سپریم کورٹ نے مردم شماری کیلیے 2 ہفتے میں شیڈول طلب کرلیا

قانونی طور پر مردم شماری فوج كی نگرانی میں كرانے كی ضرورت نہیں، چیف جسٹس پاکستان

قانونی طور پر مردم شماری فوج كی نگرانی میں كرانے كی ضرورت نہیں، چیف جسٹس پاکستان، فوٹو؛ فائل

KARACHI:
عدالت عظمٰی نے مردم شماری میں تاخیر سے متعلق حكومتی رپورٹ پر عدم اطمینان كا اظہار كرتے ہوئے 2 ہفتے میں واضح تاریخ اور ٹائم شیڈول طلب کرلیا۔

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی كی سربراہی میں 3 ركنی بینچ نے 2 ہفتے كے اندر مردم شماری كے لیے واضح تاریخ اور ٹائم شیڈول طلب كرتے ہوئے كہا ہے كہ عدالت كو اپنا بھرم چاہیے ورنہ ایك دن لوگ كہیں گے كہ عدالتیں زبانی جمع خرچ كرتی ہیں عملی كارروائی نہیں كرتیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریماركس دیئے کہ تاخیر سے عدالت كو نہیں قوم اور جمہوری نظام كو فرق پڑتا ہے، عدالت كو بروقت مردم شماری چاہیے دو ٹرك كاغذ نہیں، مردم شماری آئینی تقاضہ اور حكومت كی ذمہ داری ہے، حكومت اپنی ذمہ داری پوری كیوں نہیں كرتی۔

چیف جسٹس نے كہا کہ قانونی طور پر مردم شماری فوج كی نگرانی میں كرانے كی ضرورت نہیں، بروقت مردم شماری نہیں ہو گی تو 2018 كے عام انتخابات كیسے ہوں گے۔ سماعت میں اٹارنی جنرل اشتر علی اوصاف نے پیش ہوكر مؤقف اختیار كیا كہ آئندہ سال مارچ، اپریل میں مردم شماری کے لیے فوج دستیاب ہوگی اور میں یقین دلاتا ہوں كہ آئندہ سال اپریل تك مردم شماری مكمل كرلی جائے گی۔ انہوں نے كہا وہ ذاتی طور پر اس معاملے كو دیكھ رہے ہیں اور موجودہ حكومت مردم شماری میں تاخیر كی ذمہ دار نہیں، لاجسٹك اور سیكیورٹی سمیت بہت سارے مسائل تاخیر كا سبب بنے ہیں۔ چیف جسٹس نے كہا اس تاخیر سے ہمیں كوئی فرق نہیں پڑتا اس سے عوام اور جمہوری نظام كو فرق پڑتا ہے، مردم شماری نہ ہو تو آئندہ انتخابات كیسے ہوں گے۔


چیف جسٹس نے سوال اٹھایا كیا حكومت حالات جوں كی توں ركھنا چاہتی ہے، آخر حكومت اپنی آئینی ذمہ داری پوری كیوں نہیں كرتی، آج تك ٹھوس رپورٹ پیش نہیں كی گئی جس میں واضح طور پر كہا گیا ہو كہ ایك خاص تاریخ تك مردم شماری كا عمل مكمل ہوجائے گا۔ جواب میں اٹارنی جنرل كا كہنا تھا كہ حكومت كی كوئی بدنیتی نہیں اور نہ یہ مسئلہ صرف اس حكومت كا ہے جس پر چیف جسٹس نے كہا كہ ہمیں تو بدنیتی نظر آرہی ہے لیكن ہم صرف اس حكومت كو مورد الزام نہیں ٹھہرائیں گے، پچھلی حكومتوں نے بھی اس ضمن میں اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری نہیں كیں۔ انہوں نے كہا اگر نیت ہو تو اس ملك میں منصوبہ كا افتتاح پہلے ہوجاتا ہے اور پی سی ون بعد میں تیار ہوتا ہے، بدنیتی ان لوگوں كی ہے جو اسٹیٹس كا فائدہ اٹھاتے ہیں، جن لوگوں كا مفاد ہے وہ تو یہی چاہتے ہیں كہ معاملات یونہی چلتے رہیں، تاخیر كا ملبہ سب پر ہے، موجودہ حكومت كو بھی ساڑھے تین سال ہو گئے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے كہا كہ قانونی تقاضے پورے كیے بغیر امور عدالتوں میں چیلنج ہوكر كالعدم قرار دیئے جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے كہا كہ پہلے مردم شماری كے لیے جولائی 2105 كی تاریخ دی گئی پھر 16 اور آخر فوج كی عدم دستیابی كو جواز بنا لیا گیا جب كہ قانونی طور پر مردم شماری کے لیے فوج كا ہونا ضروری نہیں اور نہ ہی فوج كا وہ خط جو ریكارڈ كے ساتھ منسلك ہے اس میں اہلكاروں كی عدم دستیابی كی كوئی بات كی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے كہاکہ پورے ملك میں مردم شماری ایك دن میں كرنا بھی قانونی طور پر ضروری ہے جو كام 1998 كے بعد 10 سال میں ہونا چاہیے تھا وہ 18 سال بعد بھی نہیں ہوسكا، كاغذی كارروائی كوئی بڑا كام نہیں اور نہ ہی یہ مسئلے كا حل ہے، متعلقہ ادارے كاغذات كے دو ٹرك بھر كر لے آئیں تو اس سے كیا ہوگا، اصل معاملہ مردم شماری كے آغاز اور آئینی ذمہ داری كا ہے، حكومت اپنی ذمہ داری پوری كرے۔

جسٹس خلجی عارف حسین نے كہا عدالت كا وقت بھی بچایا جائے، 17 جج كس كس مسئلے كو دیكھیں گے۔ عدالت نے كیس 2 ہفتے بعد سماعت كے لیے مقرر كرنے كی ہدایت كرتے ہوئے قرار دیا كہ حكومتی رپورٹ قابل قبول نہیں، مرم شماری كے لیے معین تاریخ اور ٹائم شیڈول دیا جائے۔

Load Next Story