یادوں کا بوجھ

گاؤں کا ہر گھر اپنا اور ہر گود اپنی تھی۔ کوئی اجنبی نہ تھا، کچھ بھی پرایا نہیں تھا

Abdulqhasan@hotmail.com

فارسی زبان کا ایک الہامی شعری مصرعہ ہے کہ من درچہ خیالیم و فلک درچہ خیال کہ میں کسی خیال میں ہوں مگر آسمان کسی دوسرے خیال میں یعنی میری خواہش اور ارادہ کچھ لیکن قدرت کا منشاء کچھ اور مگر ظاہر ہے کہ ہوتا وہی ہے جو قدرت کو مطلوب ہوتا ہے۔ میں گزشتہ دنوں گاؤں گیا۔ میں بہت کم گاؤں جاتا ہوں اور اگر گاؤں کا کوئی کسی سے میرے بارے میں پوچھے تو وہ یہی جواب دے گا کہ پتہ نہیں وہ کہاں ہے جب کہ میں جہاں بھی ہوں اس کا پتہ سب کو ہوتا ہے لیکن میری غیرحاضری کے غصے کے جواب میں یہی کہا جاتا ہے کہ پتہ نہیں۔

جس گاؤں میں میں پیدا ہوا، جس گاؤں کی گلیوں میں کھیلا کودا، جہاں دوست بنائے اور بچپنے کے جھگڑے بھی کیے، وہ سب کچھ کیا جو کوئی بھی کرتا ہے لیکن میرے گاؤں میں ایک بات نہیں ہوئی کہ ہم چھ بھائیوں پر کوئی الزام نہیں لگا۔ پورے گاؤں کی سب بہنیں تھیں کیونکہ گاؤں کے سرپرست اور بڑے ہمارے والد تھے اور کوئی ان کی بیٹی اور کوئی بہن تھی۔ پورے گاؤں میں کوئی دوسرا مالک نہیں تھا۔ جدھر بھی نظر اٹھتی ادھر ہم تین بڑے گھروں کے لوگ آباد تھے۔ کوئی مزارع، کوئی ملازم اور کوئی خدمت گزار جو معاوضے میں زمین کی کچھ مراعات رکھتا تھا گاؤں کا کوئی گھر اور گھرانہ اجنبی نہ تھا۔ ہم کسی بھی گھر میں گھس جاتے تو ہمیں یہ اپنا گھر ہی دکھائی دیتا۔ کوئی بہن، کوئی خالہ، کوئی دادی نانی سبھی کی گود ہمارے لیے تھی۔ یاد آتا ہے کہ بچپن میں کھیلتے کودتے کسی دوست کے گھر نیند آ گئی تو اس گھر میں جو گود خالی دکھائی دی اس میں لیٹ گئے کہ انھیں گودوں میں پلے بڑھے تھے۔


گاؤں کا ہر گھر اپنا اور ہر گود اپنی تھی۔ کوئی اجنبی نہ تھا، کچھ بھی پرایا نہیں تھا۔ یہ چند اشارے میں گاؤں کی جنت نظیر دنیا کی طرف کر رہا ہوں جو میرے اور میرے ہم عمر دوستوں کی یادوں میں اب تک محفوظ ہیں اور نئی دنیا کے ہنگامے جب کبھی فرو ہوتے ہیں اور کسی تقریب میں مل بیٹھنے کا موقع مل جاتا ہے تو یہ گاؤں پھر سے آباد ہو جاتا ہے۔ اس کے گلی کوچے جاگ اٹھتے ہیں اور ہم کھیلنے والوں کے پاؤں کی دھمک سے خوش ہوتے ہیں۔ بزرگ ہمارے بے تحاشا اور بے سمت بھاگنے پر ہمیں ڈانٹتے ہیں مگر ان کی ڈانٹ ڈپٹ کے تھوڑی دیر کہیں ادھر ادھر ہو جانے کے بعد پھر سے اپنی گاؤں کی گلیوں کو آباد کر دیتے تھے۔ جب تک ہمارے بزرگوں نے ہمیں تعلیم کے شوق میں گاؤں سے باہر نہ بھیجا ہم نے ان گلیوں کو غیرآباد اور خاموش نہ ہونے دیا اور ان کی یادوں کو اپنے ذہنوں میں ہی نہیں دلوں میں بھی آباد رکھا۔ آج بھی جب گاؤں کی زندگی بہت دور چلی گئی ہے اور بعض گلی کوچوں کے نشان بھی بدل گئے ہیں، یہ سب کچھ پرانے رنگ میں ہمارے دلوں میں آباد اور شاد ہے۔

اب بھی جب کبھی گاؤں کے پرانے دوست مل جاتے ہیں تو یہ جگہ لاہور میں ہی کیوں نہ ہو ہم اسے گاؤں بنا لیتے ہیں اور اس کے پختہ بجلی والے گلی کوچوں کو اپنے چشم تصور سے گاؤں لے جاتے ہیں اور اس سے ہمیں کوئی روک نہیں سکتا کہ ان گلیوں کو کچا بنا کر اپنی یادیں تازہ کریں۔ ان کے دکان داروں کی کسی ہٹی سے گڑیا ریوڑیاں طلب کریں اور جب ڈانٹ پڑے کہ یہ کیا مانگا جا رہا ہے تو ہم ان شہری دکان داروں کو بتائیں کہ ہم تم لوگوں کو ان بازاروں سے روشناس کرا رہے ہیں جو تم نے نہیں دیکھے مگر بازار والوں کی کوئی برادری ہے تو تم لوگ اس کو غور سے سنو اور یاد کرو کہ یہی تمہاری زندگی تھی اور اگر اس زندگی پر فخر نہیں کرتے تو پھر تمہاری اس محرومی پر کیا کہا جا سکتا ہے کہ تمہارا کاروبار کہاں سے چلا اور کتنا سفر طے کر کے یہاں پہنچا جہاں تم اپنی گرم دکانوں میں ایئرکنڈیشنڈ لگاتے ہو اور ہاتھ سے پنکھا نہیں جھلتے۔ شاید اسی لیے تمہارے اس کاروبار میں برکت نہیں ہے کہ اس میں انسانی محنت کی گرمی نہیں ہے۔ وہ حرارت جو انسان کے جسم میں اس کی محنت پیدا کرتی ہے اس کی زندگی بالکل مختلف ہوتی ہے۔

ہمارے گاؤں کی ہٹیوں میں پڑا ہوا بے ترتیب سامان کسی قریبی شہر سے لایا جاتا اور اسے گدھوں پر لاد کر دکان کے سامنے کھڑا کیا جاتا ہے اور اس کی پیٹھ پر سے سامان اتارا جاتا اور پھر جب دکاندار کسی گدھے کو بوجھ سے آزاد کرے تو وہ اس خوشی میں ادھم مچا دیتا اور ان کھیتوں میں نکل جاتا جن میں اس کا داخلہ بالکل ممنوع ہوتا اور پھر اسے بڑی مشکل سے ان کھیتوں کی آزاد دنیا سے واپس لایا جاتا اور وہ اپنی دیہی جیل میں بند کر دیے جاتے۔ بوجھ اٹھانا اور اسے منزل تک پہنچانا صرف جانوروں کا ہی نہیں انسانوں کا بھی ایک فرض تھا اور جانور اور انسان مل جل کر گاؤں کی زندگی کا بوجھ اٹھاتے تھے۔ میرے لیے گاؤں کی اس آزاد اور خوشگوار زندگی پر زیادہ لکھنا آسان نہیں ہے۔ میں اتنی یادوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا مگر کبھی میں سوچتا ہوں کہ خوش نصیب ہوں جو یاد کا بوجھ بھی رکھتا ہوں اور اس کے سہارے زندہ رہتا ہوں۔
Load Next Story