سندھ زیادتیوں کی دلدل میں

انگریزوں نے 1843میں سندھ پر قبضے کے بعد 1847 میں اسے بمبئی پریزیڈنسی میں شامل کرکے کمشنریٹ کا درجہ دیا

muqtidakhan@hotmail.com

ISLAMABAD:
چھوٹے صوبوں کی سیاسی قیادتوں کی جانب سے چین پاک اقتصادی راہ داری(CPEC)کے بارے میں تسلسل کے ساتھ تحفظات سامنے آرہے ہیں۔ صوبہ پختون خواہ کی حکمران جماعت تحریک انصاف کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی بھی منصوبے کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔ اسفندیار ولی بار بار کہہ رہے ہیں کہ مغربی روٹ غیر واضح اور مبہم ہے۔ ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گوادر ہی بلوچستان نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی کے سینیٹر اعتزاز احسن نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میںCPECپر تنقید کرتے ہوئے، اسے چین پنجاب معاہدہ قراردیا تھا۔

اب جہاں تک سندھ کا تعلق ہے، تو اس منصوبے میں اس کے لیے کوئی خاص پیکیج نہیں ہے۔ نتیجتاًسندھ کے عوام کو کسی قسم کا فائدہ پہنچنے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ البتہ ایک بات یہ سامنے آئی ہے کہ چین گوادر سے زیادہ کراچی میں دلچسپی ظاہرکر رہا ہے جس کی وجہ سے منصوبہ میں تزویراتی ردوبدل ہوتا نظر آرہا ہے۔ ایک ایسا سیاسی سیٹ اپ لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جس کے ذریعے کراچی سمیت سندھ کے وسائل پر کنٹرول کرنا آسان ہوجائے۔ سندھ کے وسائل پر بیرونی نظریں کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ ڈیڑھ سو سال پر محیط تاریخ کا حصہ ہے۔ موجودہ صورتحال کو سمجھنے کے لیے تاریخ کا اجمالی جائزہ ضروری ہے۔

انگریزوں نے 1843میں سندھ پر قبضے کے بعد 1847 میں اسے بمبئی پریزیڈنسی میں شامل کرکے کمشنریٹ کا درجہ دیا ۔1866میں سندھ کی تاجر برادری نے شکوہ کیا کہ بمبئی کے ساتھ الحاق کے باعث ان کا کاروبار متاثر ہو رہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سندھ جس قدر رقم کما کر بمبئی پریزیڈنسی کو دیتا ہے، سندھ کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے اس رقم کا عشرعشیر بھی نہیں مل رہا۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ سندھ کی سابقہ جغرافیائی حیثیت بحال کرکے اسے مکمل صوبائی درجہ دیا جائے۔

اس مطالبے کے پیش نظر1870 میں بعض سول سرونٹس نے یہ تجویز پیش کی کہ سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کرکے پنجاب میں شامل کردیا جائے۔ اس تجویز کو سندھ کے کاشتکاروں اور زمینداروں نے رد کر دیا ۔ان کا کہنا تھا کہ پنجاب دریائے سندھ کا پانی اپنے حصے سے زیادہ استعمال کر رہا ہے جب کہ سندھ کی آب پاشی کا کلی انحصار اس دریا کے پانی پر ہے۔ پنجاب کے اس طرز عمل کی وجہ سے سندھ کی زراعت متاثر ہو رہی ہے حالانکہ Lower Riparian ہونے کی وجہ سے دریا کے پانی پر سندھ کا زیادہ حق ہے، اگر سندھ کو پنجاب میں ضم کردیا گیا، تو نئے مسائل پیدا ہوں گے۔

اسی طرح1880میں جب پنجاب میں نہری نظام قائم کرنے کا منصوبہ زیر غور آیا، تو بمبئی پریزیڈنسی کے گورنر نے پنجاب کے گورنر کو خط لکھ کر اس منصوبے کو ترک کرنے کا مشورہ دیا کیونکہ اس منصوبے کے نتیجے میں سندھ کوآب پاشی کے لیے درکار پانی نہیں مل سکے گا جس کی وجہ سے بنجر ہونے کے خدشات ہیں، مگر پنجاب کی زمیندار اشرافیہ کے دباؤ پر حکومت پنجاب نے نہری نظام کی تعمیر شروع کردی۔ نتیجتاً سندھ کو بہت بڑی خشک سالی سے بچانے کے لیے حکومت برطانیہ نے1923میں سکھر کے مقام پر بیراج تعمیر شروع کیا جو 1932میں مکمل ہوا۔ یوں سندھ کی آب پاشی کی ضروریات ممکن ہوسکیں۔

1901 میں شمال مغربی سرحدی علاقوں کو پنجاب سے جدا کر کے ایک الگ صوبہ سرحد تشکیل دیا گیا، تو پنجاب کی سیاسی اشرافیہ نے پھر دباؤ ڈالاکہ سندھ کو پنجاب میں شامل کردیا جائے۔ ان کا خیال تھا کہ سرحدی علاقوں کی علیحدگی سے پنجاب کو جومعاشی نقصان پہنچا ہے، اسے سندھ کے وسائل سے پورا کیا جاسکے گا۔

اس منصوبے کو وائسرائے ہند لارڈ کرزن نے سختی کے ساتھ رد کردیا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ اس صورت میں سندھ کا بمبئی سے بھی زیادہ استحصال ہوگا۔ 1913 میں ایک سندھی تاجر اور کانگریسی رہنما ہرچند رائے وشن داس نے کراچی میں انڈین نیشنل کانگریس کے سیشن کے موقعے پر اپنی تقریر میں سندھ کی خود مختار صوبائی حیثیت کا مطالبہ کیا، مگر کانگریسی قیادت نے اس مطالبے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔


30اپریل1919کو سندھ کے مستقبل کے بارے میں قائم کمیٹی نے چار تجاویز پیش کیں۔ ان کے مطابق:1، سندھ کو بمبئی سے الگ کرکے بلوچستان کے ساتھ ملا کر ایک نیا صوبہ تشکیل دیا جائے، جس کا انتظامی سربراہ لیفٹیننٹ گورنر ہو۔2، سندھ کو پنجاب میں ضم کردیا جائے۔3،سندھ کو بمبئی پریزیڈنسی ہی کا حصہ رہنے دیا جائے، لیکن براہ راست گورنر کے زیر اثر کردیا جائے۔4، سندھ کو مکمل صوبائی درجہ دے دیا جائے۔

اصولی طور پر اس چوتھی تجویزکو قابل عمل تصورکیا گیا۔ مگر پنجاب کی مقتدر اشرافیہ جو سندھ کو پنجاب میں ضم کرنے کی خواہشمند تھی، کی مخالفت کی وجہ سے انڈیا ایکٹ1919میں متذکرہ بالا تجویز پر عمل درآمد کا فیصلہ موخر کر دیا گیا۔ 1920 سے1930کے دوران بانی پاکستان قائد اعظم نے سندھ کو مکمل صوبے کا درجہ دینے کے مطالبے کوآل انڈیا مسلم لیگ کا ترجیحی مطالبہ بنادیا۔ نتیجتاً1935میں منظور ہونے والے انڈیا ایکٹ میں سندھ کو صوبائی درجہ دینے کی شق شامل کی گئی۔ یوں1936میں سندھ ایک مکمل صوبہ بن گیا، لیکن یہ فیصلہ اس وقت کی پنجاب کی اشرافیہ کی شدید ناگواری کا سبب بنا۔

سندھ کی سیاسی قیادت کو یہ امید تھی کہ نیا قائم ہونے والا ملک وفاقی ہوگا، جس میں تمام وفاقی یونٹوں کو مساوی مقام حاصل ہوگا، اس لیے انھوں نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، لیکن قیام پاکستان کے فوراً بعد سندھ کو مسلسل کئی صدمات سہنا پڑے۔ پہلا صدمہ یہ تھا کہ مسلم لیگ کی قیادت نے سندھ اسمبلی کو اعتماد میں لیے بغیر اس کے مرکزی شہر اور دارالحکومت کراچی کو ملک کا وفاقی دارالحکومت بنادیا۔ دوسرا صدمہ یہ تھا کہ کراچی کے سندھی ہندو جواپنا شہر چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھے، انھیں جبراً ملک بدرکیا گیا اور ان کی جگہ ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آنے والوں کو آباد کیا گیا۔

تیسرا صدمہ 1955میں ون یونٹ کا قیام تھا جسے بظاہر بنگال کے ساتھ پیرٹی (برابری) کے اصول کا نتیجہ کہا جاتا ہے، مگر اصل مقصد سندھ کے وسائل پر قبضہ کرنا تھا۔ جس کی ایک مثال یہ ہے کہ قیام پاکستان سے قبل پورٹ کی آمدنی کراچی میونسپل کارپوریشن کو ملتی تھی، جس پر قیام پاکستان کے بعد وفاقی حکومت نے قبضہ کرلیا۔ دوسرے سندھ کے کوئلے، گیس اور تیل کے ذخائر پر بھی وفاق قابض ہوگیا۔

ون یونٹ کے نام پر پورے مغربی پاکستان کے لوگوں کا رخ بلا کسی روک ٹوک سندھ کی طرف ہوگیا۔ نتیجتاً سندھی اپنے ہی صوبے میں اقلیت ہونے لگے۔ اپنے ہی وطن میں سندھیوں کی زبان، ثقافت اور تاریخ سبھی زیر عتاب آگئے۔ حد یہ کہ جو خطہ 8ہزار برس پر محیط شاندار تہذیبی ورثہ رکھتا ہے، اس کی تاریخ کو محمد بن قاسم کی آمد سے مشروط کردیا گیا۔ ساتھ ہی پورے صوبے میں سندھی میڈیم اسکولوں کو بند کرکے ایک اور ستم ڈھایا گیا جس کسی نے اس بندوبست کی مخالفت کی اس پر ملک دشمنی کا الزام لگا۔

بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پنجاب جو19ویں صدی کے وسط سے سندھ کو اپنے اندر ضم کرکے اس کے وسائل پر کنٹرول حاصل کرنے کا خواہشمند تھا، قیام پاکستان نے اسے یہ موقع فراہم کردیا ۔ ون یونٹ کے قیام سے نہ صرف سندھ کے وسائل پر قبضہ آسان ہوگیا، بلکہ پنجاب اور پختونخواہ سے آبادی کا سندھ کی طرف بہاؤ کا ایک نیا سلسلہ بھی شروع ہوگیا، جو ہنوز جاری ہے۔

ہندوستان کے مختلف صوبوں سے آنے والوں کی اکثریت مڈل اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی تھی۔اس کی زندگی کا محورومقصود سرکاری ملازمتوں کا حصول تھا۔اس لیے انھیں نہ تو سیاست سے کوئی دلچسپی تھی اور نہ ہی سیاسی نزاکتوں کو سمجھنے کی خواہش۔ البتہ بیورو کریسی کے اعلیٰ افسران اور معدوے چند سیاستدانوں نے اپنے مخصوص مفادات کی خاطر پنجاب کی مقتدر اشرافیہ کے ساتھ مل کر سندھیوں کے استحصال کا نیاسلسلہ شروع کیا۔نتیجتاًسندھی اپنے ہی صوبے میں اقلیت بنائے جانے لگے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

بعض حلقوں کی اس رائے میں وزن معلوم ہوتا ہے کہ1992کی طرح حالیہ کراچی آپریشن کے اصل مقاصد وہ نہیں ہیں، جو بیان کیے جارہے ہیں۔ سارا کھیل سندھ کے وسائل پر مکمل اختیارحاصل کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔اس مقصد کے لیے صوبے کے سب سے بڑے شہر کے مینڈیٹ کو منقسم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ شہر میں سرگرم مختلف مافیوں(جن کا تعلق دوسرے صوبوں سے ہے) کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے بجائے اربن سندھ کی نمایندہ جماعت کو نشانہ بناکر تقسیم درتقسیم کا شکارکیاجارہا ہے، تاکہ انھیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال ہونے پر مجبورکیا جاسکے۔
Load Next Story