آج کا سندھایک نظر ادھر بھی
باب الاسلام سندھ میں برسات اور سیلاب کی تباہی ملک کے دیگر علاقوں سے کہیں زیادہ ہوئی.
پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک اقتدار کی بھوک سے للچائے افراد نے جمہوریت پر ایسے کاری وار کیے جن کی ضرورت سے ملکی ترقی کا سفر صحیح معنوں میں شروع نہیں ہوسکا۔ یہ پہلا واقعہ ہے کہ کسی جمہوری حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع عوامی طاقت سے میسر آیا ہے۔ مشیت ایزدی کہ پاکستان کو برسات اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن جمہوری حکومت نے تدبر اور فراست سے ان تمام قدرتی آفات کا مقابلہ کیا اور متاثرہ افراد کو وقت پر امداد فراہم کی، یہ سب کچھ فرشتوں نے نہیں بلکہ عوامی طاقت کے منتخب نمائندوں کی اہلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
باب الاسلام سندھ میں برسات اور سیلاب کی تباہی ملک کے دیگر علاقوں سے کہیں زیادہ ہوئی لیکن اس مشکل وقت میں تمام حکومتی عہدیداروں نے بارش کے متاثرین کی دل جوئی میں دن رات ایک کر دیے۔ بذات خود صدر مملکت آصف علی زرداری نے گھٹنوں گھٹنو ں پانی میں کھڑے رہ کر امدادی کارروائیوں کی نگرانی کی، جس میں سات ملین افراد کو نقل مکانی کرنی پڑی اور پچیس لاکھ نفوس نے کیمپوں میں پناہ لی، لیکن حکومت نے تمام متاثرین کو خوراک، رہائش، پینے کے صاف پانی کی فراہمی سمیت طبی سہولیات کا احسن انتظام کیا، جس کا واضح ثبوت آج کے حالات میں سیلاب متاثرین کا حکومتی طریقہ کار پر مکمل اعتماد ہے کہ صوبہ بھرمیں اس ضمن سے متعلق کوئی بدگمانی نہیں پنپ سکی۔
کسی بھی علاقے میں ترقی کی شرح کا پیمانہ امن و امان کی تسلی بخش صورتحال میں مضمر ہے۔ جمہوری حکومت کے لیے اقتدار کی کرسی کانٹوں کی سیج ثابت ہوئی جس میںآمروں اور ملک دشمنوں کے لگائے ہوئے بیج تناور درخت بن چکے تھے۔ فرقہ واریت اور لسانی گروہ بندیوں نے ملکی استحکام کا شیرازہ پارہ پارہ کر دیا تھا لیکن ان کٹھن حالات اور محدود وسائل میں امن و امان کی صورتحال پربھرپور توجہ دی۔ آج سندھ میں امن و امان کی صورت مثالی نہیں تو تسلی بخش ضرور کہی جا سکتی ہے۔
موجودہ جمہوری حکومت نے صدر پاکستان آصف علی زراری کی قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت محکمہ پولیس میں اصلاحات کے لیے انقلابی اقدامات کیے جس میں تقریباً دس ہزار سے زائد اہلکاروں کی بھرتی کی گئی اور بھرتی کا عمل آج بھی جاری ہے جس میں شفاف طریقہ کار کے تحت اہل امیدواروں کو محکمہ پولیس میں ملازمت دی گئی اس کے علاوہ محکمہ داخلہ کی اہم کار گزاریوں میں انسداد دہشت گردی سیل کا قیام، شہر کے اہم مقامات پر سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب، پولیس اہلکاروں اور ان کے اہل خانہ کو طبی سہولیات کی فراہمی، مزید برآں صوبہ میں جیلوں کی توسیع اور تعمیر بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت میں احسن طریقے سے مکمن ہوئی ہے۔
تعلیم کی شرح سے کسی صوبے کے باشندوں کی اہلیت اور قابلیت کو جانچ سکتے ہیں۔ صوبہ سندھ جو کہ تاریخ میں علم کے حوالے سے دوسرے علاقوں کی نسبت ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ سندھ کا دوسرا نام علم پروری اور علم دوستی ہے اسی نکتے کو مدنظر رکھتے ہوئے جمہوری حکومت نے اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلے تعلیم کے شعبے پر اپنی خصوصی توجہ دی۔ صوبہ کے دور دراز علاقوں میں اسکولوں کا قیام اور اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعات کا پھیلائو صدر پاکستان کی علم دوستی کی جانب واضح اشارہ ہے جو کہ عدم تشدد کے فلسفہ کو جلا بخشا ہے، جس میں آپ اپنے دشمن کو علم کے ہتھیار سے زیر کرتے ہیں۔
صوبہ سندھ کے تمام شہروں میں جامعات اور ان کے کیمپس کا قیام اسی سلسلے کی کڑی ہے تاکہ عوام علم کے ہتھیار سے لیس ہو کر جہالت کا مقابلہ کر سکیں۔ اس تناظر میں میڈیکل یونیورسٹیوں کا قیام، انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں جدید ٹیکنالوجی کے شعبوں کی توسیع، مزید برآں تکنیکی تعلیم سے صوبے کے نوجوانوں کو بہرہ مند کرنے کے لیے ووکیشنل انسٹیٹیوٹ کا قیام موجودہ جمہوری حکومت کا ایک سنہری کارنامہ ہے۔
جمہوریت کے ثمرات نچلی سطح سے لے کر زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد تک پہنچ رہے ہیں۔ حکومت سندھ کے ترقیاتی کارناموں میں دواہم کلیدی اقدامات ''تھرکول پروجیکٹ'' اور ذوالفقار آباد پروجیکٹ'' ہیں جن کا آغاز ہوچکا ہے۔ ان دونوں ترقیاتی منصوبوں کے فعال ہونے کے بعد صوبے میں بیروزگاری کی شرح صفر ہوجائے گی۔ ان دونوں پروجیکٹس سے سندھ کا سماجی اور اقتصادی ڈھانچہ دوسرے صوبوں کے لیے ایک مثالی نمونہ بن جائے گا اور توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لیے تھر کول منصوبہ پاکستان پییپلز پارٹی کے تاریخی کارناموں میں سے ایک ہوگا۔ ذوالفقارآباد پروجیکٹ مقامی افراد کے لیے روزگار کا ایک بہترین موقع ہے جس سے مقامی افراد اپنی تعلیمی اور تکنیکی صلاحیتوں سے استفادہ کریں گے۔
آج بھی پیپلز پارٹی کے ناقدین سیاسی پلیٹ فارم سے مخالفت کا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں لیکن موجودہ جمہوری حکومت کے ترقیاتی اقدامات پر ان کی تنقیدیں خاموش ہیں۔ صوبہ سندھ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ سرکاری ملازمین کے لیے مراعات اور سہولیات دوسرے صوبوں کے سرکاری ملازمین سے کہیں زیادہ ہیں، اسی لیے سندھ کے عوام پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے آج بھی محبت کا وہ درجہ رکھتے ہیں جس کا ذوالفقار علی بھٹونے اپنی جان کا نذرانہ دے کر عوام سے اپنی محبت کا ثبوت دیا۔
(مصنف بحیثیت پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات اور صوبائی وزیر اطلاعات سندھ اپنی ذمے داریاں نبھا رہے ہیں)
باب الاسلام سندھ میں برسات اور سیلاب کی تباہی ملک کے دیگر علاقوں سے کہیں زیادہ ہوئی لیکن اس مشکل وقت میں تمام حکومتی عہدیداروں نے بارش کے متاثرین کی دل جوئی میں دن رات ایک کر دیے۔ بذات خود صدر مملکت آصف علی زرداری نے گھٹنوں گھٹنو ں پانی میں کھڑے رہ کر امدادی کارروائیوں کی نگرانی کی، جس میں سات ملین افراد کو نقل مکانی کرنی پڑی اور پچیس لاکھ نفوس نے کیمپوں میں پناہ لی، لیکن حکومت نے تمام متاثرین کو خوراک، رہائش، پینے کے صاف پانی کی فراہمی سمیت طبی سہولیات کا احسن انتظام کیا، جس کا واضح ثبوت آج کے حالات میں سیلاب متاثرین کا حکومتی طریقہ کار پر مکمل اعتماد ہے کہ صوبہ بھرمیں اس ضمن سے متعلق کوئی بدگمانی نہیں پنپ سکی۔
کسی بھی علاقے میں ترقی کی شرح کا پیمانہ امن و امان کی تسلی بخش صورتحال میں مضمر ہے۔ جمہوری حکومت کے لیے اقتدار کی کرسی کانٹوں کی سیج ثابت ہوئی جس میںآمروں اور ملک دشمنوں کے لگائے ہوئے بیج تناور درخت بن چکے تھے۔ فرقہ واریت اور لسانی گروہ بندیوں نے ملکی استحکام کا شیرازہ پارہ پارہ کر دیا تھا لیکن ان کٹھن حالات اور محدود وسائل میں امن و امان کی صورتحال پربھرپور توجہ دی۔ آج سندھ میں امن و امان کی صورت مثالی نہیں تو تسلی بخش ضرور کہی جا سکتی ہے۔
موجودہ جمہوری حکومت نے صدر پاکستان آصف علی زراری کی قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت محکمہ پولیس میں اصلاحات کے لیے انقلابی اقدامات کیے جس میں تقریباً دس ہزار سے زائد اہلکاروں کی بھرتی کی گئی اور بھرتی کا عمل آج بھی جاری ہے جس میں شفاف طریقہ کار کے تحت اہل امیدواروں کو محکمہ پولیس میں ملازمت دی گئی اس کے علاوہ محکمہ داخلہ کی اہم کار گزاریوں میں انسداد دہشت گردی سیل کا قیام، شہر کے اہم مقامات پر سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب، پولیس اہلکاروں اور ان کے اہل خانہ کو طبی سہولیات کی فراہمی، مزید برآں صوبہ میں جیلوں کی توسیع اور تعمیر بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت میں احسن طریقے سے مکمن ہوئی ہے۔
تعلیم کی شرح سے کسی صوبے کے باشندوں کی اہلیت اور قابلیت کو جانچ سکتے ہیں۔ صوبہ سندھ جو کہ تاریخ میں علم کے حوالے سے دوسرے علاقوں کی نسبت ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ سندھ کا دوسرا نام علم پروری اور علم دوستی ہے اسی نکتے کو مدنظر رکھتے ہوئے جمہوری حکومت نے اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلے تعلیم کے شعبے پر اپنی خصوصی توجہ دی۔ صوبہ کے دور دراز علاقوں میں اسکولوں کا قیام اور اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعات کا پھیلائو صدر پاکستان کی علم دوستی کی جانب واضح اشارہ ہے جو کہ عدم تشدد کے فلسفہ کو جلا بخشا ہے، جس میں آپ اپنے دشمن کو علم کے ہتھیار سے زیر کرتے ہیں۔
صوبہ سندھ کے تمام شہروں میں جامعات اور ان کے کیمپس کا قیام اسی سلسلے کی کڑی ہے تاکہ عوام علم کے ہتھیار سے لیس ہو کر جہالت کا مقابلہ کر سکیں۔ اس تناظر میں میڈیکل یونیورسٹیوں کا قیام، انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں جدید ٹیکنالوجی کے شعبوں کی توسیع، مزید برآں تکنیکی تعلیم سے صوبے کے نوجوانوں کو بہرہ مند کرنے کے لیے ووکیشنل انسٹیٹیوٹ کا قیام موجودہ جمہوری حکومت کا ایک سنہری کارنامہ ہے۔
جمہوریت کے ثمرات نچلی سطح سے لے کر زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد تک پہنچ رہے ہیں۔ حکومت سندھ کے ترقیاتی کارناموں میں دواہم کلیدی اقدامات ''تھرکول پروجیکٹ'' اور ذوالفقار آباد پروجیکٹ'' ہیں جن کا آغاز ہوچکا ہے۔ ان دونوں ترقیاتی منصوبوں کے فعال ہونے کے بعد صوبے میں بیروزگاری کی شرح صفر ہوجائے گی۔ ان دونوں پروجیکٹس سے سندھ کا سماجی اور اقتصادی ڈھانچہ دوسرے صوبوں کے لیے ایک مثالی نمونہ بن جائے گا اور توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لیے تھر کول منصوبہ پاکستان پییپلز پارٹی کے تاریخی کارناموں میں سے ایک ہوگا۔ ذوالفقارآباد پروجیکٹ مقامی افراد کے لیے روزگار کا ایک بہترین موقع ہے جس سے مقامی افراد اپنی تعلیمی اور تکنیکی صلاحیتوں سے استفادہ کریں گے۔
آج بھی پیپلز پارٹی کے ناقدین سیاسی پلیٹ فارم سے مخالفت کا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں لیکن موجودہ جمہوری حکومت کے ترقیاتی اقدامات پر ان کی تنقیدیں خاموش ہیں۔ صوبہ سندھ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ سرکاری ملازمین کے لیے مراعات اور سہولیات دوسرے صوبوں کے سرکاری ملازمین سے کہیں زیادہ ہیں، اسی لیے سندھ کے عوام پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے آج بھی محبت کا وہ درجہ رکھتے ہیں جس کا ذوالفقار علی بھٹونے اپنی جان کا نذرانہ دے کر عوام سے اپنی محبت کا ثبوت دیا۔
(مصنف بحیثیت پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات اور صوبائی وزیر اطلاعات سندھ اپنی ذمے داریاں نبھا رہے ہیں)