متاثرہ طبقات کی بحالی کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہونگے
غربت کے خاتمے کے عالمی دن کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ
تیسری دنیا کے ممالک کا سب سے اہم مسئلہ غربت ہے جس کی وجہ سے معاشرتی مسائل جنم لیتے ہیں اور معاشرہ تباہی کی طرف چل نکلتا ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں غربت کی شرح زیادہ ہے۔ رواں سال کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستا ن میں غربت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
پہلے ملک میں آبادی کے لحاظ سے ہر 10 میں سے ایک شخص غریب تھا اور اب یہ تعداد بڑھ کر 3 ہو چکی ہے جبکہ مجموعی طور پر جائزہ لیں تو 5 کروڑ 90 لاکھ سے زائد افراد خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو انتہائی تشویشناک ہے۔اس حوالے سے پاکستان پر عالمی دباؤ بھی ہے اور پاکستان نے عالمی معاہدے بھی دستخط کیے ہیں جبکہ حکومتی سطح پر مختلف اقدامات بھی کیے جارہے ہیں مگر ہم عالمی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔
''غربت کے خاتمے کے عالمی دن'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت و سول سوسائٹی کے نمائندوں ، ماہر اقتصادات اور تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہارکیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
سہیل انور چودھری
( سی ای او،پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی )
اعداد و شمار غلط نہیں ہوتے بلکہ یہ عالمی معیار اور بہتر سسٹم کے ذریعے حاصل کیے جاتے ہیں۔ غربت کے حوالے سے جب 2350 کیلوریز کو معیار بنا کر ڈیٹا اکٹھا کیا گیا تو پاکستان میں غربت کی شرح بتدریج کم ہوکر 8فیصد پر آگئی، پھر 3ہزار 30 روپے ماہانہ آمدن کو معیار بنایا گیا تو بھی شرح غربت میں کمی آئی لہٰذا ہم نے ان اعداد و شمار کو چھوڑ دیا جن کے مطابق غربت میں کمی آرہی تھی بلکہ پلاننگ کمیشن نے خوراک، شیلٹر، تعلیم، صحت سمیت بنیادی ضروریات کو معیار بنایا جس سے غربت میں اضافہ ہوگیا اور شرح 39.5فیصد تک پہنچ گئی۔
یہ وہ تمام چیزیں ہیں جو جنیوا کنونشن میں اپنائی گئیں۔ پاکستان میں یہ معیار بنانے کا مقصد یہ ہے کہ حکومت غربت کو صحیح معنوں میں ہر سطح پر نشاندہی کرکے اس کا خاتمہ چاہتی ہے۔ گزشتہ دس سال کے اعداد و شمار کے مطابق ہمارے ہاں غربت 66فیصد سے کم ہوکر 39فیصد ہوگئی ہے اور ابھی مزید کمی آرہی ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ ہمیں لوگوں کی ویلفیئر کی طرف جانا ہے جس میں خواتین، معذور افراد، بچے اور ہر طرح کے لوگ شامل ہوں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے خواتین کو امداد فراہم کی جارہی ہے ، یہ پروگرام بہترین ہے اوردنیا اس کی تعریف کررہی ہے۔
وفاق کی جانب سے ہیلتھ انشورنس پروگرام متعارف کرایا جا رہا ہے، پنجاب حکومت نے اس کے لیے 9ارب مختص کیا تھا، اب چونکہ یہ وفاق نے چلانا ہے تو پنجاب یہ پیسہ وفاق کو دے گا تاکہ لوگوںکو سہولیات دی جاسکیں۔غربت کے حوالے سے حکومت کے پاس ہر گھر کا ڈیٹا موجود ہے، اس کے مطابق لوگوں کو ہیلتھ کارڈ دیے جائیں گے۔اس پروگرام کے تحت پنجاب میں لوگوں کو 50ہزار روپے سالانہ علاج معالجے کے لیے جبکہ آپریشن کی صورت میں 3لاکھ روپے تک دیے جائیں گے۔سوشل پروٹیکشن اتھارٹی پنجاب نے خدمت کارڈ شروع کیا ہے۔
سب سے پہلے ہم نے پنجاب کے تقریباً دو لاکھ معذور افراد کا ڈیٹا اکٹھا کیا، ان کے میڈیکل اور تصدیق کے بعد 70ہزار معذور افراد کو خدمت کارڈ جاری کیے جاچکے ہیں جس کے تحت 3600روپے سہ ماہی دیے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب سکل ڈویلپمنٹ فنڈ کے ذریعے بھی امداد دی جارہی ہے اور ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اخوت کے تحت قرضے بھی دیے جارہے ہیں۔
حکومت پنجاب نیوٹریشن کے حوالے سے پروگرام شروع کر رہی ہے، حاملہ خاتون کو شروع دن سے لے کر بچے کی پیدائش کے دو سال تک پیسے فراہم کیے جائیں گے تاکہ بچے کی خوارک اور نشونما بہتر ہوسکے۔ پنجاب میں 30ارب روپے سے زیادہ فوڈ سیکورٹی پر خرچ کیے جاتے ہیں، ہماری سمت درست ہے، صاف پانی کمپنی، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ و دیگر منصوبے معاشرے کی بہتری کے لیے ہیں۔ چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب نے خود بھٹوں پر جاکر عملی اقدامات کیے اور ان بچوں کی تعلیم کے اخراجات حکومت اٹھا رہی ہے جبکہ مالی امداد بھی دی جارہی ہے، اسی طرح 6سے لے کر دسویں جماعت تک کی لڑکیوں کو ماہانہ وظیفہ بھی دیا جارہا ہے تاکہ ان کی تعلیم میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔
حکومت کو تمام مسائل کا ادراک ہے اور اس حوالے سے پروگرام موجود ہیں اور ان پر کام ہورہا ہے۔ ہمارے ہاں پالیسیاں بہترین اور پلاننگ موثر ہے لیکن بہت ساری جگہ پر عملدرآمد میں مسائل ہیں جس کی وجہ سے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوپاتے۔ ضرورت یہ ہے کہ ان منصوبوں پر عملدرآمد کرنے کے لیے بہتر میکانزم بنایا جائے اور ان کا دائرہ کار بڑھایا جانا بہت ضروری ہے۔
ڈاکٹر قیس اسلم
(ماہر اقتصادیات)
چونکہ اب تک ماہرین غربت کی ایک تعریف پر متفق نہیں ہوسکے اور مختلف تعریفوں پر مختلف اقدامات ہو رہے ہیں، اس لیے ابھی تک غربت کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکا۔غربت میں معاشیات کا بڑا عمل دخل ہے کیونکہ آمدن میں فرق ہی غربت ہے ۔
1999ء میں ورلڈ بینک نے غربت کا معیار 1ڈالر روزانہ رکھا تو یہ خیال کیا جارہا تھا کہ ہمارے ہاں 37 سے 40فیصد لوگ خط غربت سے نیچے تھے جبکہ 2002ء میں یہ شرح بڑھا کر2ڈالر کردی گئی جس کے مطابق 80فیصد لوگ خط غربت سے نیچے آگئے۔ حکومت نے خود تسلیم کیا ہے کہ اس وقت 65ملین لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔Absolute poverty سے بھی بڑا مسئلہ relative povertyہے کہ گھر کے اندر کتنی غربت ہے اور کون زیادہ غریب ہے، اس لحاظ سے خواتین اور بچے غریب ہیں جنہیں سہولیات میسر نہیں ہیں جبکہ مرد کو زیادہ حقوق حاصل ہیں۔
2002ء کے بعد دنیا نے غربت کی ایک نئی تعریف دے دی جو ہم نے ابھی تک نہیں اپنائی۔ یہ تعریف ''ایمپاورمنٹ'' کی ہے کیونکہ بااختیار نہ ہونے سے زندگی غیر محفوظ ہوجاتی ہے۔ اگر اس لحاظ سے دیکھیں تو 90فیصد لوگ ایمپاور نہیں ہیں۔ غربت کو معیشت، تعلیم، صحت، تاریخ، معاشرہ و دیگر تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے، اس لحاظ سے 40فیصد لوگ خط غربت سے نیچے ہیں جبکہ باقی کے 60فیصد بھی ایمپاورڈ نہیں ہیں۔ غربت کی ایک وجہ تعلیم کا فقدان ہے، لوگوں کو سکل بیسڈ ایجوکیشن نہیں دی جارہی جس کی وجہ سے وہ اپنا بہتر روزگار نہیں کما رہے۔
مدارس میں تعلیم نہیں ہے، سرکاری سکولوں میں معیار تعلیم بہتر نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ووکیشنل سکولوں کو بالکل الگ رکھا گیا ہے حالانکہ انہیں مرکزی دھارے میں ہونا چاہیے تھا تاکہ ہر بچے اور بچی کو سکل بیسڈ ایجوکیشن دی جاتی۔ غریب کے بچے میٹرک کے نظام میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ امیر کے بچے ''او لیول'' کی تعلیم حاصل کرتے ہیں جس میں ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جاتا ہے لہٰذا جب تک غریب کو امیر والی تعلیم نہیں دی جائے گی غربت کا خاتمہ نہیں ہوسکتا ۔ صحت کی عدم سہولیات بھی غربت میں اضافے کی وجہ ہے۔ صحت کے حوالے سے ہماری پالیسی کیوریٹیو ہے جو غلط ہے۔ غریبوں کو زیادہ تر بیماریاں گندے پانی اور مضر صحت خوارک سے ہوتی ہیں جبکہ علاج معالجے کی سہولیات کا بھی فقدان ہے۔ ہمیں اپنی صحت کی پالیسی پر ازسر نو نظر ثانی کی ضرورت ہے اور یہ پالیسی کیوریٹیو کے بجائے پری وینٹیو ہونی چاہیے۔
غربت کو تاریخی تناظر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ غربت کہاں اور کیوں ہے۔ پنجاب میں ''اربن پاورٹی'' ہے جبکہ دیگر صوبوں میں ''رورل پاورٹی''ہے۔ دوسری طرف غربت کا تعلق آبادی سے بھی ہے اور وہی لوگ تعداد میں زیادہ ہیں جو غریب ہیں، جن کے اپنے گھر نہیں ہیں اور جو دیہاڑی دار ہیں۔ اس کے علاوہ ماحول بھی غربت کی وجہ ہے لیکن ہم اس پر 0.03فیصد بجٹ خرچ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے آلودگی پر قابو نہیں پایا جارہا جبکہ بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔ غربت کی وجہ سے دہشت گردی، جرائم و دیگر معاشرتی مسائل میں اضافہ ہورہا ہے، اس طرف توجہ دینی چاہیے۔صاف پانی، ماحولیاتی آلودگی، گورننس، تعلیم، صحت و دیگر مسائل کے حوالے سے پاکستان بہت نیچے ہے اور ہمارے بعد صرف سب سہارا افریقہ ہے۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان اور ہندوستان نے غربت کے خاتمے کے حوالے سے سرکاری طور پر سوچنا بند کردیا ہے، ابھی جو تھوڑے بہت اقدامات ہورہے ہیں وہ صرف عالمی دباؤ کی وجہ سے ہیں۔ غربت کا حل صرف انڈسٹریلائزیشن ہے، اس سے روزگار کے نئے مواقع ملیں گے اور معیشت بھی بہتر ہوگی۔ پنجاب حکومت نے تعلیم اور صحت کا بجٹ بڑھایا ہے لیکن لوگوں کو روزگار دیے بغیر معاملات حل نہیں ہوسکتے۔ حکومت اکیلے مسائل سے نہیں نمٹ سکتی، اس سلسلے میں صنعتکاروں، این جی اوز سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو ملکر کام کرنا چاہیے۔
ہم ملینیم ڈویلپمنٹ گول کے 15سے 20 فیصد اہداف حاصل کرسکے ہیں جبکہ یہ شرح 50فیصد ہونی چاہیے تھی۔ سوال یہ ہے کہ جب دنیا 2030ء میں ایک نئی سمت میں داخل ہوگی تو ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟ غربت کے خاتمے کے لیے ہمیں سکل بیسڈ ایجوکیشن اور انڈسٹریلائزیشن پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے۔ افسوس ہے کہ ہماری زرعی اور صنعتی پالیسی نہیں ہے۔ہماری ایکسپورٹ پالیسی اور کاٹن پالیسی ناکام ہوئی ہے تو اربوں کا نقصان کا ہوا ہے، ہمیں بہتر پالیسیاں بنانی ہوں گی۔
حکومت نے کم از کم تنخواہ 13ہزار مقرر کی ہے، کیا اتنی خطیر رقم میں گھر چلایا جاسکتا ہے؟ ہماری صورتحال مایوس کن ہے، 60فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جو بے روزگاری کا شکار ہیں، اس کے علاوہ خواتین کی حالت انتہائی پسماندہ ہے لہٰذا ایسی صورتحال میں ملک کا مستقبل کیسے بہتر ہوسکتا ہے؟ حکومت کو تمام مسائل کا ادراک کرتے ہوئے اور معاملے کی نوعیت کے پیش نظر جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہئیں۔
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش
(تجزیہ نگار)
تیسری دنیا کے ممالک کے لیے غربت بہت بڑا مسئلہ ہے۔ افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں اعداد و شمار میں اونچ نیچ کرکے چیزیں بہتر کردی جاتی ہے جبکہ حقیقت میں معاملات مختلف ہوتے ہیں۔ مئی 2016ء میں غربت کا معیار 3ہزار 30 روپے ماہانہ آمدن رکھا گیا،اس حساب سے 30 فیصد کے قریب لوگ غریب ثابت ہوئے ہیں۔ اس کے بعد حکومت ''ملٹی ڈائمنشن پاورٹی انڈیکیٹرز'' لائی تو غربت میں اضافہ ہوا اوراس وقت پاکستان میں 39.5فیصد لوگ غریب ہیں۔ اس میں صرف تنخواہ ہی نہیں بلکہ صحت، تعلیم، گھر وغیرہ کو بھی بطور معیار شامل کیا گیا۔اس رپورٹ کے مطابق بلوچستان اور فاٹا کے دوتہائی لوگ غریب ہیں، ان دونوں صوبوں میں مرکز سے دوری، کمزورگورننس سٹرکچر اور علاقائی تنازعات مشترکہ عوامل ہیں۔
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے جن علاقوں میں تنازعات پیدا ہوئے، وہاں گورننس کمزور ہوئی، ہیومن ڈویلپمنٹ بری طرح متاثر ہوئی جس سے مجموعی اعداد و شمار تبدیل ہوگئے۔یہ بات اہم ہے کہ امن و امان کی صورتحال کا معیشت سے براہ راست تعلق ہے۔ معیشت بہتر ہو تو امن و امان کی صورتحال بہتر ہوجاتی ہے اور اسی طرح امن و امان کی صورتحال بہتر ہو تو معیشت میں بہتری آجاتی ہے۔
اس وقت ہماری پالیسی یہ ہونی چاہیے کہ کس طرح ہم نے اپنی معیشت کو بہتر کرنا ہے تاکہ امن و امان قائم ہوسکے۔ اس کے لیے انڈسٹریلائزیشن بہت اہم ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں روزگار کی شرح 50.7 فیصد ہے جبکہ ایک شخص کی جگہ 5لوگ کام کررہے ہیں جس کی وجہ سے ان کی آمدن انتہائی کم ہے۔ افسوس ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں دیہی غربت دوگنا ہوگئی ہے لیکن اس طرف حکومت کی توجہ نہیں ہے۔وقت کی ضرورت یہ ہے کہ ہمیں ان شعبوں پر توجہ دینا ہوگی جن کا خام مال ہمارے پاس دستیاب ہے۔ ہمیں قدرتی ذخائر ہیں کوبروے کار لانا چاہیے اور خام مال ایکسپورٹ کرنے کے بجائے اس کی پراڈکٹ تیار کرکے دنیا کو بیچنی چاہیے۔
اس طرح سے نیا سیکٹر وجود میں آئے گا، اس سے روزگار کے نئے مواقع نکلیں گے اور معیشت بھی بہتر ہوگی۔ ہمارے ہاں فوڈ پروسسینگ اور ماربل گرینائٹ سیکٹر نظر انداز ہورہا ہے ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہیے۔اب حکومت نے ملکی بہتری کے لیے 2025ء کے اہداف بنائے ہیں،اہم یہ ہے کہ مخلصی اور ایمانداری کے ساتھ اس پر کام کرنا ہوگا اور یہ اہداف محض اعداد و شمار سے حاصل نہیں ہونے چاہئیں بلکہ عملی طور پر بہتر اقدامات سے انہیں حاصل کرنا چاہیے۔
بشریٰ خالق
(نمائندہ سول سوسائٹی)
انصاف کا نظام نہ ہونا غربت کی وجہ بنتا ہے اور ہمارے ہاں سستا اور بروقت انصاف لوگوں کو میسر نہیں ہے۔ وہ تمام بنیادی حقوق جو پاکستان کے آئین اور ریاستی وعدوں میں موجود ہیں اور جن کے حوالے سے ہم نے عالمی معاہدے بھی کیے ہیں انہیں آئینی تحفظ دینے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے والوں کا احتساب ہوسکے اور ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایا جاسکے۔
پاکستان نے ملینیم ڈویلپمنٹ گولز میں مایوس کن کارکردگی دکھائی، اب ہم نے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز کے 15سالہ اہداف پر دستخط کیے ہیں، اس حوالے سے حکومتی سطح پر کمیٹیاں اور ٹاسک فورس بنا دی گئی ہیں۔ اس کا پہلا ہدف ہر سطح پر غربت کا خاتمہ ہے، سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کے پاس اس حوالے سے کوئی پالیسی ہے؟ اس وقت ہمیں اربن اور رورل پاورٹی کے انڈیکیٹرز پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
محروم طبقات کے اندر بھی مزید طبقات غربت کے متاثرین ہیں جن میں خواتین، اقلیتیں اور بچے شامل ہیں لہٰذا سوال یہ ہے کہ ان کی فلاح کے لیے کیا پالیسی بنائی گئی ہے؟ زرعی زمین کارپوریٹ سیکٹر کو دی جارہی ہے،جس سے فوڈ انسیکورٹی میں اضافہ ہوگا اور اس سے خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں لہٰذا اس طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔دنیا غربت کی بحث سے آگے بڑھ چکی ہے اور عدم مساوات کو ختم کرنے کی بات ہورہی ہے۔ ہم ابھی تک غربت کے حوالے سے ہی بات کررہے ہیں اور افسوس ہے کہ ہمارے 60فیصد سے زائد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر عدم مساوات کا جائزہ لیں تو صورتحال انتہائی پیچیدہ ہے اور سب سے زیادہ متاثر خواتین ہیںلہٰذا ہمیں اس صورتحال کو بھی دیکھنا ہوگا۔
ہم پاکستان میں دیہی غربت کے انڈیکس کو لیکر چلتے ہیں جبکہ شہروں میں غربت کا معاملہ انتہائی تشویشناک ہے ۔ لوگ دور دراز علاقوں سے شہروں میں روزگار کے لیے آتے ہیں اور یہاں دیہاڑی دار طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہے۔ غربت کی وجہ سے خواتین غیر رسمی شعبے میں کام کرنے پر مجبور ہیں، اس میں ریاست بھی ذمہ دار ہے کہ خواتین کو باصلاحیت نہیں بنایا جاتا اور نہ ہی سکل بیسڈ تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ مقابلے کی فضا میں آگے بڑھ سکیں اور بہتر روزگار کما سکیں۔ اس کے علاوہ تنخواہ کے حوالے سے بھی خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے، چاہے وہ دیہاتی خاتون ہو یا شہر کی ملازمت پیشہ خاتون۔ اس حوالے سے حکومت کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
پنجاب میں خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے نئے ادارے بنے ہیں، قانون سازی بھی ہورہی ہے لیکن خواتین کی سماجی اور معاشی حالت ابھی تک نہیں بدلی۔ صنعت کاری سے غربت کا خاتمہ ہوسکتا ہے کیونکہ جب تک لوگوں کو خاص کر خواتین کو روزگار کے مواقع نہیں دیے جائیں گے تب تک معاملات بہتر نہیں ہوسکتے۔ ضرورت یہ ہے کہ خواتین کو فنی تربیت دے کر باصلاحیت بنایا جائے اور انہیں مرکزی دھارے میں لایا جائے۔حکومت کی توجہ بڑے شہروں پر ہے جبکہ مضافات اور چھوٹے اضلاع پسماندگی کا شکار ہیں، حکومت کو چھوٹے شہروں اور دیہات کی حالت بھی بہتر کرنی چاہیے۔ غربت کے خاتمے اور خواتین کی ترقی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت اہم یہ ہے کہ سب سے پہلے متاثرہ طبقات کی نشاندہی کی جائے تاکہ معاملات بہتر طریقے سے آگے بڑھائے جاسکیں۔ حکومت فیملی پلاننگ کے منصوبے شہر سے باہر نہیں پھیلا سکی، دیہاتوں اور مضافات میں خاندانوں کا حجم بہت بڑا ہے جس سے آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اور اس کا نتیجہ غربت ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے اربوں روپے خواتین کو دیے گئے ہیں لیکن اس سے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوسکتے۔ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ معاملات ،کاسمیٹک اقدامات سے نہیں پائیدار اقدامات سے بہتر ہوتے ہیں۔
حکومت کو بہتر منصوبہ سازی سے لوگوں کو باعزت روزگار فراہم کرکے تبدیلی لانی چاہیے۔ اس کے علاوہ لوگوں کو سماجی تحفظ فراہم کیا جائے اور سب سے پہلے مزدور، خواتین اور بچوں پر توجہ دی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ بنیادی انسانی حقوق کے بجٹ میں اضافہ، لوگوں کو مفت بنیادی سہولیات اور برابری کی سطح پر روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں ۔
پہلے ملک میں آبادی کے لحاظ سے ہر 10 میں سے ایک شخص غریب تھا اور اب یہ تعداد بڑھ کر 3 ہو چکی ہے جبکہ مجموعی طور پر جائزہ لیں تو 5 کروڑ 90 لاکھ سے زائد افراد خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو انتہائی تشویشناک ہے۔اس حوالے سے پاکستان پر عالمی دباؤ بھی ہے اور پاکستان نے عالمی معاہدے بھی دستخط کیے ہیں جبکہ حکومتی سطح پر مختلف اقدامات بھی کیے جارہے ہیں مگر ہم عالمی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔
''غربت کے خاتمے کے عالمی دن'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت و سول سوسائٹی کے نمائندوں ، ماہر اقتصادات اور تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہارکیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
سہیل انور چودھری
( سی ای او،پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی )
اعداد و شمار غلط نہیں ہوتے بلکہ یہ عالمی معیار اور بہتر سسٹم کے ذریعے حاصل کیے جاتے ہیں۔ غربت کے حوالے سے جب 2350 کیلوریز کو معیار بنا کر ڈیٹا اکٹھا کیا گیا تو پاکستان میں غربت کی شرح بتدریج کم ہوکر 8فیصد پر آگئی، پھر 3ہزار 30 روپے ماہانہ آمدن کو معیار بنایا گیا تو بھی شرح غربت میں کمی آئی لہٰذا ہم نے ان اعداد و شمار کو چھوڑ دیا جن کے مطابق غربت میں کمی آرہی تھی بلکہ پلاننگ کمیشن نے خوراک، شیلٹر، تعلیم، صحت سمیت بنیادی ضروریات کو معیار بنایا جس سے غربت میں اضافہ ہوگیا اور شرح 39.5فیصد تک پہنچ گئی۔
یہ وہ تمام چیزیں ہیں جو جنیوا کنونشن میں اپنائی گئیں۔ پاکستان میں یہ معیار بنانے کا مقصد یہ ہے کہ حکومت غربت کو صحیح معنوں میں ہر سطح پر نشاندہی کرکے اس کا خاتمہ چاہتی ہے۔ گزشتہ دس سال کے اعداد و شمار کے مطابق ہمارے ہاں غربت 66فیصد سے کم ہوکر 39فیصد ہوگئی ہے اور ابھی مزید کمی آرہی ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ ہمیں لوگوں کی ویلفیئر کی طرف جانا ہے جس میں خواتین، معذور افراد، بچے اور ہر طرح کے لوگ شامل ہوں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے خواتین کو امداد فراہم کی جارہی ہے ، یہ پروگرام بہترین ہے اوردنیا اس کی تعریف کررہی ہے۔
وفاق کی جانب سے ہیلتھ انشورنس پروگرام متعارف کرایا جا رہا ہے، پنجاب حکومت نے اس کے لیے 9ارب مختص کیا تھا، اب چونکہ یہ وفاق نے چلانا ہے تو پنجاب یہ پیسہ وفاق کو دے گا تاکہ لوگوںکو سہولیات دی جاسکیں۔غربت کے حوالے سے حکومت کے پاس ہر گھر کا ڈیٹا موجود ہے، اس کے مطابق لوگوں کو ہیلتھ کارڈ دیے جائیں گے۔اس پروگرام کے تحت پنجاب میں لوگوں کو 50ہزار روپے سالانہ علاج معالجے کے لیے جبکہ آپریشن کی صورت میں 3لاکھ روپے تک دیے جائیں گے۔سوشل پروٹیکشن اتھارٹی پنجاب نے خدمت کارڈ شروع کیا ہے۔
سب سے پہلے ہم نے پنجاب کے تقریباً دو لاکھ معذور افراد کا ڈیٹا اکٹھا کیا، ان کے میڈیکل اور تصدیق کے بعد 70ہزار معذور افراد کو خدمت کارڈ جاری کیے جاچکے ہیں جس کے تحت 3600روپے سہ ماہی دیے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب سکل ڈویلپمنٹ فنڈ کے ذریعے بھی امداد دی جارہی ہے اور ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اخوت کے تحت قرضے بھی دیے جارہے ہیں۔
حکومت پنجاب نیوٹریشن کے حوالے سے پروگرام شروع کر رہی ہے، حاملہ خاتون کو شروع دن سے لے کر بچے کی پیدائش کے دو سال تک پیسے فراہم کیے جائیں گے تاکہ بچے کی خوارک اور نشونما بہتر ہوسکے۔ پنجاب میں 30ارب روپے سے زیادہ فوڈ سیکورٹی پر خرچ کیے جاتے ہیں، ہماری سمت درست ہے، صاف پانی کمپنی، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ و دیگر منصوبے معاشرے کی بہتری کے لیے ہیں۔ چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب نے خود بھٹوں پر جاکر عملی اقدامات کیے اور ان بچوں کی تعلیم کے اخراجات حکومت اٹھا رہی ہے جبکہ مالی امداد بھی دی جارہی ہے، اسی طرح 6سے لے کر دسویں جماعت تک کی لڑکیوں کو ماہانہ وظیفہ بھی دیا جارہا ہے تاکہ ان کی تعلیم میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔
حکومت کو تمام مسائل کا ادراک ہے اور اس حوالے سے پروگرام موجود ہیں اور ان پر کام ہورہا ہے۔ ہمارے ہاں پالیسیاں بہترین اور پلاننگ موثر ہے لیکن بہت ساری جگہ پر عملدرآمد میں مسائل ہیں جس کی وجہ سے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوپاتے۔ ضرورت یہ ہے کہ ان منصوبوں پر عملدرآمد کرنے کے لیے بہتر میکانزم بنایا جائے اور ان کا دائرہ کار بڑھایا جانا بہت ضروری ہے۔
ڈاکٹر قیس اسلم
(ماہر اقتصادیات)
چونکہ اب تک ماہرین غربت کی ایک تعریف پر متفق نہیں ہوسکے اور مختلف تعریفوں پر مختلف اقدامات ہو رہے ہیں، اس لیے ابھی تک غربت کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکا۔غربت میں معاشیات کا بڑا عمل دخل ہے کیونکہ آمدن میں فرق ہی غربت ہے ۔
1999ء میں ورلڈ بینک نے غربت کا معیار 1ڈالر روزانہ رکھا تو یہ خیال کیا جارہا تھا کہ ہمارے ہاں 37 سے 40فیصد لوگ خط غربت سے نیچے تھے جبکہ 2002ء میں یہ شرح بڑھا کر2ڈالر کردی گئی جس کے مطابق 80فیصد لوگ خط غربت سے نیچے آگئے۔ حکومت نے خود تسلیم کیا ہے کہ اس وقت 65ملین لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔Absolute poverty سے بھی بڑا مسئلہ relative povertyہے کہ گھر کے اندر کتنی غربت ہے اور کون زیادہ غریب ہے، اس لحاظ سے خواتین اور بچے غریب ہیں جنہیں سہولیات میسر نہیں ہیں جبکہ مرد کو زیادہ حقوق حاصل ہیں۔
2002ء کے بعد دنیا نے غربت کی ایک نئی تعریف دے دی جو ہم نے ابھی تک نہیں اپنائی۔ یہ تعریف ''ایمپاورمنٹ'' کی ہے کیونکہ بااختیار نہ ہونے سے زندگی غیر محفوظ ہوجاتی ہے۔ اگر اس لحاظ سے دیکھیں تو 90فیصد لوگ ایمپاور نہیں ہیں۔ غربت کو معیشت، تعلیم، صحت، تاریخ، معاشرہ و دیگر تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے، اس لحاظ سے 40فیصد لوگ خط غربت سے نیچے ہیں جبکہ باقی کے 60فیصد بھی ایمپاورڈ نہیں ہیں۔ غربت کی ایک وجہ تعلیم کا فقدان ہے، لوگوں کو سکل بیسڈ ایجوکیشن نہیں دی جارہی جس کی وجہ سے وہ اپنا بہتر روزگار نہیں کما رہے۔
مدارس میں تعلیم نہیں ہے، سرکاری سکولوں میں معیار تعلیم بہتر نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ووکیشنل سکولوں کو بالکل الگ رکھا گیا ہے حالانکہ انہیں مرکزی دھارے میں ہونا چاہیے تھا تاکہ ہر بچے اور بچی کو سکل بیسڈ ایجوکیشن دی جاتی۔ غریب کے بچے میٹرک کے نظام میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ امیر کے بچے ''او لیول'' کی تعلیم حاصل کرتے ہیں جس میں ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جاتا ہے لہٰذا جب تک غریب کو امیر والی تعلیم نہیں دی جائے گی غربت کا خاتمہ نہیں ہوسکتا ۔ صحت کی عدم سہولیات بھی غربت میں اضافے کی وجہ ہے۔ صحت کے حوالے سے ہماری پالیسی کیوریٹیو ہے جو غلط ہے۔ غریبوں کو زیادہ تر بیماریاں گندے پانی اور مضر صحت خوارک سے ہوتی ہیں جبکہ علاج معالجے کی سہولیات کا بھی فقدان ہے۔ ہمیں اپنی صحت کی پالیسی پر ازسر نو نظر ثانی کی ضرورت ہے اور یہ پالیسی کیوریٹیو کے بجائے پری وینٹیو ہونی چاہیے۔
غربت کو تاریخی تناظر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ غربت کہاں اور کیوں ہے۔ پنجاب میں ''اربن پاورٹی'' ہے جبکہ دیگر صوبوں میں ''رورل پاورٹی''ہے۔ دوسری طرف غربت کا تعلق آبادی سے بھی ہے اور وہی لوگ تعداد میں زیادہ ہیں جو غریب ہیں، جن کے اپنے گھر نہیں ہیں اور جو دیہاڑی دار ہیں۔ اس کے علاوہ ماحول بھی غربت کی وجہ ہے لیکن ہم اس پر 0.03فیصد بجٹ خرچ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے آلودگی پر قابو نہیں پایا جارہا جبکہ بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔ غربت کی وجہ سے دہشت گردی، جرائم و دیگر معاشرتی مسائل میں اضافہ ہورہا ہے، اس طرف توجہ دینی چاہیے۔صاف پانی، ماحولیاتی آلودگی، گورننس، تعلیم، صحت و دیگر مسائل کے حوالے سے پاکستان بہت نیچے ہے اور ہمارے بعد صرف سب سہارا افریقہ ہے۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان اور ہندوستان نے غربت کے خاتمے کے حوالے سے سرکاری طور پر سوچنا بند کردیا ہے، ابھی جو تھوڑے بہت اقدامات ہورہے ہیں وہ صرف عالمی دباؤ کی وجہ سے ہیں۔ غربت کا حل صرف انڈسٹریلائزیشن ہے، اس سے روزگار کے نئے مواقع ملیں گے اور معیشت بھی بہتر ہوگی۔ پنجاب حکومت نے تعلیم اور صحت کا بجٹ بڑھایا ہے لیکن لوگوں کو روزگار دیے بغیر معاملات حل نہیں ہوسکتے۔ حکومت اکیلے مسائل سے نہیں نمٹ سکتی، اس سلسلے میں صنعتکاروں، این جی اوز سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو ملکر کام کرنا چاہیے۔
ہم ملینیم ڈویلپمنٹ گول کے 15سے 20 فیصد اہداف حاصل کرسکے ہیں جبکہ یہ شرح 50فیصد ہونی چاہیے تھی۔ سوال یہ ہے کہ جب دنیا 2030ء میں ایک نئی سمت میں داخل ہوگی تو ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟ غربت کے خاتمے کے لیے ہمیں سکل بیسڈ ایجوکیشن اور انڈسٹریلائزیشن پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے۔ افسوس ہے کہ ہماری زرعی اور صنعتی پالیسی نہیں ہے۔ہماری ایکسپورٹ پالیسی اور کاٹن پالیسی ناکام ہوئی ہے تو اربوں کا نقصان کا ہوا ہے، ہمیں بہتر پالیسیاں بنانی ہوں گی۔
حکومت نے کم از کم تنخواہ 13ہزار مقرر کی ہے، کیا اتنی خطیر رقم میں گھر چلایا جاسکتا ہے؟ ہماری صورتحال مایوس کن ہے، 60فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جو بے روزگاری کا شکار ہیں، اس کے علاوہ خواتین کی حالت انتہائی پسماندہ ہے لہٰذا ایسی صورتحال میں ملک کا مستقبل کیسے بہتر ہوسکتا ہے؟ حکومت کو تمام مسائل کا ادراک کرتے ہوئے اور معاملے کی نوعیت کے پیش نظر جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہئیں۔
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش
(تجزیہ نگار)
تیسری دنیا کے ممالک کے لیے غربت بہت بڑا مسئلہ ہے۔ افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں اعداد و شمار میں اونچ نیچ کرکے چیزیں بہتر کردی جاتی ہے جبکہ حقیقت میں معاملات مختلف ہوتے ہیں۔ مئی 2016ء میں غربت کا معیار 3ہزار 30 روپے ماہانہ آمدن رکھا گیا،اس حساب سے 30 فیصد کے قریب لوگ غریب ثابت ہوئے ہیں۔ اس کے بعد حکومت ''ملٹی ڈائمنشن پاورٹی انڈیکیٹرز'' لائی تو غربت میں اضافہ ہوا اوراس وقت پاکستان میں 39.5فیصد لوگ غریب ہیں۔ اس میں صرف تنخواہ ہی نہیں بلکہ صحت، تعلیم، گھر وغیرہ کو بھی بطور معیار شامل کیا گیا۔اس رپورٹ کے مطابق بلوچستان اور فاٹا کے دوتہائی لوگ غریب ہیں، ان دونوں صوبوں میں مرکز سے دوری، کمزورگورننس سٹرکچر اور علاقائی تنازعات مشترکہ عوامل ہیں۔
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے جن علاقوں میں تنازعات پیدا ہوئے، وہاں گورننس کمزور ہوئی، ہیومن ڈویلپمنٹ بری طرح متاثر ہوئی جس سے مجموعی اعداد و شمار تبدیل ہوگئے۔یہ بات اہم ہے کہ امن و امان کی صورتحال کا معیشت سے براہ راست تعلق ہے۔ معیشت بہتر ہو تو امن و امان کی صورتحال بہتر ہوجاتی ہے اور اسی طرح امن و امان کی صورتحال بہتر ہو تو معیشت میں بہتری آجاتی ہے۔
اس وقت ہماری پالیسی یہ ہونی چاہیے کہ کس طرح ہم نے اپنی معیشت کو بہتر کرنا ہے تاکہ امن و امان قائم ہوسکے۔ اس کے لیے انڈسٹریلائزیشن بہت اہم ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں روزگار کی شرح 50.7 فیصد ہے جبکہ ایک شخص کی جگہ 5لوگ کام کررہے ہیں جس کی وجہ سے ان کی آمدن انتہائی کم ہے۔ افسوس ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں دیہی غربت دوگنا ہوگئی ہے لیکن اس طرف حکومت کی توجہ نہیں ہے۔وقت کی ضرورت یہ ہے کہ ہمیں ان شعبوں پر توجہ دینا ہوگی جن کا خام مال ہمارے پاس دستیاب ہے۔ ہمیں قدرتی ذخائر ہیں کوبروے کار لانا چاہیے اور خام مال ایکسپورٹ کرنے کے بجائے اس کی پراڈکٹ تیار کرکے دنیا کو بیچنی چاہیے۔
اس طرح سے نیا سیکٹر وجود میں آئے گا، اس سے روزگار کے نئے مواقع نکلیں گے اور معیشت بھی بہتر ہوگی۔ ہمارے ہاں فوڈ پروسسینگ اور ماربل گرینائٹ سیکٹر نظر انداز ہورہا ہے ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہیے۔اب حکومت نے ملکی بہتری کے لیے 2025ء کے اہداف بنائے ہیں،اہم یہ ہے کہ مخلصی اور ایمانداری کے ساتھ اس پر کام کرنا ہوگا اور یہ اہداف محض اعداد و شمار سے حاصل نہیں ہونے چاہئیں بلکہ عملی طور پر بہتر اقدامات سے انہیں حاصل کرنا چاہیے۔
بشریٰ خالق
(نمائندہ سول سوسائٹی)
انصاف کا نظام نہ ہونا غربت کی وجہ بنتا ہے اور ہمارے ہاں سستا اور بروقت انصاف لوگوں کو میسر نہیں ہے۔ وہ تمام بنیادی حقوق جو پاکستان کے آئین اور ریاستی وعدوں میں موجود ہیں اور جن کے حوالے سے ہم نے عالمی معاہدے بھی کیے ہیں انہیں آئینی تحفظ دینے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے والوں کا احتساب ہوسکے اور ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایا جاسکے۔
پاکستان نے ملینیم ڈویلپمنٹ گولز میں مایوس کن کارکردگی دکھائی، اب ہم نے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز کے 15سالہ اہداف پر دستخط کیے ہیں، اس حوالے سے حکومتی سطح پر کمیٹیاں اور ٹاسک فورس بنا دی گئی ہیں۔ اس کا پہلا ہدف ہر سطح پر غربت کا خاتمہ ہے، سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کے پاس اس حوالے سے کوئی پالیسی ہے؟ اس وقت ہمیں اربن اور رورل پاورٹی کے انڈیکیٹرز پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
محروم طبقات کے اندر بھی مزید طبقات غربت کے متاثرین ہیں جن میں خواتین، اقلیتیں اور بچے شامل ہیں لہٰذا سوال یہ ہے کہ ان کی فلاح کے لیے کیا پالیسی بنائی گئی ہے؟ زرعی زمین کارپوریٹ سیکٹر کو دی جارہی ہے،جس سے فوڈ انسیکورٹی میں اضافہ ہوگا اور اس سے خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں لہٰذا اس طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔دنیا غربت کی بحث سے آگے بڑھ چکی ہے اور عدم مساوات کو ختم کرنے کی بات ہورہی ہے۔ ہم ابھی تک غربت کے حوالے سے ہی بات کررہے ہیں اور افسوس ہے کہ ہمارے 60فیصد سے زائد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر عدم مساوات کا جائزہ لیں تو صورتحال انتہائی پیچیدہ ہے اور سب سے زیادہ متاثر خواتین ہیںلہٰذا ہمیں اس صورتحال کو بھی دیکھنا ہوگا۔
ہم پاکستان میں دیہی غربت کے انڈیکس کو لیکر چلتے ہیں جبکہ شہروں میں غربت کا معاملہ انتہائی تشویشناک ہے ۔ لوگ دور دراز علاقوں سے شہروں میں روزگار کے لیے آتے ہیں اور یہاں دیہاڑی دار طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہے۔ غربت کی وجہ سے خواتین غیر رسمی شعبے میں کام کرنے پر مجبور ہیں، اس میں ریاست بھی ذمہ دار ہے کہ خواتین کو باصلاحیت نہیں بنایا جاتا اور نہ ہی سکل بیسڈ تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ مقابلے کی فضا میں آگے بڑھ سکیں اور بہتر روزگار کما سکیں۔ اس کے علاوہ تنخواہ کے حوالے سے بھی خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے، چاہے وہ دیہاتی خاتون ہو یا شہر کی ملازمت پیشہ خاتون۔ اس حوالے سے حکومت کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
پنجاب میں خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے نئے ادارے بنے ہیں، قانون سازی بھی ہورہی ہے لیکن خواتین کی سماجی اور معاشی حالت ابھی تک نہیں بدلی۔ صنعت کاری سے غربت کا خاتمہ ہوسکتا ہے کیونکہ جب تک لوگوں کو خاص کر خواتین کو روزگار کے مواقع نہیں دیے جائیں گے تب تک معاملات بہتر نہیں ہوسکتے۔ ضرورت یہ ہے کہ خواتین کو فنی تربیت دے کر باصلاحیت بنایا جائے اور انہیں مرکزی دھارے میں لایا جائے۔حکومت کی توجہ بڑے شہروں پر ہے جبکہ مضافات اور چھوٹے اضلاع پسماندگی کا شکار ہیں، حکومت کو چھوٹے شہروں اور دیہات کی حالت بھی بہتر کرنی چاہیے۔ غربت کے خاتمے اور خواتین کی ترقی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت اہم یہ ہے کہ سب سے پہلے متاثرہ طبقات کی نشاندہی کی جائے تاکہ معاملات بہتر طریقے سے آگے بڑھائے جاسکیں۔ حکومت فیملی پلاننگ کے منصوبے شہر سے باہر نہیں پھیلا سکی، دیہاتوں اور مضافات میں خاندانوں کا حجم بہت بڑا ہے جس سے آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اور اس کا نتیجہ غربت ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے اربوں روپے خواتین کو دیے گئے ہیں لیکن اس سے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوسکتے۔ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ معاملات ،کاسمیٹک اقدامات سے نہیں پائیدار اقدامات سے بہتر ہوتے ہیں۔
حکومت کو بہتر منصوبہ سازی سے لوگوں کو باعزت روزگار فراہم کرکے تبدیلی لانی چاہیے۔ اس کے علاوہ لوگوں کو سماجی تحفظ فراہم کیا جائے اور سب سے پہلے مزدور، خواتین اور بچوں پر توجہ دی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ بنیادی انسانی حقوق کے بجٹ میں اضافہ، لوگوں کو مفت بنیادی سہولیات اور برابری کی سطح پر روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں ۔