لیاقت علی خان سیاسی رہبر
پاکستان کی 69 سالہ قومی تاریخ میں اکتوبر کا مہینہ اپنے اندرایک الم ناک پہلو لیے ہوئے ہے
پاکستان کی 69 سالہ قومی تاریخ میں اکتوبر کا مہینہ اپنے اندرایک الم ناک پہلو لیے ہوئے ہے۔ رنج و الم کی اس داستان کا آغاز 16اکتوبر 1951کی تاریخ سے ہوا ہے، جس روز لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے جلسہ عام میں شہید کردیا گیا۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان یکم اکتوبر 1898ء کو دہلی کے قریب کرنال میں پیدا ہوئے اور اسی مہینے میں 16 تاریخ کو 1951ء میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
نواب زادہ لیاقت علی خان کا شمار ہندوستان کے امیر ترین افراد میں ہوتا تھا، وہ نہ صرف صاحب ثروت تھے بلکہ جہاں بینی کی تعلیم و تربیت سے بھی کلی طور پر آراستہ تھے۔ صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ بیرونی ممالک میں بھی ان کی آمد اور قیام کو عزت افزائی تصورکیا جاتا تھا۔ انھوں نے اپنی شاہانہ زندگی کو ملی بدحالی کی بنیاد پر ترک کر کے ملت اسلامیہ کی کشتی کوکنارے لگانے کے لیے اپنی جان تک کی پرواہ نہ کی۔
اپنے خاندانی پس منظر اور جاہ وحشمت کی بنیاد پر وہ کسی بھی شعبہ زندگی سے وابستگی اختیار کرتے تو درجۂ کمال کو پہنچتے یا اگر انگریزوں سے وفاداری کرتے تو ''سر'' لیاقت علی خان کا خطاب پاتے، لیکن انھوں نے عملاً اس کے برعکس ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا کہ جس پر چل کرگوہرِ منزل پانے کے بعد بھی صرف بے یقینی تھی، اس لیے کہ سیاست کا یہی مزاج اور چلن رہا ہے کہ یہ کبھی تو انسان کو اوجِ ثریا پر پہنچادیتی ہے اورکبھی خاک نشین ہونے پرمجبورکردیتی ہے۔
انسان فطرتاً انتہائی خود غرض واقع ہوا ہے، انسانی فطرت کے اس پہلوکا اطلاق قائد ملت کی شخصیت وحیات اور سماجی کردار پرکیا جائے تو نتیجہ اس کے برعکس نظرآتا ہے۔ انھوں نے نہ صرف اپنی زندگی کے لیے ایک کٹھن راستے کا اور ایک نامعلوم منزل کا انتخاب کیا بلکہ اس منزل کے حصول کے لیے اپنی عیش و آرام کی زندگی کے علاوہ اپنی دولت کو بھی لٹادیا۔ کیا آج کے دور میں کوئی ایسا انسان اور رہنما کسی قوم کو نصیب ہے، خود پاکستان کی مثال سامنے ہے۔ شہید ملت کے بعد قوم کو رہبر و رہنما نہیں ملے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم کو صحیح اور مثالی رہنما نصیب نہ ہوئے وہ بیمار ہی رہی اور رسوا ہوکر دنیا کے نقشے سے مٹ گئی۔ موثر قیادت کا میسر آنا بنیادی طور پرکسی بھی قوم کی وحدت اور ہئیت کی دلیل بن جاتا ہے۔ تاریخ اس اصول اور کرشمے کی بھی گواہ ہے کہ دنیا کی تمام بڑی اور عظیم تحریکوں کے پیچھے جہاں ایک مستند نظریہ کار فرما رہا ہے وہاں وہ ایک موثر رہنما کے بھی تابع رہی ہے۔ باالفاظ دیگر موثر رہنما کے بغیر کسی قوم کی تاریخ ہے اور نہ ہی جغرافیہ، جس قوم نے اچھے قائد پیدا نہیں کیے گویا اس نے اپنا تشخص مٹادیا۔
پاکستانی قوم کے لیے شہید ملت کا قائدانہ کردار بھی باعث فخر تھا، وہ برصغیر کے مسلمانوں کے ہر دل عزیز اور محبوب رہنما تھے اور قیام پاکستان کے بعد پاکستانی عوام کے لیے کرشماتی سیاسی قائد تھے، آپ نے قوم کے لیے صحیح معنوں میں امیری میں فقیری کی۔ قائد ملت لیاقت علی خان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے پاکستان کے عوام کے دلوں میں ایک نئی امنگ، ایک نیا جذبہ اور ولولہ پیدا کردیاتھا۔
قائد ملت نے اپنے دور میں متعدد کارہائے نمایاں انجام دیے۔ آپ نے بڑی خوش اسلوبی سے ملکی معاملات چلائے اور پاکستان کی بنیادوں کو مضبوط کیا، جس کی پوری دنیا قائل ہے،آپ کے دور میں کھانے پینے کی اشیاء وافر مقدار میں اور سستی دست یاب تھیں، روزگار کے بے شمارمواقعے تھے، بیروزگاری کا نام ونشاں تک نہ تھا، قوم خوشحالی کی طرف گامزن تھی۔
قائد ملت نے پہلی دستور ساز اسمبلی سے قرار داد مقاصد منظورکرا کے پاکستان کا مقصد اور مقدر طے کردیا تھا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے جو اصول آپ نے مرتب کیے تھے آج تک تمام حکومتیں اسی پر چلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ انھوں نے امریکا سے برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم کیے تھے۔ اسی لیے اس وقت کا صدرِ امریکا انھیں ایئرپورٹ سے لینے خود گیا تھا، بعد میں امریکا کا صدر پاکستان کے کسی وزیراعظم یا صدرکو لینے نہیں گیا، کیونکہ پاکستان کو ایک طفیلی اور مقروض ملک بنادیا گیا اور اسی حیثیت سے ہمارے سربراہ امریکا جاتے ہیں۔
وہ سیاسی اصولوں کے امین تھے، اسلامی سیاسی فکرکا بھرپور ادراک رکھتے تھے۔ایک اسلامی فلاحی مملکت کے رہنما کی حیثیت سے قومی وحدت، سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے لیے دن رات ایک کرتے رہے، اس کے ساتھ ساتھ مملکت کے معروضی حالات پر بھی آپ کی گہری نظر تھی۔
لسانی وگروہی اختلافات، قوم کا قیامِ پاکستان کے مقاصد سے اجتناب، اپنی مذہبی اورمعاشرتی اقدار سے صرف نظر کرنے کا عمل، قوم کے بعض افراد کے زاویہ نگاہ کی نظریہ پاکستان سے غیر ہم آہنگی، وطن عزیز کی ذیلی قومیتوں کی آپس کی کش مکش، ایک دوسرے کا استحصال کرنے کی روش اور اسی طرح کے تمام بگاڑ آپ کے پیش نظر تھے۔ آپ کو کامل یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن وہ ان تمام گھمبیر مسائل کا حل تلاش کرلیں گے اور پاکستان دنیا کی چند مثالی ریاستوں میں سے ایک ہوگا اور اسلامی طرز معاشرت کے حوالے سے یہ ملک اسلام کا قلعہ نظر آئے گا۔
لیکن افسوس، صد افسوس کہ اسلام دشمنوں کو قائد ملت کا یہ قومی کردار ایک آنکھ نہ بھایا، چناں چہ یہود و ہنود نے میر جعفر اور میر صادق کی آڑ میں سازشیں کیں جو ایک دفعہ ناکام ہوئیں لیکن دوسری دفعہ وہ اپنے اس مذموم مقصد میں کامیاب ہوئے اور 16اکتوبر 1951ء کو ان کو شہید کر دیا گیا۔ افسوس کہ جس رہنما نے اپنی قوم کے لیے اپنا سب کچھ وار دیا، اس قوم نے اسے خون میں نہلادیا۔ اس سے بڑی بدنصیبی کسی قوم کے لیے اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنا ہی سر قلم کردے اور جینے کی تمنا کرے اور اپنے ہاتھوں سے ہی اپنے مقدرکے ستارے کو نوچ ڈالے۔
کچھ محبتیں لازوال ہوتی ہیں اور وہ تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں۔ نظام قدرت ایسی محبتوں کو اپنے اشاروں اور اپنی علامتوں کے ذریعے آشکار کرتا رہتا ہے۔ سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں، دیکھنے والی آنکھ دیکھ لیتی ہے لیکن جنھیں نہیں سمجھنا وہ نہیں سمجھتے اور جنھیں تمسخر اڑانا ہے وہ تمسخر اڑا کر اپنا رانجھا راضی کرلیتے ہیں۔ لازوال محبتیں کس طرح تاریخ کا حصہ بنتی اور کس طرح ظاہر ہوتی ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ لیاقت علی خان کا اس سال یوم شہادت سولہ اکتوبر بروز اتوار ہے۔
حیرت ہے کہ قیام پاکستان چودہ اگست، ولادت قائد اعظم 25دسمبر اور وفات قائد اعظم 11ستمبر بھی اتوار ہی کا دن ہے۔ ہر سال ان واقعات کا دن ایک ہی ہوتا ہے اور یوں قائد اعظم اور قائد ملت لیاقت علی خان کی پاکستان سے لازوال محبت پاکستان کے یوم آزادی سے ایک مستقل نسبت حاصل کرکے تاریخ کا حصہ بن گئی ہے۔
نواب زادہ لیاقت علی خان کا شمار ہندوستان کے امیر ترین افراد میں ہوتا تھا، وہ نہ صرف صاحب ثروت تھے بلکہ جہاں بینی کی تعلیم و تربیت سے بھی کلی طور پر آراستہ تھے۔ صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ بیرونی ممالک میں بھی ان کی آمد اور قیام کو عزت افزائی تصورکیا جاتا تھا۔ انھوں نے اپنی شاہانہ زندگی کو ملی بدحالی کی بنیاد پر ترک کر کے ملت اسلامیہ کی کشتی کوکنارے لگانے کے لیے اپنی جان تک کی پرواہ نہ کی۔
اپنے خاندانی پس منظر اور جاہ وحشمت کی بنیاد پر وہ کسی بھی شعبہ زندگی سے وابستگی اختیار کرتے تو درجۂ کمال کو پہنچتے یا اگر انگریزوں سے وفاداری کرتے تو ''سر'' لیاقت علی خان کا خطاب پاتے، لیکن انھوں نے عملاً اس کے برعکس ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا کہ جس پر چل کرگوہرِ منزل پانے کے بعد بھی صرف بے یقینی تھی، اس لیے کہ سیاست کا یہی مزاج اور چلن رہا ہے کہ یہ کبھی تو انسان کو اوجِ ثریا پر پہنچادیتی ہے اورکبھی خاک نشین ہونے پرمجبورکردیتی ہے۔
انسان فطرتاً انتہائی خود غرض واقع ہوا ہے، انسانی فطرت کے اس پہلوکا اطلاق قائد ملت کی شخصیت وحیات اور سماجی کردار پرکیا جائے تو نتیجہ اس کے برعکس نظرآتا ہے۔ انھوں نے نہ صرف اپنی زندگی کے لیے ایک کٹھن راستے کا اور ایک نامعلوم منزل کا انتخاب کیا بلکہ اس منزل کے حصول کے لیے اپنی عیش و آرام کی زندگی کے علاوہ اپنی دولت کو بھی لٹادیا۔ کیا آج کے دور میں کوئی ایسا انسان اور رہنما کسی قوم کو نصیب ہے، خود پاکستان کی مثال سامنے ہے۔ شہید ملت کے بعد قوم کو رہبر و رہنما نہیں ملے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم کو صحیح اور مثالی رہنما نصیب نہ ہوئے وہ بیمار ہی رہی اور رسوا ہوکر دنیا کے نقشے سے مٹ گئی۔ موثر قیادت کا میسر آنا بنیادی طور پرکسی بھی قوم کی وحدت اور ہئیت کی دلیل بن جاتا ہے۔ تاریخ اس اصول اور کرشمے کی بھی گواہ ہے کہ دنیا کی تمام بڑی اور عظیم تحریکوں کے پیچھے جہاں ایک مستند نظریہ کار فرما رہا ہے وہاں وہ ایک موثر رہنما کے بھی تابع رہی ہے۔ باالفاظ دیگر موثر رہنما کے بغیر کسی قوم کی تاریخ ہے اور نہ ہی جغرافیہ، جس قوم نے اچھے قائد پیدا نہیں کیے گویا اس نے اپنا تشخص مٹادیا۔
پاکستانی قوم کے لیے شہید ملت کا قائدانہ کردار بھی باعث فخر تھا، وہ برصغیر کے مسلمانوں کے ہر دل عزیز اور محبوب رہنما تھے اور قیام پاکستان کے بعد پاکستانی عوام کے لیے کرشماتی سیاسی قائد تھے، آپ نے قوم کے لیے صحیح معنوں میں امیری میں فقیری کی۔ قائد ملت لیاقت علی خان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے پاکستان کے عوام کے دلوں میں ایک نئی امنگ، ایک نیا جذبہ اور ولولہ پیدا کردیاتھا۔
قائد ملت نے اپنے دور میں متعدد کارہائے نمایاں انجام دیے۔ آپ نے بڑی خوش اسلوبی سے ملکی معاملات چلائے اور پاکستان کی بنیادوں کو مضبوط کیا، جس کی پوری دنیا قائل ہے،آپ کے دور میں کھانے پینے کی اشیاء وافر مقدار میں اور سستی دست یاب تھیں، روزگار کے بے شمارمواقعے تھے، بیروزگاری کا نام ونشاں تک نہ تھا، قوم خوشحالی کی طرف گامزن تھی۔
قائد ملت نے پہلی دستور ساز اسمبلی سے قرار داد مقاصد منظورکرا کے پاکستان کا مقصد اور مقدر طے کردیا تھا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے جو اصول آپ نے مرتب کیے تھے آج تک تمام حکومتیں اسی پر چلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ انھوں نے امریکا سے برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم کیے تھے۔ اسی لیے اس وقت کا صدرِ امریکا انھیں ایئرپورٹ سے لینے خود گیا تھا، بعد میں امریکا کا صدر پاکستان کے کسی وزیراعظم یا صدرکو لینے نہیں گیا، کیونکہ پاکستان کو ایک طفیلی اور مقروض ملک بنادیا گیا اور اسی حیثیت سے ہمارے سربراہ امریکا جاتے ہیں۔
وہ سیاسی اصولوں کے امین تھے، اسلامی سیاسی فکرکا بھرپور ادراک رکھتے تھے۔ایک اسلامی فلاحی مملکت کے رہنما کی حیثیت سے قومی وحدت، سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے لیے دن رات ایک کرتے رہے، اس کے ساتھ ساتھ مملکت کے معروضی حالات پر بھی آپ کی گہری نظر تھی۔
لسانی وگروہی اختلافات، قوم کا قیامِ پاکستان کے مقاصد سے اجتناب، اپنی مذہبی اورمعاشرتی اقدار سے صرف نظر کرنے کا عمل، قوم کے بعض افراد کے زاویہ نگاہ کی نظریہ پاکستان سے غیر ہم آہنگی، وطن عزیز کی ذیلی قومیتوں کی آپس کی کش مکش، ایک دوسرے کا استحصال کرنے کی روش اور اسی طرح کے تمام بگاڑ آپ کے پیش نظر تھے۔ آپ کو کامل یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن وہ ان تمام گھمبیر مسائل کا حل تلاش کرلیں گے اور پاکستان دنیا کی چند مثالی ریاستوں میں سے ایک ہوگا اور اسلامی طرز معاشرت کے حوالے سے یہ ملک اسلام کا قلعہ نظر آئے گا۔
لیکن افسوس، صد افسوس کہ اسلام دشمنوں کو قائد ملت کا یہ قومی کردار ایک آنکھ نہ بھایا، چناں چہ یہود و ہنود نے میر جعفر اور میر صادق کی آڑ میں سازشیں کیں جو ایک دفعہ ناکام ہوئیں لیکن دوسری دفعہ وہ اپنے اس مذموم مقصد میں کامیاب ہوئے اور 16اکتوبر 1951ء کو ان کو شہید کر دیا گیا۔ افسوس کہ جس رہنما نے اپنی قوم کے لیے اپنا سب کچھ وار دیا، اس قوم نے اسے خون میں نہلادیا۔ اس سے بڑی بدنصیبی کسی قوم کے لیے اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنا ہی سر قلم کردے اور جینے کی تمنا کرے اور اپنے ہاتھوں سے ہی اپنے مقدرکے ستارے کو نوچ ڈالے۔
کچھ محبتیں لازوال ہوتی ہیں اور وہ تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں۔ نظام قدرت ایسی محبتوں کو اپنے اشاروں اور اپنی علامتوں کے ذریعے آشکار کرتا رہتا ہے۔ سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں، دیکھنے والی آنکھ دیکھ لیتی ہے لیکن جنھیں نہیں سمجھنا وہ نہیں سمجھتے اور جنھیں تمسخر اڑانا ہے وہ تمسخر اڑا کر اپنا رانجھا راضی کرلیتے ہیں۔ لازوال محبتیں کس طرح تاریخ کا حصہ بنتی اور کس طرح ظاہر ہوتی ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ لیاقت علی خان کا اس سال یوم شہادت سولہ اکتوبر بروز اتوار ہے۔
حیرت ہے کہ قیام پاکستان چودہ اگست، ولادت قائد اعظم 25دسمبر اور وفات قائد اعظم 11ستمبر بھی اتوار ہی کا دن ہے۔ ہر سال ان واقعات کا دن ایک ہی ہوتا ہے اور یوں قائد اعظم اور قائد ملت لیاقت علی خان کی پاکستان سے لازوال محبت پاکستان کے یوم آزادی سے ایک مستقل نسبت حاصل کرکے تاریخ کا حصہ بن گئی ہے۔