ہر چیز کی ایکسپائری ڈیٹ مگر…
ادھار محبت کی قینچی ہے، القرض مقراض المحبت، لون از اے سیزر آف لو
اس سے پہلے کہ آپ کے دلوں میں ہمارے خلاف کوئی ایسے ویسے خیالات سر ابھاریں کہ ہم بزرگوں کے اقوال زرین کے مخالف ہیں کیونکہ ہم اکثر ان اقوال کے بارے میں کچھ ایسا ویسا کہتے رہتے ہیں اس لیے اپنے آپ کا ''از خود نوٹس'' لیتے ہوئے وضاحتاً عرض ہے کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے بزرگوں کے اقوال زرین کے ہم بے حد قدر دان بلکہ فین ہیں۔
بزرگ بہرحال بزرگ ہوتے ہیں چاہے کتنے ہی نکمے نکھٹو کیوں نہ رہے ہوں اور کچھ کام وام کرنے کے بجائے صرف اقوال زرین کے طوطے مینا اڑاتے رہے ہوں، بزرگوں کا ادب کرنا ہماری گھٹی میں پڑا ہوا ہے بلکہ شاید یہ گھٹی انھوں نے جان بوجھ کر ہمیں پلائی تھی کیوں کہ ان کو معلوم تھا کہ آنے والے وقتوں میں جب آنے والی نسلوں کو ان کے کچھ نہ کرنے، باتوں کے بٹیر لڑانے اور طوائفوں وغیرہ کی سرپرستیوں کا علم ہو گا تو پہلے ہی سے پیش بندی کر گئے کہ
خطائے بزرگاں گرفتن خطا ست
ہم مانتے ہیں اوران پر کوئی گرفت نہیں کر رہے ہیں لیکن تمام تر عزت و احترام کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی ایکسپائری ڈیٹ بھی ہوا کرتی ہے اور جب آئین و دستور میں ترمیم ہو سکتی ہے تو اقوال زرین میں بھی جدید تقاضوں کے مطابق کچھ ردوبدل ہو سکتی ہے کیونکہ وقت تو بڑا بے ادب ہوتا ہے کسی کی بزرگی کا قطعاً کوئی خیال نہیں رکھتا چاہے کسی نے اقوال زرین کے بجائے ''اقوال گوہرین'' ہی کیوں نہ ارشاد کیے ہوں، مثال کے طور پر ایک بہت ہی پاپولر بیسٹ سیلر اور مقبول خاص و عوام قول زرین ہے کہ ''سانچ کو آنچ نہیں'' ہو گا کسی زمانے میں ایسا ہی ہوا کرتا ہو گا یا تو اس زمانے کی ''آنچ'' کچھ زیادہ تیز نہیں ہو گی یا ''سانچ کا سانچہ'' ایسا ہوتا ہو گا کہ ذرا زیادہ آنچ پروف ہو گا اور یہ بات قرین قیاس اس لیے ہے کہ اس زمانے میں ایک تو یہ جدید قسم کے چولہے اور آگ نہیں ہوتی تھی اور سانچے بھی سلور یا کسی دھات کے نہیں بلکہ مٹی کے موٹے موٹے ہوں گے، لیکن آج ''آنچ'' اتنی تیز ہو گئی اور سانچ کو اتنے گونا گوں سانچوں میں ڈالا جاتا ہے اور اتنی زیادہ آنچ دی جاتی ہے کہ اگر کوئی اس آنچ کے ہاتھ میں آئینہ دے دے تو یہ جانچ ہی نہ سکے کہ سامنے کون ہے، اور بے چارا حیرت سے پوچھے گا کہ کون ہے یہ اجنبی؟ بلکہ اپنے وطن عزیز میں چونکہ ھمہ جہتی ترقی بے پناہ ہوئی ہے اس لیے سانچ کو ''سانس'' سے منسلک کیا گیا ہے اور ''بسنتی'' سے کہا گیا ہے کہ جب تک تیرے پیر چلیں گے ویرو کی سانس چلے گی اور اگر تیرے پیر رکے تواس کی سانس؟ بسنتی کو تو آپ جانتے ہیں کہ اب اس نے اپنا نام سیاست رکھا ہوا ہے اور ویرو کو لوگ عوام کے نام سے جانتے ہیں۔
فرش پر جو شیشے بکھرے ہیں وہ اصولوں، اخلاق، ضمیروں اور ایمانوں کے ہیں، اب آپ ہی بتایئے کہ ہم اس قول زرین کو جوں کا توں کیسے لاگو کر سکتے ہیں، ایک اور ڈیٹ ایکسپائز قول زرین ہے کہ ''تلوار کا زخم بھر سکتا ہے لیکن زبان کا زخم کبھی نہیں بھر سکتا'' ظاہر ہے کہ اب تلوار ہی نہیں رہی ہے تو اس کے زخم کی کیا بات کرنا، اس لیے اگر اس قول زرین کو استعمال کرنا ہی ہے تو تلوار کی جگہ کسی جدید اسلحہ کو رکھنا ہو گا جیسے پستول یا کلاشن کوف یا بم وغیرہ، لیکن ان ہتھیاروں کے زخم کی بات تو تب ہو گی جب کوئی زخمی برسر زمین باقی بھی رہے گا کیونکہ یہ جدید اسلحہ جات سنی دیول کا مکا ہوتے ہیں جو زخمی نہیں کرتے بلکہ اڑا دیتے ہیں، بلکہ اس جدید ہتھیاروں کو تو قضا وغیرہ کی بھی پروا نہیں کہ قضا کو یہ اسی وقت گولی پر ثبت کر دیتے ہیں۔
ایک قول زرین جو خاص طور پر دکانداروں میں بھی بے پناہ مقبول ہے اور وہ اسے اپنی اور اپنی دکان کی پیشانی سے لگائے رکھتے ہیں ''ادھار محبت کی قینچی ہے، القرض مقراض المحبت، لون از اے سیزر آف لو'' لیکن آج کی دنیا ''قرض'' کے بغیر ایک سانس بھی نہیں لے سکتی، اور محبت کے بغیر بھی اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس لیے قینچی نے محبت کے پرزے پرزے کر کے ہوا میں اڑا دیے کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے یہ فضول قسم کی بانسری... کم از کم اپنے پاکستان میں بیس کروڑ عوام میں تو ایک بھی ایسا نہیں ہے جو قرض سے بچا ہوا ہو۔
کچھ لوگ قرض کھاتے ہیں تو کچھ چکاتے ہیں زیادہ سے زیادہ پندرہ فیصد یا اس سے بھی کم ایسے ہوں گے جو قرض لیتے ہیں ڈکارتے ہیں ہڑپتے ہیں، باقی بچے خدا مارے تو ان کو اس قرض کے چکانے کے لیے رکھا ہوا ہے جو اس وقت فی کھوپڑی تقریباً ڈیڑھ لاکھ ہے لیکن ارتقا برابر جاری ہے اس سے پہلے کہ آبادی بڑھ جائے اور قرض کی فی فرد حصے میں کمی واقع ہو تقریباً اس سے دگنا اضافہ ہو چکا ہو گا یعنی جو ابھی ''پہنچے'' بھی نہیں ہیں ان کے حصے کا قرض بھی لے کر ہڑپا گیا ہو گا کیوں کہ یہ لوگ بڑا ہی ''قرض ہضم'' قسم کا چورن کھاتے ہیں کہ ایک ڈکار یہاں ''کھانے'' کے بعد لیتے ہیں اور دوسری ڈکار ہضم ہونے پر سوئٹزر لینڈ وغیرہ میں لیتے ہیں۔
اس سے ثابت ہوا کہ اقوال زرین بے شک سر آنکھوں پر لیکن جن کی ایکسپائری ڈیٹ گزر چکی ہے وہ تو استعمال ہو ہی نہیں سکتے البتہ کچھ اقوال زرین ایسے ہیں جو پورے کے پورے تو ازکار رفتہ نہیں ہوئے ہیں لیکن پھر بھی کچھ مرمت اور مینٹینس چاہتے ہیں، مثلاً ''علم'' کے متعلق جو اقوال زرین کا جو پیکیج ہے کہ ''علم بڑی دولت ہے'' دولت چھن سکتی ہے چوری ہو سکتی ہے لیکن علم نہ چھن سکتا ہے نہ چوری ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس میں کمی آ سکتی ہے بل کہ خرچ کرنے سے اور زیادہ بڑھتا ہے جیسا کہ رحمان بابا نے کہا ہے کہ کنوئیں کا پانی جتنا نکالا جائے اتنا ہی بڑھتا چلا جاتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ رحمان بابا کے زمانے میں ایسے کتے نہیں ہوا کرتے تھے جو کنوؤں میں گرتے ہیں اور جن سے کنواں ناقابل استعمال ہو جاتا تھا۔
وہ قصہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا کہ ایک شخص نے مولوی صاحب سے پوچھا کہ میرے کنوئیں میں بلی گر گئی ہے پانی کے کتنے ڈول نکالنا ہوں گے، مولوی صاحب نے بتایا کہ دو سو ڈول نکال دو، وہ شخص چلا گیا اور شام سے پہلے آکر مولوی صاحب سے بولا دو سو کے بجائے میں نے تین سو ڈول نکال لیے اب تو کنواں صاف ہو گیا ہے نا ... مولوی صاحب نے کہا ہاں بالکل صاف ہو گیا ہے، وہ آدمی جاتے جاتے پھر پلٹ آیا اور پوچھا... مولوی صاحب اس بلی کا کیا کروں؟ مولوی صاحب نے پوچھا کون سی بلی؟ بولا وہ جو کنوئیں میں پڑی ہوئی ہے؟ اور آج کل تو آپ جانتے ہیں کہ بلیاں ویسے بھی زیادہ ہو گئی ہیں کیوں کہ ایک تو گوشت بہت ہے اور ان کی چوکیداری کے لیے ''بلے بلیوں'' کی ضرورت ہوتی ہے، دوسرے یہ کہ کنوئیں بھی اب وہ نہیں رہے جن کا پانی لامحدود ہوتا تھا واٹر لیول بہت نیچے چلا گیا ہے اس لیے کنوؤں کے بجائے ٹیوب ویل کھودنا پڑتے ہیں، اس لیے تمام اقوال زرین کو ویسا ہی مٹا دیا جائے جیسا خود علم کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے اور اس کے سنگھاسن پر تعلیم کو بٹھا دیا گیا ہے۔
بزرگ بہرحال بزرگ ہوتے ہیں چاہے کتنے ہی نکمے نکھٹو کیوں نہ رہے ہوں اور کچھ کام وام کرنے کے بجائے صرف اقوال زرین کے طوطے مینا اڑاتے رہے ہوں، بزرگوں کا ادب کرنا ہماری گھٹی میں پڑا ہوا ہے بلکہ شاید یہ گھٹی انھوں نے جان بوجھ کر ہمیں پلائی تھی کیوں کہ ان کو معلوم تھا کہ آنے والے وقتوں میں جب آنے والی نسلوں کو ان کے کچھ نہ کرنے، باتوں کے بٹیر لڑانے اور طوائفوں وغیرہ کی سرپرستیوں کا علم ہو گا تو پہلے ہی سے پیش بندی کر گئے کہ
خطائے بزرگاں گرفتن خطا ست
ہم مانتے ہیں اوران پر کوئی گرفت نہیں کر رہے ہیں لیکن تمام تر عزت و احترام کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی ایکسپائری ڈیٹ بھی ہوا کرتی ہے اور جب آئین و دستور میں ترمیم ہو سکتی ہے تو اقوال زرین میں بھی جدید تقاضوں کے مطابق کچھ ردوبدل ہو سکتی ہے کیونکہ وقت تو بڑا بے ادب ہوتا ہے کسی کی بزرگی کا قطعاً کوئی خیال نہیں رکھتا چاہے کسی نے اقوال زرین کے بجائے ''اقوال گوہرین'' ہی کیوں نہ ارشاد کیے ہوں، مثال کے طور پر ایک بہت ہی پاپولر بیسٹ سیلر اور مقبول خاص و عوام قول زرین ہے کہ ''سانچ کو آنچ نہیں'' ہو گا کسی زمانے میں ایسا ہی ہوا کرتا ہو گا یا تو اس زمانے کی ''آنچ'' کچھ زیادہ تیز نہیں ہو گی یا ''سانچ کا سانچہ'' ایسا ہوتا ہو گا کہ ذرا زیادہ آنچ پروف ہو گا اور یہ بات قرین قیاس اس لیے ہے کہ اس زمانے میں ایک تو یہ جدید قسم کے چولہے اور آگ نہیں ہوتی تھی اور سانچے بھی سلور یا کسی دھات کے نہیں بلکہ مٹی کے موٹے موٹے ہوں گے، لیکن آج ''آنچ'' اتنی تیز ہو گئی اور سانچ کو اتنے گونا گوں سانچوں میں ڈالا جاتا ہے اور اتنی زیادہ آنچ دی جاتی ہے کہ اگر کوئی اس آنچ کے ہاتھ میں آئینہ دے دے تو یہ جانچ ہی نہ سکے کہ سامنے کون ہے، اور بے چارا حیرت سے پوچھے گا کہ کون ہے یہ اجنبی؟ بلکہ اپنے وطن عزیز میں چونکہ ھمہ جہتی ترقی بے پناہ ہوئی ہے اس لیے سانچ کو ''سانس'' سے منسلک کیا گیا ہے اور ''بسنتی'' سے کہا گیا ہے کہ جب تک تیرے پیر چلیں گے ویرو کی سانس چلے گی اور اگر تیرے پیر رکے تواس کی سانس؟ بسنتی کو تو آپ جانتے ہیں کہ اب اس نے اپنا نام سیاست رکھا ہوا ہے اور ویرو کو لوگ عوام کے نام سے جانتے ہیں۔
فرش پر جو شیشے بکھرے ہیں وہ اصولوں، اخلاق، ضمیروں اور ایمانوں کے ہیں، اب آپ ہی بتایئے کہ ہم اس قول زرین کو جوں کا توں کیسے لاگو کر سکتے ہیں، ایک اور ڈیٹ ایکسپائز قول زرین ہے کہ ''تلوار کا زخم بھر سکتا ہے لیکن زبان کا زخم کبھی نہیں بھر سکتا'' ظاہر ہے کہ اب تلوار ہی نہیں رہی ہے تو اس کے زخم کی کیا بات کرنا، اس لیے اگر اس قول زرین کو استعمال کرنا ہی ہے تو تلوار کی جگہ کسی جدید اسلحہ کو رکھنا ہو گا جیسے پستول یا کلاشن کوف یا بم وغیرہ، لیکن ان ہتھیاروں کے زخم کی بات تو تب ہو گی جب کوئی زخمی برسر زمین باقی بھی رہے گا کیونکہ یہ جدید اسلحہ جات سنی دیول کا مکا ہوتے ہیں جو زخمی نہیں کرتے بلکہ اڑا دیتے ہیں، بلکہ اس جدید ہتھیاروں کو تو قضا وغیرہ کی بھی پروا نہیں کہ قضا کو یہ اسی وقت گولی پر ثبت کر دیتے ہیں۔
ایک قول زرین جو خاص طور پر دکانداروں میں بھی بے پناہ مقبول ہے اور وہ اسے اپنی اور اپنی دکان کی پیشانی سے لگائے رکھتے ہیں ''ادھار محبت کی قینچی ہے، القرض مقراض المحبت، لون از اے سیزر آف لو'' لیکن آج کی دنیا ''قرض'' کے بغیر ایک سانس بھی نہیں لے سکتی، اور محبت کے بغیر بھی اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس لیے قینچی نے محبت کے پرزے پرزے کر کے ہوا میں اڑا دیے کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے یہ فضول قسم کی بانسری... کم از کم اپنے پاکستان میں بیس کروڑ عوام میں تو ایک بھی ایسا نہیں ہے جو قرض سے بچا ہوا ہو۔
کچھ لوگ قرض کھاتے ہیں تو کچھ چکاتے ہیں زیادہ سے زیادہ پندرہ فیصد یا اس سے بھی کم ایسے ہوں گے جو قرض لیتے ہیں ڈکارتے ہیں ہڑپتے ہیں، باقی بچے خدا مارے تو ان کو اس قرض کے چکانے کے لیے رکھا ہوا ہے جو اس وقت فی کھوپڑی تقریباً ڈیڑھ لاکھ ہے لیکن ارتقا برابر جاری ہے اس سے پہلے کہ آبادی بڑھ جائے اور قرض کی فی فرد حصے میں کمی واقع ہو تقریباً اس سے دگنا اضافہ ہو چکا ہو گا یعنی جو ابھی ''پہنچے'' بھی نہیں ہیں ان کے حصے کا قرض بھی لے کر ہڑپا گیا ہو گا کیوں کہ یہ لوگ بڑا ہی ''قرض ہضم'' قسم کا چورن کھاتے ہیں کہ ایک ڈکار یہاں ''کھانے'' کے بعد لیتے ہیں اور دوسری ڈکار ہضم ہونے پر سوئٹزر لینڈ وغیرہ میں لیتے ہیں۔
اس سے ثابت ہوا کہ اقوال زرین بے شک سر آنکھوں پر لیکن جن کی ایکسپائری ڈیٹ گزر چکی ہے وہ تو استعمال ہو ہی نہیں سکتے البتہ کچھ اقوال زرین ایسے ہیں جو پورے کے پورے تو ازکار رفتہ نہیں ہوئے ہیں لیکن پھر بھی کچھ مرمت اور مینٹینس چاہتے ہیں، مثلاً ''علم'' کے متعلق جو اقوال زرین کا جو پیکیج ہے کہ ''علم بڑی دولت ہے'' دولت چھن سکتی ہے چوری ہو سکتی ہے لیکن علم نہ چھن سکتا ہے نہ چوری ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس میں کمی آ سکتی ہے بل کہ خرچ کرنے سے اور زیادہ بڑھتا ہے جیسا کہ رحمان بابا نے کہا ہے کہ کنوئیں کا پانی جتنا نکالا جائے اتنا ہی بڑھتا چلا جاتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ رحمان بابا کے زمانے میں ایسے کتے نہیں ہوا کرتے تھے جو کنوؤں میں گرتے ہیں اور جن سے کنواں ناقابل استعمال ہو جاتا تھا۔
وہ قصہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا کہ ایک شخص نے مولوی صاحب سے پوچھا کہ میرے کنوئیں میں بلی گر گئی ہے پانی کے کتنے ڈول نکالنا ہوں گے، مولوی صاحب نے بتایا کہ دو سو ڈول نکال دو، وہ شخص چلا گیا اور شام سے پہلے آکر مولوی صاحب سے بولا دو سو کے بجائے میں نے تین سو ڈول نکال لیے اب تو کنواں صاف ہو گیا ہے نا ... مولوی صاحب نے کہا ہاں بالکل صاف ہو گیا ہے، وہ آدمی جاتے جاتے پھر پلٹ آیا اور پوچھا... مولوی صاحب اس بلی کا کیا کروں؟ مولوی صاحب نے پوچھا کون سی بلی؟ بولا وہ جو کنوئیں میں پڑی ہوئی ہے؟ اور آج کل تو آپ جانتے ہیں کہ بلیاں ویسے بھی زیادہ ہو گئی ہیں کیوں کہ ایک تو گوشت بہت ہے اور ان کی چوکیداری کے لیے ''بلے بلیوں'' کی ضرورت ہوتی ہے، دوسرے یہ کہ کنوئیں بھی اب وہ نہیں رہے جن کا پانی لامحدود ہوتا تھا واٹر لیول بہت نیچے چلا گیا ہے اس لیے کنوؤں کے بجائے ٹیوب ویل کھودنا پڑتے ہیں، اس لیے تمام اقوال زرین کو ویسا ہی مٹا دیا جائے جیسا خود علم کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے اور اس کے سنگھاسن پر تعلیم کو بٹھا دیا گیا ہے۔