برکس کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ

بھارتی حکومت اپنے تعصب کی بناء پر دہشت گردی کے ڈانڈے مکمل طور پر پاکستان کے ساتھ جوڑنے پر تلی ہوئی ہے

فوٹو: فائل

KARACHI:
بھارتی ریاست گووا میں ہونے والی دو روزہ برکس سربراہ کانفرنس کا اتوار کو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ دہشت گردی کی حمایت، مدد اور انھیں پروان چڑھانے والوں سے بھی دہشت گردوں جیسا ہی خطرہ ہے، بھارت سمیت برکس ممالک میں حالیہ حملوں کی سخت مذمت کی گئی، اتفاق کیا گیا کہ تمام ممالک اپنی سرزمین سے دہشت گردی کی روک تھام کے پابند ہیں، گروپوں اور انفرادی سطح پر دہشت گردی عالمی امن کے لیے خطرہ ہے جب کہ برکس ممالک کے درمیان علمی اثاثوں کے تحفظ اور تجارتی شعبے میں تعاون کے نظام کے قیام اور اجلاس میں دہشت گردوں کو مالی مدد فراہم کرنے والوں کے خلاف تعاون پر اتفاق کیا گیا۔

اس وقت دہشت گردی عالمی مسئلہ بن چکی ہے، اس سے متاثرہ ممالک اس کے خلاف بھرپور جنگ لڑ رہے ہیں، ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جو قربانیاں دی ہیں، پوری دنیا نے اس کا اعتراف کیا ہے۔ موجودہ بھارتی حکومت اپنے تعصب کی بناء پر دہشت گردی کے ڈانڈے مکمل طور پر پاکستان کے ساتھ جوڑنے پر تلی ہوئی ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح دنیا پاکستان کو دہشت گرد ریاست کے طور پر تسلیم کر لے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے حتیٰ کہ برکس اجلاس کے موقع پر بھی انھوں نے اپنے خطاب کے دوران ہرزہ سرائی کرتے ہوئے پاکستان کا نام لیے بغیر اسے دہشت گردی کا مرکز قرار دیا۔

مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے مودی کے اس بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ''برکس اور بمسٹک'' کے ساتھیوں کو گمراہ کر رہے ہیں، بھارتی قیادت مقبوضہ کشمیر میں اپنے ظلم وبربریت کو چھپانے کی مایوسانہ کوشش کر رہی ہے، پاکستان خود بھارتی مداخلت اور اس کی تخریبی سرگرمیوں کا شکار ہے، پاکستان دہشت گردی کی مذمت میں ''برکس اور بمسٹک'' ممالک کے ساتھ شامل ہے اور بلاامتیاز دہشت گردی بشمول پاکستان کی سرزمین پر بھارتی ریاست کی اسپانسرڈ دہشت گردی کی لعنت کے خلاف لڑنے کے عزم پر کاربند ہے۔


اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ دہشت گردی ناصرف اس خطے بلکہ پوری دنیا کے امن، سلامتی اور ترقی کے لیے سنگین خطرہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے فیصلہ کن کارروائی کی ضرورت ہے لیکن بھارتی وزیراعظم کی جانب سے پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز قرار دینا قطعی طور پر درست رویہ نہیں۔ عالمی رہنماؤں کو بھی اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے لہٰذا انھوں نے مودی سرکار کے پاکستان مخالف پروپیگنڈے کو نظرانداز کر دیا۔ چینی وزیراعظم نے بھارتی واویلے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کہا کہ ہمیں بھارت کا رنگارنگ کلچر بہت متاثر کرتا ہے، روسی صدر پیوٹن نے بھی بھارت کے پاکستان مخالف نعروں کو اہمیت نہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں صنعتی تعاون کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔

کالعدم جیش محمد اور لشکر طیبہ کے خلاف کارروائیوں کا مطالبہ اعلامیہ میں شامل کرنے کی کوشش میں بھی بھارت کو منہ کی کھانا پڑی، بھارتی میڈیا کے مطابق جیش محمد اور لشکر طیبہ کے ناموں کی شمولیت چین نے رکوائی جس پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سٹپٹا اٹھے۔ برکس اعلامیہ میں اڑی حملے کا ذکر بھی نہیں کیا گیا، صرف اتنا کہا گیا کہ بھارت سمیت برکس ممالک میں حالیہ ہونے والے حملوں کی مذمت کی جاتی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت نے برکس ممبران کے ساتھ اڑی حملے کے حوالے سے بحث کی تھی لیکن اسے مثبت جواب نہ ملنے پر خفت اٹھانا پڑی۔ جیش محمد اور لشکر طیبہ کے نام برکس اعلامیہ میں شامل کرانے میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اعلامیہ میں بھارت کے چیف مذاکرات کار امر سنہا نے کہا کہ ان تنظیموں سے برکس کے تمام ممبران متاثر ہیں نہ ہی انھیں ان کے حوالے سے کوئی تشویش ہے۔ برکس اقتصادی طور پر ترقی کرتے ہوئے ممالک کی تنظیم ہے جس میں برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ بھارت عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے کے اپنے مذموم ایجنڈے پر سرگرم ہے، برکس سربراہ کانفرنس کے موقع پر پاکستان کو دہشت گردوں کی سرزمین قرار دینے کی کوشش بھی اسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔

بھارت کے اس مذموم مقصد کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان کو دنیا کے دیگر ممالک سے اپنے روابط کو سفارتی، تجارتی اور دیگر شعبوں میں مضبوط بنانا ہو گا۔ مشرق وسطیٰ کی ریاستوں، ایران، ترکی، آذربائیجان اور وسط ایشیاء کی تمام ریاستوں کے ساتھ پاکستان کو اپنے اقتصادی تعلقات کو پہلے سے زیادہ مضبوط بنانے کی جانب توجہ دینا پڑے گی۔ یہ دور اقتصادی ترقی اور تجارت کا ہے، جن ممالک کے آپس میں اقتصادی تعلقات مضبوط ہیں انھیں کوئی بھی قوت عالمی سطح پر تنہا نہیں کر سکتی۔ جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے تو پاکستان کو اس ناسور کے خاتمے کے لیے عالمی کانفرنس کا انعقاد کرنا چاہیے جس میں دنیا کو یہ یقین دلایا جائے کہ یہ سب کا مسئلہ ہے، جس سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
Load Next Story