نرم خُوئی کی برکات
نبی کریم ؐ نے فرمایا، جو نرمی سے محروم کردیا جائے، وہ ہر بھلائی سے محروم کردیا جاتا ہے
نبی کریم ﷺ نے فرمایا ''بے شک نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے اس کو خوب صورت بنا دیتی ہے اور جس چیز سے بھی نکال لی جاتی ہے اسے بد صورت بنا دیتی ہے۔'' (رواہ مسلم)
امام ابن قیّمؒ فرماتے ہیں، اور وہ بہت نرمی کرنے والا، نرمی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے
بل کہ نرمی کی وجہ سے وہ انہیں ان کی آرزوؤں سے زیادہ دیتا ہے۔
شیخ سعدیؒ کہتے ہیں، اور اﷲ کے ناموں میں سے ایک ''الرفیق'' ہے، وہ اپنے افعال اور شریعت میں نرمی کرتا ہے۔
صحیح بخاری کی ایک حدیث ہے کہ ''بے شک اﷲ تعالیٰ بہت نرمی کرنے والا ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی کی بنا پر وہ کچھ عطا فرما دیتا ہے جو سختی پر عطا نہیں فرماتا۔''
امام بیہقیؒ کہتے ہیں، نبیؐ کا یہ فرمان ہے (بے شک اﷲ تعالیٰ بہت نرمی کرنے والا ہے) کے معنی یہ ہیں کہ اﷲ جلدباز نہیں۔ جلدبازی تو صرف وہ شخص کرتا ہے جو کسی کام کے چُھوٹ جانے سے ڈرتا ہو لیکن وہ ذات جس کے قبضے اور بادشاہی میں تمام چیزیں ہوں وہ ان میں جلد بازی نہیں کرتا۔ جہاں تک آپؐ کے اس ارشاد کا تعلق ہے (کہ وہ نرمی کو پسند فرماتا ہے) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اعمال اور معاملات میں جلدبازی کو ترک کرنے کو پسند کرتا ہے۔
بے شک وہ کام جو ہر مسلمان پر واجب ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اس صفت کریمہ سے مزین اور اس بلند اخلاق سے آراستہ ہو، کیوں کہ ایسا کرنے سے اسلام اور مسلمانوں پر بہت بڑا فضل اور بہ کثرت بھلائی مرتب ہو کر لوٹتی ہے۔
ابن حبانؒ کہتے ہیں، عقل مند پر واجب ہے کہ وہ تمام کاموں میں نرمی کو لازم کرے اور ان میں جلد بازی اور کم عقلی کو چھوڑ دے، جب کہ اﷲ تعالیٰ تمام کاموں میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔ جو نرمی سے محروم کردیا گیا وہ ہر بھلائی سے محروم کردیا گیا، جیسا کہ جسے نرمی عطا کی گئی، اسے ہر بھلائی عطا کی گئی۔ قریب نہیں کہ کوئی شخص اپنے مقصد کے راستے میں ایک نقطۂ نظر کے ساتھ چیزوں میں سے کوئی چیز اپنی پسند کے مطابق پانے پر قادر ہو، سوائے نرمی کو اپنانے اور جلد بازی کو چھوڑنے کے۔ تو جس میں نرمی کی صفت نہیں ہوتی اور اس کے برعکس جو ہر وقت سختی اور شدت سے آراستہ ہوتا ہے! تو وہ گھاٹے میں پڑگیا! وہ محرومی کے ساتھ لوٹا! پس جریر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا، جو نرمی سے محروم کردیا جائے، وہ ہر بھلائی سے محروم کردیا جاتا ہے۔ (رواہ مسلم)
شیخ ابن عثیمینؒ کہتے ہیں، یعنی جب انسان ان کاموں میں نرمی سے محروم کردیا جائے جو وہ اپنے لیے انجام دیتا ہے اور جو وہ دوسروں کے ساتھ انجام دیتا ہے تو وہ ان تمام کاموں میں بھلائیوں سے محروم کردیا جاتا ہے، جن کو وہ انجام دیتا ہے۔ چناں چہ جب انسان سختی اور شدت کے ساتھ کام کو انجام دے گا تو وہ جو بھی کام کرے گا یقینا اس میں بھلائی سے محروم کردیا جائے گا۔ یہ باتیں تجربہ شدہ اور مشاہدہ کی گئی ہیں کہ انسان جب سختی اور شدت کے ساتھ معاملات کرتا ہے تو وہ ضرور بھلائی سے محروم کردیا جاتا ہے اور بھلائی کو حاصل نہیں کر پاتا اور جب وہ نرمی، بردباری، تحمل، صبر اور فراخ دلی سے کام لیتا ہے تو وہ بہت ساری بھلائیاں حاصل کرلیتا ہے۔ اس بنا پر جو انسان بھلائی چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ ہمیشہ نرمی کرے یہاں تک کہ وہ بھلائی کو حاصل کرلے۔
اﷲ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اور آپ کو بہترین اخلاق، نرمی اور رحمت کرنا عطا فرمائے! اور وہ ہم سے بد اخلاقی، غصے اور جلد بازی کو دور فرما دے۔ آمین
امام ابن قیّمؒ فرماتے ہیں، اور وہ بہت نرمی کرنے والا، نرمی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے
بل کہ نرمی کی وجہ سے وہ انہیں ان کی آرزوؤں سے زیادہ دیتا ہے۔
شیخ سعدیؒ کہتے ہیں، اور اﷲ کے ناموں میں سے ایک ''الرفیق'' ہے، وہ اپنے افعال اور شریعت میں نرمی کرتا ہے۔
صحیح بخاری کی ایک حدیث ہے کہ ''بے شک اﷲ تعالیٰ بہت نرمی کرنے والا ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی کی بنا پر وہ کچھ عطا فرما دیتا ہے جو سختی پر عطا نہیں فرماتا۔''
امام بیہقیؒ کہتے ہیں، نبیؐ کا یہ فرمان ہے (بے شک اﷲ تعالیٰ بہت نرمی کرنے والا ہے) کے معنی یہ ہیں کہ اﷲ جلدباز نہیں۔ جلدبازی تو صرف وہ شخص کرتا ہے جو کسی کام کے چُھوٹ جانے سے ڈرتا ہو لیکن وہ ذات جس کے قبضے اور بادشاہی میں تمام چیزیں ہوں وہ ان میں جلد بازی نہیں کرتا۔ جہاں تک آپؐ کے اس ارشاد کا تعلق ہے (کہ وہ نرمی کو پسند فرماتا ہے) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اعمال اور معاملات میں جلدبازی کو ترک کرنے کو پسند کرتا ہے۔
بے شک وہ کام جو ہر مسلمان پر واجب ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اس صفت کریمہ سے مزین اور اس بلند اخلاق سے آراستہ ہو، کیوں کہ ایسا کرنے سے اسلام اور مسلمانوں پر بہت بڑا فضل اور بہ کثرت بھلائی مرتب ہو کر لوٹتی ہے۔
ابن حبانؒ کہتے ہیں، عقل مند پر واجب ہے کہ وہ تمام کاموں میں نرمی کو لازم کرے اور ان میں جلد بازی اور کم عقلی کو چھوڑ دے، جب کہ اﷲ تعالیٰ تمام کاموں میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔ جو نرمی سے محروم کردیا گیا وہ ہر بھلائی سے محروم کردیا گیا، جیسا کہ جسے نرمی عطا کی گئی، اسے ہر بھلائی عطا کی گئی۔ قریب نہیں کہ کوئی شخص اپنے مقصد کے راستے میں ایک نقطۂ نظر کے ساتھ چیزوں میں سے کوئی چیز اپنی پسند کے مطابق پانے پر قادر ہو، سوائے نرمی کو اپنانے اور جلد بازی کو چھوڑنے کے۔ تو جس میں نرمی کی صفت نہیں ہوتی اور اس کے برعکس جو ہر وقت سختی اور شدت سے آراستہ ہوتا ہے! تو وہ گھاٹے میں پڑگیا! وہ محرومی کے ساتھ لوٹا! پس جریر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا، جو نرمی سے محروم کردیا جائے، وہ ہر بھلائی سے محروم کردیا جاتا ہے۔ (رواہ مسلم)
شیخ ابن عثیمینؒ کہتے ہیں، یعنی جب انسان ان کاموں میں نرمی سے محروم کردیا جائے جو وہ اپنے لیے انجام دیتا ہے اور جو وہ دوسروں کے ساتھ انجام دیتا ہے تو وہ ان تمام کاموں میں بھلائیوں سے محروم کردیا جاتا ہے، جن کو وہ انجام دیتا ہے۔ چناں چہ جب انسان سختی اور شدت کے ساتھ کام کو انجام دے گا تو وہ جو بھی کام کرے گا یقینا اس میں بھلائی سے محروم کردیا جائے گا۔ یہ باتیں تجربہ شدہ اور مشاہدہ کی گئی ہیں کہ انسان جب سختی اور شدت کے ساتھ معاملات کرتا ہے تو وہ ضرور بھلائی سے محروم کردیا جاتا ہے اور بھلائی کو حاصل نہیں کر پاتا اور جب وہ نرمی، بردباری، تحمل، صبر اور فراخ دلی سے کام لیتا ہے تو وہ بہت ساری بھلائیاں حاصل کرلیتا ہے۔ اس بنا پر جو انسان بھلائی چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ ہمیشہ نرمی کرے یہاں تک کہ وہ بھلائی کو حاصل کرلے۔
اﷲ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اور آپ کو بہترین اخلاق، نرمی اور رحمت کرنا عطا فرمائے! اور وہ ہم سے بد اخلاقی، غصے اور جلد بازی کو دور فرما دے۔ آمین