کشمیر کا شہید…ریاض شاہد
ریاض شاہد اور حبیب جالب نے ایک ساتھ لاہور فلم نگر میں قدم رکھا
ریاض شاہد اور حبیب جالب نے ایک ساتھ لاہور فلم نگر میں قدم رکھا۔ یہ بات ہے 1958 کی جب مشہور فلم ڈائریکٹر جعفر شاہ بخاری نے فلم ''بھروسہ'' بنانے کا آغاز کیا اور بطور کہانی نویس ریاض شاہد کا انتخاب کیا۔ فلم ''بھروسہ'' کی کہانی اتنی جاندار تھی کہ انھی جعفر شاہ بخاری نے یہی کہانی تقریباً 20 سال بعد دوبارہ فلم بند کی اور اس بار فلم کا نام تھا ''سماج''۔ پہلی فلم ''بھروسہ'' میں اداکار علاؤالدین ہیرو تھے اور اداکارہ یاسمین (تب جعفر شاہ بخاری کی بیگم) ہیروئن تھیں، دیگر اداکاروں میں طالش، ریحان شامل تھے۔
دوسری بار بننے والی فلم ''سماج'' کے ہیرو ندیم تھے جب کہ ہیروئن نشو تھیں، اداکار محمد علی کا بھی مرکزی کردار تھا۔ فلم ''بھروسہ'' اور ''سماج'' کے موسیقار دونوں مرتبہ موسیقار اے حمید تھے۔ ریاض شاہد نے ایک ایسے نوجوان کی کہانی لکھی تھی جو لڑکیوں سے فلرٹ کرتا ہے اور پھر ایسا ہوتا ہے کہ نوجوان کی ڈسی ہوئی ایک لڑکی اسی کی بھاوج بن کر گھر آجاتی ہے۔ یہ نوجوان آوارہ پھرنیوالا جب گھر لوٹتا ہے تو بھابھی کے روپ میں سامنے وہ لڑکی ہوتی ہے۔ فلم ''سماج'' کا ایک گیت بہت مقبول ہوا تھا، مہدی حسن نے یہ گیت گایا تھا۔ جالب کی پہلے سے موجود غزل کو گیت بنایا گیا تھا۔ بول تھے ''یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا، جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے۔''
پاکستان کے فلم نگر میں ایک انقلابی حلقہ تھا۔ خلیل قیصر، علاؤالدین، طالش، ساقی، ریاض شاہد، حبیب جالب، رشید عطرے، خواجہ خورشید انور، فلمساز حسن شاہ، لالہ سدھیر، شمیم اشرف ملک، اس انقلابی حلقے کے اہم رکن تھے۔ ان لوگوں نے فلم نگر کو لازوال انقلابی فلمیں دیں۔ شہید، فرنگی، خاموش رہو، غرناطہ، باغی، میں زندہ ہوں، کلرک، زرقا اور ''یہ امن'' ودیگر۔
11 فروری 1965 وہ دن تھا جب افرو ایشیائی کانفرنس کے مندوبین کے لیے (حوالہ پاکستان کرونیکل از عقیل عباس جعفری) ایک ڈنر اور ثقافتی شو کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس شو میں رقص پیش کرنے کے لیے ''سرکار'' نے ایک فلمی رقاصہ کو مدعو کیا، مگر اس نے بخار اور طبیعت کی خرابی کے باعث شرکت سے معذرت چاہی۔ جواباً حکومتی اہلکاروں نے اس کو جبراً مجبور کیا کہ اسے ہر حال میں رقص کے لیے چلنا ہوگا۔
ان دنوں وہ رقاصہ و اداکارہ اور ریاض شاہد ایک دوسرے کے خاصے قریب آچکے تھے۔ وہ ریاض شاہد کے انقلابی خیالات سے بہت متاثر تھیں، اسی لیے انھوں نے رقص سے انکار کیا تھا کہ جہاں شاہ ایران رضا شاہ پہلوی بھی مدعو تھے۔ اداکارہ نے حکومتی اہلکاروں کے انتہائی تضحیک آمیز رویے سے دل برداشتہ ہوکر بڑی تعداد میں خواب آور گولیاں کھالیں اور سرکاری اہلکاروں کے ساتھ کار میں بیٹھ گئی۔
ابھی یہ لوگ راستے ہی میں تھے کہ اداکارہ نے خون کی الٹی کردی اور سرکاری اہلکار انھیں اسپتال پہنچاکر غائب ہو گئے، جہاں ڈاکٹروں نے سات آٹھ روز کی محنت کے بعد انھیں بچا لیا۔ اس واقعے پر حبیب جالب نے ایک نظم لکھی ''تو کہ ناواقف آداب شہنشاہی تھی/ رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے/ تجھ کو انکار کی جرأت جو ہوئی تو کیوںکر/ سایہ شاہ میں اس طرح جیا جاتا ہے/''۔ ریاض شاہد نے اداکارہ کی جرأت و بہادری کا اعتراف یوں کیا کہ انھیں شادی کی پیشکش کردی اور پھر یہ دونوں رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔ ساتھ ہی ریاض شاہد نے فلم ''زرقا'' بنانے کا اعلان کردیا۔
فلم کے ہدایت کار خلیل قیصر تھے۔ فلم کا افتتاح حبیب جالب کے گیت کی ریکارڈنگ سے ہوا۔ نظم کو گیت کے رنگ میں ڈھالا گیا۔ موسیقار رشید عطرے نے لازوال دھن بنائی اور عظیم گائیک مہدی حسن صاحب نے اسے گایا تھا۔ فلم ''زرقا'' کے افتتاح کے بعد ہدایت کار خلیل قیصر کو ان کے گھر میں گھس کر قاتلوں نے قتل کردیا۔ ریاض شاہد کے لیے یہ بہت بڑا دھچکا تھا۔ یہ اشارہ تھا کہ سامراج کے خلاف فلسطینیوں کے حق میں ''زرقا'' مت بناؤ، مگر انقلابی ریاض شاہد نے ہدایت کاری کا فریضہ اپنے کاندھوں پر لے لیا۔ فلم مکمل ہوئی اور یہ فلم پاکستان کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم ثابت ہوئی۔ کراچی کے اوڈین سینما (مسمار ہوچکا) میں یہ فلم 104 ہفتے نمائش پذیر رہی۔
فلم ''زرقا'' فلسطین کے موضوع پر بنائی گئی تھی۔ اس کے بعد ریاض شاہد نے کشمیر کے موضوع پر ''امن'' نام کی فلم بنائی۔ ''زرقا'' جنرل ایوب خان کے دور میں بنی تھی۔ ''امن'' جنرل یحییٰ خان کا دور حکومت تھا۔ سنسر بورڈ نے ''امن'' کو ناقابل نمائش قرار دیا۔ سنسر بورڈ والوں کے بے جا اعتراضات ختم کرنا حساس ریاض شاہد کے لیے ناممکن تھا۔ ریاض شاہد نے دن رات لگا کے قلم کو اپنے خون میں ڈبو کر فلم ''امن'' لکھی تھی، تخلیق کار اپنی تخلیق پر پابندی برداشت نہ کرسکا اور خون کے کینسر میں مبتلا ہوگیا۔ اسی موذی بیماری کے دوران ہی اس نے ہمت سے کام لیا اور فلم ''امن'' کو ''یہ امن'' کے نام سے سنسر بورڈ کے سامنے پیش کیا۔ سنسر بورڈ نے اجازت نامہ دے دیا لیکن جو مقصد عوام دشمنوں نے حاصل کرنا تھا وہ کرلیا۔ ایک بہت بڑا انقلابی زندگی کے دن پورے کرنے لگا۔
ریاض شاہد جالب صاحب سے کہا کرتے تھے ''جالب! تم سامراج کے خلاف انتہائی سخت جو بھی لکھو، میں اسے فلم بند کروں گا۔''جس کے یہ ارادے ہوں بھلا اسے کون زندہ رہنے دیتا، سو ریاض شاہد بھی دار پر وارا گیا۔ یہ یکم اکتوبر 1972 کا دن تھا جب یہ انقلابی ریاض شاہد کینسر کے ہاتھوں زندگی کی جنگ ہار گیا۔ 1927 میں کوئٹہ میں پیدا ہونیوالے ریاض شاہد کی عمر انتقال کے وقت صرف 45 برس تھی۔
جنگ آزادی کشمیر لڑنے والے شہیدوں، غازیوں کے لیے بنائی گئی فلم ''یہ امن'' کا آغاز یوں ہوتا ہے۔ اسکرین پر خون کی ایک لکیر ابھرتی ہے اور پس پردہ (بیک راؤنڈ) گانے کا آغاز ہوتا ہے ''کھنچی ہوئی ہے دل پہ میرے خونی سرخ لکیر/ تو ہی بتا دے کب ٹوٹے گی پاؤں کی زنجیر/ اے مرے کشمیر/۔ اور پھر کورس میں مجاہدین گاتے ہیں ''حیا بولو...حیا بولو/ حیا بولو... حیا بولو/۔ اسی گیت پر فلم کا ٹائٹل چلتا ہے۔ ہدایات، کہانی، مکالمے، ریاض شاہد، نغمہ نگار حبیب جالب، موسیقار اے حمید، گلوکار مہدی حسن، نور جہاں۔
ریاض شاہد بھی ہزاروں شہدا کشمیر میں اپنا نام ایک شہید کے طور پر لکھواگیا۔ فلم کا ٹائٹل سانگ چلتا رہا ''واپس کردے مجھ کو میرے خوابوں کی تعبیر/ اے مرے کشمیر/۔'' یہ نغمہ ریاض شاہد کا لکھا ہوا تھا۔ آخر میں حبیب جالب کا لکھا ہوا مرکزی گیت لکھتا ہوں۔ یہ گیت اداکارہ سنگیتا اور اداکار جمیل (انڈین اداکارہ تبو کا باپ) پر فلمایا گیا۔
ظلم رہے اور امن بھی ہو
کیا ممکن ہے تم ہی کہو
ہنستی گاتی روشن وادی
تاریکی میں ڈوب گئی
بیتے دن کی لاش پہ اے دل
میں روتی ہوں' تو بھی رو
ظلم رہے اور امن بھی ہو
ہر دھڑکن پر خوف کے پہرے
ہر آنسو پر پابندی
یہ جیون بھی کیا جیون ہے
آگ لگے اس جیون کو
اپنے ہونٹ سیے ہیں تم نے
میری زباں کو مت روکو
تم کو اگر توفیق نہیں تو
مجھ کو ہی سچ کہنے دو
ظلم رہے اور امن بھی ہو
کیا ممکن ہے تم ہی کہو
(نوٹ: پچھلے کالم میں ایک شعر غلط کمپوز ہوگیا، اصل یوں ہے: ''روشن رہے گا مثل مہ و مہر ان کا نام... جو لوگ قافلے میں تھے شامل حسینؓ کے'')
دوسری بار بننے والی فلم ''سماج'' کے ہیرو ندیم تھے جب کہ ہیروئن نشو تھیں، اداکار محمد علی کا بھی مرکزی کردار تھا۔ فلم ''بھروسہ'' اور ''سماج'' کے موسیقار دونوں مرتبہ موسیقار اے حمید تھے۔ ریاض شاہد نے ایک ایسے نوجوان کی کہانی لکھی تھی جو لڑکیوں سے فلرٹ کرتا ہے اور پھر ایسا ہوتا ہے کہ نوجوان کی ڈسی ہوئی ایک لڑکی اسی کی بھاوج بن کر گھر آجاتی ہے۔ یہ نوجوان آوارہ پھرنیوالا جب گھر لوٹتا ہے تو بھابھی کے روپ میں سامنے وہ لڑکی ہوتی ہے۔ فلم ''سماج'' کا ایک گیت بہت مقبول ہوا تھا، مہدی حسن نے یہ گیت گایا تھا۔ جالب کی پہلے سے موجود غزل کو گیت بنایا گیا تھا۔ بول تھے ''یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا، جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے۔''
پاکستان کے فلم نگر میں ایک انقلابی حلقہ تھا۔ خلیل قیصر، علاؤالدین، طالش، ساقی، ریاض شاہد، حبیب جالب، رشید عطرے، خواجہ خورشید انور، فلمساز حسن شاہ، لالہ سدھیر، شمیم اشرف ملک، اس انقلابی حلقے کے اہم رکن تھے۔ ان لوگوں نے فلم نگر کو لازوال انقلابی فلمیں دیں۔ شہید، فرنگی، خاموش رہو، غرناطہ، باغی، میں زندہ ہوں، کلرک، زرقا اور ''یہ امن'' ودیگر۔
11 فروری 1965 وہ دن تھا جب افرو ایشیائی کانفرنس کے مندوبین کے لیے (حوالہ پاکستان کرونیکل از عقیل عباس جعفری) ایک ڈنر اور ثقافتی شو کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس شو میں رقص پیش کرنے کے لیے ''سرکار'' نے ایک فلمی رقاصہ کو مدعو کیا، مگر اس نے بخار اور طبیعت کی خرابی کے باعث شرکت سے معذرت چاہی۔ جواباً حکومتی اہلکاروں نے اس کو جبراً مجبور کیا کہ اسے ہر حال میں رقص کے لیے چلنا ہوگا۔
ان دنوں وہ رقاصہ و اداکارہ اور ریاض شاہد ایک دوسرے کے خاصے قریب آچکے تھے۔ وہ ریاض شاہد کے انقلابی خیالات سے بہت متاثر تھیں، اسی لیے انھوں نے رقص سے انکار کیا تھا کہ جہاں شاہ ایران رضا شاہ پہلوی بھی مدعو تھے۔ اداکارہ نے حکومتی اہلکاروں کے انتہائی تضحیک آمیز رویے سے دل برداشتہ ہوکر بڑی تعداد میں خواب آور گولیاں کھالیں اور سرکاری اہلکاروں کے ساتھ کار میں بیٹھ گئی۔
ابھی یہ لوگ راستے ہی میں تھے کہ اداکارہ نے خون کی الٹی کردی اور سرکاری اہلکار انھیں اسپتال پہنچاکر غائب ہو گئے، جہاں ڈاکٹروں نے سات آٹھ روز کی محنت کے بعد انھیں بچا لیا۔ اس واقعے پر حبیب جالب نے ایک نظم لکھی ''تو کہ ناواقف آداب شہنشاہی تھی/ رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے/ تجھ کو انکار کی جرأت جو ہوئی تو کیوںکر/ سایہ شاہ میں اس طرح جیا جاتا ہے/''۔ ریاض شاہد نے اداکارہ کی جرأت و بہادری کا اعتراف یوں کیا کہ انھیں شادی کی پیشکش کردی اور پھر یہ دونوں رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔ ساتھ ہی ریاض شاہد نے فلم ''زرقا'' بنانے کا اعلان کردیا۔
فلم کے ہدایت کار خلیل قیصر تھے۔ فلم کا افتتاح حبیب جالب کے گیت کی ریکارڈنگ سے ہوا۔ نظم کو گیت کے رنگ میں ڈھالا گیا۔ موسیقار رشید عطرے نے لازوال دھن بنائی اور عظیم گائیک مہدی حسن صاحب نے اسے گایا تھا۔ فلم ''زرقا'' کے افتتاح کے بعد ہدایت کار خلیل قیصر کو ان کے گھر میں گھس کر قاتلوں نے قتل کردیا۔ ریاض شاہد کے لیے یہ بہت بڑا دھچکا تھا۔ یہ اشارہ تھا کہ سامراج کے خلاف فلسطینیوں کے حق میں ''زرقا'' مت بناؤ، مگر انقلابی ریاض شاہد نے ہدایت کاری کا فریضہ اپنے کاندھوں پر لے لیا۔ فلم مکمل ہوئی اور یہ فلم پاکستان کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم ثابت ہوئی۔ کراچی کے اوڈین سینما (مسمار ہوچکا) میں یہ فلم 104 ہفتے نمائش پذیر رہی۔
فلم ''زرقا'' فلسطین کے موضوع پر بنائی گئی تھی۔ اس کے بعد ریاض شاہد نے کشمیر کے موضوع پر ''امن'' نام کی فلم بنائی۔ ''زرقا'' جنرل ایوب خان کے دور میں بنی تھی۔ ''امن'' جنرل یحییٰ خان کا دور حکومت تھا۔ سنسر بورڈ نے ''امن'' کو ناقابل نمائش قرار دیا۔ سنسر بورڈ والوں کے بے جا اعتراضات ختم کرنا حساس ریاض شاہد کے لیے ناممکن تھا۔ ریاض شاہد نے دن رات لگا کے قلم کو اپنے خون میں ڈبو کر فلم ''امن'' لکھی تھی، تخلیق کار اپنی تخلیق پر پابندی برداشت نہ کرسکا اور خون کے کینسر میں مبتلا ہوگیا۔ اسی موذی بیماری کے دوران ہی اس نے ہمت سے کام لیا اور فلم ''امن'' کو ''یہ امن'' کے نام سے سنسر بورڈ کے سامنے پیش کیا۔ سنسر بورڈ نے اجازت نامہ دے دیا لیکن جو مقصد عوام دشمنوں نے حاصل کرنا تھا وہ کرلیا۔ ایک بہت بڑا انقلابی زندگی کے دن پورے کرنے لگا۔
ریاض شاہد جالب صاحب سے کہا کرتے تھے ''جالب! تم سامراج کے خلاف انتہائی سخت جو بھی لکھو، میں اسے فلم بند کروں گا۔''جس کے یہ ارادے ہوں بھلا اسے کون زندہ رہنے دیتا، سو ریاض شاہد بھی دار پر وارا گیا۔ یہ یکم اکتوبر 1972 کا دن تھا جب یہ انقلابی ریاض شاہد کینسر کے ہاتھوں زندگی کی جنگ ہار گیا۔ 1927 میں کوئٹہ میں پیدا ہونیوالے ریاض شاہد کی عمر انتقال کے وقت صرف 45 برس تھی۔
جنگ آزادی کشمیر لڑنے والے شہیدوں، غازیوں کے لیے بنائی گئی فلم ''یہ امن'' کا آغاز یوں ہوتا ہے۔ اسکرین پر خون کی ایک لکیر ابھرتی ہے اور پس پردہ (بیک راؤنڈ) گانے کا آغاز ہوتا ہے ''کھنچی ہوئی ہے دل پہ میرے خونی سرخ لکیر/ تو ہی بتا دے کب ٹوٹے گی پاؤں کی زنجیر/ اے مرے کشمیر/۔ اور پھر کورس میں مجاہدین گاتے ہیں ''حیا بولو...حیا بولو/ حیا بولو... حیا بولو/۔ اسی گیت پر فلم کا ٹائٹل چلتا ہے۔ ہدایات، کہانی، مکالمے، ریاض شاہد، نغمہ نگار حبیب جالب، موسیقار اے حمید، گلوکار مہدی حسن، نور جہاں۔
ریاض شاہد بھی ہزاروں شہدا کشمیر میں اپنا نام ایک شہید کے طور پر لکھواگیا۔ فلم کا ٹائٹل سانگ چلتا رہا ''واپس کردے مجھ کو میرے خوابوں کی تعبیر/ اے مرے کشمیر/۔'' یہ نغمہ ریاض شاہد کا لکھا ہوا تھا۔ آخر میں حبیب جالب کا لکھا ہوا مرکزی گیت لکھتا ہوں۔ یہ گیت اداکارہ سنگیتا اور اداکار جمیل (انڈین اداکارہ تبو کا باپ) پر فلمایا گیا۔
ظلم رہے اور امن بھی ہو
کیا ممکن ہے تم ہی کہو
ہنستی گاتی روشن وادی
تاریکی میں ڈوب گئی
بیتے دن کی لاش پہ اے دل
میں روتی ہوں' تو بھی رو
ظلم رہے اور امن بھی ہو
ہر دھڑکن پر خوف کے پہرے
ہر آنسو پر پابندی
یہ جیون بھی کیا جیون ہے
آگ لگے اس جیون کو
اپنے ہونٹ سیے ہیں تم نے
میری زباں کو مت روکو
تم کو اگر توفیق نہیں تو
مجھ کو ہی سچ کہنے دو
ظلم رہے اور امن بھی ہو
کیا ممکن ہے تم ہی کہو
(نوٹ: پچھلے کالم میں ایک شعر غلط کمپوز ہوگیا، اصل یوں ہے: ''روشن رہے گا مثل مہ و مہر ان کا نام... جو لوگ قافلے میں تھے شامل حسینؓ کے'')