صدر کے 2عہدے کسی کو نا اہل کرنے کیلئے نہیں بیٹھے فیصلوں پر عمل چاہتے ہیں لاہور ہائیکورٹ
آئین نے صدر کو مخصوص حالات میں استثنیٰ دیا تاکہ پبلک آرڈر قائم رہ سکے
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ عمر عطا بندیال کی سربراہی میں5رکنی فل بینچ نے صدر کے دو عہدوں کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران قراردیا ہے کہ ہم یہاں کسی کو سزا دینے یا نااہل قرار دینے نہیں بیٹھے۔
ہمارا مقصد صرف عدالتی فیصلوں اور قانون پر عملدرآمد کرنا ہے، آئین نے صدر کو مخصوص حالات میں استثنیٰ دیا تاکہ پبلک آرڈر قائم رہ سکے،کیا ہم اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرائیں یا انہیں ہوا میں لٹکا رہنے دیں؟ آئین پر عمل نہیں ہوگا تو معاشرے میں انارکی پھیلے گی عدالت نے سماعت آج تک ملتوی کرتے ہوئے وفاق کے وکیل وسیم سجاد کی جانب سے مزید دلائل دینے کی متفرق درخواست بھی سماعت کیلئے منظور کرلی۔ درخواست گزار منیر احمد کے وکیل اے کے ڈوگر نے دلائل میں کہا کہ عدالتی فیصلوں کی حکم عدولی پر صدر کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جاسکتی ہے اور سزا بھی دی جاسکتی ہے۔
جسٹس منصور شاہ نے کہا کہ اگر سول لاکے تحت کارروائی شروع کردی جائے تو بالآخر سزا فوجداری قانون کے تحت ہی دی جاسکتی ہے چیف جسٹس نے قرار دیا کہ ہم یہاں کسی کو سزا یا نا اہل قرار دینے نہیں بیٹھے، ہمارا مقصد عدالتی فیصلوں اور قانون پر عملدرآمد کرنا ہے، پبلک آفس ہولڈر کو جو استثنی دیا جاتا ہے وہ اس لیے ہے کہ انہیں مخصوص ماحول میں کام کرنا ہوتا ہے، اگر ایسا نہ ہو تو ایسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں کہ ملک میں انارکی پیدا ہو جائے، چنانچہ صدر پر ذاتی حیثیت میں تنقید نہیں کرسکتے تاکہ نظام قائم رہے، اے کے ڈوگر نے مولانا مودودی کی کتاب خلافت و ملوکیت کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ اسلام میں کوئی قانون سے بالاتر نہیں ہے،جسٹس منصور شاہ نے کہا کہ اگر عوام سمجھتے ہیں کہ صدر نے عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی کی ہے اور ان کو استثنیٰ دینا درست نہیں تو وہ پارلیمنٹ کے ذریعے صدر کا مواخذہ کرا لیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے قرار دیا کہ آئین نے مخصوص حالات میں استثنیٰ دیا ہے تاکہ اعلیٰ حکام اپنے سرکاری فرائض کی ادائیگی یقینی بنائیں، اگر ایسا نہ ہوتو کل پھر کوئی بجلی کے بل لے آئے گا اور ایسے معاملات پیدا ہوسکتے ہیں جن سے ملک میں انارکی پھیل جائے ، اے کے ڈوگر نے کہا کہ آئینی ڈھانچہ، اسلام، بنیادی حقوق اور جمہوریت پر قائم ہے، اسلام کی نظر میں سب برابر ہیں، کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہوسکتا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پھر تو آئین میں ترمیم ہونی چاہیے کیونکہ آئین کے آرٹیکل(A) 248 کے تحت صدر کو استثنیٰ حاصل ہے، پھر آپ پارلیمنٹ سے آئین میں ترمیم کرالیں۔ چیف جسٹس نے قرار دیا کہ محض الزامات کی بنیاد پر صدر کے خلاف کارروائی نہیں کی جاسکتی ۔
جسٹس ناصر شیخ نے استفسار کیا کہ آپ کی بنیادی استدعا کیا ہے؟ اے کے ڈوگر نے کہا کہ یوسف گیلانی کی طرح صدر کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے ، چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل (2) 248اور (3)میں صدر کو استثنیٰ دیا گیا ہے، ان آرٹیکلز کے مطابق صدر کیخلاف جب تک وہ عہدے پر ہیں کسی قسم کی فوجداری کارروائی شروع نہیں کی جاسکتی، اے کے ڈوگر نے عدالت کو بتایا کہ صدر کی اہلیت آرٹیکل41(2)میں واضح کی گئی ہے اور جس طرح رکن پارلیمنٹ کو نااہل قرار دیا جاسکتا ہے، صدر کو بھی اسی طرح ہٹایا جاسکتاہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ صدر کو رکن اسمبلی کی طرح نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا۔
صدر کو ہٹانے کیلیے آئین میں ایک طریقہ کار دیا گیا ہے جس میں صدر کیخلاف آرٹیکل 63 کے تحت کارروائی نہیں ہو سکتی، اس کییئے صرف پارلیمنٹ ہی مواخذہ کرسکتی ہے، چیف جسٹس نے قرار دیا کہ عدالت استثنیٰ کے حوالے سے دلائل سے مطمئن نہیں، فوجداری کارروائی کی تعریف سے آگاہ کیا جائے اور غیر ضروری دلائل نہ دیے جائیں، سول کارروائی میں توہین عدالت پر سزا نہیں ہوتی لیکن فوجداری میں سزا ہوتی ہے، آپ کوئی ایسی مثال دیں جس میں سول کارروائی میں بھی سزا ہوتی ہو، مزید سماعت آج تک ملتوی کر دی گئی۔
ہمارا مقصد صرف عدالتی فیصلوں اور قانون پر عملدرآمد کرنا ہے، آئین نے صدر کو مخصوص حالات میں استثنیٰ دیا تاکہ پبلک آرڈر قائم رہ سکے،کیا ہم اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرائیں یا انہیں ہوا میں لٹکا رہنے دیں؟ آئین پر عمل نہیں ہوگا تو معاشرے میں انارکی پھیلے گی عدالت نے سماعت آج تک ملتوی کرتے ہوئے وفاق کے وکیل وسیم سجاد کی جانب سے مزید دلائل دینے کی متفرق درخواست بھی سماعت کیلئے منظور کرلی۔ درخواست گزار منیر احمد کے وکیل اے کے ڈوگر نے دلائل میں کہا کہ عدالتی فیصلوں کی حکم عدولی پر صدر کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جاسکتی ہے اور سزا بھی دی جاسکتی ہے۔
جسٹس منصور شاہ نے کہا کہ اگر سول لاکے تحت کارروائی شروع کردی جائے تو بالآخر سزا فوجداری قانون کے تحت ہی دی جاسکتی ہے چیف جسٹس نے قرار دیا کہ ہم یہاں کسی کو سزا یا نا اہل قرار دینے نہیں بیٹھے، ہمارا مقصد عدالتی فیصلوں اور قانون پر عملدرآمد کرنا ہے، پبلک آفس ہولڈر کو جو استثنی دیا جاتا ہے وہ اس لیے ہے کہ انہیں مخصوص ماحول میں کام کرنا ہوتا ہے، اگر ایسا نہ ہو تو ایسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں کہ ملک میں انارکی پیدا ہو جائے، چنانچہ صدر پر ذاتی حیثیت میں تنقید نہیں کرسکتے تاکہ نظام قائم رہے، اے کے ڈوگر نے مولانا مودودی کی کتاب خلافت و ملوکیت کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ اسلام میں کوئی قانون سے بالاتر نہیں ہے،جسٹس منصور شاہ نے کہا کہ اگر عوام سمجھتے ہیں کہ صدر نے عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی کی ہے اور ان کو استثنیٰ دینا درست نہیں تو وہ پارلیمنٹ کے ذریعے صدر کا مواخذہ کرا لیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے قرار دیا کہ آئین نے مخصوص حالات میں استثنیٰ دیا ہے تاکہ اعلیٰ حکام اپنے سرکاری فرائض کی ادائیگی یقینی بنائیں، اگر ایسا نہ ہوتو کل پھر کوئی بجلی کے بل لے آئے گا اور ایسے معاملات پیدا ہوسکتے ہیں جن سے ملک میں انارکی پھیل جائے ، اے کے ڈوگر نے کہا کہ آئینی ڈھانچہ، اسلام، بنیادی حقوق اور جمہوریت پر قائم ہے، اسلام کی نظر میں سب برابر ہیں، کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہوسکتا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پھر تو آئین میں ترمیم ہونی چاہیے کیونکہ آئین کے آرٹیکل(A) 248 کے تحت صدر کو استثنیٰ حاصل ہے، پھر آپ پارلیمنٹ سے آئین میں ترمیم کرالیں۔ چیف جسٹس نے قرار دیا کہ محض الزامات کی بنیاد پر صدر کے خلاف کارروائی نہیں کی جاسکتی ۔
جسٹس ناصر شیخ نے استفسار کیا کہ آپ کی بنیادی استدعا کیا ہے؟ اے کے ڈوگر نے کہا کہ یوسف گیلانی کی طرح صدر کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے ، چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل (2) 248اور (3)میں صدر کو استثنیٰ دیا گیا ہے، ان آرٹیکلز کے مطابق صدر کیخلاف جب تک وہ عہدے پر ہیں کسی قسم کی فوجداری کارروائی شروع نہیں کی جاسکتی، اے کے ڈوگر نے عدالت کو بتایا کہ صدر کی اہلیت آرٹیکل41(2)میں واضح کی گئی ہے اور جس طرح رکن پارلیمنٹ کو نااہل قرار دیا جاسکتا ہے، صدر کو بھی اسی طرح ہٹایا جاسکتاہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ صدر کو رکن اسمبلی کی طرح نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا۔
صدر کو ہٹانے کیلیے آئین میں ایک طریقہ کار دیا گیا ہے جس میں صدر کیخلاف آرٹیکل 63 کے تحت کارروائی نہیں ہو سکتی، اس کییئے صرف پارلیمنٹ ہی مواخذہ کرسکتی ہے، چیف جسٹس نے قرار دیا کہ عدالت استثنیٰ کے حوالے سے دلائل سے مطمئن نہیں، فوجداری کارروائی کی تعریف سے آگاہ کیا جائے اور غیر ضروری دلائل نہ دیے جائیں، سول کارروائی میں توہین عدالت پر سزا نہیں ہوتی لیکن فوجداری میں سزا ہوتی ہے، آپ کوئی ایسی مثال دیں جس میں سول کارروائی میں بھی سزا ہوتی ہو، مزید سماعت آج تک ملتوی کر دی گئی۔