مشینوں کی تنصیب اور کرنسی آپریشنز شعبے منتقل کرنے کی وجہ ہیں اسٹیٹ بینک
لاہورکاانتخاب جگہ دستیاب ہونے پرکیا، بالائی علاقوں کو نوٹوں وسکوں کی ترسیل کا انتظام
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایک بار پھر وضاحت کی ہے کہ اس کا کوئی ڈپارٹمنٹ لاہور منتقل نہیں کیا جارہا تاہم اس کے ذیلی ادارے کے چند فنکشنل شعبوں کاکچھ حصہ جو آپریشنل کاموں کا ذمے دار ہے عملی کارکردگی میں اضافے کی خاطر نگرانی اور نقل و حمل کی ضروریات پوری کرنے کے لیے لاہور منتقل کیا جارہا ہے، لاہور کا انتخاب خالصتاً جگہ کی دستیابی کی بنیاد پر کیا گیا ہے کیونکہ کسی اور دفتر خصوصاً اسلام آباد آفس میں اتنی افرادی قوت کے لیے گنجائش موجود نہیں۔
گزشتہ روز جاری وضاحتی بیان کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومت کے کھاتوں کی کنسولیڈیشن، ریونیو کی وصولی اور حکومتوں کی جانب سے ادائیگیوں کی انجام دہی کراچی سے جاری رہے گی نیز کمرشل بینکوں اور دیگر مالی ادارے بھی کراچی میں کام کرتے ہیں، اس کے علاوہ سبسیڈیئری کا صدر دفتر بھی مکمل طور پر کراچی میں کام کرتا رہے گا۔
بیان کے مطابق اسٹیٹ بینک کے 2 ذیلی ادارے ایس بی پی بینکنگ سروسز کارپوریشن اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بینکنگ اینڈ فنانس ہیں جو مکمل طور پر اس کی ملکیت میں ہیں، ایس بی پی بی ایس سی جو 2001 میں ایک آرڈیننس کے ذریعے قائم کیا گیا تھا، یہ اسٹیٹ بینک کا آپریشنل بازو ہے۔
کراچی میں اس کا صدر دفتر اور 15شہروں میں 16فیلڈ آفسز ہیں، ایس بی پی بی ایس سی کرنسی کی تقسیم، فارن ایکس چینج آپریشنز اور بینکر ٹو دی گورنمنٹس کے فرائض انجام دینے کے علاوہ زراعت، اسلامی بینکاری، ہاؤسنگ فنانس، ایس ایم ای اور مائیکروفنانس کے شعبوں میں اسٹیٹ بینک کے ڈیولپمنٹ فنانس گروپ کی جانب سے پالیسیوں کی اشاعت اور نفاذ کی ذمے داریاں نبھاتا ہے، ان شعبوں میں پالیسی کی تشکیل کا کام کراچی میں اسٹیٹ بینک انجام دیتا رہے گا۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق ایس بی پی بی ایس سی کے سربراہ منیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) ہیں جن کی ٹیم بہت سے ڈائریکٹرز اور چیف منیجرز پر مشتمل ہے جو براہ راست ایم ڈی کو رپورٹ کرتے ہیں، نگرانی کے کاموں میں بہتری پیدا کرنے، عملی کار گزاری بڑھانے اور امور میں ہم آہنگی لانے کے لیے ایس بی پی بی ایس سی کے ادارہ جاتی ڈھانچے میں اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری سے چند تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔
کراچی میں بی ایس سی کے شعبے 3 گروپوں میں رکھے گئے جبکہ اس کے 16 فیلڈ دفاتر 3 علاقوں جنوبی، وسطی اور شمالی علاقوں میں جمع کر دیے گئے، جنوبی علاقہ کراچی، نارتھ ناظم آباد، حیدر آباد، سکھر اور کوئٹہ دفاتر پر مشتمل ہے، شمالی علاقے میں اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان اور مظفر آباد دفاتر شامل ہیں، وسطی علاقے لاہور، بہاولپور، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، ملتان، فیصل آباد دفاتر پرمشتمل ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ 16 میں سے 11 فیلڈ دفاتر وسطی اور شمالی علاقوں میں واقع ہیں جو کام کے مجموعی بوجھ کا 60 فیصد، انسانی وسائل کا 62 فیصد اور نیشنل بینک آف پاکستان کیچیسٹ کے دو تہائی حصے کا احاطہ کرتا ہے، نیشنل بینک کیچیسٹ برانچوں اور کمرشل بینکوں کی برانچوں کی اکثریت بھی ان علاقوں میں کام کر رہی ہے۔
کرنسی کی تقسیم سے متعلق کام بہتر بنانے کی کوششوں کے سلسلے میں اور یہ یقینی بنانے کے لیے کہ شعبہ بینکاری جعلی اور خستہ نوٹوں کی گردش کا ذریعہ نہ بننے پائے اسٹیٹ بینک کوششیں کرتا آیا ہے کہ ایس بی پی اور بی ایس سی دونوں جگہ اور اس کے علاوہ شعبہ بینکاری میں بھی کرنسی کا انتظام خودکار طریقے سے انجام پائے۔
اسٹیٹ بینک کی انتظامِ کرنسی حکمت عملی کے جز کے طور پر ایس بی پی بی ایس سی فیلڈ دفاتر میں بینک نوٹوں کی تصدیق کرنے والی مختلف اقسام کی مشینیں نصب کرنے کا کام پہلے ہی شروع کر چکا ہے، اس کے علاوہ اس نے بینک نوٹوں کی تصدیق اور پروسیسنگ کرنے والی تیز رفتار مشینیں حاصل کر کے نصب بھی کر دی ہیں جو ہمارے کراچی آفسز میں کام کر رہی ہیں اور خیبر پختونخوا و پنجاب میں بڑے دفاتر کے واسطے ان مشینوں کے حصول کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
اس اقدام کے لیے انتظام کرنسی سے متعلق ایس بی پی بی ایس سی کی سینئر انتظامیہ چاہیے ہو گی جو اس پورے عمل میں شریک رہے کیونکہ ان ہائی ٹیک مشینوں کی تنصیب کے دوران فوری اور موقع پر فیصلے کرنے کی ضرورت ہو گی جیسا کراچی میں ان مشینوں کی تنصیب کے دوران دیکھا گیا۔
واضح رہے کہ ملک کے بالائی علاقوں جن میں پشاور، راولپنڈی اور اسلام آباد، مظفرآباد، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے دفاتر شامل ہیں انہیں نئے بینک نوٹوں کی ترسیلات کے ساتھ ساتھ تمام دفاتر کو سکوں کی تقسیم کا انتظام بھی لاہور آفس کی جانب سے انجام دیا جاتا ہے چنانچہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کرنسی آپریشنز کا بڑا حصہ مرکزی و شمالی علاقوں میں انجام پاتا ہے اور لاہور سے ان آپریشنز کا انتظام چلانے کے نتیجے میں موثر نگرانی اور پاکستان ریلوے کے ساتھ رابطہ کاری میں بہتری آئے گی اور ایس بی پی بی ایس سی کو اپنے لازمی فرائض کی بہتر انجام دہی میں مدد ملے گی۔
لہٰذا ایسی بی پی بی ایس سی کے 11 میں سے 5شعبے جن کے فرائض کا تعلق کرنسی مینجمنٹ، حکومت کے لیے بینکار کی خدمات، اندرونی آڈٹ، زرمبادلہ کی سرگرمیوں اور ترقیاتی مالیات گروپ سے متعلق پالیسیوں کے نفاذ سے ہے اور جو ان فرائض کی انجام دہی ٹرانزیکشن کی بنیاد ودفتری سطح پر اور یومیہ بنیادوں پر کرتے ہیں۔
ان شعبوں کو جزوی طور پر وسطی اور شمالی علاقوں کو منتقل کیا جا رہا ہے تا کہ ان سرگرمیوں کے ورک لوڈ کے مطابق وسیع تر آپریشنل کارکردگی اور نقل و حمل میں سہولت کو یقینی بنایا جا سکے، نگرانی کی جانچ کو بہتر بنانے کی غرض سے اندرونی آڈٹ کی منتقلی سے بھی ان دفاتر میں آڈٹ کی مشق میں اضافے کو یقینی بنانا ممکن ہو سکے گا۔
مرکزی بینک کے مطابق یہ پھر کہا جا رہا ہے کہ اس اقدام میں اسٹیٹ بینک کے امور اور نہ ہی ایس بی پی بی ایس سی کے ہیڈ آفس کی منتقلی شامل ہے، ایس بی پی بی ایس سی کا ہیڈ آفس، اس کے 6 شعبے بشمول شعبہ اسٹریٹجک اینڈ کارپوریٹ افیئرز کراچی میں ہی رہے گا، اس کے منیجنگ ڈائریکٹر(ایم ڈی) بھی کراچی میں ہی رہیں گے جیساکہ پہلے ہی کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ انتظامیہ کی جانب سے کیا گیا ہے جس کی پیشگی اطلاع ایس بی پی بی ایس سی کے بورڈ آف ڈائریکڑز کو دے دی گئی تھی۔
گزشتہ روز جاری وضاحتی بیان کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومت کے کھاتوں کی کنسولیڈیشن، ریونیو کی وصولی اور حکومتوں کی جانب سے ادائیگیوں کی انجام دہی کراچی سے جاری رہے گی نیز کمرشل بینکوں اور دیگر مالی ادارے بھی کراچی میں کام کرتے ہیں، اس کے علاوہ سبسیڈیئری کا صدر دفتر بھی مکمل طور پر کراچی میں کام کرتا رہے گا۔
بیان کے مطابق اسٹیٹ بینک کے 2 ذیلی ادارے ایس بی پی بینکنگ سروسز کارپوریشن اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بینکنگ اینڈ فنانس ہیں جو مکمل طور پر اس کی ملکیت میں ہیں، ایس بی پی بی ایس سی جو 2001 میں ایک آرڈیننس کے ذریعے قائم کیا گیا تھا، یہ اسٹیٹ بینک کا آپریشنل بازو ہے۔
کراچی میں اس کا صدر دفتر اور 15شہروں میں 16فیلڈ آفسز ہیں، ایس بی پی بی ایس سی کرنسی کی تقسیم، فارن ایکس چینج آپریشنز اور بینکر ٹو دی گورنمنٹس کے فرائض انجام دینے کے علاوہ زراعت، اسلامی بینکاری، ہاؤسنگ فنانس، ایس ایم ای اور مائیکروفنانس کے شعبوں میں اسٹیٹ بینک کے ڈیولپمنٹ فنانس گروپ کی جانب سے پالیسیوں کی اشاعت اور نفاذ کی ذمے داریاں نبھاتا ہے، ان شعبوں میں پالیسی کی تشکیل کا کام کراچی میں اسٹیٹ بینک انجام دیتا رہے گا۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق ایس بی پی بی ایس سی کے سربراہ منیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) ہیں جن کی ٹیم بہت سے ڈائریکٹرز اور چیف منیجرز پر مشتمل ہے جو براہ راست ایم ڈی کو رپورٹ کرتے ہیں، نگرانی کے کاموں میں بہتری پیدا کرنے، عملی کار گزاری بڑھانے اور امور میں ہم آہنگی لانے کے لیے ایس بی پی بی ایس سی کے ادارہ جاتی ڈھانچے میں اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری سے چند تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔
کراچی میں بی ایس سی کے شعبے 3 گروپوں میں رکھے گئے جبکہ اس کے 16 فیلڈ دفاتر 3 علاقوں جنوبی، وسطی اور شمالی علاقوں میں جمع کر دیے گئے، جنوبی علاقہ کراچی، نارتھ ناظم آباد، حیدر آباد، سکھر اور کوئٹہ دفاتر پر مشتمل ہے، شمالی علاقے میں اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان اور مظفر آباد دفاتر شامل ہیں، وسطی علاقے لاہور، بہاولپور، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، ملتان، فیصل آباد دفاتر پرمشتمل ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ 16 میں سے 11 فیلڈ دفاتر وسطی اور شمالی علاقوں میں واقع ہیں جو کام کے مجموعی بوجھ کا 60 فیصد، انسانی وسائل کا 62 فیصد اور نیشنل بینک آف پاکستان کیچیسٹ کے دو تہائی حصے کا احاطہ کرتا ہے، نیشنل بینک کیچیسٹ برانچوں اور کمرشل بینکوں کی برانچوں کی اکثریت بھی ان علاقوں میں کام کر رہی ہے۔
کرنسی کی تقسیم سے متعلق کام بہتر بنانے کی کوششوں کے سلسلے میں اور یہ یقینی بنانے کے لیے کہ شعبہ بینکاری جعلی اور خستہ نوٹوں کی گردش کا ذریعہ نہ بننے پائے اسٹیٹ بینک کوششیں کرتا آیا ہے کہ ایس بی پی اور بی ایس سی دونوں جگہ اور اس کے علاوہ شعبہ بینکاری میں بھی کرنسی کا انتظام خودکار طریقے سے انجام پائے۔
اسٹیٹ بینک کی انتظامِ کرنسی حکمت عملی کے جز کے طور پر ایس بی پی بی ایس سی فیلڈ دفاتر میں بینک نوٹوں کی تصدیق کرنے والی مختلف اقسام کی مشینیں نصب کرنے کا کام پہلے ہی شروع کر چکا ہے، اس کے علاوہ اس نے بینک نوٹوں کی تصدیق اور پروسیسنگ کرنے والی تیز رفتار مشینیں حاصل کر کے نصب بھی کر دی ہیں جو ہمارے کراچی آفسز میں کام کر رہی ہیں اور خیبر پختونخوا و پنجاب میں بڑے دفاتر کے واسطے ان مشینوں کے حصول کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
اس اقدام کے لیے انتظام کرنسی سے متعلق ایس بی پی بی ایس سی کی سینئر انتظامیہ چاہیے ہو گی جو اس پورے عمل میں شریک رہے کیونکہ ان ہائی ٹیک مشینوں کی تنصیب کے دوران فوری اور موقع پر فیصلے کرنے کی ضرورت ہو گی جیسا کراچی میں ان مشینوں کی تنصیب کے دوران دیکھا گیا۔
واضح رہے کہ ملک کے بالائی علاقوں جن میں پشاور، راولپنڈی اور اسلام آباد، مظفرآباد، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے دفاتر شامل ہیں انہیں نئے بینک نوٹوں کی ترسیلات کے ساتھ ساتھ تمام دفاتر کو سکوں کی تقسیم کا انتظام بھی لاہور آفس کی جانب سے انجام دیا جاتا ہے چنانچہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کرنسی آپریشنز کا بڑا حصہ مرکزی و شمالی علاقوں میں انجام پاتا ہے اور لاہور سے ان آپریشنز کا انتظام چلانے کے نتیجے میں موثر نگرانی اور پاکستان ریلوے کے ساتھ رابطہ کاری میں بہتری آئے گی اور ایس بی پی بی ایس سی کو اپنے لازمی فرائض کی بہتر انجام دہی میں مدد ملے گی۔
لہٰذا ایسی بی پی بی ایس سی کے 11 میں سے 5شعبے جن کے فرائض کا تعلق کرنسی مینجمنٹ، حکومت کے لیے بینکار کی خدمات، اندرونی آڈٹ، زرمبادلہ کی سرگرمیوں اور ترقیاتی مالیات گروپ سے متعلق پالیسیوں کے نفاذ سے ہے اور جو ان فرائض کی انجام دہی ٹرانزیکشن کی بنیاد ودفتری سطح پر اور یومیہ بنیادوں پر کرتے ہیں۔
ان شعبوں کو جزوی طور پر وسطی اور شمالی علاقوں کو منتقل کیا جا رہا ہے تا کہ ان سرگرمیوں کے ورک لوڈ کے مطابق وسیع تر آپریشنل کارکردگی اور نقل و حمل میں سہولت کو یقینی بنایا جا سکے، نگرانی کی جانچ کو بہتر بنانے کی غرض سے اندرونی آڈٹ کی منتقلی سے بھی ان دفاتر میں آڈٹ کی مشق میں اضافے کو یقینی بنانا ممکن ہو سکے گا۔
مرکزی بینک کے مطابق یہ پھر کہا جا رہا ہے کہ اس اقدام میں اسٹیٹ بینک کے امور اور نہ ہی ایس بی پی بی ایس سی کے ہیڈ آفس کی منتقلی شامل ہے، ایس بی پی بی ایس سی کا ہیڈ آفس، اس کے 6 شعبے بشمول شعبہ اسٹریٹجک اینڈ کارپوریٹ افیئرز کراچی میں ہی رہے گا، اس کے منیجنگ ڈائریکٹر(ایم ڈی) بھی کراچی میں ہی رہیں گے جیساکہ پہلے ہی کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ انتظامیہ کی جانب سے کیا گیا ہے جس کی پیشگی اطلاع ایس بی پی بی ایس سی کے بورڈ آف ڈائریکڑز کو دے دی گئی تھی۔