مطالعہ قرآن کی ضرورت
آج ہم نے قرآن پاک کو صرف حلف اٹھانے اور اپنی الماریوں میں سجانے کے لیے رکھ دیاہے.
ایک بزرگ اپنے نوجوان پوتے کے ساتھ پہاڑوںپر رہا کر تے تھے۔ وہ ہر صبح باقاعدگی سے قرآن پاک کی تلاوت کیا کر تے ۔
ان کے پوتے کی خواہش تھی کہ وہ بھی ان جیسا بنیں۔ ایک دن پوتا کہنے لگا،دادا جان، میں بھی آپ کی طرح قرآن پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی اور جو سمجھ آتی ہے جیسے ہی میں قرآن پاک بند کر تاہوں میں بھول جاتا ہوں ۔ا یسے قرآن پڑھنے سے ہم کیا سیکھتے ہیں، مجھے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ دادا جان نے خاموشی سے کوئلوں والی ٹوکری میں سے کوئلہ نکال کر انگیٹھی میں ڈالا اور جواب میں ٹوکری پوتے کو دے کر کہا ، جائوپہاڑ کے نیچے ندی سے مجھے پانی کی ایک ٹوکری بھر کر لا دو ۔ لڑکے نے داد کی بات پر عمل کیا لیکن گھر واپس پہنچنے تک تمام پانی ٹوکری میں سے بہہ گیا ۔ دادا جان مسکرائے اور کہا دوبارہ جائو اور اس مرتبہ تیز قدم اُٹھانا اور جلدی کرنا ۔ اگلی بار لڑکا بہت تیز بھاگا لیکن گھر پہنچنے تک ٹوکری پھر خالی تھی ۔ پھولی ہوئی سانسوں سے اس نے دادا سے کہا کہ ٹوکری میں پانی لانا ناممکن ہے۔
اگر آپ کہیں تو میں بالٹی میں پانی لے آتا ہوں۔ دادا نے کہا ، مجھے پانی کی بالٹی نہیں پانی کی ٹوکری چاہئے ، تم ٹھیک سے کوشش نہیں کر رہے ہو اور اسے پھر سے نیچے بھیج کر دروازے میں کھڑے ہو کر دیکھنے لگا کہ وہ کتنی کوشش کرتا ہے۔ لڑکے کوپتا تھا کہ یہ ناممکن ہے لیکن دادا کو دکھانے کے لیے اس نے ٹوکری پانی سے بھری اور انتہائی سرعت سے واپس دوڑا ۔ واپس پہنچنے تک ٹوکری میں سے پانی بہہ چکا تھا اور وہ خالی ہو چکی تھی ۔ لڑکے نے کہا ، دیکھا دادا جان یہ بے سود ہے ۔ داد نے کہا ذراٹوکری کی طرف دیکھو۔ لڑکے نے غور سے جب ٹوکری کی طرف دیکھا تو اسے پہلی بار احساس ہوا کہ ٹوکری پہلے سے مختلف تھی ۔
اب وہ پرانی اور گندی ٹوکری کی جگہ اندر اور باہر سے صاف ستھری ہو چکی تھی ۔ دادا نے کہا ۔ بیٹا جب ہم قرآن پاک پڑھتے ہیں ، چاہے ہم اس کا ایک لفظ بھی سمجھ نہ پارہے ہوں یا یاد نہ کر پارہے ہوں پھر بھی اس کی تلاوت ہمیں اندر اور باہر سے ایسے ہی پاک صاف کر دیتی ہے جس طرح پانی نے اس ٹوکری کو صاف کیا ہے ۔ ہم بھلے ہی قرآن پاک کو سمجھ نہ پارہے ہوں لیکن اس کا نور ہمارے دلوں کو پاک و صاف کر تا ہے اور پھر اُس روشنی کا عکس ہمارے اعمال کے ذریعے سامنے آتا ہے ۔ افسوس کہ آج ہم نے قرآن پاک کو صرف حلف اٹھانے اور اپنی الماریوں میں سجانے کے لیے رکھ دیاہے اور اس سے وہ تربیت اور مسائل سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کر رہے جو ہمیں باقی دنیا سے منفرد بنا سکتی ہے
ان کے پوتے کی خواہش تھی کہ وہ بھی ان جیسا بنیں۔ ایک دن پوتا کہنے لگا،دادا جان، میں بھی آپ کی طرح قرآن پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی اور جو سمجھ آتی ہے جیسے ہی میں قرآن پاک بند کر تاہوں میں بھول جاتا ہوں ۔ا یسے قرآن پڑھنے سے ہم کیا سیکھتے ہیں، مجھے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ دادا جان نے خاموشی سے کوئلوں والی ٹوکری میں سے کوئلہ نکال کر انگیٹھی میں ڈالا اور جواب میں ٹوکری پوتے کو دے کر کہا ، جائوپہاڑ کے نیچے ندی سے مجھے پانی کی ایک ٹوکری بھر کر لا دو ۔ لڑکے نے داد کی بات پر عمل کیا لیکن گھر واپس پہنچنے تک تمام پانی ٹوکری میں سے بہہ گیا ۔ دادا جان مسکرائے اور کہا دوبارہ جائو اور اس مرتبہ تیز قدم اُٹھانا اور جلدی کرنا ۔ اگلی بار لڑکا بہت تیز بھاگا لیکن گھر پہنچنے تک ٹوکری پھر خالی تھی ۔ پھولی ہوئی سانسوں سے اس نے دادا سے کہا کہ ٹوکری میں پانی لانا ناممکن ہے۔
اگر آپ کہیں تو میں بالٹی میں پانی لے آتا ہوں۔ دادا نے کہا ، مجھے پانی کی بالٹی نہیں پانی کی ٹوکری چاہئے ، تم ٹھیک سے کوشش نہیں کر رہے ہو اور اسے پھر سے نیچے بھیج کر دروازے میں کھڑے ہو کر دیکھنے لگا کہ وہ کتنی کوشش کرتا ہے۔ لڑکے کوپتا تھا کہ یہ ناممکن ہے لیکن دادا کو دکھانے کے لیے اس نے ٹوکری پانی سے بھری اور انتہائی سرعت سے واپس دوڑا ۔ واپس پہنچنے تک ٹوکری میں سے پانی بہہ چکا تھا اور وہ خالی ہو چکی تھی ۔ لڑکے نے کہا ، دیکھا دادا جان یہ بے سود ہے ۔ داد نے کہا ذراٹوکری کی طرف دیکھو۔ لڑکے نے غور سے جب ٹوکری کی طرف دیکھا تو اسے پہلی بار احساس ہوا کہ ٹوکری پہلے سے مختلف تھی ۔
اب وہ پرانی اور گندی ٹوکری کی جگہ اندر اور باہر سے صاف ستھری ہو چکی تھی ۔ دادا نے کہا ۔ بیٹا جب ہم قرآن پاک پڑھتے ہیں ، چاہے ہم اس کا ایک لفظ بھی سمجھ نہ پارہے ہوں یا یاد نہ کر پارہے ہوں پھر بھی اس کی تلاوت ہمیں اندر اور باہر سے ایسے ہی پاک صاف کر دیتی ہے جس طرح پانی نے اس ٹوکری کو صاف کیا ہے ۔ ہم بھلے ہی قرآن پاک کو سمجھ نہ پارہے ہوں لیکن اس کا نور ہمارے دلوں کو پاک و صاف کر تا ہے اور پھر اُس روشنی کا عکس ہمارے اعمال کے ذریعے سامنے آتا ہے ۔ افسوس کہ آج ہم نے قرآن پاک کو صرف حلف اٹھانے اور اپنی الماریوں میں سجانے کے لیے رکھ دیاہے اور اس سے وہ تربیت اور مسائل سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کر رہے جو ہمیں باقی دنیا سے منفرد بنا سکتی ہے