پاکستان فلم انڈسٹری کی بحالی کے لیے بھارتی فلموں پر پابندی ضروری ہے
سنیما اور پروڈیوسر کا چولی دامن کا ساتھ ہے‘سب کومل کربیٹھنا ہوگا تاکہ سنیما اور فلمساز کسی ایک بات پر متفق ہوسکیں .
پاکستان فلم انڈسٹری پر بحران کے بادل کچھ ایسے چھائے ہیں کہ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرادکھائی دینے لگا ہے۔
ہزاروں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں اور نگار خانوں کے فلور ویرانیوں میں ڈوب چکے ہیں۔ اسی طرح ملک بھرکے سینما گھربھی فلم بین نہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کاشکارہیں یا پھر بہت سے شاپنگ مال، پٹرول پمپس اورتھیٹروں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ جہاں تک بات فنکاروں کی ہے تو فلمی دنیا سے شہرت کے افق کوچھونے والے فنکار آج ٹی وی ڈراموں، پروگراموں میں دکھائی دیتے ہیں، جبکہ بہت سے فلمساز، ہدایتکار اور دیگرنے فلم انڈسٹری کوبے سہارا چھوڑکردوسرے کاروباروں میں سرمایہ کاری کرلی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بحران میں ڈوبی پاکستان فلم انڈسٹری حکومت کی عدم توجہی اوراپنوں کے '' عمدہ '' سلوک کے باعث تباہی کے دہانے پرپہنچ چکی ہے۔ بھارتی فلموں کی نمائش سے سینما گھر آباد ہونے لگے ہیں اورملک بھرمیں نئے سینما گھربھی بننے لگے ہیں لیکن پاکستانی فلموں کونمائش کے لئے سینما گھر دستیاب نہیں۔ وفاقی وزارت ثقافت کے خاتمے کے بعد تاحال پنجاب میں سنسربورڈ قائم نہ ہونے کی وجہ سے بھی مسائل جوں کے توں ہیں۔ دوسری طرف حکومت کی جانب سے پہلی مرتبہ پاکستان فلم پالیسی بنانے کیلئے ایک ایسے ادارے کوذمہ داری ''سونپی'' گئی ہے جس کا فلم میکنگ سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں رہا اورنہ ہی فلم پالیسی بنانے کیلئے فلم انڈسٹری کے اصل سٹیک ہولڈرزکو رجوع کیا گیا ہے۔
فلم انڈسٹری کے شدیدبحران، فلم انڈسٹری کیلئے بنائے جانے والی فلم پالیسی اوربھارتی فلموںکی نمائش پرپابندی کے حوالے سے منعقدہ '' ایکسپریس فورم '' میں فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین سیدنور، بہار بیگم، حسن عسکری، شہزادرفیق، سہیل خان، چوہدری اعجاز کامران، راحیل باری، خرم باری، جاوید وڑائچ، فیاض خان، صلہ حسین، زریں اورسینما اونرنادرمنہاس نے مسائل کے ساتھ تجاویز پیش کیں جو قارئین کی نذر ہیں۔
سیدنور
(چیئرمین پاکستان فلم پروڈیوسرزایسوسی ایشن )
پاکستان فلم پروڈیوسرزایسوسی ایشن کے چیئرمین معروف ہدایتکار سیدنور نے گفتگو کرنے ہوئے کہا کہ سنیما اور پروڈیوسر کا چولی دامن کا ساتھ ہے ' ہم سب کومل کربیٹھنا ہوگا تاکہ سنیما ' فلم اور فلمسازتینوں کسی ایک بات پر متفق ہوسکیں ۔ہمیں بھارتی فلمیں اخلاقی طورپر تباہ کر رہی ہیں 'بچے جب ایسی فلم دیکھنے کے بعد ہم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ آپ ایسی فلمیں کیوں نہیں بناتے۔ بچوں کا اخلاق تباہ ہونے کے ساتھ ہماری تہذیب وثقافت بھی ختم ہورہی ہے ' جو ہمارے لئے لمحہ فکریہ کی بات ہے۔ بھارتی فلموں کے نمائش کاروں کوبھی احساس کرنا ہوگا ' کہ وہ اپنے ذاتی فائدے کی بجائے ملک وقوم اور پاکستان فلم انڈسٹری کے بارے میں بھی سوچیں 'کہ جو تباہ حالی کا شکار ہے اور اسے دوبارہ سے اپنے پیروں پرکھڑا کرنے کے لئے ہمارے ساتھ مل کرکام کریں ۔ سنیما مالکان کو چاہیئے کہ وہ پاکستان فلم انڈسٹری کی بقاء کے لئے اعلان کردیں کہ چھوٹی اور بڑی عید پرصرف پاکستانی فلمیں لگائیں گے۔ سیدنور نے کہا کہ ہم فردوس عاشق اعوان سے ملے ہیں جنہوں نے ہم سے فلم انڈسٹری کی بہتری کے لئے تجاویز مانگی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان فلم انڈسٹری بحران کا شکار ہے اوراس کیلئے ایک مرتبہ فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن سرگرم ہوئی ہے اورہم لوگ مل کرفلم کی بحالی کیلئے کام کررہے ہیں۔ ہم وفودکی شکل میں اعلیٰ حکومتی شخصیات سے ملاقاتیں کررہے ہیں اور اپنی تجاویزسے آگاہ بھی کر رہے ہیں۔ اس وقت ہمارے لئے سب سے بڑا مسئلہ بھارتی فلموں کی نمائش ہے۔ انتہائی بحران کے باوجود ہم لوگ فلمیں بناتے ہیں مگرسینما مالکان ہمیں سینما دینے سے انکارکردیتے ہیں اوراگرکوئی سینمامل جائے توچند دن بعد ہی فلم کواتاردیا جاتا ہے۔ گزشتہ کئی روز سے بھارتی فلم 'جب تک ہے جان' سینما گھروں میں نمائش کیلئے پیش کی جارہی ہے۔ اس فلم میں جس طرح سے بولڈ مناظر عکسبند کئے گئے ہیں اس کوسنسرکرنا ضروری تھا اگر سنسر بورڈ اپنا کام ذمہ داری سے نہیں کررہا توسینما انتظامیہ کوایسے مناظر سنسر کرنے چاہئیں۔ جہاں تک پاکستان کی پہلی فلم پالیسی بنائے جانے کا تعلق ہے تواس کے بارے میں مجھے کوئی علم نہیں ہے اورنہ ہی کسی حکومتی ادارے نے ہم سے رابطہ کیا ہے۔ اگر کوئی فلم پالیسی بنائی جا رہی ہے تواس کیلئے سب سے پہلے انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں کوشامل کرنا چاہئے اوران کی تجاویز سے ہی فلم پالیسی بنائی جانی چاہئے۔ ہم فلم پروڈیوسرزایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے بہت سے مثبت کام کرنے جا رہے ہیں جس کا فائدہ فلم ٹریڈ سے وابستہ تمام لوگوں کو ہوگا، لیکن جب تک انصاف نہیں ہوتا بہتری کی توقع کرنا بے وقوفی ہے۔
بہار بیگم
(سینئر اداکارہ)
اداکارہ بہاربیگم کا کہنا ہے کہ میڈیا نے ہمارا امیج نیگیٹو انداز میں اس طرح پیش کیا ہے کہ لوگ ہمیں ہی فلم انڈسٹری کی تباہی کا ذمہ دارسمجھ رہے ہیں ' میڈیا کوچاہیے کہ وہ عام لوگوں کو بتائیں کہ پاکستان فلم انڈسٹری مسائل سے دوچار ضرورہوئی مگر اب دوبارہ اپنے پائوں پرکھڑی بھی ہورہی ہے۔ بچوں کوتفریح اور تھوڑی بہت آزادی ملنی چاہیئے 'مگر میڈیا ہرچیز کواتنے منفی اندازسے پیش کر رہا ہے کہ ہم لو گ شام کے بعد ہائوس اریسٹ ہوجاتے ہیں' تفریح کے لئے نہیں نکل سکتے۔ ہمیں خود کو دیکھنا ہے ' سنسر بورڈ کیا کررہا ہے ؟ بھارت کی فحش فلمیں چلانے کے پروانے دے رہے ہیں ' ہم سب ایک خاندان کی طرح ہیں اور سب لوگوں کا مائنڈ ایک جیسا نہیں ہوتا ' اب ہم بکھر گئے ہیں ہمیں اسے اکٹھا کرنا ہوگا ۔ انڈسٹری کی بربادی کا رونا ہم روتے ہیں ' نئے لوگ سمجھتے ہیں کہ انہیں کام آتا ہے مگر ہم تو ابھی تک سیکھ رہے ہیں ۔ میں نے جن ڈائریکٹرز کے ساتھ کام کیا ہے ' ان کو مجھ سے اور مجھے ان سے کوئی گلہ نہیں ہے۔ سٹوڈیو کا جہاں تک تعلق ہے وہ ہمارا گھر ہے اور اس کی حالت کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ میرا جنازہ بھی سٹوڈیو سے اٹھے کیونکہ مجھے عزت ' شہرت فلم انڈسٹری نے ہی دی ہے۔ موجودہ دور میں ہمیں میڈیا کے تعاون کی ضرورت ہے اور اسے ہمارا ساتھ دینا چاہیئے۔ فلم اور سنیما انڈسٹری کے کوآرڈینشن کے حوالے سے بہار بیگم نے کہا کہ ان میں کوآرڈی نیشن نہیں ہے جس کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ فلم اور سنیما دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا اگرآج بھی ذمہ داری سے کام کرے اورپاکستانی فلم کوسپورٹ اور پروموٹ کرے تو یہاں پرفلمسازی کیلئے بہت سے سرمایہ کارآنے لگیں گے۔ اس کے علاوہ وفاقی وزارت کلچر کے خاتمے کے بعد اتنا وقت گزرنے کے باوجود پنجاب میں سنسربورڈ قائم نہیں ہوسکا۔ اگریہاں سنسر بورڈ بن جائے تواس کے ذریعے بھی حالات بہتر ہوں گے۔ مجھے پاکستان فلم انڈسٹری نے نام دیا اور پہچان دی، میری ایک ایک سانس فلم انڈسٹری کیلئے دھڑکتی ہے۔ میں تو سٹوڈیوکو اپنا گھر سمجھتی ہوں اوریہی میری اصل فیملی تھی۔ 24گھنٹوں میں سے زیادہ وقت تو فلم کی شوٹنگزمیں گزرجاتا تھا اورجو وقت ملتا تو گھروالوں سے ملاقات کیلئے چلی جاتی تھی۔ میں ان یادگارلمحات کی کمی کو شدت سے محسوس کرتی ہوں۔ آج بھی ہمارے ملک میں وسائل کی کمی کے باوجود اچھی فلمیں بن رہی ہیں۔ بھارتی فلمیں توایک ہفتہ نمائش ہونے کے بعداترجاتی ہیں لیکن ہماری فلموں کی کئی ماہ تک سینما گھروں میں نمائش جا ری رہتی ہے اورلوگ ہماری فلمیں شوق سے دیکھتے ہیں۔ اس لئے میں میڈیا سے درخواست کرونگی کہ وہ ہمارا ساتھ دے اورمکمل تعاون کیا جائے۔ یہ ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے جس کے حل کیلئے اب ہمیں ایک ہونا ہی پڑے گا۔
شہزاد رفیق
(ہدایتکار و فلم ساز)
ہدایتکارشہزادرفیق نے کہا کہ فلم اورسینما الگ الگ نہیں ہیں۔ پہلے سینما کوپاکستان فلم انڈسٹری نے بھرپور سپورٹ کیا اوریہاں پررونقیں لگنے لگیں مگراب سینما والے ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں۔ میرے نزدیک توفلم اورسینما دوبازو ہیں مگرآج ایک بازوکوفائدہ ہورہا ہے تودوسرا نقصان میں جا رہاہے۔ بھارتی فلم کویہاں نمائش کرنا اگرضروری ہے تواس پر25لاکھ روپے ٹیکس لگایا جائے جس طرح دنیا کے بیشترممالک میں ہوتا ہے اور اس رقم سے پاکستان فلم انڈسٹری کی سپورٹ کی جائے۔ صورتحال انتہائی نازک ہے مگر میں سب کو بتانا چاہتاہوں کہ پاکستان فلم انڈسٹری تباہ نہیں ہوئی ہے اورنہ ہی ہم اسے تباہ ہونے دینگے۔ ہم اچھی اورمعیاری فلمیں مشن کے طورپربنارہے ہیں اوربناتے رہیں گے۔ اس لئے پاکستان فلم اندسٹری کی تباہی کی باتیں کرنے والے بلاوجہ پراپیگنڈہ نہ کریں اگروہ فلم انڈسٹری کے ذراسے بھی خیرخواہ ہیں تویہاں سرمایہ کاری کریں تاکہ جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ اچھی اور معیاری فلمیں بنیں، نگارخانے آباد ہوں اوربے روزگار افراد کو اچھا روزگار مل سکے۔ اس سلسلہ میں حکومت کو بھی ہماری سپورٹ کرنا ہوگی۔ فن وثقافت کے فروغ کیلئے بنائے گئے اداروںکو اس وقت اپنا اہم کردارادا کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ میڈیا کی سپورٹ ہمیں بہت زیادہ درکار رہے گی۔ میڈیا اگرپاکستان فلم انڈسٹری کا سافٹ امیج پیش کرے گاتوغیرملکی سرمایہ کاربھی پاکستان میں فلمسازی پرتوجہ دیں گے۔ اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری کی سپورٹ کیلئے تمام شعبے آگے آئیں اورمل کرکام کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ سنیما اور سٹوڈیو میں کوئی فرق ہے ' سنیما کوہم فلم سے الگ نہیں سمجھتے۔
حسن عسکری
(سینئر ہدایتکار)
ہدایتکارحسن عسکری نے کہا کہ سینما گھروں میں بھارتی فلموںکی نمائش سے پاکستان فلم انڈسٹری کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ اس کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے اورنوجوان نسل بھی تباہی کی طرف جارہی ہے۔ نوجوان نسل ہمارے کلچراوراقدارکو بھول رہی ہے۔ فلم ایک اہم شعبہ ہے جس کے ذریعے معاشرے میں سدھارلایا جا سکتا ہے مگربدقسمتی سے بھارتی فلموں کی یلغار سے سارانظام درھم برھم ہوکررہ گیا ہے۔ ہمیں آج تک یہ سمجھ نہیںآسکی کہ بھارتی فلمیں کس قانون کے تحت نمائش کیلئے پیش کی جارہی ہیں ؟ بھارتی فلموں کی نمائش کی وجہ سے جس طرح فلم انڈسٹری تباہی کے دہانے پر پہنچی ہے اسی طرح اب غیرملکی ڈراموں کے باعث ہماری ٹی وی انڈسٹری کا ذوال بھی شروع ہوچکا ہے۔ ہمیں پاکستانیت کو فروغ دینا ہوگا، ہمیں مل کر بہتری کیلئے کام کرنا ہوگا، مسائل بہت زیادہ ہیں لیکن مجھے امید ہے کہ میڈیا کی سپورٹ اورحکومت کے تعاون سے حالات بہتر ہوجائیں گے۔
سہیل خان
(فلم ساز)
فلمسازسہیل خان نے کہا کہ پاکستان کا 90 فیصد میڈیا بھارتی فلموںکو پروموٹ کرتا ہے، بنا کسی معاوضے کے ان کی تشہیر کی جاتی ہے۔ نیوزچینلز پربھارتی فلموں کی ریلیز سے قبل خصوصی رپورٹس چلائی جاتی ہیں جبکہ کسی بھی پاکستانی فلم کواس طرح سے پروموٹ نہیں کیا جاتااوراگرکوئی پروموشن کیلئے رابطہ کرے توبھاری معاوضہ مانگا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی فلموں کی نمائش کیلئے جاری کئے جانیوالے ' این او سی' میں یہ بات بہت واضح ہے کہ بھارتی فلموں کو پاکستان میں نمائش کی اجازت نہیں ہے، مگر کاغذی کارروائی کرتے ہوئے ہربھارتی فلم کو امپورٹ کیٹگری میں شامل کردیا جاتا ہے۔ ہماری لوکل پروڈکشن بہت کم ہے اس میں بھی اضافہ ہونا چاہئے۔ سینما گھروں میں اگرمعیاری فلمیں نمائش کیلئے پیش کی جائیں گی تواس کے بہترنتائج سامنے آئیں گے۔ موجودہ صورتحال میں ایک پاکستانی فلم کو ہفتے میں بہت کم شو ملتے ہیں جس کی وجہ سے لاگت پورا ہونا مشکل ہوتاہے۔ اس کی بڑی وجہ ہمارے ملک میں ملٹی پلیکس سینما کی کمی بھی ہے۔ اگر یہاں زیادہ سکرین والے سینما گھربنائے جائیں تواس سے بھی پاکستانی فلموں کی نمائش میںکوئی رکاوٹ نہیں آسکتی۔
چوہدری اعجاز کامران
(فلم سازوڈسٹری بیوٹر)
فلمسازاورڈسٹری بیوٹرچوہدری اعجازکامران نے کہا کہ اسلام آباد میں فلم پالیسی بنانے کیلئے کام کیاجا رہا ہے اورایک پرائیویٹ کمپنی کو یہ ''ذمہ داری '' سونپی گئی ہے لیکن اس سلسلہ میں کسی بھی شخص یا ادارے نے ہم سے رابطہ نہیں کیا۔ میری فیملی فلمسازی کے شعبے سے عرصہ دراز سے پاکستان فلم انڈسٹری سے وابستہ ہے۔ فلم انڈسٹری کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے جتنا دکھ مجھے ہے شاید کسی اورکو نہیں ہوسکتا۔ میں آج بھی رائل پارک میں روزانہ اپنے دوستوں کو اکھٹاکرتا ہوں اورہم ہر لمحہ فلم انڈسٹری کی بہتری اوربحالی کیلئے تجاویز پیش کرتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ فلم پالیسی کیلئے ہم سے رابطہ کیا جائے۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ فلم پالیسی پاکستان فلم انڈسٹری کیلئے نہیں بلکہ فلم امپورٹرز اور سینما مالکان کیلئے بنائی جارہی ہے جس سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچنے والا۔ میں نے شدیدبحران کے باوجود بھارتی فلموں کے مقابلے میں کثیر سرمائے سے فلم ''بھائی لوگ'' بنائی توکراچی میں کوئی سینما نہیں ملا۔ اسی طرح لاہور میں بھی بننے والے نئے سینما گھروں میں فلم کو نمائش کیلئے پیش نہ کیا گیا ۔ دوسری جانب جن دوسرے شہروںمیں جہاں فلم نے اچھابزنس کیا انہوں نے بھی نئی بھارتی فلم کے چکر میں ہماری فلم کو سینما سے اتاردیا۔ جس طرح کا سلوک ہمارے ساتھ کیا جارہا ہے اس پر سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے اگراس کا فوری حل تلا ش نہ کیا گیا توپھرحالات مزید بگڑجائیں گے۔
جاوید وڑائچ
(فلم ساز)
فلمساز جاوید وڑائچ نے کہا کہ 7برس قبل میں نے آخری فلم ''کمانڈو'' بنائی تھی جس نے زبرست بزنس کیا لیکن اس کے بعد یہاں بھارتی فلموںکی نمائش شروع ہوگئی جس پر میں نے خاموشی سے فلمسازی چھوڑ دی اورامریکہ شفٹ ہوگیا۔ امریکہ میں قیام کے دوران میں دیگرکاروبارمیںسرمایہ کاری کرتا رہا لیکن میری توجہ پاکستان فلم انڈسٹری پر مرکوز رہی اورآخرکارمیں پھر سے پاکستان آیا ہوں اورمیں یہاں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہوں لیکن صورتحال کا جائزہ لینے اوردوستوں کے مشورے کے بعد اب میں انتظار میں ہوںکہ کب حکومت بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی لگائے گی اورکب میں فلمیں پروڈیوس کرونگا۔ انہوں نے کہا کہ میں آج بھی پاکستانی فلم انڈسٹری میں سرمایہ کاری کرنے کا خواہشمند ہوں اورکثیر سرمائے سے فلمیں بنانا چاہتا ہوں لیکن اس سے پہلے بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی لگائی جائے اورمیڈیا بھی ہماری سپورٹ کرنے کی یقین دہانی کروائے۔ آج جو لوگ کہتے ہیں کہ فلمسازنہیں رہے تومیں آج بھی فلمیں پروڈیوس کرنے کاارادہ رکھتا ہوں۔ مجھے بھارتی فلموں پر نمائش کی پابندی کی یقین دہانی کروائی جائے میں پانچ فلمیں فوری شروع کروں گا جس کے ہدایتکار سیدنور، شہزاد رفیق، حسن عسکری، پرویز رانا اور مسعود بٹ ہوں گے۔
نادر منہاس
(سنیما اونر)
سینما اونرنادرمنہاس نے کہا کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ سینما مالکان پاکستانی فلموں کو جگہ نہیں دیتے۔ میں نے چند برس قبل ہی اس شعبے میں قدم رکھا اورایک ایسے سینما میں سرمایہ کاری کی جوبدنام ہوچکا تھا اورفیملیز یہاں آنے سے ڈرتی تھیں مگرآج صورتحال یہ ہے کہ وہاں فیملیز کی بڑی تعدادآتی ہے اورامپورٹڈفلمیں دیکھتی ہے۔ میں نے اپنی مارکیٹ کی ڈیمانڈ کو رد کرتے ہوئے بہت سی پاکستانی فلموں کو نمائش کیلئے پیش کیا لیکن بزنس کو دیکھتے ہوئے اورفلم بینوں کی ڈیمانڈ پرفلمیں تبدیل کرنا پڑیں۔ اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ ہمارے فلمسازوں کو جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ فلمیں بنانا ہونگی۔ آنے والے چند برسوں کے دوران سینما گھروں میں اتنی جدید ٹیکنالوجی متعارف ہوجائے گی کہ پھر جس کیمرہ پرہمارے ہاں فلمیں بنائی جارہی ہے وہ سینما گھروں میں نمائش کیلئے پیش ہی نہیں کی جاسکیں گی۔ انہوں نے مزید کہا پاکستانی فلم انڈسٹری کے بحران کی اصل وجہ یہاں معیاری فلموں کا نہ بنناہے' بھارتی فلموںکی نمائش نے ختم ہوتے سنیمائوں کو بچایا' بلکہ سنی پلیکس سنیما بھی قائم ہوئے۔ یہ تاثر غلط ہے کہ ہم پاکستانی فلموں پربھارتی فلموں کو ترجیح دیتے ہیں۔ میں نے ''بھائی لوگ'' اور'' لو میں گم'' کو ریلیز کیا' بلکہ ''سن آف پاکستان'' کا پریمیئر رکھا 'مگر اس فلم میں کام کرنے والوں سمیت فلم انڈسٹری کی کوئی بھی شخصیت پروموشن کرنے کے لئے نہ آئی۔ فلم بنانے والوں کے پاس جدید ٹیکنالوجی نہیں ہے ' گرین ٹریک پر فلمیں بنانے کی بجائے مونو پرفلمیں بنائی جارہی ہیں 'جو سنی پلیکس ڈیجٹیل سنیما پر نہیں دکھائی جاسکتی ۔ فلمساز اور ہدایتکاروں کوچاہیئے کہ کم ازکم ایسی فلمیں بنائیں جنہیں ہم چلا سکیں۔ سنیما ایک دکان ہے جس میں اچھی پراڈکٹ ہوگی تو اس کا رسپانس بھی بہت اچھا ملتا ہے۔ اگر کوئی پراڈکٹ بنے گی تو گاہک بھی اس کی ڈیمانڈ کرے گا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ سٹوڈیوز میں دفتر بن گئے ہیں ' فلور گوداموں میں تبدیل ہوچکے ہیں جو بچ گیا ہے وہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہوجائینگے۔ فلم انڈسٹری کا بحران معیاری فلم میکنگ کے ذریعے ہی ختم ہوسکتا ہے 'اس کے علاوہ اورکوئی ترکیب نہیں کہ جس کے تحت پندرہ سالوں سے جاری بحران ختم ہوسکے۔ ہم پر بھارتی فلموں کو پروموٹ کرنے کا الزام لگانے والے پہلے اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ جنہوں نے پچھلے سات سالوں سے ایک بھی فلم پروڈیوس نہیں کی اور ہمیں بھارتی فلمیں نہ لگانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اگر یہ فلم ٹریڈ سے اتنے مخلص ہیں تویہ فلمیں کیوں نہیں بنا رہے'کسی کو مشورہ دینا بہت آسان اور اس پرخود عمل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ حکومت نے فلم ٹریڈ کے لئے کچھ نہیں کرنا' اس کیلئے ہمیں کچھ کرنا پڑیگا۔ حکومت سے ہمیں صرف یہ مطالبہ کرنا چاہیئے کہ وہ خام میٹریل اور فلم میکنگ میں استعمال ہونے والی جدید ٹیکنالوجی کو امپورٹ کرنے کو ٹیکس فری کر دے۔ اس کے علاوہ ہمیںنوجوان پڑھے لکھے لوگوںکو فلمسازی کے میدان میں آگے لانا ہوگا جواپنی صلاحیتوں کے ذریعے بین الاقوامی معیار کی فلمیں بنائیں۔ اب فلم انڈسٹری کو بحران تک پہنچانے والوں کوریٹائرمنٹ لے لینی چاہئے۔
فیاض خان
(فلم ساز)
فلمساز فیاض خان نے کہا کہ ایک وقت تھا جب سینما مالکان ہماری فلموںکی نمائش کیلئے آگے پیچھے ہوتے تھے لیکن اب وہ بھارتی فلموں کی بدولت ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں۔ میری فلم ''ظل شاہ'' کی نمائش کے موقع پر مجھے بہت سے مسائل کا سامنا رہا اوراسی لئے میں نے مزید فلمیں پروڈیوس کرنے کا ارادہ رکھتے ہوئے بھی کام نہیں کیا۔ میں جب اپنی فلم کی نمائش کیلئے کچھ جد ید طرز کے سینمامالکان تک پہنچاتو ان کی شرائط سن کر حیران رہ گیا۔ مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ میں نے فلم تو بنائی ہے لیکن اس کی آمدن سینما مالکان کو ہی دینا پڑے گی۔ میں نے کچھ کی شرائط مانی اورفلم کونمائش کیلئے پیش کیا مگرسینماانتظامیہ نے جس طرح کا رویہ اپنایا اس کوبیان کرناممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ 45برس سے پاکستان فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوں میں نے اپنی تمام زندگی فلمسازی کے شعبے کے لئے وقف کردی تھی مگراب صورتحال اتنی نازک ہوچکی ہے کہ یہ سب کچھ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ حکومت بھارتی فلم کی نمائش پر پابندی عائد کرے اورپاکستان فلم انڈسٹری کیلئے ایک ایسی پالیسی بنائی جائے جس کی وجہ سے پاکستانی ہی نہیں بلکہ غیر ملکی سرمایہ کار بھی یہاں فلمسازی کریں اورویرانیوں کا خاتمہ ہوسکے۔
راحیل باری / خرم باری
(اونر باری سٹوڈیو)
باری سٹوڈیوکے اونرراحیل باری اورخرم باری نے کہا کہ زندگی کے تمام شعبوں میں اتارچڑھائو آتے ہیں اورپھر حالات بہتری کی طرف جانے لگتے ہیں ، لیکن جب سے پاکستانی سینمائوں میں بھارتی فلموںکی نمائش کا سلسلہ شروع ہوا ہے حالات بگڑتے چلے جا رہے ہیں۔ ایک ٹائم تھا جب باری سٹوڈیو میں 750 لوگ ملازمت کرتے تھے لیکن اب صرف گیارہ ملازموں کے ساتھ ہم سٹوڈیو چلا رہے ہیں۔ کام نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے روزگارہوچکے ہیں۔ لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے عدالت سے رجوع کیا مگرافسوس کہ اتنا وقت گزرنے کے باوجود کوئی فیصلہ سامنے نہیں آسکا۔ اگر عدالت ہمارے کیسوں کا فیصلہ ہی سنا دے تواس کے بعد ہمیں نئی راہ دکھائی دینے لگے گی۔ ہم بھی اگرچاہتے توسٹوڈیو کوختم کرکے کوئی اورکاروبار شروع کرسکتے تھے لیکن ہم آج بھی اس بات کے خواہشمند ہیں کہ فلم انڈسٹری بحال ہو، یہاں فلمیں بنیں، سٹوڈیو آباد ہوں اورمعروف فنکاردن رات یہاں شوٹنگ کرتے دکھائی دیں۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح ہمارے ملک میں ری کنڈیشنڈ گاڑیاں امپورٹ کی جاتی ہیں اوران کونئی کے مقابلے میں سستے داموں فروخت کیا جاتا ہے اسی طرح اگرامپورٹ قوانین کے تحت یہاں فلمیں امپورٹ کرنا ضروری ہے توپھر تین سے چار برس قبل ریلیز ہونے والی فلمیں امپورٹ کی جائیں۔ اس سلسلہ میں پالیسی بنائی جائے۔جہاں تک بات پاکستان فلم کی پالیسی کی ہے تو اس حوالے سے ہمیں اعتماد میں لیا جائے اورہماری تجاویز کے بغیر اگرکوئی پالیسی بنائی گئی تواس کو ہم نہیں مانیں گے۔ ہمارا مسئلہ ہے اورہماری مشاورت کے بغیراس کو نہیں بناناچاہئے۔
اداکارہ صلہ حسین اورزریں نے کہا کہ پاکستان فلم انڈسٹری ہماری پہچان ہے اورآج بھی لوگ پاکستانی فلم دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم نے اس وقت فلم انڈسٹری میں قدم رکھا جب یہاں شدید بحران ہے لیکن ہمیں پاکستان فلم انڈسٹری کا حصہ ہونے پر فخر ہے۔ پوری دنیا کی طرح پاکستان میںبھی فلم سب سے مقبول میڈیم ہے ۔ ٹی وی اورتھیٹر کے فنکاروں کے مقابلے میں آج بھی لوگ فلمسٹارز کو اہمیت دیتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بننے والی فلموں میں جس طرح کا کام کیا گیا اس کی بدولت فلم انڈسٹری نے لوگوں کے دلوںمیں جگہ بنائی اوربہت سے لوگ آج بھی فلم انڈسٹری کے شاندار ماضی کا تذکرہ کرتے ہیں۔ کوئی وحیدمراد کے ہیئر سٹائل کو یاد کرتا ہے توکوئی بابرہ شریف کی ادائوں پربات کرتا ہے۔ کوئی منورظریف کے مزاحیہ جملے سناتا ہے توکوئی آغاطالش کی اداکاری کے گن گاتاہے۔ اس اعتبارسے دیکھاجائے تو زندگی کے تمام شعبوں میں کبھی اچھے دن آتے ہیں توکبھی خراب دن، مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اس شعبے کو تنہاچھوڑ دیں۔ پاکستان فلم انڈسٹری کو شدید مسائل کاسامنا ہے جس کیلئے ہم سب کو مل کربیٹھنا ہوگا اورباہمی مشاورت سے اس بحران کے خاتمے کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ ہم دعا گو ہیں کہ پاکستان فلم انڈسٹری کا بحران ختم ہو، نگارخانے آباد اور سینما گھروں میں ایسی پاکستانی فلمیں نمائش کیلئے پیش کی جائیں جس سے سینما گھروں میں رونقیں لگ جائیں۔ لوگ انٹرٹین ہونے کیلئے سینما گھروں کا رخ کریں اورپاکستان فلم انڈسٹری کاشمار دنیا کی بہترین فلم انڈسٹریوں میں ہونے لگے۔
ہزاروں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں اور نگار خانوں کے فلور ویرانیوں میں ڈوب چکے ہیں۔ اسی طرح ملک بھرکے سینما گھربھی فلم بین نہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کاشکارہیں یا پھر بہت سے شاپنگ مال، پٹرول پمپس اورتھیٹروں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ جہاں تک بات فنکاروں کی ہے تو فلمی دنیا سے شہرت کے افق کوچھونے والے فنکار آج ٹی وی ڈراموں، پروگراموں میں دکھائی دیتے ہیں، جبکہ بہت سے فلمساز، ہدایتکار اور دیگرنے فلم انڈسٹری کوبے سہارا چھوڑکردوسرے کاروباروں میں سرمایہ کاری کرلی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بحران میں ڈوبی پاکستان فلم انڈسٹری حکومت کی عدم توجہی اوراپنوں کے '' عمدہ '' سلوک کے باعث تباہی کے دہانے پرپہنچ چکی ہے۔ بھارتی فلموں کی نمائش سے سینما گھر آباد ہونے لگے ہیں اورملک بھرمیں نئے سینما گھربھی بننے لگے ہیں لیکن پاکستانی فلموں کونمائش کے لئے سینما گھر دستیاب نہیں۔ وفاقی وزارت ثقافت کے خاتمے کے بعد تاحال پنجاب میں سنسربورڈ قائم نہ ہونے کی وجہ سے بھی مسائل جوں کے توں ہیں۔ دوسری طرف حکومت کی جانب سے پہلی مرتبہ پاکستان فلم پالیسی بنانے کیلئے ایک ایسے ادارے کوذمہ داری ''سونپی'' گئی ہے جس کا فلم میکنگ سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں رہا اورنہ ہی فلم پالیسی بنانے کیلئے فلم انڈسٹری کے اصل سٹیک ہولڈرزکو رجوع کیا گیا ہے۔
فلم انڈسٹری کے شدیدبحران، فلم انڈسٹری کیلئے بنائے جانے والی فلم پالیسی اوربھارتی فلموںکی نمائش پرپابندی کے حوالے سے منعقدہ '' ایکسپریس فورم '' میں فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین سیدنور، بہار بیگم، حسن عسکری، شہزادرفیق، سہیل خان، چوہدری اعجاز کامران، راحیل باری، خرم باری، جاوید وڑائچ، فیاض خان، صلہ حسین، زریں اورسینما اونرنادرمنہاس نے مسائل کے ساتھ تجاویز پیش کیں جو قارئین کی نذر ہیں۔
سیدنور
(چیئرمین پاکستان فلم پروڈیوسرزایسوسی ایشن )
پاکستان فلم پروڈیوسرزایسوسی ایشن کے چیئرمین معروف ہدایتکار سیدنور نے گفتگو کرنے ہوئے کہا کہ سنیما اور پروڈیوسر کا چولی دامن کا ساتھ ہے ' ہم سب کومل کربیٹھنا ہوگا تاکہ سنیما ' فلم اور فلمسازتینوں کسی ایک بات پر متفق ہوسکیں ۔ہمیں بھارتی فلمیں اخلاقی طورپر تباہ کر رہی ہیں 'بچے جب ایسی فلم دیکھنے کے بعد ہم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ آپ ایسی فلمیں کیوں نہیں بناتے۔ بچوں کا اخلاق تباہ ہونے کے ساتھ ہماری تہذیب وثقافت بھی ختم ہورہی ہے ' جو ہمارے لئے لمحہ فکریہ کی بات ہے۔ بھارتی فلموں کے نمائش کاروں کوبھی احساس کرنا ہوگا ' کہ وہ اپنے ذاتی فائدے کی بجائے ملک وقوم اور پاکستان فلم انڈسٹری کے بارے میں بھی سوچیں 'کہ جو تباہ حالی کا شکار ہے اور اسے دوبارہ سے اپنے پیروں پرکھڑا کرنے کے لئے ہمارے ساتھ مل کرکام کریں ۔ سنیما مالکان کو چاہیئے کہ وہ پاکستان فلم انڈسٹری کی بقاء کے لئے اعلان کردیں کہ چھوٹی اور بڑی عید پرصرف پاکستانی فلمیں لگائیں گے۔ سیدنور نے کہا کہ ہم فردوس عاشق اعوان سے ملے ہیں جنہوں نے ہم سے فلم انڈسٹری کی بہتری کے لئے تجاویز مانگی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان فلم انڈسٹری بحران کا شکار ہے اوراس کیلئے ایک مرتبہ فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن سرگرم ہوئی ہے اورہم لوگ مل کرفلم کی بحالی کیلئے کام کررہے ہیں۔ ہم وفودکی شکل میں اعلیٰ حکومتی شخصیات سے ملاقاتیں کررہے ہیں اور اپنی تجاویزسے آگاہ بھی کر رہے ہیں۔ اس وقت ہمارے لئے سب سے بڑا مسئلہ بھارتی فلموں کی نمائش ہے۔ انتہائی بحران کے باوجود ہم لوگ فلمیں بناتے ہیں مگرسینما مالکان ہمیں سینما دینے سے انکارکردیتے ہیں اوراگرکوئی سینمامل جائے توچند دن بعد ہی فلم کواتاردیا جاتا ہے۔ گزشتہ کئی روز سے بھارتی فلم 'جب تک ہے جان' سینما گھروں میں نمائش کیلئے پیش کی جارہی ہے۔ اس فلم میں جس طرح سے بولڈ مناظر عکسبند کئے گئے ہیں اس کوسنسرکرنا ضروری تھا اگر سنسر بورڈ اپنا کام ذمہ داری سے نہیں کررہا توسینما انتظامیہ کوایسے مناظر سنسر کرنے چاہئیں۔ جہاں تک پاکستان کی پہلی فلم پالیسی بنائے جانے کا تعلق ہے تواس کے بارے میں مجھے کوئی علم نہیں ہے اورنہ ہی کسی حکومتی ادارے نے ہم سے رابطہ کیا ہے۔ اگر کوئی فلم پالیسی بنائی جا رہی ہے تواس کیلئے سب سے پہلے انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں کوشامل کرنا چاہئے اوران کی تجاویز سے ہی فلم پالیسی بنائی جانی چاہئے۔ ہم فلم پروڈیوسرزایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے بہت سے مثبت کام کرنے جا رہے ہیں جس کا فائدہ فلم ٹریڈ سے وابستہ تمام لوگوں کو ہوگا، لیکن جب تک انصاف نہیں ہوتا بہتری کی توقع کرنا بے وقوفی ہے۔
بہار بیگم
(سینئر اداکارہ)
اداکارہ بہاربیگم کا کہنا ہے کہ میڈیا نے ہمارا امیج نیگیٹو انداز میں اس طرح پیش کیا ہے کہ لوگ ہمیں ہی فلم انڈسٹری کی تباہی کا ذمہ دارسمجھ رہے ہیں ' میڈیا کوچاہیے کہ وہ عام لوگوں کو بتائیں کہ پاکستان فلم انڈسٹری مسائل سے دوچار ضرورہوئی مگر اب دوبارہ اپنے پائوں پرکھڑی بھی ہورہی ہے۔ بچوں کوتفریح اور تھوڑی بہت آزادی ملنی چاہیئے 'مگر میڈیا ہرچیز کواتنے منفی اندازسے پیش کر رہا ہے کہ ہم لو گ شام کے بعد ہائوس اریسٹ ہوجاتے ہیں' تفریح کے لئے نہیں نکل سکتے۔ ہمیں خود کو دیکھنا ہے ' سنسر بورڈ کیا کررہا ہے ؟ بھارت کی فحش فلمیں چلانے کے پروانے دے رہے ہیں ' ہم سب ایک خاندان کی طرح ہیں اور سب لوگوں کا مائنڈ ایک جیسا نہیں ہوتا ' اب ہم بکھر گئے ہیں ہمیں اسے اکٹھا کرنا ہوگا ۔ انڈسٹری کی بربادی کا رونا ہم روتے ہیں ' نئے لوگ سمجھتے ہیں کہ انہیں کام آتا ہے مگر ہم تو ابھی تک سیکھ رہے ہیں ۔ میں نے جن ڈائریکٹرز کے ساتھ کام کیا ہے ' ان کو مجھ سے اور مجھے ان سے کوئی گلہ نہیں ہے۔ سٹوڈیو کا جہاں تک تعلق ہے وہ ہمارا گھر ہے اور اس کی حالت کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ میرا جنازہ بھی سٹوڈیو سے اٹھے کیونکہ مجھے عزت ' شہرت فلم انڈسٹری نے ہی دی ہے۔ موجودہ دور میں ہمیں میڈیا کے تعاون کی ضرورت ہے اور اسے ہمارا ساتھ دینا چاہیئے۔ فلم اور سنیما انڈسٹری کے کوآرڈینشن کے حوالے سے بہار بیگم نے کہا کہ ان میں کوآرڈی نیشن نہیں ہے جس کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ فلم اور سنیما دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا اگرآج بھی ذمہ داری سے کام کرے اورپاکستانی فلم کوسپورٹ اور پروموٹ کرے تو یہاں پرفلمسازی کیلئے بہت سے سرمایہ کارآنے لگیں گے۔ اس کے علاوہ وفاقی وزارت کلچر کے خاتمے کے بعد اتنا وقت گزرنے کے باوجود پنجاب میں سنسربورڈ قائم نہیں ہوسکا۔ اگریہاں سنسر بورڈ بن جائے تواس کے ذریعے بھی حالات بہتر ہوں گے۔ مجھے پاکستان فلم انڈسٹری نے نام دیا اور پہچان دی، میری ایک ایک سانس فلم انڈسٹری کیلئے دھڑکتی ہے۔ میں تو سٹوڈیوکو اپنا گھر سمجھتی ہوں اوریہی میری اصل فیملی تھی۔ 24گھنٹوں میں سے زیادہ وقت تو فلم کی شوٹنگزمیں گزرجاتا تھا اورجو وقت ملتا تو گھروالوں سے ملاقات کیلئے چلی جاتی تھی۔ میں ان یادگارلمحات کی کمی کو شدت سے محسوس کرتی ہوں۔ آج بھی ہمارے ملک میں وسائل کی کمی کے باوجود اچھی فلمیں بن رہی ہیں۔ بھارتی فلمیں توایک ہفتہ نمائش ہونے کے بعداترجاتی ہیں لیکن ہماری فلموں کی کئی ماہ تک سینما گھروں میں نمائش جا ری رہتی ہے اورلوگ ہماری فلمیں شوق سے دیکھتے ہیں۔ اس لئے میں میڈیا سے درخواست کرونگی کہ وہ ہمارا ساتھ دے اورمکمل تعاون کیا جائے۔ یہ ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے جس کے حل کیلئے اب ہمیں ایک ہونا ہی پڑے گا۔
شہزاد رفیق
(ہدایتکار و فلم ساز)
ہدایتکارشہزادرفیق نے کہا کہ فلم اورسینما الگ الگ نہیں ہیں۔ پہلے سینما کوپاکستان فلم انڈسٹری نے بھرپور سپورٹ کیا اوریہاں پررونقیں لگنے لگیں مگراب سینما والے ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں۔ میرے نزدیک توفلم اورسینما دوبازو ہیں مگرآج ایک بازوکوفائدہ ہورہا ہے تودوسرا نقصان میں جا رہاہے۔ بھارتی فلم کویہاں نمائش کرنا اگرضروری ہے تواس پر25لاکھ روپے ٹیکس لگایا جائے جس طرح دنیا کے بیشترممالک میں ہوتا ہے اور اس رقم سے پاکستان فلم انڈسٹری کی سپورٹ کی جائے۔ صورتحال انتہائی نازک ہے مگر میں سب کو بتانا چاہتاہوں کہ پاکستان فلم انڈسٹری تباہ نہیں ہوئی ہے اورنہ ہی ہم اسے تباہ ہونے دینگے۔ ہم اچھی اورمعیاری فلمیں مشن کے طورپربنارہے ہیں اوربناتے رہیں گے۔ اس لئے پاکستان فلم اندسٹری کی تباہی کی باتیں کرنے والے بلاوجہ پراپیگنڈہ نہ کریں اگروہ فلم انڈسٹری کے ذراسے بھی خیرخواہ ہیں تویہاں سرمایہ کاری کریں تاکہ جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ اچھی اور معیاری فلمیں بنیں، نگارخانے آباد ہوں اوربے روزگار افراد کو اچھا روزگار مل سکے۔ اس سلسلہ میں حکومت کو بھی ہماری سپورٹ کرنا ہوگی۔ فن وثقافت کے فروغ کیلئے بنائے گئے اداروںکو اس وقت اپنا اہم کردارادا کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ میڈیا کی سپورٹ ہمیں بہت زیادہ درکار رہے گی۔ میڈیا اگرپاکستان فلم انڈسٹری کا سافٹ امیج پیش کرے گاتوغیرملکی سرمایہ کاربھی پاکستان میں فلمسازی پرتوجہ دیں گے۔ اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری کی سپورٹ کیلئے تمام شعبے آگے آئیں اورمل کرکام کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ سنیما اور سٹوڈیو میں کوئی فرق ہے ' سنیما کوہم فلم سے الگ نہیں سمجھتے۔
حسن عسکری
(سینئر ہدایتکار)
ہدایتکارحسن عسکری نے کہا کہ سینما گھروں میں بھارتی فلموںکی نمائش سے پاکستان فلم انڈسٹری کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ اس کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے اورنوجوان نسل بھی تباہی کی طرف جارہی ہے۔ نوجوان نسل ہمارے کلچراوراقدارکو بھول رہی ہے۔ فلم ایک اہم شعبہ ہے جس کے ذریعے معاشرے میں سدھارلایا جا سکتا ہے مگربدقسمتی سے بھارتی فلموں کی یلغار سے سارانظام درھم برھم ہوکررہ گیا ہے۔ ہمیں آج تک یہ سمجھ نہیںآسکی کہ بھارتی فلمیں کس قانون کے تحت نمائش کیلئے پیش کی جارہی ہیں ؟ بھارتی فلموں کی نمائش کی وجہ سے جس طرح فلم انڈسٹری تباہی کے دہانے پر پہنچی ہے اسی طرح اب غیرملکی ڈراموں کے باعث ہماری ٹی وی انڈسٹری کا ذوال بھی شروع ہوچکا ہے۔ ہمیں پاکستانیت کو فروغ دینا ہوگا، ہمیں مل کر بہتری کیلئے کام کرنا ہوگا، مسائل بہت زیادہ ہیں لیکن مجھے امید ہے کہ میڈیا کی سپورٹ اورحکومت کے تعاون سے حالات بہتر ہوجائیں گے۔
سہیل خان
(فلم ساز)
فلمسازسہیل خان نے کہا کہ پاکستان کا 90 فیصد میڈیا بھارتی فلموںکو پروموٹ کرتا ہے، بنا کسی معاوضے کے ان کی تشہیر کی جاتی ہے۔ نیوزچینلز پربھارتی فلموں کی ریلیز سے قبل خصوصی رپورٹس چلائی جاتی ہیں جبکہ کسی بھی پاکستانی فلم کواس طرح سے پروموٹ نہیں کیا جاتااوراگرکوئی پروموشن کیلئے رابطہ کرے توبھاری معاوضہ مانگا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی فلموں کی نمائش کیلئے جاری کئے جانیوالے ' این او سی' میں یہ بات بہت واضح ہے کہ بھارتی فلموں کو پاکستان میں نمائش کی اجازت نہیں ہے، مگر کاغذی کارروائی کرتے ہوئے ہربھارتی فلم کو امپورٹ کیٹگری میں شامل کردیا جاتا ہے۔ ہماری لوکل پروڈکشن بہت کم ہے اس میں بھی اضافہ ہونا چاہئے۔ سینما گھروں میں اگرمعیاری فلمیں نمائش کیلئے پیش کی جائیں گی تواس کے بہترنتائج سامنے آئیں گے۔ موجودہ صورتحال میں ایک پاکستانی فلم کو ہفتے میں بہت کم شو ملتے ہیں جس کی وجہ سے لاگت پورا ہونا مشکل ہوتاہے۔ اس کی بڑی وجہ ہمارے ملک میں ملٹی پلیکس سینما کی کمی بھی ہے۔ اگر یہاں زیادہ سکرین والے سینما گھربنائے جائیں تواس سے بھی پاکستانی فلموں کی نمائش میںکوئی رکاوٹ نہیں آسکتی۔
چوہدری اعجاز کامران
(فلم سازوڈسٹری بیوٹر)
فلمسازاورڈسٹری بیوٹرچوہدری اعجازکامران نے کہا کہ اسلام آباد میں فلم پالیسی بنانے کیلئے کام کیاجا رہا ہے اورایک پرائیویٹ کمپنی کو یہ ''ذمہ داری '' سونپی گئی ہے لیکن اس سلسلہ میں کسی بھی شخص یا ادارے نے ہم سے رابطہ نہیں کیا۔ میری فیملی فلمسازی کے شعبے سے عرصہ دراز سے پاکستان فلم انڈسٹری سے وابستہ ہے۔ فلم انڈسٹری کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے جتنا دکھ مجھے ہے شاید کسی اورکو نہیں ہوسکتا۔ میں آج بھی رائل پارک میں روزانہ اپنے دوستوں کو اکھٹاکرتا ہوں اورہم ہر لمحہ فلم انڈسٹری کی بہتری اوربحالی کیلئے تجاویز پیش کرتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ فلم پالیسی کیلئے ہم سے رابطہ کیا جائے۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ فلم پالیسی پاکستان فلم انڈسٹری کیلئے نہیں بلکہ فلم امپورٹرز اور سینما مالکان کیلئے بنائی جارہی ہے جس سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچنے والا۔ میں نے شدیدبحران کے باوجود بھارتی فلموں کے مقابلے میں کثیر سرمائے سے فلم ''بھائی لوگ'' بنائی توکراچی میں کوئی سینما نہیں ملا۔ اسی طرح لاہور میں بھی بننے والے نئے سینما گھروں میں فلم کو نمائش کیلئے پیش نہ کیا گیا ۔ دوسری جانب جن دوسرے شہروںمیں جہاں فلم نے اچھابزنس کیا انہوں نے بھی نئی بھارتی فلم کے چکر میں ہماری فلم کو سینما سے اتاردیا۔ جس طرح کا سلوک ہمارے ساتھ کیا جارہا ہے اس پر سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے اگراس کا فوری حل تلا ش نہ کیا گیا توپھرحالات مزید بگڑجائیں گے۔
جاوید وڑائچ
(فلم ساز)
فلمساز جاوید وڑائچ نے کہا کہ 7برس قبل میں نے آخری فلم ''کمانڈو'' بنائی تھی جس نے زبرست بزنس کیا لیکن اس کے بعد یہاں بھارتی فلموںکی نمائش شروع ہوگئی جس پر میں نے خاموشی سے فلمسازی چھوڑ دی اورامریکہ شفٹ ہوگیا۔ امریکہ میں قیام کے دوران میں دیگرکاروبارمیںسرمایہ کاری کرتا رہا لیکن میری توجہ پاکستان فلم انڈسٹری پر مرکوز رہی اورآخرکارمیں پھر سے پاکستان آیا ہوں اورمیں یہاں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہوں لیکن صورتحال کا جائزہ لینے اوردوستوں کے مشورے کے بعد اب میں انتظار میں ہوںکہ کب حکومت بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی لگائے گی اورکب میں فلمیں پروڈیوس کرونگا۔ انہوں نے کہا کہ میں آج بھی پاکستانی فلم انڈسٹری میں سرمایہ کاری کرنے کا خواہشمند ہوں اورکثیر سرمائے سے فلمیں بنانا چاہتا ہوں لیکن اس سے پہلے بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی لگائی جائے اورمیڈیا بھی ہماری سپورٹ کرنے کی یقین دہانی کروائے۔ آج جو لوگ کہتے ہیں کہ فلمسازنہیں رہے تومیں آج بھی فلمیں پروڈیوس کرنے کاارادہ رکھتا ہوں۔ مجھے بھارتی فلموں پر نمائش کی پابندی کی یقین دہانی کروائی جائے میں پانچ فلمیں فوری شروع کروں گا جس کے ہدایتکار سیدنور، شہزاد رفیق، حسن عسکری، پرویز رانا اور مسعود بٹ ہوں گے۔
نادر منہاس
(سنیما اونر)
سینما اونرنادرمنہاس نے کہا کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ سینما مالکان پاکستانی فلموں کو جگہ نہیں دیتے۔ میں نے چند برس قبل ہی اس شعبے میں قدم رکھا اورایک ایسے سینما میں سرمایہ کاری کی جوبدنام ہوچکا تھا اورفیملیز یہاں آنے سے ڈرتی تھیں مگرآج صورتحال یہ ہے کہ وہاں فیملیز کی بڑی تعدادآتی ہے اورامپورٹڈفلمیں دیکھتی ہے۔ میں نے اپنی مارکیٹ کی ڈیمانڈ کو رد کرتے ہوئے بہت سی پاکستانی فلموں کو نمائش کیلئے پیش کیا لیکن بزنس کو دیکھتے ہوئے اورفلم بینوں کی ڈیمانڈ پرفلمیں تبدیل کرنا پڑیں۔ اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ ہمارے فلمسازوں کو جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ فلمیں بنانا ہونگی۔ آنے والے چند برسوں کے دوران سینما گھروں میں اتنی جدید ٹیکنالوجی متعارف ہوجائے گی کہ پھر جس کیمرہ پرہمارے ہاں فلمیں بنائی جارہی ہے وہ سینما گھروں میں نمائش کیلئے پیش ہی نہیں کی جاسکیں گی۔ انہوں نے مزید کہا پاکستانی فلم انڈسٹری کے بحران کی اصل وجہ یہاں معیاری فلموں کا نہ بنناہے' بھارتی فلموںکی نمائش نے ختم ہوتے سنیمائوں کو بچایا' بلکہ سنی پلیکس سنیما بھی قائم ہوئے۔ یہ تاثر غلط ہے کہ ہم پاکستانی فلموں پربھارتی فلموں کو ترجیح دیتے ہیں۔ میں نے ''بھائی لوگ'' اور'' لو میں گم'' کو ریلیز کیا' بلکہ ''سن آف پاکستان'' کا پریمیئر رکھا 'مگر اس فلم میں کام کرنے والوں سمیت فلم انڈسٹری کی کوئی بھی شخصیت پروموشن کرنے کے لئے نہ آئی۔ فلم بنانے والوں کے پاس جدید ٹیکنالوجی نہیں ہے ' گرین ٹریک پر فلمیں بنانے کی بجائے مونو پرفلمیں بنائی جارہی ہیں 'جو سنی پلیکس ڈیجٹیل سنیما پر نہیں دکھائی جاسکتی ۔ فلمساز اور ہدایتکاروں کوچاہیئے کہ کم ازکم ایسی فلمیں بنائیں جنہیں ہم چلا سکیں۔ سنیما ایک دکان ہے جس میں اچھی پراڈکٹ ہوگی تو اس کا رسپانس بھی بہت اچھا ملتا ہے۔ اگر کوئی پراڈکٹ بنے گی تو گاہک بھی اس کی ڈیمانڈ کرے گا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ سٹوڈیوز میں دفتر بن گئے ہیں ' فلور گوداموں میں تبدیل ہوچکے ہیں جو بچ گیا ہے وہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہوجائینگے۔ فلم انڈسٹری کا بحران معیاری فلم میکنگ کے ذریعے ہی ختم ہوسکتا ہے 'اس کے علاوہ اورکوئی ترکیب نہیں کہ جس کے تحت پندرہ سالوں سے جاری بحران ختم ہوسکے۔ ہم پر بھارتی فلموں کو پروموٹ کرنے کا الزام لگانے والے پہلے اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ جنہوں نے پچھلے سات سالوں سے ایک بھی فلم پروڈیوس نہیں کی اور ہمیں بھارتی فلمیں نہ لگانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اگر یہ فلم ٹریڈ سے اتنے مخلص ہیں تویہ فلمیں کیوں نہیں بنا رہے'کسی کو مشورہ دینا بہت آسان اور اس پرخود عمل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ حکومت نے فلم ٹریڈ کے لئے کچھ نہیں کرنا' اس کیلئے ہمیں کچھ کرنا پڑیگا۔ حکومت سے ہمیں صرف یہ مطالبہ کرنا چاہیئے کہ وہ خام میٹریل اور فلم میکنگ میں استعمال ہونے والی جدید ٹیکنالوجی کو امپورٹ کرنے کو ٹیکس فری کر دے۔ اس کے علاوہ ہمیںنوجوان پڑھے لکھے لوگوںکو فلمسازی کے میدان میں آگے لانا ہوگا جواپنی صلاحیتوں کے ذریعے بین الاقوامی معیار کی فلمیں بنائیں۔ اب فلم انڈسٹری کو بحران تک پہنچانے والوں کوریٹائرمنٹ لے لینی چاہئے۔
فیاض خان
(فلم ساز)
فلمساز فیاض خان نے کہا کہ ایک وقت تھا جب سینما مالکان ہماری فلموںکی نمائش کیلئے آگے پیچھے ہوتے تھے لیکن اب وہ بھارتی فلموں کی بدولت ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں۔ میری فلم ''ظل شاہ'' کی نمائش کے موقع پر مجھے بہت سے مسائل کا سامنا رہا اوراسی لئے میں نے مزید فلمیں پروڈیوس کرنے کا ارادہ رکھتے ہوئے بھی کام نہیں کیا۔ میں جب اپنی فلم کی نمائش کیلئے کچھ جد ید طرز کے سینمامالکان تک پہنچاتو ان کی شرائط سن کر حیران رہ گیا۔ مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ میں نے فلم تو بنائی ہے لیکن اس کی آمدن سینما مالکان کو ہی دینا پڑے گی۔ میں نے کچھ کی شرائط مانی اورفلم کونمائش کیلئے پیش کیا مگرسینماانتظامیہ نے جس طرح کا رویہ اپنایا اس کوبیان کرناممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ 45برس سے پاکستان فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوں میں نے اپنی تمام زندگی فلمسازی کے شعبے کے لئے وقف کردی تھی مگراب صورتحال اتنی نازک ہوچکی ہے کہ یہ سب کچھ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ حکومت بھارتی فلم کی نمائش پر پابندی عائد کرے اورپاکستان فلم انڈسٹری کیلئے ایک ایسی پالیسی بنائی جائے جس کی وجہ سے پاکستانی ہی نہیں بلکہ غیر ملکی سرمایہ کار بھی یہاں فلمسازی کریں اورویرانیوں کا خاتمہ ہوسکے۔
راحیل باری / خرم باری
(اونر باری سٹوڈیو)
باری سٹوڈیوکے اونرراحیل باری اورخرم باری نے کہا کہ زندگی کے تمام شعبوں میں اتارچڑھائو آتے ہیں اورپھر حالات بہتری کی طرف جانے لگتے ہیں ، لیکن جب سے پاکستانی سینمائوں میں بھارتی فلموںکی نمائش کا سلسلہ شروع ہوا ہے حالات بگڑتے چلے جا رہے ہیں۔ ایک ٹائم تھا جب باری سٹوڈیو میں 750 لوگ ملازمت کرتے تھے لیکن اب صرف گیارہ ملازموں کے ساتھ ہم سٹوڈیو چلا رہے ہیں۔ کام نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے روزگارہوچکے ہیں۔ لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے عدالت سے رجوع کیا مگرافسوس کہ اتنا وقت گزرنے کے باوجود کوئی فیصلہ سامنے نہیں آسکا۔ اگر عدالت ہمارے کیسوں کا فیصلہ ہی سنا دے تواس کے بعد ہمیں نئی راہ دکھائی دینے لگے گی۔ ہم بھی اگرچاہتے توسٹوڈیو کوختم کرکے کوئی اورکاروبار شروع کرسکتے تھے لیکن ہم آج بھی اس بات کے خواہشمند ہیں کہ فلم انڈسٹری بحال ہو، یہاں فلمیں بنیں، سٹوڈیو آباد ہوں اورمعروف فنکاردن رات یہاں شوٹنگ کرتے دکھائی دیں۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح ہمارے ملک میں ری کنڈیشنڈ گاڑیاں امپورٹ کی جاتی ہیں اوران کونئی کے مقابلے میں سستے داموں فروخت کیا جاتا ہے اسی طرح اگرامپورٹ قوانین کے تحت یہاں فلمیں امپورٹ کرنا ضروری ہے توپھر تین سے چار برس قبل ریلیز ہونے والی فلمیں امپورٹ کی جائیں۔ اس سلسلہ میں پالیسی بنائی جائے۔جہاں تک بات پاکستان فلم کی پالیسی کی ہے تو اس حوالے سے ہمیں اعتماد میں لیا جائے اورہماری تجاویز کے بغیر اگرکوئی پالیسی بنائی گئی تواس کو ہم نہیں مانیں گے۔ ہمارا مسئلہ ہے اورہماری مشاورت کے بغیراس کو نہیں بناناچاہئے۔
اداکارہ صلہ حسین اورزریں نے کہا کہ پاکستان فلم انڈسٹری ہماری پہچان ہے اورآج بھی لوگ پاکستانی فلم دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم نے اس وقت فلم انڈسٹری میں قدم رکھا جب یہاں شدید بحران ہے لیکن ہمیں پاکستان فلم انڈسٹری کا حصہ ہونے پر فخر ہے۔ پوری دنیا کی طرح پاکستان میںبھی فلم سب سے مقبول میڈیم ہے ۔ ٹی وی اورتھیٹر کے فنکاروں کے مقابلے میں آج بھی لوگ فلمسٹارز کو اہمیت دیتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بننے والی فلموں میں جس طرح کا کام کیا گیا اس کی بدولت فلم انڈسٹری نے لوگوں کے دلوںمیں جگہ بنائی اوربہت سے لوگ آج بھی فلم انڈسٹری کے شاندار ماضی کا تذکرہ کرتے ہیں۔ کوئی وحیدمراد کے ہیئر سٹائل کو یاد کرتا ہے توکوئی بابرہ شریف کی ادائوں پربات کرتا ہے۔ کوئی منورظریف کے مزاحیہ جملے سناتا ہے توکوئی آغاطالش کی اداکاری کے گن گاتاہے۔ اس اعتبارسے دیکھاجائے تو زندگی کے تمام شعبوں میں کبھی اچھے دن آتے ہیں توکبھی خراب دن، مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اس شعبے کو تنہاچھوڑ دیں۔ پاکستان فلم انڈسٹری کو شدید مسائل کاسامنا ہے جس کیلئے ہم سب کو مل کربیٹھنا ہوگا اورباہمی مشاورت سے اس بحران کے خاتمے کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ ہم دعا گو ہیں کہ پاکستان فلم انڈسٹری کا بحران ختم ہو، نگارخانے آباد اور سینما گھروں میں ایسی پاکستانی فلمیں نمائش کیلئے پیش کی جائیں جس سے سینما گھروں میں رونقیں لگ جائیں۔ لوگ انٹرٹین ہونے کیلئے سینما گھروں کا رخ کریں اورپاکستان فلم انڈسٹری کاشمار دنیا کی بہترین فلم انڈسٹریوں میں ہونے لگے۔