بشارالاسد بند گلی میں

بشار الاسد کو کسی غلط فہمی میں رہنے کے بجائے نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے کہ ان کی حکومت کا اختتام روز بروز قریب آرہاہے۔

عرب ممالک بھی اب بشار الاسد حکومت کا ساتھ نہیں دے رہے. فوٹو: اے اہف پی

مراکش میں فرینڈز آف سیریا کے (شام کے دوست ممالک) ایک اجلاس کے دوران امریکا، یورپ اور عرب ممالک سمیت 114 ممالک نے شامی صدر بشار الاسد کی مخالفت کرتے ہوئے شام کے اپوزیشن اتحاد کو عوام کا حقیقی تسلیم کر لیا ہے۔ یہ اجلاس اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ عالمی برادری کی بھاری اکثریت نے شامی صدر بشار الاسد کی مخالفت کرتے ہوئے، ان سے اقتدار سے علیحدگی کا مطالبہ کیا ہے۔

نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ عرب ممالک بھی اب بشار الاسد حکومت کا ساتھ نہیں دے رہے جس کا واضح ثبوت مراکشی وزیر خارجہ کا یہ اعلان ہے کہ شام کے دوست ممالک نے اپوزیشن اتحاد کو شامی عوام کا حقیقی نمایندہ تسلیم کرتے ہوئے بشارالاسد سے حکومت سے علیحدگی کا مطالبہ کیا ہے۔ اب شام کے صدر بشار الاسد کو کسی غلط فہمی میں رہنے کے بجائے نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے کہ اب ان کی حکومت کا اختتام روز بروز قریب آرہا اور اندرون اور بیرون ملک ان کی مخالفت میں شدت آتی جا رہی ہے۔ انھیں عراق اور لیبیا کے حکمرانوں کا انجام نہیں بھولنا چاہیے۔ اقتدار سے چمٹے رہنے کی ضد سے نہ صرف شام میں جاری خانہ جنگی سے مزید تباہی پھیلے گی اور ہلاکتوں میں اضافہ ہو گا بلکہ بشارالاسد کے خلاف عوامی سطح پر نفرت اور انتقام بھی بڑھتا چلا جائے گا۔


جس ملک میں بھی بڑی عالمی قوتیں ملوث ہوئیں وہاں بدامنی' انتشار اور افراتفری پھیلی اور حکمران بالآخر عبرت ناک انجام سے دوچار ہوئے۔ اس وقت ایران' روس اور چین شام کا ساتھ دے رہے ہیں۔ روس نے مراکش اجلاس کے فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ کیا دو چار ممالک کی حمایت عالمی مخالفت کی راہ میں دیوار بنتے ہوئے صدر بشار الاسد کی حکومت بچا لے گی۔ شاید ایسا ممکن نہ ہو کیونکہ پورا شام خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے اور حکومت مخالف فری سیریئین آرمی سرکاری فوجوں کا بھرپور مقابلہ کرتے ہوئے انھیں شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ صورتحال اس قدر گمبھیر ہے کہ سرکاری فوجوں میں سے بھی سیکڑوں اہلکار منحرف ہو کر باغیوں کے ساتھ مل کرحکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ وہاں روز دھماکے ہو رہے ہیں۔ بدھ کو روز باغیوں نے وزارت خزانہ اور وزارت انصاف کی عمارتوں کے قریب دھماکے کیے جن میں متعدد افراد ہلاک و زخمی ہو گئے۔

متعدد علاقے شامی حکومت کے ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں جب کہ حکومت مخالف فری سیریئین آرمی ملک کے 80فیصد علاقے پر قبضے کا دعویٰ کر رہی ہے۔سرکاری فوج کے لیے سوائے دمشق کے تمام علاقوں میں زمین تنگ ہو چکی ہے۔ صدر بشار الاسد یہ الزام عائد کرتے آ رہے ہیں کہ امریکا سمیت دیگر عالمی قوتیں شام کے بحران میں ملوث ہیں۔ مراکش اجلاس سے بھی صورتحال نمایاں ہو گئی ہے، امریکا سمیت دیگر عالمی قوتیں حتیٰ کہ عرب ممالک بھی بشار الاسد حکومت کے خلاف کھل کر میدان میں آ گئے اور ان سے حکومت چھوڑنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بشار الاسد کو بھی اب یہ ادراک کر لینا چاہیے کہ وہ زیادہ دیر تک عالمی قوتوں کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے بالآخر انھیں ہتھیار ڈالنا ہی پڑیں گے۔ اس سے پہلے کہ بشار الاسد کسی عبرت انگیز انجام سے دوچار ہوں، انھیں حکومت سے الگ ہو جانا چاہیے، اسی میں ان کی عافیت ہے اور شام بھی مزید تباہی سے بچ جائے گا۔
Load Next Story