سچ تو سچ ہے
قوموں کی تاریخیں ان کی امانت ہوتی ہیں اورہر قوم اپنی تاریخ پر زندہ رہتی ہے
KARACHI:
قوموں کی تاریخیں ان کی امانت ہوتی ہیں اورہر قوم اپنی تاریخ پر زندہ رہتی ہے اور اس سے ہی شناخت کی جاتی ہے۔جو قومیں اس کرہ ارض سے مٹ گئیں ان کی بھی بہرحال تاریخ باقی ہے،آثار قدیمہ کی صورت، ان کے لٹریچر کی صورت یا کوئی بھی ایسا وسیلہ جس سے اس قوم کی خبر ملتی ہے۔
انسان دیوانہ تو نہیں ہوگیا ہے کہ زمینیں کھود کھود کر پرانی تہذیبیں تلاش کر رہا ہے، پہاڑوں پر، جنگلوں میں، ہر جگہ پرانی تہذیب کی تلاش ہے اور ہر قوم یہ کر رہی ہے سوائے ہماری قوم کے جو دوسروں کے بیان کردہ مفروضات پر اپنی تاریخ کا سراغ لگاتی ہے اور اس پر انحصار کرتی ہے، یہ کیا ہے جس کی تلاش ہے، تو اقبال نے کہا تھا صرف ایک مصرعہ دنیا بھرکی تہذیبوں کے لیے کافی ہے باقی مصرعے پڑھیں گے یا لکھیں گے یہاں تو بات کا مفہوم بدل جائے گا۔ اقبال نے کہا تھا: یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے۔
ہر تہذیب کا، ہر قوم کا کوئی نہ کوئی براہیم ہے اور سب اس کی تلاش میں ہیں، ہمارے سامنے تو ایک واضح منظر اورسب کچھ عیاں ہے مگر ہم تو عادی ہیں پہلو تہی اورانکار کے اور بندھی ہوئی رسی کو کھولتے جا رہے ہیں کھولتے جا رہے ہیں اور دن بہ دن کمزور ہوتے جارہے ہیں۔
اب تو ہمارے بچے بھی اس بوڑھے کی کہانی کو کارٹون سمجھتے ہیں جس نے اپنے بچوں کو، رسی کے ریشے دیے اور انھوں نے توڑ دیے، پھر ریشوں کو بٹ کر رسی بنائی اور بچے نہیں توڑ سکے تو بتایا کہ یہ اتحاد ہے اور تم اس طرح رہوگے تو مضبوط رہوگے کوئی تمہیں شکست نہیں دے سکے گا۔
ہمارے بچے اسے Tom اور Jerry کی کہانی سمجھتے ہیں مگر یہ ہمارے دین کا پیغام ہے کہ جس نے ہمیں بتایا کہ ایک اللہ کی رسی ہے جسے پکڑے رہوگے تو کوئی تمہیں ناکام نہ کرسکے گا اور وہ ہے اتحاد اور کہا گیا کہ متفرق نہ ہوجاؤ ورنہ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ آج ہم کہاں ہیں؟
یہ برسبیل تذکرہ بات آگئی ہے مقصد کسی کو سبق دینا نہیں ہے نہ کسی کو درست کہنا ہے نہ کسی کو غلط ہر درست اور غلط کا ہر وہ ذمے دار ہے جو اس پر کاربند ہے اور درست اور غلط کا فیصلہ بھی ان کا ہی اختیار ہے مل کر کریں یا الگ الگ وہ جانیں اور ان کا کام۔
ہم تہذیبوں اور تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات بہت واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ مہذب اقوام بننے میں وحشی قوموں کو بہت وقت لگا اور یہ بھی کہ جب قوموں کی ترقی کا عمل شروع ہوا تو رکا نہیں اور اکثر قومیں اپنے بھیانک ماضی سے تابناک مستقبل کی طرف مراجعت کرتی رہیں اور یہ سلسلہ مستقل رہا اور اس میں کوئی رکاوٹ نہیں آنے دی کسی بھی قوم نے سوائے مسلمانوں کے۔
مسلمان ایک ایسی قوم رہے جس نے تلوار ہاتھ سے نہ رکھی اور سر قلم ہوتے رہے داستان چلتی رہی ، جنگ و جدل سرشت رہی ہماری اور ہے اب بھی، دائرہ اور مرکز تبدیل ہوگیا ہے۔ تمام کے کچھ حصے کے دوسری اقوام کے ساتھ دینے کی وجہ سے بدل جانے کی وجہ سے نہ ساری قوم بدلی ہے دنیا بھر کے مسلمانوں کی نہ عادتیں، ہماری مسلم قوم واپسی کے سفر پرکمربستہ ہے، ہم یہاں عورت کو ''کاری'' کر رہے ہیں، مشرق وسطیٰ میں عورت ''جنس'' بن چکی ہے۔
یہ ایک تکلیف دہ موضوع ہے، اس کی حساسیت کا بھی مجھے اندازہ ہے مگر مجھے ہے حکم اذاں کے مصداق بات تو کہنی ہی پڑے گی، اپنے حصے کا کام توکرکے جانا ہوگا، اس جہان فانی سے، ہم سب اپنا اپنا کام ہی تو کر رہے ہیں، وجہ یہ بنی اس تحریرکی کہ جہاں میرا یہ کالم چھپ رہا ہے اس کے دائیں ہاتھ کے صفحے پر ایک بہت اچھے اور مستند لکھنے والے کی تحریریں آپ پڑھتے رہتے ہیں میں بھی پڑھتا ہوں، ان کا سیاسی پروگرام بھی کبھی کبھی دیکھ لیتا ہوں۔ انھوں نے دس اپریل کے کالم میں شاید نادانستہ طور پر یا غیر شعوری طور پر ایک جنگ کی طرف اشارہ کیا ہے، جس پر تعجب ہوا۔ جنگ جمل تاریخ اسلام کی وہ جنگ ہے کہ جس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے ۔
جنگ جمل بہت کچھ کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ کس طرح اسلام کو اس جنگ سے نقصان پہنچا اور ملوکیت کو تقویت ملی ۔ پھر واقعہ کربلا ہوا جس میں خاندان رسالتؐ نے جان کی قربانی دے کر دین اسلام کو سرخرو کیا اور الحمد للہ کربلا کی وجہ سے ہم آج مسلمان ہیں۔ دنیا میں تاریخ اسلام کا یہ جگمگاتا باب کربلا پر تاریخ میں لکھا گیا ہے۔ متعصب ترین مورخ بھی اس کے مثبت پہلوؤں کو نظرانداز نہ کرسکے۔ اس پر تو پھر کبھی لکھنا ہوگا یہاں مقصود یہ تھا کہ ہم اپنی تاریخ کو خود تو مسخ نہ کریں اور ایسے کسی بھی واقعے کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ سیاق و سباق سے ہٹ کر نہ ہو۔
اللہ ہمیں فرقہ پرستی سے آزاد کرے، ہمارے اتحاد کو بحال فرمائے۔ انسان کی بشری کمزوریوں کے باوجود اس کی نسبت شمار کی جاتی ہے سمجھی جاتی ہے، جانی جاتی ہے اور اس کا احترام کیا جاتا ہے جو بے حد ضروری ہے انسانیت کے ناطے، اخلاقیات کے تحت۔
قدرت نے سب کے کام الگ الگ مقرر کیے ہیں ان اصولوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے اور خاص طور پر تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے اور اسلامی تاریخ خصوصاً ہر کردار کے ساتھ انصاف کرنا چاہیے کیونکہ ہمارے وہ کالم نگار اکثر یہ کہتے ہیں کہ خدا کو جان دینی ہے، جو بالکل سچ ہے اور پھر کچھ بزرگوں سے مستفید بھی ہیں تو پھر یہ تضاد کیوں؟
اگر میری کسی بات سے کسی کو بھی کوئی ناگواریت کا احساس ہوا تو میں معذرت پیش کرتا ہوں۔ مگر یہ ضرور کہوں گا کہ حقیقت جاننے کے لیے حقیقت شناس ہونا ضروری ہے اور بعض حقائق بہت تلخ ہوتے ہیں انھیں برداشت کرکے ہی گوہر مقصود تک پہنچا جاسکتا ہے جسے سچ کہتے ہیں۔
قوموں کی تاریخیں ان کی امانت ہوتی ہیں اورہر قوم اپنی تاریخ پر زندہ رہتی ہے اور اس سے ہی شناخت کی جاتی ہے۔جو قومیں اس کرہ ارض سے مٹ گئیں ان کی بھی بہرحال تاریخ باقی ہے،آثار قدیمہ کی صورت، ان کے لٹریچر کی صورت یا کوئی بھی ایسا وسیلہ جس سے اس قوم کی خبر ملتی ہے۔
انسان دیوانہ تو نہیں ہوگیا ہے کہ زمینیں کھود کھود کر پرانی تہذیبیں تلاش کر رہا ہے، پہاڑوں پر، جنگلوں میں، ہر جگہ پرانی تہذیب کی تلاش ہے اور ہر قوم یہ کر رہی ہے سوائے ہماری قوم کے جو دوسروں کے بیان کردہ مفروضات پر اپنی تاریخ کا سراغ لگاتی ہے اور اس پر انحصار کرتی ہے، یہ کیا ہے جس کی تلاش ہے، تو اقبال نے کہا تھا صرف ایک مصرعہ دنیا بھرکی تہذیبوں کے لیے کافی ہے باقی مصرعے پڑھیں گے یا لکھیں گے یہاں تو بات کا مفہوم بدل جائے گا۔ اقبال نے کہا تھا: یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے۔
ہر تہذیب کا، ہر قوم کا کوئی نہ کوئی براہیم ہے اور سب اس کی تلاش میں ہیں، ہمارے سامنے تو ایک واضح منظر اورسب کچھ عیاں ہے مگر ہم تو عادی ہیں پہلو تہی اورانکار کے اور بندھی ہوئی رسی کو کھولتے جا رہے ہیں کھولتے جا رہے ہیں اور دن بہ دن کمزور ہوتے جارہے ہیں۔
اب تو ہمارے بچے بھی اس بوڑھے کی کہانی کو کارٹون سمجھتے ہیں جس نے اپنے بچوں کو، رسی کے ریشے دیے اور انھوں نے توڑ دیے، پھر ریشوں کو بٹ کر رسی بنائی اور بچے نہیں توڑ سکے تو بتایا کہ یہ اتحاد ہے اور تم اس طرح رہوگے تو مضبوط رہوگے کوئی تمہیں شکست نہیں دے سکے گا۔
ہمارے بچے اسے Tom اور Jerry کی کہانی سمجھتے ہیں مگر یہ ہمارے دین کا پیغام ہے کہ جس نے ہمیں بتایا کہ ایک اللہ کی رسی ہے جسے پکڑے رہوگے تو کوئی تمہیں ناکام نہ کرسکے گا اور وہ ہے اتحاد اور کہا گیا کہ متفرق نہ ہوجاؤ ورنہ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ آج ہم کہاں ہیں؟
یہ برسبیل تذکرہ بات آگئی ہے مقصد کسی کو سبق دینا نہیں ہے نہ کسی کو درست کہنا ہے نہ کسی کو غلط ہر درست اور غلط کا ہر وہ ذمے دار ہے جو اس پر کاربند ہے اور درست اور غلط کا فیصلہ بھی ان کا ہی اختیار ہے مل کر کریں یا الگ الگ وہ جانیں اور ان کا کام۔
ہم تہذیبوں اور تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات بہت واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ مہذب اقوام بننے میں وحشی قوموں کو بہت وقت لگا اور یہ بھی کہ جب قوموں کی ترقی کا عمل شروع ہوا تو رکا نہیں اور اکثر قومیں اپنے بھیانک ماضی سے تابناک مستقبل کی طرف مراجعت کرتی رہیں اور یہ سلسلہ مستقل رہا اور اس میں کوئی رکاوٹ نہیں آنے دی کسی بھی قوم نے سوائے مسلمانوں کے۔
مسلمان ایک ایسی قوم رہے جس نے تلوار ہاتھ سے نہ رکھی اور سر قلم ہوتے رہے داستان چلتی رہی ، جنگ و جدل سرشت رہی ہماری اور ہے اب بھی، دائرہ اور مرکز تبدیل ہوگیا ہے۔ تمام کے کچھ حصے کے دوسری اقوام کے ساتھ دینے کی وجہ سے بدل جانے کی وجہ سے نہ ساری قوم بدلی ہے دنیا بھر کے مسلمانوں کی نہ عادتیں، ہماری مسلم قوم واپسی کے سفر پرکمربستہ ہے، ہم یہاں عورت کو ''کاری'' کر رہے ہیں، مشرق وسطیٰ میں عورت ''جنس'' بن چکی ہے۔
یہ ایک تکلیف دہ موضوع ہے، اس کی حساسیت کا بھی مجھے اندازہ ہے مگر مجھے ہے حکم اذاں کے مصداق بات تو کہنی ہی پڑے گی، اپنے حصے کا کام توکرکے جانا ہوگا، اس جہان فانی سے، ہم سب اپنا اپنا کام ہی تو کر رہے ہیں، وجہ یہ بنی اس تحریرکی کہ جہاں میرا یہ کالم چھپ رہا ہے اس کے دائیں ہاتھ کے صفحے پر ایک بہت اچھے اور مستند لکھنے والے کی تحریریں آپ پڑھتے رہتے ہیں میں بھی پڑھتا ہوں، ان کا سیاسی پروگرام بھی کبھی کبھی دیکھ لیتا ہوں۔ انھوں نے دس اپریل کے کالم میں شاید نادانستہ طور پر یا غیر شعوری طور پر ایک جنگ کی طرف اشارہ کیا ہے، جس پر تعجب ہوا۔ جنگ جمل تاریخ اسلام کی وہ جنگ ہے کہ جس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے ۔
جنگ جمل بہت کچھ کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ کس طرح اسلام کو اس جنگ سے نقصان پہنچا اور ملوکیت کو تقویت ملی ۔ پھر واقعہ کربلا ہوا جس میں خاندان رسالتؐ نے جان کی قربانی دے کر دین اسلام کو سرخرو کیا اور الحمد للہ کربلا کی وجہ سے ہم آج مسلمان ہیں۔ دنیا میں تاریخ اسلام کا یہ جگمگاتا باب کربلا پر تاریخ میں لکھا گیا ہے۔ متعصب ترین مورخ بھی اس کے مثبت پہلوؤں کو نظرانداز نہ کرسکے۔ اس پر تو پھر کبھی لکھنا ہوگا یہاں مقصود یہ تھا کہ ہم اپنی تاریخ کو خود تو مسخ نہ کریں اور ایسے کسی بھی واقعے کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ سیاق و سباق سے ہٹ کر نہ ہو۔
اللہ ہمیں فرقہ پرستی سے آزاد کرے، ہمارے اتحاد کو بحال فرمائے۔ انسان کی بشری کمزوریوں کے باوجود اس کی نسبت شمار کی جاتی ہے سمجھی جاتی ہے، جانی جاتی ہے اور اس کا احترام کیا جاتا ہے جو بے حد ضروری ہے انسانیت کے ناطے، اخلاقیات کے تحت۔
قدرت نے سب کے کام الگ الگ مقرر کیے ہیں ان اصولوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے اور خاص طور پر تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے اور اسلامی تاریخ خصوصاً ہر کردار کے ساتھ انصاف کرنا چاہیے کیونکہ ہمارے وہ کالم نگار اکثر یہ کہتے ہیں کہ خدا کو جان دینی ہے، جو بالکل سچ ہے اور پھر کچھ بزرگوں سے مستفید بھی ہیں تو پھر یہ تضاد کیوں؟
اگر میری کسی بات سے کسی کو بھی کوئی ناگواریت کا احساس ہوا تو میں معذرت پیش کرتا ہوں۔ مگر یہ ضرور کہوں گا کہ حقیقت جاننے کے لیے حقیقت شناس ہونا ضروری ہے اور بعض حقائق بہت تلخ ہوتے ہیں انھیں برداشت کرکے ہی گوہر مقصود تک پہنچا جاسکتا ہے جسے سچ کہتے ہیں۔