نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد تیز کرنے کا فیصلہ

ایک جانب بھارت اور افغانستان ہیں اور دوسری جانب اندرون ملک دہشت گرد اور ملک دشمن عناصر کی سرگرمیاں ہیں

: فوٹو : پی آئی ڈی

وفاقی حکومت نے نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) پر عملدرآمد تیز کرنے کے لیے چاروں صوبوں میں عملدرآمد کمیٹیاں قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو وزرائے اعلیٰ کے ماتحت کام کریں گی۔ وہ لوگ جو قومی ایکشن پلان کی اہمیت کا ادراک رکھتے ہیں انھیں اس حوالے سے سرکار کی جانب سے مبینہ عدم توجہ کے مظاہرے پر تشویش تھی کیونکہ ان کے خیال میں ایک اہم ترین قومی معاملے کو طاق نسیاں پر نہیں رکھا رہنا چاہیے تھا۔

دہشت گردی کا جتنی جلد خاتمہ ہو جائے، ملکی ترقی کے لیے یہ اتنا ہی ضروری ہے لہٰذا نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنا انتہائی ضروری ہے، بہرحال اب یہ فیصلہ جمعہ کو وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ناصر خان جنجوعہ کی زیر صدارت ہونے والے ایک اہم اجلاس میں کر لیا گیا ہے۔

اجلاس میں وفاقی سیکریٹری داخلہ، چاروں صوبائی چیف سیکریٹریز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نمائندوں نے شرکت کی اور اس ایکشن پلان پر اب تک کی پیشرفت کا جائزہ لیتے ہوئے اس پر عملدرآمد تیز کرنے کا لائحہ عمل بھی طے کیا گیا۔ وزرائے اعلیٰ کے ماتحت چاروں صوبائی کمیٹیاں ایکشن پلان کے تمام نکات پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے ساتھ اس بات کی نشاندہی کریں گی کہ کن نکات پر عمل نہیں ہو رہا ہے یا کن نکات پر عمل درآمد کی رفتار قدرے مزید تیز ہونی چاہیے۔

اصول کے مطابق کسی بھی کام کے بطریق احسن انجام تک پہنچانے کے لیے مانٹرنگ اور نگرانی اشد ضروری ہوتی ہے تا کہ کوئی رخنہ اندازی ہو تو اس کا بر وقت سدباب کر لیا جائے اور منصوبے پر کام بلا رکاوٹ جاری رہے۔ اس اعتبار سے عملدرآمد کمیٹیوں کا قیام انتہائی مناسب اقدام ہے جس سے امید کی جا سکتی ہے کہ اب اس کام میں کوئی رکاوٹ آڑے نہیں آئے گی، اور دہشت گردوں کے خلاف سرعت سے کارروائیاں ہوں گی۔

نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے ہونے والے اجلاس میں جو فیصلے کیے گئے ہیں، اب ان پر پوری سنجیدگی، عزم، استقامت اور برق رفتاری سے عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ دہشتگردوں، ان کے سہولت کاروں اور ہمدردوں کے قلع قمع کے لیے سول انتظامیہ اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان بہتر رابطہ کاری انتہائی اہم ہے کیونکہ انٹیلی جنس ہی وہ واحد عنصر ہوتا ہے جس کے بل بوتے پر سیکیورٹی ادارے کارروائی کر کے دہشت گردی کی واردات سے پہلے مجرموں کا قلع قمع کر دیتے ہیں۔

دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کے نتائج حوصلہ افزاء ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ فوجی آپریشن سے فوری نتائج حاصل ہوئے ہیں، دہشت گردوں کے اڈے تباہ ہوئے ہیں اور انھیں کھدیڑ دیا گیا ہے اور اس کے بعد سول انتظامیہ اور سیکیورٹی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کام شروع ہو جاتا ہے خصوصاً اس ساری جنگ میں نیکٹا کا کردار بہت اہم ہے۔ دشمن پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ دہشت گرد تنظیموں اور گروہوں کی فنڈنگ ہو رہی ہے۔


ملک کے اندر انھیں پناہ دینے والے موجود ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ڈس انفارمیشن کا ہتھیار بھی استعمال ہو رہا ہے لہٰذا ایسے حالات میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرنا وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔ گزشتہ روز جی ایچ کیو راولپنڈی میں پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی صدارت میں کور کمانڈرز کا اہم اجلاس ہوا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق جی ایچ کیو میں کور کمانڈرز کانفرنس میں ملک کی اندرونی و بیرونی سیکیورٹی، اور ایل او سی پر موجودہ صورتحال اور فوج کی آپریشنل تیاریوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور بھارت کے سرجیکل اسٹرائیک کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا یہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے لیکن پاک فوج آئندہ کسی ایسی حرکت کا منہ توڑ جواب دینے سے ہر گز گریز نہیں کرے گی۔ بہرحال یہ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ مادر وطن پاکستان اس وقت سنگین حالات سے دوچار ہے۔

ایک جانب بھارت اور افغانستان ہیں اور دوسری جانب اندرون ملک دہشت گرد اور ملک دشمن عناصر کی سرگرمیاں ہیں۔ ان حالات میں جہاں ملک کے سیکیورٹی اداروں، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور سول انتظامیہ کو ہوش مندی، جرأت اور معاملہ فہمی سے کام لینا ہے، وہاں میڈیا کی ذمے داریوں میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے، قومی اور حساس معاملات پر بہت سوچ سمجھ کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پہلو کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ حکومت نے ای سی ایل سے ایک صحافی کا نام نکال کر مثبت سمت میں قدم اٹھایا ہے۔

میڈیا کی آزادی اور اطلاعات تک رسائی ہر فرد کا حق ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آزادی بھی کچھ ضوابط سے مشروط ہوتی ہے۔ بہرحال پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس ناسور کے خاتمے کے لیے متحد ہو کر کام کرنا چاہئے۔ قومی سلامتی کے مشیر کی سربراہی میں گزشتہ روز جو میٹنگ ہوئی، ایسی میٹنگز تسلسل سے جاری رہنی چاہئیں۔ دہشت گرد وطن عزیز کے لیے بے پناہ مشکلات پیدا کر چکے ہیں اور بدستور کر رہے ہیں۔

آج یہ جو سفارتی تنہائی کی باتیں ہو رہی ہیں اس کا سبب دہشت گرد عناصر اور ان کے سرپرست ہی ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ اس ناسور کے خاتمے کے لیے ریاست کے تمام ادارے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے متحد ہو کر ایکشن کریں۔ اس طریقے سے ہی اس ناسور کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔

 
Load Next Story