سیکڑوں برطانوی فوجی ملازمت چھوڑنے لگے مقدمات کا خوف ان پہ طاری ہوگیا
کچھ لوگ ’’پبلک انٹرسٹ لائرز‘‘ کی بندش کو اسی اجلاس کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔
برطانوی مسلح افواج ہرماہ سیکڑوں فوجیوں سے محروم ہورہی ہیں۔ یہ فوجی اپنی مرضی سے بری فوج، بحریہ اور فضائیہ کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔ یہ حیران کن انکشاف ایک برطانوی روزنامے میں شایع ہونے والی رپورٹ میں کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق 2010ء میں مسلح افواج سے استعفا دینے والے سپاہیوں اور افسران کی تعداد 3950 تھی۔ گذشتہ برس یہ تعداد بڑھ کر 4200 تک پہنچ گئی، اور رواں سال میں دو ماہ قبل تک 4770 فوجی اہل کار ملازمت چھوڑ چکے تھے۔ یوں ہر ماہ چار سو سے زائد فوجی مستعفی ہورہے ہیں۔ ان اعدادوشمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سپاہیوں میں فوج کی ملازمت کو خیرباد کہہ دینے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ برطانوی شہری اتنی بڑی تعداد میں بری فوج، بحریہ اور فضائیہ کی پرکشش ملازمت ترک کر رہے ہیں؟فوج سے استعفیٰ دینے والے تمام سپاہی و افسران وہ ہیں جو عراق میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ امریکا نے 2003ء میں تباہ کن کیمیاوی ہتھیاروں کی موجودگی کو جواز بناکر جب عراق پر حملہ کرنے کا اعلان کیا تو سب سے اہم اتحادی برطانیہ اس کے شانہ بشانہ تھا۔ امریکا اور اس کے دوسرے اتحادیوں کی افواج کے ساتھ برطانیہ کے پینتالیس ہزار سپاہی بھی عراق پہنچ گئے تھے۔ ان میں تینوں مسلح افواج کے جوان شامل تھے۔ دوران جنگ اور جنگ کے بعد امریکی اور اتحادی افواج نے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں بکھیردیں اور جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی سیاہ تاریخ رقم کی۔
ہزاروں بے گناہ شہری مارے گئے۔ جنگ کے دوران قیدی بنائے گئے عراقی فوجیوں اور عام شہریوں سے انسانیت سوز سلوک کیا گیا۔ کئی واقعات کی ویڈیوز اور تصاویر بھی منظر عام پر آئیں۔ ان واقعات میں برطانوی فوجی بھی ملوث تھے۔ تواتر سے اس نوع کی خبریں آنے کے بعد برطانیہ میں کئی قانونی فرموں نے جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں مبینہ طور پر ملوث فوجی اہل کاروں کے خلاف مقدمات دائر کرنے شروع کردیے تھے۔ عراق جنگ کے خاتمے کو ایک دہائی گزر جانے کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے۔
فوجی جوانوں میں مسلح افواج کو خیرباد کہہ دینے کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پس پردہ بنیادی وجہ یہی ہے۔ جن مستعفی فوجیوں نے برطانوی روزنامے سے بات چیت کی، ان کا کہناتھا کہ عراق سے واپسی پر اپنے ہی وطن میں ان کے ساتھ قاتلوں کا سا سلوک کیا گیا۔ دس سال پہلے رونما ہونے والے واقعات کے ضمن میں ان سے کڑی تفتیش کی گئی۔ اس دوران ان کے برسوں کے سروس ریکارڈ کو بھی نظر انداز کردیاگیا۔ یہ صورت حال ان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ عراق جنگ کے دوران اور بعدازاں ہونے والے جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے واقعات کے تناظر میں قائم ہونے والے مقدمات نے برطانوی فوجیوں کو فوج سے متنفر کردیا ہے وہیں مسلح افواج کا مورال بھی نیچے آیا ہے۔ 2011 میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق 87 فی صد جوانوں کو فوج کا حصہ ہونے پر فخر تھا گذشتہ برس کے اواخر تک یہ شرح 76 فی صد تک گر چکی تھی۔
برطانوی وزارت دفاع کی ترجمان، جوڈتھ جولی نے اس اہم ایشو کے حوالے سے روزنامے سے گفتگو میں کہاکہ ہماری مسلح افواج کی کامیابیاں بری فوج، بحریہ اور فضائیہ میں بہترین جوانوں کی موجودگی سے مشروط ہیں۔ ترجمان نے کہاکہ فوجی جوانوں کے استعفوں کی بڑھتی ہوئی تعداد انتہائی تشویش ناک ہے۔ برطانوی لاء فرمز عراق میں تعینات رہنے والے فوجیوں کے لیے ڈراؤنا خواب بن گئی ہیں۔ پرانے فوجیوں کے خلاف جاری قانونی کارروائیوں کا اثر نئے بھرتی شدہ جوانوں پر بھی پڑ رہا ہے۔
ان کے ذہنوں میں یہ خیال ضرور آتا ہوگا کہ مستقبل میں کسی جنگ زدہ علاقے میں تعیناتی کے بعد وطن واپسی پر انھیں بھی اسی قسم کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ قانونی فرموں کے اقدامات کی وجہ سے سپاہیوں میں مستعفی ہونے کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر چند ماہ قبل سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی صدارت میں نیشنل سیکیورٹی کونسل کا اجلاس ہوا تھا۔ اس اجلاس میں لاء فرموں کی وجہ سے فوجیوں میں پائی جانے والی بے چینی بلکہ ڈر اور خوف کا سدباب کرنے پر غور کیا گیا۔ کچھ لوگ ''پبلک انٹرسٹ لائرز'' کی بندش کو اسی اجلاس کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ پبلک انٹرسٹ لائرز فوجیوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے والی مرکزی لاء فرم تھی ۔ اس کی بندش کے بعد فوجیوں نے یقینی طور پر سکھ کا سانس لیا ہوگا۔
ہزاروں فوجیوں کے مسلح افواج سے کنارہ کش ہوجانے کے بعد فوج میں جوانوں کی کمی پوری کرنے کے لیے برطانوی حکومت غیر معمولی اقدامات کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ رواں سال کے اوائل میں وزیر دفاع پینی مورڈینٹ نے دولت مشترکہ میں شامل ممالک کے شہریوں کی برطانوی افواج میں بھرتی کی شرائط نرم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ قواعد کے تحت ان ممالک کے صرف وہی شہری شاہی افواج کا حصہ بن سکتے تھے جنھیں برطانیہ میں رہتے ہوئے پانچ برس گزر چکے ہوں۔ نئی پالیسی کے تحت وزیر دفاع نے سکونت پذیری کی شرط ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق 2010ء میں مسلح افواج سے استعفا دینے والے سپاہیوں اور افسران کی تعداد 3950 تھی۔ گذشتہ برس یہ تعداد بڑھ کر 4200 تک پہنچ گئی، اور رواں سال میں دو ماہ قبل تک 4770 فوجی اہل کار ملازمت چھوڑ چکے تھے۔ یوں ہر ماہ چار سو سے زائد فوجی مستعفی ہورہے ہیں۔ ان اعدادوشمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سپاہیوں میں فوج کی ملازمت کو خیرباد کہہ دینے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ برطانوی شہری اتنی بڑی تعداد میں بری فوج، بحریہ اور فضائیہ کی پرکشش ملازمت ترک کر رہے ہیں؟فوج سے استعفیٰ دینے والے تمام سپاہی و افسران وہ ہیں جو عراق میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ امریکا نے 2003ء میں تباہ کن کیمیاوی ہتھیاروں کی موجودگی کو جواز بناکر جب عراق پر حملہ کرنے کا اعلان کیا تو سب سے اہم اتحادی برطانیہ اس کے شانہ بشانہ تھا۔ امریکا اور اس کے دوسرے اتحادیوں کی افواج کے ساتھ برطانیہ کے پینتالیس ہزار سپاہی بھی عراق پہنچ گئے تھے۔ ان میں تینوں مسلح افواج کے جوان شامل تھے۔ دوران جنگ اور جنگ کے بعد امریکی اور اتحادی افواج نے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں بکھیردیں اور جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی سیاہ تاریخ رقم کی۔
ہزاروں بے گناہ شہری مارے گئے۔ جنگ کے دوران قیدی بنائے گئے عراقی فوجیوں اور عام شہریوں سے انسانیت سوز سلوک کیا گیا۔ کئی واقعات کی ویڈیوز اور تصاویر بھی منظر عام پر آئیں۔ ان واقعات میں برطانوی فوجی بھی ملوث تھے۔ تواتر سے اس نوع کی خبریں آنے کے بعد برطانیہ میں کئی قانونی فرموں نے جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں مبینہ طور پر ملوث فوجی اہل کاروں کے خلاف مقدمات دائر کرنے شروع کردیے تھے۔ عراق جنگ کے خاتمے کو ایک دہائی گزر جانے کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے۔
فوجی جوانوں میں مسلح افواج کو خیرباد کہہ دینے کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پس پردہ بنیادی وجہ یہی ہے۔ جن مستعفی فوجیوں نے برطانوی روزنامے سے بات چیت کی، ان کا کہناتھا کہ عراق سے واپسی پر اپنے ہی وطن میں ان کے ساتھ قاتلوں کا سا سلوک کیا گیا۔ دس سال پہلے رونما ہونے والے واقعات کے ضمن میں ان سے کڑی تفتیش کی گئی۔ اس دوران ان کے برسوں کے سروس ریکارڈ کو بھی نظر انداز کردیاگیا۔ یہ صورت حال ان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ عراق جنگ کے دوران اور بعدازاں ہونے والے جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے واقعات کے تناظر میں قائم ہونے والے مقدمات نے برطانوی فوجیوں کو فوج سے متنفر کردیا ہے وہیں مسلح افواج کا مورال بھی نیچے آیا ہے۔ 2011 میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق 87 فی صد جوانوں کو فوج کا حصہ ہونے پر فخر تھا گذشتہ برس کے اواخر تک یہ شرح 76 فی صد تک گر چکی تھی۔
برطانوی وزارت دفاع کی ترجمان، جوڈتھ جولی نے اس اہم ایشو کے حوالے سے روزنامے سے گفتگو میں کہاکہ ہماری مسلح افواج کی کامیابیاں بری فوج، بحریہ اور فضائیہ میں بہترین جوانوں کی موجودگی سے مشروط ہیں۔ ترجمان نے کہاکہ فوجی جوانوں کے استعفوں کی بڑھتی ہوئی تعداد انتہائی تشویش ناک ہے۔ برطانوی لاء فرمز عراق میں تعینات رہنے والے فوجیوں کے لیے ڈراؤنا خواب بن گئی ہیں۔ پرانے فوجیوں کے خلاف جاری قانونی کارروائیوں کا اثر نئے بھرتی شدہ جوانوں پر بھی پڑ رہا ہے۔
ان کے ذہنوں میں یہ خیال ضرور آتا ہوگا کہ مستقبل میں کسی جنگ زدہ علاقے میں تعیناتی کے بعد وطن واپسی پر انھیں بھی اسی قسم کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ قانونی فرموں کے اقدامات کی وجہ سے سپاہیوں میں مستعفی ہونے کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر چند ماہ قبل سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی صدارت میں نیشنل سیکیورٹی کونسل کا اجلاس ہوا تھا۔ اس اجلاس میں لاء فرموں کی وجہ سے فوجیوں میں پائی جانے والی بے چینی بلکہ ڈر اور خوف کا سدباب کرنے پر غور کیا گیا۔ کچھ لوگ ''پبلک انٹرسٹ لائرز'' کی بندش کو اسی اجلاس کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ پبلک انٹرسٹ لائرز فوجیوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے والی مرکزی لاء فرم تھی ۔ اس کی بندش کے بعد فوجیوں نے یقینی طور پر سکھ کا سانس لیا ہوگا۔
ہزاروں فوجیوں کے مسلح افواج سے کنارہ کش ہوجانے کے بعد فوج میں جوانوں کی کمی پوری کرنے کے لیے برطانوی حکومت غیر معمولی اقدامات کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ رواں سال کے اوائل میں وزیر دفاع پینی مورڈینٹ نے دولت مشترکہ میں شامل ممالک کے شہریوں کی برطانوی افواج میں بھرتی کی شرائط نرم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ قواعد کے تحت ان ممالک کے صرف وہی شہری شاہی افواج کا حصہ بن سکتے تھے جنھیں برطانیہ میں رہتے ہوئے پانچ برس گزر چکے ہوں۔ نئی پالیسی کے تحت وزیر دفاع نے سکونت پذیری کی شرط ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔