شاہی قلعے کا کھلتا دروازہ
اس شہر کے وہ کون کم ذہن لوگ ہیں جو اپنے شہر کے دروازوں کو بند کرنا چاہتے ہیں
نہیں معلوم شاعر کو کس نے بتایا کہ پاکستان میں وہاں کے اونچے لوگ اس ملک کے دارالحکومت کو بند کرنا چاہتے ہیں۔ شاعر یہ سن کر حیرت زدہ رہ گیا اور چیخ کر کہا کہ اس شہر کے وہ کون کم ذہن لوگ ہیں جو اپنے شہر کے دروازوں کو بند کرنا چاہتے ہیں۔ ہم تو دروازوں کے کھلنے کی بات کرتے ہیں لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس سنتے ہیں اور جو کرنا چاہتے ہیں وہ ایک عجیب کارروائی ہے۔
ہم جو دنیا کی واحداسلامی جمہوریت پاکستان کے بارے میں جو کچھ سوچتے تھے آج کی دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی پیدا ہو گئے ہیں جو سب کچھ الٹ پلٹ کر دینا سوچتے ہیں۔ فارسی کا ایک شاعر یاد آتا ہے جس نے کہا تھا کہ بھائی تمہارے اور میرے درمیان سننے کا تفاوت اور فرق یہ ہے کہ تم کسی دروازے کے بند ہونے کی آواز سنتے ہو جب کہ میں دروازوں کے کھلنے کی
تفاوت است میان شنیدن من و تو
تو بستن در و من فتح باب مے شنوم
شاعر نے آنے والی امیدوں کا استقبال کرنے کی کوشش کی جب کہ کچھ دل کے کنجوس ایسے تھے جو سب کچھ بند ہونے کا سنتے تھے اور شاعر نے کہا کہ ان کے اور میرے درمیان فرق یہ ہے کہ وہ کسی دروازے کے بند ہونے کی آواز سنتے ہیں جب کہ میں کسی دروازے کے کھلنے کی آواز۔ آپ کو معلوم ہے دروازوں کے بند ہونے یا کھلنے کی ایک آواز ہوتی ہے اور اسے انسانوں کے کان پہچان لیتے ہیں۔
اسی کیفیت پر شاعر نے کہا تھا کہ تمہارے اور میرے درمیان سننے کا فرق یہ ہے کہ تم کسی دروازے کے بند ہونے کی آواز سنتے ہو اور میں اس دروازے کے کھلنے کی اور یہی ہماری تمہاری زندگی کا فرق ہے۔ شاعروں کی جب شعری حس جاگ اٹھتی ہے تو وہ اظہار خیال میں قیامت برپا کر دیتے ہیں اور بعض اوقات شاعرانہ خیال کی بلندی شاعر کے سامعین کو کہیں دور بہت دور لے جاتی ہے جو اس کے تصور میں بھی نہیں ہوتی اور اس کے قارئین نہ جانے ایسی کتنی دنیاؤں میں کھو جاتے ہیں۔دروازہ کھلنے یا بند ہونے کا ایک واقعہ مجھے بھی یاد پڑتا ہے۔
لاہور کے شاہی قلعے کا دروازہ نہ جانے کب سے بند تھا چنانچہ کسی کھلے دماغ کے افسر نے اسے کھولنے کا فیصلہ کیا۔ شاہی مسجد کی سمت والا یہ دروازہ کسی صاحب دل پاکستانی کا منتظر تھا چنانچہ خوش قسمتی سے سردار عبدالرب نشتر ان دنوں پنجاب کے گورنر تھے اس تقریب میں ان سے موزوں شخص اور کون ہو سکتا تھا چنانچہ شاہی قلعہ کے باہر تقریب ہوئی اس جلسہ کی صدارت سردار عبدالرب نشتر نے کی اور دروازے کھلنے پر انھوں نے ایک تاریخی شعر پیش کیا جسے اوپر نقل کیا جا چکا ہے۔
شاہی قلعہ کا یہ تاریخی دروازہ اب کھل چکا ہے اور کھلا ہی رہے گا لیکن حیرت ہوتی ہے تو ہمارے کچھ روشن خیال لوگ دروازے کیا شہر تک بند کرنے کی فکر میں ہیں اور بڑی جوانمردی اور ڈھٹائی کے ساتھ شہروں کو بند کرنے کے نعرے لگاتے ہیں۔ تعجب ہے اور اس پر تفصیل سے بات کرنی چاہیے کہ کچھ لوگ ایسا کیوں چاہتے ہیں کہ ہمارا قومی دارالحکومت اسلام آباد بند کر دیا جائے۔
بات آگے بڑھے تو یوں ہو گی کہ پاکستان کو ہی بند کر دیا جائے اور اب لوگ اور ذہن ابھی زندہ ہیں جو یہی چاہتے ہیں کہ ایک بار اگر اسلام آباد بن گیا ہے تو اب وہ منہدم تو نہیں ہو سکتا البتہ بند ہو سکتا ہے اس لیے اسے بند کر دیا جائے۔ ایسے حیرت انگیز اور تعجب خیز سوال کن ذہنوں میں پیدا ہوا یہ ہماری بدقسمتی ہے اس پر پھر بات ہو گی فی الحال اس مختصر سے احتجاج پر بات ختم۔ ہم تو خوش رہے کہ ہم نے صدیوں سے بند شاہی قلعہ کا دروازہ کھول دیا مگر اب ہماری ہی نسل کے نوجوان کھلے دروازوں کو بھی بند کرنا چاہتے ہیں۔ مذکورہ فارسی شعر پھر سے پڑھ لیجیے اور اس شاعر کو ''شاعر پاکستان'' ہی کہہ لیجیے۔
ہم جو دنیا کی واحداسلامی جمہوریت پاکستان کے بارے میں جو کچھ سوچتے تھے آج کی دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی پیدا ہو گئے ہیں جو سب کچھ الٹ پلٹ کر دینا سوچتے ہیں۔ فارسی کا ایک شاعر یاد آتا ہے جس نے کہا تھا کہ بھائی تمہارے اور میرے درمیان سننے کا تفاوت اور فرق یہ ہے کہ تم کسی دروازے کے بند ہونے کی آواز سنتے ہو جب کہ میں دروازوں کے کھلنے کی
تفاوت است میان شنیدن من و تو
تو بستن در و من فتح باب مے شنوم
شاعر نے آنے والی امیدوں کا استقبال کرنے کی کوشش کی جب کہ کچھ دل کے کنجوس ایسے تھے جو سب کچھ بند ہونے کا سنتے تھے اور شاعر نے کہا کہ ان کے اور میرے درمیان فرق یہ ہے کہ وہ کسی دروازے کے بند ہونے کی آواز سنتے ہیں جب کہ میں کسی دروازے کے کھلنے کی آواز۔ آپ کو معلوم ہے دروازوں کے بند ہونے یا کھلنے کی ایک آواز ہوتی ہے اور اسے انسانوں کے کان پہچان لیتے ہیں۔
اسی کیفیت پر شاعر نے کہا تھا کہ تمہارے اور میرے درمیان سننے کا فرق یہ ہے کہ تم کسی دروازے کے بند ہونے کی آواز سنتے ہو اور میں اس دروازے کے کھلنے کی اور یہی ہماری تمہاری زندگی کا فرق ہے۔ شاعروں کی جب شعری حس جاگ اٹھتی ہے تو وہ اظہار خیال میں قیامت برپا کر دیتے ہیں اور بعض اوقات شاعرانہ خیال کی بلندی شاعر کے سامعین کو کہیں دور بہت دور لے جاتی ہے جو اس کے تصور میں بھی نہیں ہوتی اور اس کے قارئین نہ جانے ایسی کتنی دنیاؤں میں کھو جاتے ہیں۔دروازہ کھلنے یا بند ہونے کا ایک واقعہ مجھے بھی یاد پڑتا ہے۔
لاہور کے شاہی قلعے کا دروازہ نہ جانے کب سے بند تھا چنانچہ کسی کھلے دماغ کے افسر نے اسے کھولنے کا فیصلہ کیا۔ شاہی مسجد کی سمت والا یہ دروازہ کسی صاحب دل پاکستانی کا منتظر تھا چنانچہ خوش قسمتی سے سردار عبدالرب نشتر ان دنوں پنجاب کے گورنر تھے اس تقریب میں ان سے موزوں شخص اور کون ہو سکتا تھا چنانچہ شاہی قلعہ کے باہر تقریب ہوئی اس جلسہ کی صدارت سردار عبدالرب نشتر نے کی اور دروازے کھلنے پر انھوں نے ایک تاریخی شعر پیش کیا جسے اوپر نقل کیا جا چکا ہے۔
شاہی قلعہ کا یہ تاریخی دروازہ اب کھل چکا ہے اور کھلا ہی رہے گا لیکن حیرت ہوتی ہے تو ہمارے کچھ روشن خیال لوگ دروازے کیا شہر تک بند کرنے کی فکر میں ہیں اور بڑی جوانمردی اور ڈھٹائی کے ساتھ شہروں کو بند کرنے کے نعرے لگاتے ہیں۔ تعجب ہے اور اس پر تفصیل سے بات کرنی چاہیے کہ کچھ لوگ ایسا کیوں چاہتے ہیں کہ ہمارا قومی دارالحکومت اسلام آباد بند کر دیا جائے۔
بات آگے بڑھے تو یوں ہو گی کہ پاکستان کو ہی بند کر دیا جائے اور اب لوگ اور ذہن ابھی زندہ ہیں جو یہی چاہتے ہیں کہ ایک بار اگر اسلام آباد بن گیا ہے تو اب وہ منہدم تو نہیں ہو سکتا البتہ بند ہو سکتا ہے اس لیے اسے بند کر دیا جائے۔ ایسے حیرت انگیز اور تعجب خیز سوال کن ذہنوں میں پیدا ہوا یہ ہماری بدقسمتی ہے اس پر پھر بات ہو گی فی الحال اس مختصر سے احتجاج پر بات ختم۔ ہم تو خوش رہے کہ ہم نے صدیوں سے بند شاہی قلعہ کا دروازہ کھول دیا مگر اب ہماری ہی نسل کے نوجوان کھلے دروازوں کو بھی بند کرنا چاہتے ہیں۔ مذکورہ فارسی شعر پھر سے پڑھ لیجیے اور اس شاعر کو ''شاعر پاکستان'' ہی کہہ لیجیے۔