طاہرالقادری’’ ناراض‘‘ کیوں
دھرناتحریک کے ایک سال بعد2015ء میں طاہرالقادری پھر بڑے دھوم دھڑکے کے ساتھ پاکستان آئے
عام تاثریہ ہے کہ عین اس وقت جب کہ عمران خان نے حکومت کے خلاف ایک بارپھراسلام آباد مارچ کی کال دی ہے، طاہرالقادری اس لیے ناراض ہو کربیرون ملک تشریف لے گئے ہیں کہ ان سے مشاورت کیوں نہیں کی گئی۔ یہ تاثر کسی حد تک درست بھی ہے، بلکہ اس طرح کی شکایت ان کوجون2013ء میں بھی پیداہو گئی تھی، جب عمران خان نے اسی انداز میں آزادی مارچ کے لیے 14اگست کی تاریخ دے دی تھی۔
طاہرالقادری اپنی نجی مجلسوں میں دعویٰ کرتے تھے کہ لندن میں عمران خان کے ساتھ طے پایاتھاکہ حکومت کے خلاف لانگ مارچ کی تاریخ باہمی مشاورت سے دی جائے گی۔ اب کی بار مگر طاہرالقادری کاعمران خان کے ساتھ بنیادی اختلاف کچھ اور ہے، اور وہ یہ ہے کہ حکومت کے خلاف آخری اور فیصلہ کن راونڈسے پہلے طاہرالقادری، عمران خا ن سے آیندہ الیکشن میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ۔
یہ بات اپنی جگہ دلچسپ ہے کہ کہاں دو سال پہلے 'انقلاب مارچ' کے دوران طاہرالقادری کایہ بلند بانگ نعرہ کہ 'انتخاب نہیںانقلاب' اورکہاں' تحریک قصاص' کے دوران ان کی یہ تگ ودوکہ کسی نہ کسی طرح تحریک انصاف سے آیندہ الیکشن میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی یقین دہانی حاصل کریں۔2014ء میں جب اسلام آباددھرناسے اٹھتے ہی وہ بھکرکے ضمنی الیکشن میں کودپڑے تھے توان کے مخالف ہی نہیں، ان کے حامی بھی اس یوٹرن پر ششدررہ گئے تھے۔ ان دنوں انھی کالموں میں عرض کیا گیا تھا کہ طاہر القادری کایہ فیصلہ اس امرکاغماز ہے کہ بھلے وہ انقلاب کی اصطلاح زوروشورسے استعمال کرتے ہیں لیکن انقلاب کی روح سے قطعاً نا آشنا ہیں۔
الیکشن میں حصہ لینے یانہ لینے کے بارے میں بھی وہ یکسو نہیں۔ چنانچہ وہ 'انقلاب مارچ' جو 'الیکشن' کی کامل نفی کرنے پرشروع ہوا، اس طرح اختتام پذیرہواکہ وہ بھکرکے ضمنی الیکشن کی انتخابی مہم پرتھے۔ طاہرالقادری ایران کے انقلاب کے بڑے مداح ہیں۔ طاہرالقادری کی ان دنوں کی گفتگووں میں بھی 'انقلاب ایران' کابڑا تذکرہ ہوتاتھا، مگروہ یہ چیز فراموش کرجاتے تھے کہ ایران میں علماء کوجو معاشرتی قدرومنزلت اور اثرورسوخ حاصل ہے، وہ پاکستان میں میسر نہیں۔
عام لوگ معاشرتی امور میں 'مولوی'یا ' مولانا' کے پیچھے چلنے پرراضی ہو جاتے ہیںمگرسیاسی امورمیںان کو'قائد' ماننے پرآمادہ نہیں ہوتے۔ شایدیہ بھی ایک وجہ ہے کہ مولویانہ وضع قطع کے باوجودطاہرالقادری خودکو 'مولوی' کیا'مولانا' کہلوانے کے لیے بھی تیار نہیں۔ وہ'ڈاکٹر'کہلوانا زیادہ پسندکرتے ہیں۔حالانکہ'مولوی' ہوناکوئی معیوب بات نہیںاورمولانا روم علیہ رحمتہ جن کوعلامہ اقبال اپنا روحانی مرشد مانتے تھے،کے نزدیک 'مولوی' ہونابڑے اعزازکی بات ہے۔
اپنے اس مذہبی پس منظرکے باوجودطاہر القادری اگر 2013 میں زرداری حکومت کے لیے اور2014 میں نوازشریف حکومت کے لیے خطرہ بن گئے تواس کامطلب ہے ان میںقیادت کی بھرپورصلاحیت موجودہے۔2014ء میں وہ حکومت کے لیے اتنا بڑاخطرہ بن گئے کہ اس کابچنامشکل نظرآتاتھا۔ اس سے پہلے وہ اس انقلابی اندازمیں پاکستان پہنچے کہ اسلام آبادائرپورٹ پران کواترنے سے روکنے کے لیے حکومت کوان کے طیارے کارخ موڑنا پڑا۔
14 اگست کوجس طرح حکومت کی تمام تررکاوٹوں کوہٹاکروہ اسلام آباد پہنچے اوروہاں شاہراہ دستورپرمسلسل کئی ہفتوں تک دھرنادیا، یہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔مگریہ سمجھنا مشکل نہیںکہ اس سے آگے ان کے پاس کوئی پلان نہ تھا۔ انھوں نے یہ بڑماری کہ دھرنا ختم نہیں کر رہے بلکہ اس کو پورے ملک میں پھیلا رہے ہیں،ا وراس کے تھوڑے دنوں بعد ہی'بغرض ِعلاج' لندن چلے گئے اوروہاں سے کینیڈا تشریف لے گئے۔ ان کے اس خلاف حقیقت دعواکی وجہ سے ہی ان کے بعض مخالف یہ کہتے ہوئے بھی پائے گئے کہ انقلابی دھرنا کا خاتمہ حکومت کے ساتھ سمجھوتاکانتیجہ تھا۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی ۔
دھرناتحریک کے ایک سال بعد2015ء میں طاہرالقادری پھر بڑے دھوم دھڑکے کے ساتھ پاکستان آئے، مگراس وقت تک سانحہ ماڈل ٹاون پرحکومت کی نئی جے آئی ٹی اپنی تحقیقاتی رپورٹ منظر پر آ چکی تھی۔ طاہرالقادری نے نئی جے آئی ٹی رپورٹ کو مسترد کردیااوراس کے خلاف ملک بھرمیں احتجاجی مظاہرے کرنے کااعلان کیا، جس کاپہلا راونڈبقول پارٹی ترجمان کے طاہرالقادری کے پاکستان پہنچنے پراختتام پذیرہوا۔
جیساکہ کہاجارہا تھا، کچھ عرصہ پاکستان میں قیام کے بعد طاہرالقادری حسب معمول واپس کینیڈاچلے گئے۔ اس پر ان سطور میں ان سے عرض کی گئی تھی کہ اگروہ واقعتاً ملکی سیاست میں کوئی کرداراداکرناچاہتے ہیں تواس سے پہلے غیرملکی شہریت سے دست بردار ہوکراپنی کامل سنجیدگی کا ثبوت مہیاکریں۔ معلوم نہیں،ان کواس امرکاکچھ احساس ہے بھی یا نہیں کہ کینیڈین نیشنیلٹی کے سلسلہ میں ان کی حددرجہ حساسیت نے ان کی شخصیت کومضحکہ خیزبنا کے رکھ دیاہے۔
اس ضمن میں ان کایہ کہنابھی درست نہیں کہ ان کے پارٹی کارکنوں کوجب ان کی غیرملکی شہریت پرکوئی اعتراض نہیں توکسی اورکوبھی اس پراعتراض کا حق نہیں پہنچتا۔ اگران کا 'انقلاب' تمام پاکستانیوں کے لیے ہے توپھر اس کے لیے ضروری نہیں کہ اس ضمن میں عوامی تحریک کاکوئی کارکن ہی ان سے جواب طلب کرسکتا ہے۔ وجوہات جو بھی ہوں، لگتا یہی ہے کہ طاہرالقادری کسی صورت اپنی کینیڈین نیشنیلٹی سے دستبردارہونے کوتیارنہیں ۔
اب جب کہ سانحہ ماڈل ٹاون کودوسال گزرچکے ہیں، طاہرالقادری سانحہ ماڈل ٹاون پرپھرسے احتجاجی ریلیوں کاسلسلہ شروع کرچکے ہیں؛ مگریہ سمجھنامشکل نہیں کہ وہ اگرپھرسے اپنی احتجاجی تحریک شروع کرنے کے قابل ہوئے ہیں تواس کی وجہ پانامہ کرپشن لیکس کابحران ہے، جس میں عمران خان کی احتجاجی تحریک کی وجہ سے حکومت ابھی تک نکل نہیں پارہی ہے۔ نومبرمیںجنرل راحیل شریف ریٹائر ہورہے ہیں، جن سے طاہرالقادری براہ راست مطالبہ کررہے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاون پران کوانصاف دلایاجائے،اس طرح یہ عنصربھی کہیںنہ کہیںکسی نہ کسی طرح relavent ہے۔
پانامہ لیکس کے منظرعام پرآنے کے بعد طاہر القادری اورعمران خان جس طرح یکے بعددیگرے حکومت کے خلاف بروئے کارآئے ،ایک ہی دن ایک ہی وقت میں لاہوراورراولپنڈی میں احتجاجی ریلیاں نکالیں، اس پس منظر میں عام تاثریہی تھاکہ2014 ء کے برخلاف اس مرتبہ دونوں قائدین کے درمیان پہلے سے زیادہ اور بھرپورہم آہنگی ہوگی؛ تاہم فی الحال اس طرح کی کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔
رائے ونڈ کی طرف مارچ کرنے کے لیے طاہرالقادری نے عمران خان سے بھی پہلے اپنے کارکنوں سے عہدلیاتھا، مگرجیسے ہی عمران خان نے راے ونڈمارچ کااعلان کیا، طاہرالقادری ایک دم سے پیچھے ہٹ گئے اور لندن چلے گئے۔ جب ان کی توقع کے برعکس عمران خان کاراے ونڈمارچ انتہائی کامیاب رہا، تب انھوں نے ٹی وی چینلزپر آکے کہنا شروع کیاکہ ان کے اورعمران خان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں اوریہ کہ انھوںنے رائے ونڈ مارچ میں اس لیے شرکت نہیں کی کہ ان کو باضابطہ طور پر دعوت ہی نہیں دی گئی۔ گزارش یہ ہے کہ اگردعوت نہیں دی گئی تھی توباقاعدہ پریس کانفرنس کرکے یہ اعلان کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ عوامی تحریک راے ونڈمارچ میں شرکت نہیں کرے گی۔
طاہرالقادری نہیں سمجھ رہے کہ ان کی 'تحریک قصاص' کوجس پولیٹیکل کورکی ضرورت ہے، وہ چوہدری برادران کے بعدعمران خان ہی ان کومہیاکرسکتے ہیں۔ ورنہ پیپلزپارٹی اوراپوزیشن کی باقی پارٹیاں ان کو سیاسی طورپرتسلیم کرنے کے لیے تیارنہیں ہیں۔ اب صورت یہ ہے کہ مران خان حکومت کے خلاف اسلام آباد مارچ کی کال دے چکے ہیں۔ طاہرالقادری جوراے ونڈمارچ سے پہلے یہ کہہ کے لندن گئے تھے کہ وہ سانحہ ماڈل ٹاون کا مقدمہ لڑنے عالمی اداروں میں جارہے ہیں، براستہ لندن واپس کینیڈاپہنچ چکے ہیں۔
لاہورمیں ان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ لندن میں طاہرالقادری اور پی ٹی آئی رہنماؤںچوہدری سروراور جہانگیرترین کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہوا، تاہم اسلام آبادمارچ میں شرکت کرنے یانہ کرنے کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیااوریہ حتمی فیصـلہ21 اکتوبر کو طاہرالقادری کی کینیڈا سے لندن واپسی کے بعدہوگا۔ اسلام آباد مارچ سے پہلے طاہرالقادری اورعمران خان میں اگرکوئی سمجھوتا نہیں ہوتا توظاہراً دونوں ہی کواس کانقصان ہوگا، مگر طاہر القادری کو اس کازیادہ نقصان ہوگا،کیونکہ چوہدری برادران کے بعدعمران خان اورشیخ رشید احمد بھی، جوسانحہ ماڈل ٹاون پران سے دلی ہمدردی رکھتے ہیں، ان سے دور ہوجائیں گے اورسیاسی طورپروہ تنہاکھڑے نظرآئیں گے، جس کے ذمے داربھی وہ خودہوںگے۔ شاعرنے کہاتھا،
کیوں اداس پھرتے ہوسردیوں کی شاموں میں
اس طرح توہوتاہے اس طرح کے کاموں میں
طاہرالقادری اپنی نجی مجلسوں میں دعویٰ کرتے تھے کہ لندن میں عمران خان کے ساتھ طے پایاتھاکہ حکومت کے خلاف لانگ مارچ کی تاریخ باہمی مشاورت سے دی جائے گی۔ اب کی بار مگر طاہرالقادری کاعمران خان کے ساتھ بنیادی اختلاف کچھ اور ہے، اور وہ یہ ہے کہ حکومت کے خلاف آخری اور فیصلہ کن راونڈسے پہلے طاہرالقادری، عمران خا ن سے آیندہ الیکشن میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ۔
یہ بات اپنی جگہ دلچسپ ہے کہ کہاں دو سال پہلے 'انقلاب مارچ' کے دوران طاہرالقادری کایہ بلند بانگ نعرہ کہ 'انتخاب نہیںانقلاب' اورکہاں' تحریک قصاص' کے دوران ان کی یہ تگ ودوکہ کسی نہ کسی طرح تحریک انصاف سے آیندہ الیکشن میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی یقین دہانی حاصل کریں۔2014ء میں جب اسلام آباددھرناسے اٹھتے ہی وہ بھکرکے ضمنی الیکشن میں کودپڑے تھے توان کے مخالف ہی نہیں، ان کے حامی بھی اس یوٹرن پر ششدررہ گئے تھے۔ ان دنوں انھی کالموں میں عرض کیا گیا تھا کہ طاہر القادری کایہ فیصلہ اس امرکاغماز ہے کہ بھلے وہ انقلاب کی اصطلاح زوروشورسے استعمال کرتے ہیں لیکن انقلاب کی روح سے قطعاً نا آشنا ہیں۔
الیکشن میں حصہ لینے یانہ لینے کے بارے میں بھی وہ یکسو نہیں۔ چنانچہ وہ 'انقلاب مارچ' جو 'الیکشن' کی کامل نفی کرنے پرشروع ہوا، اس طرح اختتام پذیرہواکہ وہ بھکرکے ضمنی الیکشن کی انتخابی مہم پرتھے۔ طاہرالقادری ایران کے انقلاب کے بڑے مداح ہیں۔ طاہرالقادری کی ان دنوں کی گفتگووں میں بھی 'انقلاب ایران' کابڑا تذکرہ ہوتاتھا، مگروہ یہ چیز فراموش کرجاتے تھے کہ ایران میں علماء کوجو معاشرتی قدرومنزلت اور اثرورسوخ حاصل ہے، وہ پاکستان میں میسر نہیں۔
عام لوگ معاشرتی امور میں 'مولوی'یا ' مولانا' کے پیچھے چلنے پرراضی ہو جاتے ہیںمگرسیاسی امورمیںان کو'قائد' ماننے پرآمادہ نہیں ہوتے۔ شایدیہ بھی ایک وجہ ہے کہ مولویانہ وضع قطع کے باوجودطاہرالقادری خودکو 'مولوی' کیا'مولانا' کہلوانے کے لیے بھی تیار نہیں۔ وہ'ڈاکٹر'کہلوانا زیادہ پسندکرتے ہیں۔حالانکہ'مولوی' ہوناکوئی معیوب بات نہیںاورمولانا روم علیہ رحمتہ جن کوعلامہ اقبال اپنا روحانی مرشد مانتے تھے،کے نزدیک 'مولوی' ہونابڑے اعزازکی بات ہے۔
اپنے اس مذہبی پس منظرکے باوجودطاہر القادری اگر 2013 میں زرداری حکومت کے لیے اور2014 میں نوازشریف حکومت کے لیے خطرہ بن گئے تواس کامطلب ہے ان میںقیادت کی بھرپورصلاحیت موجودہے۔2014ء میں وہ حکومت کے لیے اتنا بڑاخطرہ بن گئے کہ اس کابچنامشکل نظرآتاتھا۔ اس سے پہلے وہ اس انقلابی اندازمیں پاکستان پہنچے کہ اسلام آبادائرپورٹ پران کواترنے سے روکنے کے لیے حکومت کوان کے طیارے کارخ موڑنا پڑا۔
14 اگست کوجس طرح حکومت کی تمام تررکاوٹوں کوہٹاکروہ اسلام آباد پہنچے اوروہاں شاہراہ دستورپرمسلسل کئی ہفتوں تک دھرنادیا، یہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔مگریہ سمجھنا مشکل نہیںکہ اس سے آگے ان کے پاس کوئی پلان نہ تھا۔ انھوں نے یہ بڑماری کہ دھرنا ختم نہیں کر رہے بلکہ اس کو پورے ملک میں پھیلا رہے ہیں،ا وراس کے تھوڑے دنوں بعد ہی'بغرض ِعلاج' لندن چلے گئے اوروہاں سے کینیڈا تشریف لے گئے۔ ان کے اس خلاف حقیقت دعواکی وجہ سے ہی ان کے بعض مخالف یہ کہتے ہوئے بھی پائے گئے کہ انقلابی دھرنا کا خاتمہ حکومت کے ساتھ سمجھوتاکانتیجہ تھا۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی ۔
دھرناتحریک کے ایک سال بعد2015ء میں طاہرالقادری پھر بڑے دھوم دھڑکے کے ساتھ پاکستان آئے، مگراس وقت تک سانحہ ماڈل ٹاون پرحکومت کی نئی جے آئی ٹی اپنی تحقیقاتی رپورٹ منظر پر آ چکی تھی۔ طاہرالقادری نے نئی جے آئی ٹی رپورٹ کو مسترد کردیااوراس کے خلاف ملک بھرمیں احتجاجی مظاہرے کرنے کااعلان کیا، جس کاپہلا راونڈبقول پارٹی ترجمان کے طاہرالقادری کے پاکستان پہنچنے پراختتام پذیرہوا۔
جیساکہ کہاجارہا تھا، کچھ عرصہ پاکستان میں قیام کے بعد طاہرالقادری حسب معمول واپس کینیڈاچلے گئے۔ اس پر ان سطور میں ان سے عرض کی گئی تھی کہ اگروہ واقعتاً ملکی سیاست میں کوئی کرداراداکرناچاہتے ہیں تواس سے پہلے غیرملکی شہریت سے دست بردار ہوکراپنی کامل سنجیدگی کا ثبوت مہیاکریں۔ معلوم نہیں،ان کواس امرکاکچھ احساس ہے بھی یا نہیں کہ کینیڈین نیشنیلٹی کے سلسلہ میں ان کی حددرجہ حساسیت نے ان کی شخصیت کومضحکہ خیزبنا کے رکھ دیاہے۔
اس ضمن میں ان کایہ کہنابھی درست نہیں کہ ان کے پارٹی کارکنوں کوجب ان کی غیرملکی شہریت پرکوئی اعتراض نہیں توکسی اورکوبھی اس پراعتراض کا حق نہیں پہنچتا۔ اگران کا 'انقلاب' تمام پاکستانیوں کے لیے ہے توپھر اس کے لیے ضروری نہیں کہ اس ضمن میں عوامی تحریک کاکوئی کارکن ہی ان سے جواب طلب کرسکتا ہے۔ وجوہات جو بھی ہوں، لگتا یہی ہے کہ طاہرالقادری کسی صورت اپنی کینیڈین نیشنیلٹی سے دستبردارہونے کوتیارنہیں ۔
اب جب کہ سانحہ ماڈل ٹاون کودوسال گزرچکے ہیں، طاہرالقادری سانحہ ماڈل ٹاون پرپھرسے احتجاجی ریلیوں کاسلسلہ شروع کرچکے ہیں؛ مگریہ سمجھنامشکل نہیں کہ وہ اگرپھرسے اپنی احتجاجی تحریک شروع کرنے کے قابل ہوئے ہیں تواس کی وجہ پانامہ کرپشن لیکس کابحران ہے، جس میں عمران خان کی احتجاجی تحریک کی وجہ سے حکومت ابھی تک نکل نہیں پارہی ہے۔ نومبرمیںجنرل راحیل شریف ریٹائر ہورہے ہیں، جن سے طاہرالقادری براہ راست مطالبہ کررہے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاون پران کوانصاف دلایاجائے،اس طرح یہ عنصربھی کہیںنہ کہیںکسی نہ کسی طرح relavent ہے۔
پانامہ لیکس کے منظرعام پرآنے کے بعد طاہر القادری اورعمران خان جس طرح یکے بعددیگرے حکومت کے خلاف بروئے کارآئے ،ایک ہی دن ایک ہی وقت میں لاہوراورراولپنڈی میں احتجاجی ریلیاں نکالیں، اس پس منظر میں عام تاثریہی تھاکہ2014 ء کے برخلاف اس مرتبہ دونوں قائدین کے درمیان پہلے سے زیادہ اور بھرپورہم آہنگی ہوگی؛ تاہم فی الحال اس طرح کی کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔
رائے ونڈ کی طرف مارچ کرنے کے لیے طاہرالقادری نے عمران خان سے بھی پہلے اپنے کارکنوں سے عہدلیاتھا، مگرجیسے ہی عمران خان نے راے ونڈمارچ کااعلان کیا، طاہرالقادری ایک دم سے پیچھے ہٹ گئے اور لندن چلے گئے۔ جب ان کی توقع کے برعکس عمران خان کاراے ونڈمارچ انتہائی کامیاب رہا، تب انھوں نے ٹی وی چینلزپر آکے کہنا شروع کیاکہ ان کے اورعمران خان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں اوریہ کہ انھوںنے رائے ونڈ مارچ میں اس لیے شرکت نہیں کی کہ ان کو باضابطہ طور پر دعوت ہی نہیں دی گئی۔ گزارش یہ ہے کہ اگردعوت نہیں دی گئی تھی توباقاعدہ پریس کانفرنس کرکے یہ اعلان کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ عوامی تحریک راے ونڈمارچ میں شرکت نہیں کرے گی۔
طاہرالقادری نہیں سمجھ رہے کہ ان کی 'تحریک قصاص' کوجس پولیٹیکل کورکی ضرورت ہے، وہ چوہدری برادران کے بعدعمران خان ہی ان کومہیاکرسکتے ہیں۔ ورنہ پیپلزپارٹی اوراپوزیشن کی باقی پارٹیاں ان کو سیاسی طورپرتسلیم کرنے کے لیے تیارنہیں ہیں۔ اب صورت یہ ہے کہ مران خان حکومت کے خلاف اسلام آباد مارچ کی کال دے چکے ہیں۔ طاہرالقادری جوراے ونڈمارچ سے پہلے یہ کہہ کے لندن گئے تھے کہ وہ سانحہ ماڈل ٹاون کا مقدمہ لڑنے عالمی اداروں میں جارہے ہیں، براستہ لندن واپس کینیڈاپہنچ چکے ہیں۔
لاہورمیں ان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ لندن میں طاہرالقادری اور پی ٹی آئی رہنماؤںچوہدری سروراور جہانگیرترین کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہوا، تاہم اسلام آبادمارچ میں شرکت کرنے یانہ کرنے کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیااوریہ حتمی فیصـلہ21 اکتوبر کو طاہرالقادری کی کینیڈا سے لندن واپسی کے بعدہوگا۔ اسلام آباد مارچ سے پہلے طاہرالقادری اورعمران خان میں اگرکوئی سمجھوتا نہیں ہوتا توظاہراً دونوں ہی کواس کانقصان ہوگا، مگر طاہر القادری کو اس کازیادہ نقصان ہوگا،کیونکہ چوہدری برادران کے بعدعمران خان اورشیخ رشید احمد بھی، جوسانحہ ماڈل ٹاون پران سے دلی ہمدردی رکھتے ہیں، ان سے دور ہوجائیں گے اورسیاسی طورپروہ تنہاکھڑے نظرآئیں گے، جس کے ذمے داربھی وہ خودہوںگے۔ شاعرنے کہاتھا،
کیوں اداس پھرتے ہوسردیوں کی شاموں میں
اس طرح توہوتاہے اس طرح کے کاموں میں