مقصد شہادت حسینؓ
دین اسلام جس کے تحفظ کی ذمے داری خود اللہ رب العزت نے اپنے ذمے رکھی ہے
دین اسلام جس کے تحفظ کی ذمے داری خود اللہ رب العزت نے اپنے ذمے رکھی ہے۔ البتہ اس دین کو دنیا میں متعارف کرانے کے لیے ایک سلسلہ ہدایت بصورت انبیا علیہ السلام ہردور میں جاری کیا۔ یوں ہدایت انسانی کا بندوبست فرمایا کہ اپنے پہلے بندے آدم کو خلیفہ ارض اور نبی بناکر اصلاح ارض وانسانیت کا سبب قرار دیا۔ ان تمام انبیائے علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنی حجت بھی قرار دیا تاکہ روز محشرکوئی ایک انسان بھی یہ عذر پیش نہ کرسکے کہ تیری ہدایت ہم تک نہیں پہنچی تھی اس لیے ہم تیری وحدانیت و لاشریک ہونے سے بے خبر رہے۔
یہی وجہ ہے اللہ تعالیٰ اپنے سلسلہ ہدایت کو حجت قرار دیتا ہے یہ سلسلہ ہدایت خاتم النبین ﷺ تک آکر بطور نبوت و رسالت اختتام پذیر ہوا، مگر کیونکہ حضور ختمی مرتبتؐ نبی آخر الزماں ہیں تو ایک لاکھ 24 ہزار انبیا اور خود حضورؐ کی محنت شاقہ کے بعد جو دین الٰہی دنیا میں قائم ہوا وہ محض ختم رسالت تک کے لیے نہ تھا بلکہ اس کو قیام قیامت باقی، جاری و ساری رہنا تھا۔ بعد رسولؐ اس کو قیامت تک بحسن و خوبی جاری رکھنے کا انتظام حضور پرنورؐ کی سب سے اہم ذمے داری تھی۔ اس سلسلے میں آپؐ کا خطبہ حجۃ الوداع بے حد اہمیت کا حامل ہے۔
آپؐ نے اس اہم خطبے میں اپنے فرائض نبوت اور دین الٰہی کا مکمل نچوڑ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں (حدیث ثقلین) ایک کتاب اللہ ( قرآن مجید) اور دوسری میری سنت (اس سلسلے میں معتبرکتب میں اختلاف ہے کہ سنت فرمایا یا عترت یعنی اہلبیت)مگر یہ کوئی ایسا اختلاف نہیں کہ امت مسلمہ اس پر تفرقے کا شکار ہو کیونکہ سنت ہو یا عترت مطلب یہ ہے قرآن بنی نوع انسان کے لیے مکمل ضابطہ حیات ہے۔ مگر کتاب بغیر معلم ہر کسی کی سمجھ میں نہیں آجاتی یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت کا آغاز پہلے معلمین (انبیا علیہ السلام) کے ذریعے فرمایا اور بعد میں کتب اور صحیفے نازل فرمائے یہ کتب بھی انبیا پر ہی اتریں۔ اس کی عام سی مثال ہے کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ''یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃَ '' (البقرہ) تو اب نماز کیسے قائم کی جائے؟
اس کا عملی مظاہرہ خود نبی اکرم ؐ نے کرکے بتائیں گے یوں ہی تمام واجبات روزہ، زکوٰۃ، جہاد وغیرہ کے علاوہ دیگر احکامات الٰہی کی صورت ہے کہ ان کا عملی مظاہرہ پیش کیا جائے۔ حتیٰ کہ حیات مبارکہ کے آخری سال میں حج بیت اللہ کو بھی آپؐ نے ادا کرکے بتا دیا کہ یہ عبادت کس طرح کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا دین مکمل ہوگیا اور اس کی نعمتوں کا اہتمام بھی۔ مگر آپؐ کے زمانے کے بعد آنے والوں کے لیے آپؐ نے یہ مکمل بندوبست فرمایا کہ دو گراں قدر چیزیں ہدایت انسانی کے لیے چھوڑ گئے اور ساتھ ہی فرمادیا کہ اگر تم ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو روز محشر حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات ہوگی۔ اگر ان دونوں میں سے کسی ایک سے بھی ترک تعلق کیا تو پھر گمراہی تمہارا مقدر ہوگی۔
افسوس صد افسوس جب خلافت راشدہ کے بعد بقول مولانا مودودی ملوکیت میں تبدیل ہوگئی اور مسند خلافت نے تخت شاہی کا روپ اختیار کرلیا۔ اپنی اس خلافت کو جائز و شرعی قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ ان حالات میں صرف عترتِ رسولؐ یعنی اہلبیت رسولؐ ہی شریعت محمدیؐ پر مکمل طور پر عمل پیرا رہے۔ مگر علم رسالت کے یہ حقیقی وارث تمام تر مشکلات کے باوجود دین الٰہی کو اس کی اصلی صورت میں کسی نہ کسی طرح برقرار رکھنے میں کوشاں وکامیاب رہے۔
حدیث قدسی ہے کہ ''حسین ومنی وانا من الحسین''یعنی ''حسین مجھ سے اور میں حسین سے'' اس حدیث اقدس کی روشنی میں اگر شہادت حسینؓ کو دیکھا اور سمجھا جائے تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ حسینؓ کربلا میں یزید سے تخت خلافت چھیننے یا اقتدار حاصل کرنے نہیں بلکہ دین الٰہی اور شریعت محمدیؐ کو بچانے اور تاقیامت حق و باطل کا فیصلہ کرنے کے لیے تشریف لائے تھے۔ بعض مورخین نے واقعہ کربلا کو دوشہزادوں کی جنگ اور بعض نے حصول اقتدار کا معرکہ قرار دیا ہے اس کے علاوہ کچھ نے بچوں اورخواتین کو ساتھ لانے پر اعتراض کیا ہے ان تمام اعتراضات کے جواب خود تاریخ کربلا میں موجود ہیں۔
ایک بات واضح کردوں کہ یزید تو بے شک شہزادوں کی طرح پلا بڑھا تھا مگر حسینؓ شہزادہ (دنیاوی معنوں میں) ہرگز نہ تھے، وہ آغوش رسالتؐ کے پروردہ شریعت محمدیؐ پر بچپن سے عمل پیرا، روح اسلام سے حقیقی آگاہی کے علاوہ سیرت و کردار میں اپنے نانا کا پرتو تھے۔ یہی حقیقت حضور پاکؐ کی اس حدیث مبارکہ سے ظاہر ہوتی ہے کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے، کیونکہ جو مقصد بعثت رسولؐ تھا وہی مقصد شہادت حسینؓ ہے۔
جس دین کو قیام قیامت تک باقی رکھنے کے لیے رسولؐ نے کفار مکہ کے مظالم برداشت کیے اسی دین کو اصلی شکل میں قائم رکھنے کے لیے جس نے یزیدی استبداد کے خلاف قیام فرما کر جام شہادت نوش کیا۔ اپنی اولاد، گھر بار، دوست احباب کی قربانی پیش کرکے حسینؓ نے بتا دیا کہ شریعت محمدیؐ میں تبدیلی کسی صورت منظور نہیں، جان جائے مگر شریعت الٰہی پر آنچ نہ آئے۔ واقعہ کربلا بقائے اسلام، نام محمدؐ اور شریعت کا نام ہے دین اسلام ہے تو نام رسولؐ ہر اذاں میں تابہ قیامت گونجتا رہے گا اور حدیث رسولؐ کی ابدیت کا اظہار ہوتا رہے گا ''حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے''۔
جو مقصد شہ مظلوم سے نہیں آگاہ
وہ جانتا ہی نہیں دین مصطفیؐ کیا ہے
یہی وجہ ہے اللہ تعالیٰ اپنے سلسلہ ہدایت کو حجت قرار دیتا ہے یہ سلسلہ ہدایت خاتم النبین ﷺ تک آکر بطور نبوت و رسالت اختتام پذیر ہوا، مگر کیونکہ حضور ختمی مرتبتؐ نبی آخر الزماں ہیں تو ایک لاکھ 24 ہزار انبیا اور خود حضورؐ کی محنت شاقہ کے بعد جو دین الٰہی دنیا میں قائم ہوا وہ محض ختم رسالت تک کے لیے نہ تھا بلکہ اس کو قیام قیامت باقی، جاری و ساری رہنا تھا۔ بعد رسولؐ اس کو قیامت تک بحسن و خوبی جاری رکھنے کا انتظام حضور پرنورؐ کی سب سے اہم ذمے داری تھی۔ اس سلسلے میں آپؐ کا خطبہ حجۃ الوداع بے حد اہمیت کا حامل ہے۔
آپؐ نے اس اہم خطبے میں اپنے فرائض نبوت اور دین الٰہی کا مکمل نچوڑ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں (حدیث ثقلین) ایک کتاب اللہ ( قرآن مجید) اور دوسری میری سنت (اس سلسلے میں معتبرکتب میں اختلاف ہے کہ سنت فرمایا یا عترت یعنی اہلبیت)مگر یہ کوئی ایسا اختلاف نہیں کہ امت مسلمہ اس پر تفرقے کا شکار ہو کیونکہ سنت ہو یا عترت مطلب یہ ہے قرآن بنی نوع انسان کے لیے مکمل ضابطہ حیات ہے۔ مگر کتاب بغیر معلم ہر کسی کی سمجھ میں نہیں آجاتی یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت کا آغاز پہلے معلمین (انبیا علیہ السلام) کے ذریعے فرمایا اور بعد میں کتب اور صحیفے نازل فرمائے یہ کتب بھی انبیا پر ہی اتریں۔ اس کی عام سی مثال ہے کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ''یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃَ '' (البقرہ) تو اب نماز کیسے قائم کی جائے؟
اس کا عملی مظاہرہ خود نبی اکرم ؐ نے کرکے بتائیں گے یوں ہی تمام واجبات روزہ، زکوٰۃ، جہاد وغیرہ کے علاوہ دیگر احکامات الٰہی کی صورت ہے کہ ان کا عملی مظاہرہ پیش کیا جائے۔ حتیٰ کہ حیات مبارکہ کے آخری سال میں حج بیت اللہ کو بھی آپؐ نے ادا کرکے بتا دیا کہ یہ عبادت کس طرح کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا دین مکمل ہوگیا اور اس کی نعمتوں کا اہتمام بھی۔ مگر آپؐ کے زمانے کے بعد آنے والوں کے لیے آپؐ نے یہ مکمل بندوبست فرمایا کہ دو گراں قدر چیزیں ہدایت انسانی کے لیے چھوڑ گئے اور ساتھ ہی فرمادیا کہ اگر تم ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو روز محشر حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات ہوگی۔ اگر ان دونوں میں سے کسی ایک سے بھی ترک تعلق کیا تو پھر گمراہی تمہارا مقدر ہوگی۔
افسوس صد افسوس جب خلافت راشدہ کے بعد بقول مولانا مودودی ملوکیت میں تبدیل ہوگئی اور مسند خلافت نے تخت شاہی کا روپ اختیار کرلیا۔ اپنی اس خلافت کو جائز و شرعی قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ ان حالات میں صرف عترتِ رسولؐ یعنی اہلبیت رسولؐ ہی شریعت محمدیؐ پر مکمل طور پر عمل پیرا رہے۔ مگر علم رسالت کے یہ حقیقی وارث تمام تر مشکلات کے باوجود دین الٰہی کو اس کی اصلی صورت میں کسی نہ کسی طرح برقرار رکھنے میں کوشاں وکامیاب رہے۔
حدیث قدسی ہے کہ ''حسین ومنی وانا من الحسین''یعنی ''حسین مجھ سے اور میں حسین سے'' اس حدیث اقدس کی روشنی میں اگر شہادت حسینؓ کو دیکھا اور سمجھا جائے تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ حسینؓ کربلا میں یزید سے تخت خلافت چھیننے یا اقتدار حاصل کرنے نہیں بلکہ دین الٰہی اور شریعت محمدیؐ کو بچانے اور تاقیامت حق و باطل کا فیصلہ کرنے کے لیے تشریف لائے تھے۔ بعض مورخین نے واقعہ کربلا کو دوشہزادوں کی جنگ اور بعض نے حصول اقتدار کا معرکہ قرار دیا ہے اس کے علاوہ کچھ نے بچوں اورخواتین کو ساتھ لانے پر اعتراض کیا ہے ان تمام اعتراضات کے جواب خود تاریخ کربلا میں موجود ہیں۔
ایک بات واضح کردوں کہ یزید تو بے شک شہزادوں کی طرح پلا بڑھا تھا مگر حسینؓ شہزادہ (دنیاوی معنوں میں) ہرگز نہ تھے، وہ آغوش رسالتؐ کے پروردہ شریعت محمدیؐ پر بچپن سے عمل پیرا، روح اسلام سے حقیقی آگاہی کے علاوہ سیرت و کردار میں اپنے نانا کا پرتو تھے۔ یہی حقیقت حضور پاکؐ کی اس حدیث مبارکہ سے ظاہر ہوتی ہے کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے، کیونکہ جو مقصد بعثت رسولؐ تھا وہی مقصد شہادت حسینؓ ہے۔
جس دین کو قیام قیامت تک باقی رکھنے کے لیے رسولؐ نے کفار مکہ کے مظالم برداشت کیے اسی دین کو اصلی شکل میں قائم رکھنے کے لیے جس نے یزیدی استبداد کے خلاف قیام فرما کر جام شہادت نوش کیا۔ اپنی اولاد، گھر بار، دوست احباب کی قربانی پیش کرکے حسینؓ نے بتا دیا کہ شریعت محمدیؐ میں تبدیلی کسی صورت منظور نہیں، جان جائے مگر شریعت الٰہی پر آنچ نہ آئے۔ واقعہ کربلا بقائے اسلام، نام محمدؐ اور شریعت کا نام ہے دین اسلام ہے تو نام رسولؐ ہر اذاں میں تابہ قیامت گونجتا رہے گا اور حدیث رسولؐ کی ابدیت کا اظہار ہوتا رہے گا ''حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے''۔
جو مقصد شہ مظلوم سے نہیں آگاہ
وہ جانتا ہی نہیں دین مصطفیؐ کیا ہے