کیا یہ ممکن ہے

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے پر آمادگی کا اظہار کریں گے؟

shehla_ajaz@yahoo.com

پاکستان میں بلوچستان ایک ایسا صوبہ ہے جہاں خواندگی کی شرح سب سے کم ہے لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے کہ وہاں کے لوگ پڑھنا ہی نہیں جانتے، نامناسب حالات، معاشی تنگ دستیاں اور دہشت گردی کی جنگ میں انسانی جان اپنے مال و اسباب کی سب سے زیادہ فکر کرتی ہے اور جب مال و اسباب تھوڑی سی زمین یا چند مویشیوں تک محدود ہو تو کیسی تعلیم اور کیسا اسکول؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت بلوچستان تعلیم کے شعبے پر خاص توجہ دے۔ آج کی ننھی کونپلیں کل ملک کی خدمت کر کے اپنے اور اپنے خاندان کے لیے مالی اور معاشی وسائل پیدا کر سکتی ہیں۔

بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سردار رئیسانی کو شہباز شریف کی جانب ضرور دیکھنا چاہیے گو کہ ان کی لیپ ٹاپ اسکیم خاصی مہنگی اور شاید اب بھی حقدار طالب علم ترس رہے ہیں پھر بھی قطرہ قطرہ ہی دریا بنتا ہے۔ اسی طرح ان کے اسکولز جو دانش کے نام سے غریب بچوں کی حوصلہ افزائی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک اچھی مثال ہیں حالانکہ ناقدین نے جی بھر کے اس پر تنقید کی ہے لیکن پھر بھی وزیر اعلیٰ کی سوچ اپنے صوبے کے بچوں کے لیے مثبت ہے ورنہ ہمارے یہاں تو سیاستدان عوامی خادم بن کر صرف قومی خزانے کی خدمت کرتے ہیں۔

جنرل پرویز کیانی نے بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے فوج میں بھرتی کے لیے اور ان کی تعلیم و تربیت کے لیے جو کام کیے وہ یقیناً ظاہر کرتے ہیں کہ ہماری آرمی بھی اپنے فرائض کی سبکدوشی سے بے بہرہ نہیں ہے۔ اسی طرح پاک بحریہ نے بھی بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے نئے کیڈٹ کالجز قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان نئے کیڈٹ کالجز میں غریب اور مستحق طالب علموں کو جو اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک ہیں مفت تعلیم دینے کے لیے پچاس فیصد کوٹہ مختص کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ ان کیڈٹ کالجز سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان نوجوانوں کو پاک بحریہ اور فوج میں ملازمت دی جائے گی۔ بلوچستان کے لیے ان اعلانات سے کم از کم ان نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ضرور ہوئی ہے جو مالی وسائل نہ ہونے کے باعث آگے اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ایک پسماندہ صوبہ ہونے کے باعث بلوچستان میں ترقی کی شرح بھی اس سے کم ہے۔ خاص کر وہ نسل جن کے بچے اب اسکول جانے کی عمر میں ہیں، معاشی تنگ دستی اور بیروزگاری کی نذر ہو چکے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے پر آمادگی کا اظہار کریں گے؟ دہشت گردی کے پیش نظر بلوچستان میں بہت سی این جی اوز کام کرنے سے کتراتی ہیں، کچھ عرصہ قبل ہی اقوام متحدہ کے رکن جان سولیکی کے اغواء کی داستان تو ویسے ہی پوری دنیا میں اپنا ڈھنڈورا پیٹ چکی ہے۔ غریب لوگوں میں تعلیم کا شعور اجاگر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ این جی اوز بھی اس میدان میں اتریں۔ معزز اور درمیانے طبقے کی بات تو پھر بھی ذرا بہتر ہے لیکن غربت کی چکی میں پسنے والا طبقہ جو دن بھر سنگلاخ پہاڑوں پر اپنے مویشی چراتا ہے نہیں جانتا کہ تعلیم سے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔ اسے صرف کام چاہیے تا کہ اس سے وہ دو وقت کی روٹی کما سکے۔


کیا وزیر اعلیٰ خود آئی ایم پیڈ ٹو ارن (I am paid to earn) کی طرز پر اسکول قائم نہیں کر سکتے؟ کیونکہ دہشت گردی کے اس میدان میں بہت سی بندوقیں تنی ہوئی ہیں۔ ابھی حال ہی میں ضلع چاغی میں کلی رحمت اللہ میں ایک این جی او کے تحت چلنے والے اسکول کو جو لڑکیوں کو مڈل تک تعلیم دیتا تھا نامعلوم دہشت گردوں نے آگ لگا کر خاکستر کر دیا۔ اس طرح اسکول کے سامان اور ریکارڈ کے ساتھ بچیوں کے ارمان بھی خاکستر ہو گئے جو انھوں نے اپنی ننھی پلکوں پر تعلیم حاصل کرنے کے لیے سجائے تھے۔

تئیس سالہ نوجوان رفیع اللہ کاکڑ نے جس کا تعلق بلوچستان کے پسماندہ علاقے قلعہ عبداللہ سے ہے ایسا تعلیم میں تیر مارا جس نے بلوچستان کے امیر وزراء کے ایوانوں میں ہلچل مچادی کہ اب بلوچستان کے غریب عوام بھی پڑھ سکتے ہیں۔ رفیع کسی بڑے ملک یا سردار کا بیٹا نہیں ہے اس کا باپ کاشت کاری کرتا ہے، انگور اور سیب اگا کر وہ اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے، لیکن اس کا یہ کام بھی اب سرد ہوتا جا رہا ہے، پانی اور بجلی کی کمیابی نے حالات کو اور بھی گھمبیر کر دیا ہے۔ ایسے میں رفیع کے لیے اعلیٰ تعلیم کا حصول ایک خواب ہی تو تھا، سوٹ بوٹ میں ملبوس چمکتی پیشانی اور آنکھوں میں ہزاروں خواب سجائے رفیع خاصا پر اعتماد دکھائی دیتا ہے۔

اسے کسی قسم کا احساس نہیں ہے کہ وہ ایک پسماندہ صوبے کا غریب نوجوان ہے۔ وہ باہمت ہے دنیا کو بتانا چاہتا ہے کہ پاکستان میں ذہانت کی کمی نہیں ہے۔ بس ہیرے کو تراشنے کی ضرورت ہے۔ خوش قسمتی نے بھی رفیع کے عزم کا ساتھ دیا، بے آب و گیاں پہاڑوں سے گھرے علاقے میں رفیع اپنے چار بھائی اور آٹھ بہنوں کے ساتھ رہتا تھا۔ اسے پڑھنے کا شوق تھا، اسے انگریزی تو کیا صحیح سے اردو بھی بولنی نہیں آتی تھی، تعلیم کے شوق نے اسے کوئٹہ جانے پر مجبور کیا جہاں اس نے لورالائی کے بی آر سی کالج میں داخلہ لیا۔ اس کالج میں اعلیٰ طبقے کے بچے پڑھتے تھے اور رفیع ان سب سے مختلف تھا، وہ اچھی اردو اور انگریزی بولتے اور رفیع کے پاس خاموشی تھی لیکن اس نے اس خاموشی کو اپنی کمزوری بننے نہ دیا اور اس نے انتھک محنت کی اور دو سال میں اس نے اردو اور انگریزی پر مہارت حاصل کرلی۔

تعلیم میں اس کی نمایاں کارکردگی نے اسے طالب علموں میں بھی ممتاز کر دیا۔ اس نے قومی سطح پر اپنے کالج کی جانب سے تقریری مقابلے جیتے، انٹر بورڈ بلوچستان سے انجینئرنگ میں وہ ٹاپ تھری میں شامل تھا۔ لاہور میں اس نے مشہور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور انجینئرنگ کی بجائے سوشل سائنسز میں داخلہ لیا۔ سوشل سائنسز میں داخلے لینا اس کا اپنا نہیں اس کے گھر والوں کا شوق تھا جس نے رفیع کے اندر ایک ذمے دار انسان کو جگایا جو اپنے ملک کو صحیح سمت میں لے جانے کا خواہش مند ہے۔ وہ ان ہزاروں لاکھوں نوجوانوں میں شامل ہے جو اپنے ملک کی حالت کو سنوارنا چاہتے ہیں، سفارشوں اور اقربا پروری کے جہنم سے ملک کو نکال کر ہی ہم ترقی کی سیڑھی چڑھ سکتے ہیں۔

امریکا کی ایک تعلیمی انجمن کے تحت اس کا انتخاب ہوا اور گلوبل یو جی آر اے ڈی اسٹوڈنٹ ایکسچینج کے تحت وہ امریکا چلا گیا۔ وہاں سے واپس لوٹا تو ہارورڈ اور آکسفورڈ جیسی مشہور یونیورسٹیوں سے گریجویشن مکمل کرنے کی خواہش جاگی لیکن وسائل محدود تھے اس نے رہوڈیز اسکالر شپ کے لیے درخواست دی اور اس کی درخواست منظور کر لی گئی، رہوڈیز اسکالر شپ حاصل کرنا رفیع اللہ کاکڑ اور بلوچستان کے لیے قابل اعزاز ہے۔ یہ ایک ایسی اسکالر شپ ہے جسے حاصل کرنا ہر ذہین طالب علم کی خواہش ہوتی ہے۔ اس اسکالر شپ کے تحت رفیع آکسفورڈ یونیورسٹی سے انٹرنیشنل ریلیشنز پڑھے گا۔ کیا بلوچستان مزید رفیع اللہ کاکڑ جیسے ذہین طالب علم پیدا کر سکتا ہے؟
Load Next Story