنے کا الزام لارڈ ماؤنٹ بیٹن پر عائد کیا جو کشمیر تک پہنچنے کا زمینی راستہ تھا۔ اگر گورداسپور بھارت کو نہ دیا جاتا تو اس کے پاس کشمیر تک پہنچنے کا کوئی راستہ ہی نہ ہوتا۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی چالبازی کا ایک اور ثبوت اس کے ہاتھ سے لکھے ہوئے ایک خط سے بھی ملتا ہے جو ایک تباہ شدہ طیارے کے ملبے میں سے نکالا گیا۔ یہ طیارہ پاکستان کے شمالی علاقے میں گر کر تباہ ہوا۔ یہ خط لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنے خصوصی معتمد کو دستی طور پر پہنچانے کے لیے دیا تھا جو اس طیارے میں سفر کر رہا تھا۔
پاکستان نے اس واقعے کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی سازش کا ایک حصہ قرار دیا جو اس بنا پر پاکستان سے ناراض تھا کہ اسے مشترکہ گورنر جنرل بنانے سے کیوں انکار کیا گیا۔ مجھے لارڈ ریڈ کلف کے انکشاف پر بڑی حیرت ہوئی جب اس نے بتایا کہ برصغیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی لائن لگاتے ہوئے انھوں نے لاہور کو بھارت کے حصے میں ڈال دیا تھا لیکن تب اسے احساس ہوا کہ پاکستان کے حصے میں تو کوئی بھی اہم شہر نہیں آیا چنانچہ لاہور پاکستان کو دے دیا گیا۔
جہاں تک کشمیر کے حالات کا تعلق ہے تو اس کی ذمے داری میرے خیال میں پاکستان پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ جب برطانوی حکومت ختم کی گئی تو جموں کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنی ریاست کی آزادی کا اعلان کر دیا لیکن پاکستان نے مہاراجہ کا یہ اعلان تسلیم نہ کیا جب کہ بھارت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو بھی اس وقت تک کشمیر کے اپنے ساتھ الحاق کے لیے تیار نہیں تھے جب تک کہ کشمیر کے مقبول عوامی لیڈر شیخ عبداللہ بذات خود بھارت کے ساتھ الحاق کی خواہش ظاہر نہ کریں۔
نہرو کی طرف سے اقرار میں اس قدر تاخیر ہو گئی کہ عسکریت پسند سرینگر ایئرپورٹ پہنچ گئے، اس پر بھارت کو بھی اپنی فوج وہاں بھیجنا پڑی۔ اس معرکہ میں سب سے پہلے جان دینے والے کا نام کیپٹن رائے بتایا گیا ہے۔ پاکستانی دستے اگر پہلے سرینگر ایئرپورٹ پہنچ کر کنٹرول سنبھال لیتے تو آج کہانی مختلف ہوتی۔ میرا خیال ہے کہ سرتاج عزیز کا مودی کو مورد الزام ٹھہرانا بجا نہیں تھا کیونکہ جب مودی نے اسلام آباد میں اسٹاپ اوور کیا تو کشمیر تاریخی طور پر بھارت کے ساتھ الحاق کر چکا تھا۔ مودی نے یہ دورہ خیرسگالی کے طور پر کیا یہی وجہ ہے کہ انھوں نے میاں محمد نواز شریف کی نواسی کی سالگرہ کی تقریب میں بھی شرکت کی۔
پاکستان کے نزدیک سب سے زیادہ اہمیت اسلام کی ہے یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اسے ریاست کا مذہب بنا رکھا ہے اور چونکہ مودی ہندوتوا کے پیروکار ہیں جو کہ بی جے پی کی سرپرست جماعت آر ایس ایس کی سرکاری لائن ہے تو اس وجہ سے بھارت نے مسلمانوں کے خلاف جو بھی زیادتی ہو گی اس کا الزام مودی پر ہی آئے گا۔ میرے خیال میں مذہب کی بنیاد پر جو سرحد تعمیر کی جاتی ہے وہ ہمیشہ ہی مشکلات کا باعث رہتی ہے۔
پاکستان اور بھارت اس وجہ سے بھی ایک دوسرے سے دور ہیں کیونکہ ایک کا مذہب ہندو ازم ہے دوسرے کا اسلام۔ میں سوچتا ہوں کہ کاش کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا یہ خواب سچا ہو جائے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت آپس میں ویسے ہی رہیں جس طرح کہ امریکا اور کینیڈا رہ رہے ہیں۔ قائداعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں رہنے والوں کے لیے مذہبی تفریق ختم ہو جائے گی اور سب کے سب پاکستانی ہونگے خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب یا عقیدے سے ہو، سب کے حقوق مساوی ہوں گے۔