رُکھی سُکھی اور پرائی چوپڑی
بابا صاحب کے پاکپتن میں واقع چھوٹے سے مزار کے دو دروازے ہیں، نوری اور بہشتی دروازے
PESHAWAR:
گزشتہ ایک ہفتے کے دوران قریباً ہر روز خواجہ فرید الدین گنج شکرؒ کے 774 ویں عرس کی خبریں اخبار میں پڑھنے اور ٹیلی ویژن پر دیکھنے کو ملتی رہیں۔ چھ روزہ تقریبات اب اختتام پذیر ہو چکی ہیں اور بہشتی دروازہ ایک سال کے لیے زیارت کے حوالے سے مقفل ہو چکا ہے۔
بابا صاحب کے پاکپتن میں واقع چھوٹے سے مزار کے دو دروازے ہیں، نوری اور بہشتی دروازے۔ یہاں خواجہ صاحب اور ان کے بڑے صاحبزادے کی قبریں ہیں۔ ہر سال عرس کے چھ دنوں میں پاکپتن رات دن جاگتا ہے اور درگاہ کا علاقہ زائرین کی آمد و رفت کی وجہ سے مرجع خاص و عام بنا رہتا ہے اور درگاہ پر پہنچ کر اس کے بہشتی دروازے میں داخل ہونے والوں کی قطار ایک چلتی ہوئی دیوار معلوم ہوتی ہے۔
ضلع ساہیوال میں تعیناتی کے تین واقعات مجھے عرس کی خبر پڑھ کر یاد آئے۔ پہلا واقعہ یاد آ کر مجھے سیدھا بہشتی دروازے پر لے گیا۔ 1979ء میں پاکپتن ضلع ساہیوال کی سب ڈویژن تھی جس کے اسسٹنٹ کمشنر سلمان صدیق تھے۔ دوسری سب ڈویژن اوکاڑہ تھی جہاں شاہد رفیع تھے اور تیسری سب ڈویژن ساہیوال میں میری پوسٹنگ تھی۔
1979ء میں عرس کی ایک رات درگاہ پر میری ڈیوٹی تھی۔ ڈیوٹی کے اوقات تھے، غروب آفتاب سے طلوع آفتاب تک اس لیے میں اپنی پولیس فورس کے ہمراہ ساری رات دربار کے گرد و نواح میں گھومتا رہا۔ لوگ ساری رات بہشتی دروازے سے داخل ہو کر مزار کے نوری دروازے سے باہر جاتے رہے۔ پنجابی لوگ بہشتی دروازے سے اندر داخل ہونے کو ''بہشتی ٹپنا'' کہتے ہیں۔ میں گھومتے ہوئے نزدیکی بازار کی طرف نکل گیا۔ وہاں رات کے دو بجے بھی خوب چہل پہل تھی۔ میں نے آواز سنی۔ ایک شخص کندھے پر تھیلا لٹکائے، ہاتھ میں کچھ پکڑے آواز لگاتا جا رہا تھا ''ٹپے ٹپائے لے لو ٹپے ٹپائے''۔
میں نے ایک ماتحت سے کہا معلوم کرو یہ کیا بولتا چلا جا رہاہے۔ وہ گیا اور واپس آ کر بتایا کہ سرمے کی شیشیاں بیچ رہا ہے اور کہتا ہے کہ وہ سرمے کی شیشیوں کے تھیلے سمیت ''بہشتی ٹپا'' ہے اس کے نتیجے میں اب اس کی سرمے کی شیشیاں جن کی فروخت کے لیے آواز لگا رہا ہے، بہشتی دروازے کی برکت سے آنکھوں کی بیماری دور کرنے اور نظر تیز کرنے کی تاثیر رکھتی ہیں۔ خواجہ فریدؒ پنجابی میں شعر بھی کہتے تھے۔ ان کا نسبتاً ایک آسان شعر ہے:
رکھی سکھی کھا کے ٹھنڈا پانی پی
دیکھ پرائی چوپڑی نہ ترسائیں جی
ساہیوال کا ہی دوسرا واقعہ میرا وہاں کا ٹرانسفر آرڈر ہے جو دوسرے ہی دن Held in Abeyance ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ وہاں سے تبدیل کیے جانے والے اسسٹنٹ کمشنر کو ایک مضبوط شخصیت کی حمایت حاصل ہے۔ ایک وفد کمشنر سے، دوسرا چیف سیکریٹری سے اور تیسرا مرکزی وزیر سے ملا تا کہ میں ساہیوال نہ جا سکوں لیکن سب ناکام ہوئے اور میں 1978ء میں ساہیوال جا پہنچا۔
ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر مشتاق فرشتہ نے مجھے بتایا کہ مجھے تبدیل کرنے کی کوششیں اب بھی جاری ہیں اور بار کے صدر جنھیں میں جانتا تک نہ تھا ہر جگہ میری حمایت کر رہے تھے۔ تبادلے کا معاملہ سرد پڑے دس پندرہ دن گزرے ہوں گے کہ اچانک چاک و چوبند باریش بزرگ میری عدالت کے ریٹائرنگ روم میں داخل ہوئے اور مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولے کہ میں مفتی ضیاء الحسن ہوں اور آپ کی یہاں تعیناتی کے خلاف میں ہی متحرک تھا لیکن اب آپ کے متعلق ہر طرح کی معلومات حاصل کر چکا ہوں۔ آج دوستی کا ہاتھ بڑھانے آیا ہوں۔ جو کچھ اب تک ہوا اس کے لیے معذرت خوا ہوں۔
اس روز کے بعد میرے ساہیوال میں داخلے تک کے مخالف مفتی صاحب کے ساتھ تعلقات نے ایسا رخ پلٹا کہ ایک ہفتے میں دو تین دن ملاقات رہتی اور کئی بار اکٹھے کھاناکھایا جاتا بلکہ بعض ٹورز پر وہ میرے ہمراہ ہوتے۔ گورنر پنجاب جنرل سوار خاں نے ساہیوال میں فی ایکڑ گندم میں زیادہ Yield کا مقابلہ رکھا تو میں نے سات آٹھ مقامات پر گورنر کو لے جانے کے ساتھ ہر جگہ فصل کی کٹائی و چھڑائی کا انتظام کیا۔
ان تمام جگہ جو گورنر کا جانا ہوا، مفتی صاحب ہمارے ساتھ تھے۔ آخری فصل کی کٹائی و چھڑائی کا مقام مفتی صاحب کی زمینوں پر تھا جہاں سو سے زیادہ افراد کے لیے کھانے کا بندوبست بھی تھا۔ ساہیوال سے تبادلہ پر بعض احباب نے الوداعی کھانے کیے۔ مفتی صاحب نے کہا ان کی طرف سے الوداعی ناشتہ، لنچ اور ڈنر ہو گا۔ یہ تھے میری ساہیوال تعیناتی کے سب سے بڑے مخالف مفتی ضیاء الحسن۔
ان ہی دنوں ساہیوال میں پاکستان اور انڈین کرکٹ ٹیم کا ون ڈے کرکٹ میچ نہ معلوم کس کی کوشش اور خواہش پر طے ہوا۔ انڈین ٹیم کے کپتان بشن سنگھ بیدی اور پاک ٹیم کے کپتان آصف اقبال جب کہ پاکستان ٹیم کے کوآرڈی نیٹر شفقت رانا تھے۔ میچ بہت اچھا جا رہا تھا۔ اسٹیڈیم تماشائیوں سے بھرا ہوا تھا۔ ساہیوال میں چونکہ اچھے ہوٹل نہ تھے، میں نے کھلاڑیوں وغیرہ کو کینال ریسٹ ہاؤس اور چندگھروں کے مستعار لیے ہوئے کمروں میں ٹھہرایا۔ پاکستانی ٹیم اچھا کھیلی۔ انڈین ٹیم نے بیٹنگ شروع کی تو وہ دباؤ میں تھی۔ سرفراز نواز نے بیٹسمین وشوا ناتھ کو جو چھوٹے قد کا کھلاڑی تھا، دو بونسر بال کرائے جو اس کی پہنچ سے بہت اوپر سے نکلے جنھیں ایمپائر نے نو بال نہ دیا جس پر ہارتی ہوئی انڈین ٹیم احتجاجاً واک آؤٹ کر گئی یعنی ہار گئی۔
بابا فرید الدین گنج شکرؒ کے مزار پر رات کی ڈیوٹی کے ذکر سے ساہیوال کے دو واقعات یاد آئے تو قلم نے کہا چل مرے خامے بسم اللہ۔
گزشتہ ایک ہفتے کے دوران قریباً ہر روز خواجہ فرید الدین گنج شکرؒ کے 774 ویں عرس کی خبریں اخبار میں پڑھنے اور ٹیلی ویژن پر دیکھنے کو ملتی رہیں۔ چھ روزہ تقریبات اب اختتام پذیر ہو چکی ہیں اور بہشتی دروازہ ایک سال کے لیے زیارت کے حوالے سے مقفل ہو چکا ہے۔
بابا صاحب کے پاکپتن میں واقع چھوٹے سے مزار کے دو دروازے ہیں، نوری اور بہشتی دروازے۔ یہاں خواجہ صاحب اور ان کے بڑے صاحبزادے کی قبریں ہیں۔ ہر سال عرس کے چھ دنوں میں پاکپتن رات دن جاگتا ہے اور درگاہ کا علاقہ زائرین کی آمد و رفت کی وجہ سے مرجع خاص و عام بنا رہتا ہے اور درگاہ پر پہنچ کر اس کے بہشتی دروازے میں داخل ہونے والوں کی قطار ایک چلتی ہوئی دیوار معلوم ہوتی ہے۔
ضلع ساہیوال میں تعیناتی کے تین واقعات مجھے عرس کی خبر پڑھ کر یاد آئے۔ پہلا واقعہ یاد آ کر مجھے سیدھا بہشتی دروازے پر لے گیا۔ 1979ء میں پاکپتن ضلع ساہیوال کی سب ڈویژن تھی جس کے اسسٹنٹ کمشنر سلمان صدیق تھے۔ دوسری سب ڈویژن اوکاڑہ تھی جہاں شاہد رفیع تھے اور تیسری سب ڈویژن ساہیوال میں میری پوسٹنگ تھی۔
1979ء میں عرس کی ایک رات درگاہ پر میری ڈیوٹی تھی۔ ڈیوٹی کے اوقات تھے، غروب آفتاب سے طلوع آفتاب تک اس لیے میں اپنی پولیس فورس کے ہمراہ ساری رات دربار کے گرد و نواح میں گھومتا رہا۔ لوگ ساری رات بہشتی دروازے سے داخل ہو کر مزار کے نوری دروازے سے باہر جاتے رہے۔ پنجابی لوگ بہشتی دروازے سے اندر داخل ہونے کو ''بہشتی ٹپنا'' کہتے ہیں۔ میں گھومتے ہوئے نزدیکی بازار کی طرف نکل گیا۔ وہاں رات کے دو بجے بھی خوب چہل پہل تھی۔ میں نے آواز سنی۔ ایک شخص کندھے پر تھیلا لٹکائے، ہاتھ میں کچھ پکڑے آواز لگاتا جا رہا تھا ''ٹپے ٹپائے لے لو ٹپے ٹپائے''۔
میں نے ایک ماتحت سے کہا معلوم کرو یہ کیا بولتا چلا جا رہاہے۔ وہ گیا اور واپس آ کر بتایا کہ سرمے کی شیشیاں بیچ رہا ہے اور کہتا ہے کہ وہ سرمے کی شیشیوں کے تھیلے سمیت ''بہشتی ٹپا'' ہے اس کے نتیجے میں اب اس کی سرمے کی شیشیاں جن کی فروخت کے لیے آواز لگا رہا ہے، بہشتی دروازے کی برکت سے آنکھوں کی بیماری دور کرنے اور نظر تیز کرنے کی تاثیر رکھتی ہیں۔ خواجہ فریدؒ پنجابی میں شعر بھی کہتے تھے۔ ان کا نسبتاً ایک آسان شعر ہے:
رکھی سکھی کھا کے ٹھنڈا پانی پی
دیکھ پرائی چوپڑی نہ ترسائیں جی
ساہیوال کا ہی دوسرا واقعہ میرا وہاں کا ٹرانسفر آرڈر ہے جو دوسرے ہی دن Held in Abeyance ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ وہاں سے تبدیل کیے جانے والے اسسٹنٹ کمشنر کو ایک مضبوط شخصیت کی حمایت حاصل ہے۔ ایک وفد کمشنر سے، دوسرا چیف سیکریٹری سے اور تیسرا مرکزی وزیر سے ملا تا کہ میں ساہیوال نہ جا سکوں لیکن سب ناکام ہوئے اور میں 1978ء میں ساہیوال جا پہنچا۔
ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر مشتاق فرشتہ نے مجھے بتایا کہ مجھے تبدیل کرنے کی کوششیں اب بھی جاری ہیں اور بار کے صدر جنھیں میں جانتا تک نہ تھا ہر جگہ میری حمایت کر رہے تھے۔ تبادلے کا معاملہ سرد پڑے دس پندرہ دن گزرے ہوں گے کہ اچانک چاک و چوبند باریش بزرگ میری عدالت کے ریٹائرنگ روم میں داخل ہوئے اور مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولے کہ میں مفتی ضیاء الحسن ہوں اور آپ کی یہاں تعیناتی کے خلاف میں ہی متحرک تھا لیکن اب آپ کے متعلق ہر طرح کی معلومات حاصل کر چکا ہوں۔ آج دوستی کا ہاتھ بڑھانے آیا ہوں۔ جو کچھ اب تک ہوا اس کے لیے معذرت خوا ہوں۔
اس روز کے بعد میرے ساہیوال میں داخلے تک کے مخالف مفتی صاحب کے ساتھ تعلقات نے ایسا رخ پلٹا کہ ایک ہفتے میں دو تین دن ملاقات رہتی اور کئی بار اکٹھے کھاناکھایا جاتا بلکہ بعض ٹورز پر وہ میرے ہمراہ ہوتے۔ گورنر پنجاب جنرل سوار خاں نے ساہیوال میں فی ایکڑ گندم میں زیادہ Yield کا مقابلہ رکھا تو میں نے سات آٹھ مقامات پر گورنر کو لے جانے کے ساتھ ہر جگہ فصل کی کٹائی و چھڑائی کا انتظام کیا۔
ان تمام جگہ جو گورنر کا جانا ہوا، مفتی صاحب ہمارے ساتھ تھے۔ آخری فصل کی کٹائی و چھڑائی کا مقام مفتی صاحب کی زمینوں پر تھا جہاں سو سے زیادہ افراد کے لیے کھانے کا بندوبست بھی تھا۔ ساہیوال سے تبادلہ پر بعض احباب نے الوداعی کھانے کیے۔ مفتی صاحب نے کہا ان کی طرف سے الوداعی ناشتہ، لنچ اور ڈنر ہو گا۔ یہ تھے میری ساہیوال تعیناتی کے سب سے بڑے مخالف مفتی ضیاء الحسن۔
ان ہی دنوں ساہیوال میں پاکستان اور انڈین کرکٹ ٹیم کا ون ڈے کرکٹ میچ نہ معلوم کس کی کوشش اور خواہش پر طے ہوا۔ انڈین ٹیم کے کپتان بشن سنگھ بیدی اور پاک ٹیم کے کپتان آصف اقبال جب کہ پاکستان ٹیم کے کوآرڈی نیٹر شفقت رانا تھے۔ میچ بہت اچھا جا رہا تھا۔ اسٹیڈیم تماشائیوں سے بھرا ہوا تھا۔ ساہیوال میں چونکہ اچھے ہوٹل نہ تھے، میں نے کھلاڑیوں وغیرہ کو کینال ریسٹ ہاؤس اور چندگھروں کے مستعار لیے ہوئے کمروں میں ٹھہرایا۔ پاکستانی ٹیم اچھا کھیلی۔ انڈین ٹیم نے بیٹنگ شروع کی تو وہ دباؤ میں تھی۔ سرفراز نواز نے بیٹسمین وشوا ناتھ کو جو چھوٹے قد کا کھلاڑی تھا، دو بونسر بال کرائے جو اس کی پہنچ سے بہت اوپر سے نکلے جنھیں ایمپائر نے نو بال نہ دیا جس پر ہارتی ہوئی انڈین ٹیم احتجاجاً واک آؤٹ کر گئی یعنی ہار گئی۔
بابا فرید الدین گنج شکرؒ کے مزار پر رات کی ڈیوٹی کے ذکر سے ساہیوال کے دو واقعات یاد آئے تو قلم نے کہا چل مرے خامے بسم اللہ۔