موسیقی اور کلچر
گانے والے کو میراثی کہتے ہیں حالانکہ موسیقی ایک وسیع علم اور فن ہے۔
عبدالشہزاد نے موسیقی کے بارے میں معاشرتی نقطہ نظر کو ایک ایسا معاشرتی اور ادبی مسئلہ قرار دیا ہے جس میں وہ تبدیلی لانے کی ضرورت سمجھتے ہیں۔ اس نقطہ نظر کے تحت موسیقی اور اس فن سے تعلق رکھنے والوں کے بارے میں معاشرے کا جو عمومی رویہ ہے وہ بھی ان کے خیال میں مناسب نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں یہ ایک عجب تضاد ہے کہ لوگ گانے کو تو پسند کرتے ہیں اور گانے والے کو بھی، لیکن اسے وہ عزت نہیں دیتے جو ایک فنکار کو دی جانی چاہیے۔
وہ گانے والے کو میراثی کہتے ہیں حالانکہ موسیقی ایک وسیع علم اور فن ہے جب کہ لفظ میراثی جو عربی زبان کا ایک لفظ ہے، میراث کا اسم نسبت ہے۔ موسیقی کے سُر گیت ہی میں نہیں حمد، نعت اور مرثیہ میں بھی اثر رکھتے ہیں۔ ان سروں میں ایسی اثر پذیری ہے کہ اس سے معاشرتی اقدار کو سنوارا یا بگاڑا جاسکتا ہے۔ ملی نغمے اور جنگی ترانے جب فضاؤں میں گونجتے ہیں تو سننے والوں کے دل میں قوم و ملک سے محبت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ آقائے دو جہاںؐ جب مکہ سے مدینہ تشریف لائے تو معصوم بچیوں نے دف بجا کر اور ترنم سے اشعار کہہ کر آپؐ کا استقبال کیا۔ وہ کہہ رہی تھیں۔
''ثنیات الوداع سے چودھویں کا چاند ہم پر طلوع ہوا ہے، جب تک اﷲ کو پکارنے والا اس کو پکارتا رہے گا، ہم پر واجب ہے کہ ہم اس نعمت کا شکر ادا کرتے رہیں، اے نبی! بن کر ہمارے پاس تشریف لانے والے' آپ اس طرح تشریف لے آئے ہیں کہ آپ کے ہر حکم کی اطاعت کی جائے گی۔''
جب سرکار دو عالمؐ کی اونٹنی بنی مالک بن نجار کے محلے میں پہنچ کر اس جگہ بیٹھ گئی جہاں اب مسجد نبوی ہے تو پل بھر میں بنی نجار کی بچیاں دف لے کر یہ گاتی ہوئی اپنے محبوب اور جلیل القدر مہمان کو خوش آمدید کہنے کے لیے جمع ہوگئیں۔
''ہم بنو نجار کی بچیاں ہیں، یا محمدؐ! (آپ پر ہمارے ماں باپ قربان) آپ کتنے اچھے پڑوسی ہیں۔''
حضورؐ نے پوچھا: ''کیا واقعی تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟'' بچیوں نے جواب دیا: ''جی ہاں، یا رسول اللہؐ! ہم آپ سے محبت کرتے ہیں۔''
حضورؐ نے فرمایا: ''واﷲ! میں بھی تم سے محبت کرتا ہوں۔''
عبدالشہزاد لکھتے ہیں کہ آواز کا اتار چڑھاؤ سُر کہلاتا ہے۔ سریلے پن کی اہمیت کا اندازہ مولانا رومیؒ کی ایک حکایت سے بھی لگایا جاسکتا ہے جو یہ ہے کہ کسی گاؤں کی مسجد میں جو موذن تھا اس کی آواز بڑی کرخت تھی۔ گاؤں کے لوگ اس سے بہت تنگ تھے، لیکن اس سے کچھ کہنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے اس سے گلوخلاصی حاصل کرنے کے لیے ایک معقول رقم جمع کرکے اسے حج پر بھیج دیا۔ سفر کے دوران وہ ایک گاؤں میں پہنچا۔ اس زمانے کی روایت کے مطابق مسجد میں قیام پذیر ہوا۔ نماز کا وقت ہوا تو کھڑے ہوکر اذان دی۔ امام صاحب بھی آگئے اور نمازی بھی اکٹھے ہوگئے۔ نماز ختم ہوئی تو لوگوں نے مہمان نوازی کی پیشکش کی۔
اسی وقت گاؤں کا ایک بڑا مال دار شخص مسجد میں داخل ہوا۔ وہ مذہباً آتش پرست تھا۔ لوگ اسے دیکھ کر حیران ہوئے، وہ شخص آگے بڑھا اور موذن کے ہاتھ چوم کر اسے کچھ قیمتی تحفے پیش کیے۔ لوگوں کو مزید حیرانی ہوئی اور وہ اس سے یہ پوچھے بغیر نہ رہ سکے کہ وہ ایک اجنبی مسلمان پر اس قدر مہربان کیوں ہورہا ہے؟ آتش پرست بولا کہ میری بیٹی اپنا مذہب چھوڑ کر مسلمان ہونا چاہتی تھی۔ ایک عرصے سے ہمارے گھر میں اس پر ایک جھگڑا ہورہا تھا وہ ہر روز غور سے اذان کو سنتی تھی اور اس کا دل اس طرف مائل ہوتا تھا، آج اس شخص کی اذان سن کر اس نے مسلمان ہونے کا اپنا ارادہ ترک کردیا۔ اس کے لیے ہم اس شخص کے شکر گزار ہیں اور یہ تحفے ہماری احسان مندی کا اظہار ہیں۔''
عبدالشہزاد کا کہنا ہے کہ سُر موسیقی کی جان ہے اور موسیقی آرٹ اور ادب کی طرح ہمارے کلچر کا حصہ ہے۔ اس لیے سر سنگیت کو اور اس فن کے ماہروں کو تحقیر کی نگاہ سے دیکھنا کسی طرح درست نہیں۔ آرٹ اور ادب کی مانند موسیقی بھی ایک تخلیقی عمل ہے اور صدیوں سے یہ عمل جاری ہے اور اس میں اصلاحات ہورہی ہیں۔
وہ لکھتے ہیں ''معیاری ادب اور فنون لطیفہ کی شاخیں انفرادی طور پر انسانوں اور اجتماعی طور پر معاشروں میں خرد افروزی اور روشن فکر پیدا کرنے میں معاون ہوتے ہیں، نیز فنون لطیفہ فطرت کے خوبصورت پہلوؤں سے شناسائی کا ذریعہ بھی ہے مگر تخلیقی آرٹ اور فنون لطیفہ خصوصاً موسیقی کے متعلق ہمارے معاشرے میں منفی سوچ پائی جاتی ہے۔''
اسی طرح کا منفی رویہ فن موسیقی سے وابستہ افراد کے بارے میں بھی ہمارے معاشرے میں پایا جاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ ان افراد کو مراثی کہتا ہے اور لاعلمی کی وجہ سے اس لفظ کا مفہوم ہمارے ہاں گھٹیا معنوں میں لیا جاتا ہے۔ مراثی اور مراسی، عربی زبان کے الفاظ ہیں۔ عربی لغت میں ان الفاظ کے معنی وہ نہیں ہیں جو ہمارے ہاں عام طور پر سمجھے جاتے ہیں۔ لفظ مراثی میراث سے منسوب ہے۔ مراثی لفظ میراث کا اسم نسبت ہے لیکن عرب مراثی کا لفظ استعمال نہیں کرتے۔ رسول اللہؐ کے مبارک زمانے سے تقسیم میراث کے متنازعہ معاملات نمٹانے کے لیے ''دیوان المیراث'' کے نام سے ایک محکمہ کام کرتا تھا۔
عبدالشہزاد لکھتے ہیں ''فعال معاشرے اپنے فنکاروں کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی میں ہمہ وقت مستعد رہتے ہیں اور معاشرے کو اس طرف مائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ پرفارمنگ آرٹس کو صرف اور صرف کلچر کے نقطہ نظر سے دیکھے اور فنکاروں، موسیقاروں اور تخلیق کاروں کو فنکارانہ مقام دینا اور قبول کرنا شروع کردے۔ ہمیں بھی یہ کرنا ہوگا۔ ہمیں لغت میں درج لفظ مراثی کے املا اور اس کے معنی پر بھی نظرثانی کرنا ہوگی۔ ہمارے ادیبوں اور دانش وروں کو یہ بات اجاگر کرنا پڑے گی کہ مراثی اور مراسی عربی زبان کے الفاظ ہیں نہ کسی کی ذات سے اور نہ ہی گانے اور جگت بازی کرنیوالوں سے ان الفاظ کا کوئی تعلق بنتا ہے۔''
جہاں تک کلچر کا تعلق ہے تو اس کے معنی بہت وسیع ہیں۔ ہر وہ سرگرمی جو انسان کو ایک دوسرے سے یکجا کرتی ہے کلچر میں شامل اور فنون لطیفہ کا شعبہ موسیقی بھی کلچر میں شامل ہے۔ کلچر سے معاشرے کی پہچان ہوتی ہے، کیونکہ ہر معاشرے کا اپنا ایک علیحدہ کلچر ہوتا ہے اور وہ معاشرے کی ثقافتی زندگی کے عناصر کے بارے میں افراد کا انفرادی اور اجتماعی رویہ وجود میں آتا ہے۔ پروفیسر مرزا محمد منور نے اپنے ایک مضمون میں ہشام بن عبدالملک کے عہد کا ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ ہشام نے حدود سلطنت میں گانے بجانے کی ممانعت کردی تھی۔ جو شخص اس حکم کی خلاف ورزی کرتا اس کو سزا ملتی تھی۔
چونکہ گانے بجانے کا ذوق و شوق معاشرے کو متعدی بیماری کی طرح لاحق ہورہا تھا اس لیے ہشام نے ایسا شدید اقدام ضروری جانا تھا۔ بہرحال ایک روز ایک بوڑھا ہشام کی مجلس میں لایا گیا اور اس کے بارے میں شکایت کی گئی کہ بارہا سرزنش کے باوجود وہ گانے بجانے سے باز نہیں آتا ہے۔ ہشام نے حکم دیا کہ اس کے ہاتھ میں جو طنبورہ ہے وہی اس کے سر پر مارو۔ حکم کی تعمیل ہوئی، بوڑھا خاموش بیٹھا رہا، نہ معذرت کی، نہ فریاد۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ رونے لگا۔ ہشام حیران ہوا کہ اب تک خاموش بیٹھے رہنے کے بعد یہ اچانک کیوں رونے لگا؟ اس نے بوڑھے سے پوچھا: ''کیا ہوا کیوں رو رہا ہے؟'' بوڑھے نے جواب دیا: ''میں اس لیے رو رہا ہوں کہ جب امیرالمومنین بربط کو طنبورہ کہہ رہے ہیں تو باقی قوم کی بدذوقی کا کیا حال ہوگا؟''
وہ گانے والے کو میراثی کہتے ہیں حالانکہ موسیقی ایک وسیع علم اور فن ہے جب کہ لفظ میراثی جو عربی زبان کا ایک لفظ ہے، میراث کا اسم نسبت ہے۔ موسیقی کے سُر گیت ہی میں نہیں حمد، نعت اور مرثیہ میں بھی اثر رکھتے ہیں۔ ان سروں میں ایسی اثر پذیری ہے کہ اس سے معاشرتی اقدار کو سنوارا یا بگاڑا جاسکتا ہے۔ ملی نغمے اور جنگی ترانے جب فضاؤں میں گونجتے ہیں تو سننے والوں کے دل میں قوم و ملک سے محبت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ آقائے دو جہاںؐ جب مکہ سے مدینہ تشریف لائے تو معصوم بچیوں نے دف بجا کر اور ترنم سے اشعار کہہ کر آپؐ کا استقبال کیا۔ وہ کہہ رہی تھیں۔
''ثنیات الوداع سے چودھویں کا چاند ہم پر طلوع ہوا ہے، جب تک اﷲ کو پکارنے والا اس کو پکارتا رہے گا، ہم پر واجب ہے کہ ہم اس نعمت کا شکر ادا کرتے رہیں، اے نبی! بن کر ہمارے پاس تشریف لانے والے' آپ اس طرح تشریف لے آئے ہیں کہ آپ کے ہر حکم کی اطاعت کی جائے گی۔''
جب سرکار دو عالمؐ کی اونٹنی بنی مالک بن نجار کے محلے میں پہنچ کر اس جگہ بیٹھ گئی جہاں اب مسجد نبوی ہے تو پل بھر میں بنی نجار کی بچیاں دف لے کر یہ گاتی ہوئی اپنے محبوب اور جلیل القدر مہمان کو خوش آمدید کہنے کے لیے جمع ہوگئیں۔
''ہم بنو نجار کی بچیاں ہیں، یا محمدؐ! (آپ پر ہمارے ماں باپ قربان) آپ کتنے اچھے پڑوسی ہیں۔''
حضورؐ نے پوچھا: ''کیا واقعی تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟'' بچیوں نے جواب دیا: ''جی ہاں، یا رسول اللہؐ! ہم آپ سے محبت کرتے ہیں۔''
حضورؐ نے فرمایا: ''واﷲ! میں بھی تم سے محبت کرتا ہوں۔''
عبدالشہزاد لکھتے ہیں کہ آواز کا اتار چڑھاؤ سُر کہلاتا ہے۔ سریلے پن کی اہمیت کا اندازہ مولانا رومیؒ کی ایک حکایت سے بھی لگایا جاسکتا ہے جو یہ ہے کہ کسی گاؤں کی مسجد میں جو موذن تھا اس کی آواز بڑی کرخت تھی۔ گاؤں کے لوگ اس سے بہت تنگ تھے، لیکن اس سے کچھ کہنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے اس سے گلوخلاصی حاصل کرنے کے لیے ایک معقول رقم جمع کرکے اسے حج پر بھیج دیا۔ سفر کے دوران وہ ایک گاؤں میں پہنچا۔ اس زمانے کی روایت کے مطابق مسجد میں قیام پذیر ہوا۔ نماز کا وقت ہوا تو کھڑے ہوکر اذان دی۔ امام صاحب بھی آگئے اور نمازی بھی اکٹھے ہوگئے۔ نماز ختم ہوئی تو لوگوں نے مہمان نوازی کی پیشکش کی۔
اسی وقت گاؤں کا ایک بڑا مال دار شخص مسجد میں داخل ہوا۔ وہ مذہباً آتش پرست تھا۔ لوگ اسے دیکھ کر حیران ہوئے، وہ شخص آگے بڑھا اور موذن کے ہاتھ چوم کر اسے کچھ قیمتی تحفے پیش کیے۔ لوگوں کو مزید حیرانی ہوئی اور وہ اس سے یہ پوچھے بغیر نہ رہ سکے کہ وہ ایک اجنبی مسلمان پر اس قدر مہربان کیوں ہورہا ہے؟ آتش پرست بولا کہ میری بیٹی اپنا مذہب چھوڑ کر مسلمان ہونا چاہتی تھی۔ ایک عرصے سے ہمارے گھر میں اس پر ایک جھگڑا ہورہا تھا وہ ہر روز غور سے اذان کو سنتی تھی اور اس کا دل اس طرف مائل ہوتا تھا، آج اس شخص کی اذان سن کر اس نے مسلمان ہونے کا اپنا ارادہ ترک کردیا۔ اس کے لیے ہم اس شخص کے شکر گزار ہیں اور یہ تحفے ہماری احسان مندی کا اظہار ہیں۔''
عبدالشہزاد کا کہنا ہے کہ سُر موسیقی کی جان ہے اور موسیقی آرٹ اور ادب کی طرح ہمارے کلچر کا حصہ ہے۔ اس لیے سر سنگیت کو اور اس فن کے ماہروں کو تحقیر کی نگاہ سے دیکھنا کسی طرح درست نہیں۔ آرٹ اور ادب کی مانند موسیقی بھی ایک تخلیقی عمل ہے اور صدیوں سے یہ عمل جاری ہے اور اس میں اصلاحات ہورہی ہیں۔
وہ لکھتے ہیں ''معیاری ادب اور فنون لطیفہ کی شاخیں انفرادی طور پر انسانوں اور اجتماعی طور پر معاشروں میں خرد افروزی اور روشن فکر پیدا کرنے میں معاون ہوتے ہیں، نیز فنون لطیفہ فطرت کے خوبصورت پہلوؤں سے شناسائی کا ذریعہ بھی ہے مگر تخلیقی آرٹ اور فنون لطیفہ خصوصاً موسیقی کے متعلق ہمارے معاشرے میں منفی سوچ پائی جاتی ہے۔''
اسی طرح کا منفی رویہ فن موسیقی سے وابستہ افراد کے بارے میں بھی ہمارے معاشرے میں پایا جاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ ان افراد کو مراثی کہتا ہے اور لاعلمی کی وجہ سے اس لفظ کا مفہوم ہمارے ہاں گھٹیا معنوں میں لیا جاتا ہے۔ مراثی اور مراسی، عربی زبان کے الفاظ ہیں۔ عربی لغت میں ان الفاظ کے معنی وہ نہیں ہیں جو ہمارے ہاں عام طور پر سمجھے جاتے ہیں۔ لفظ مراثی میراث سے منسوب ہے۔ مراثی لفظ میراث کا اسم نسبت ہے لیکن عرب مراثی کا لفظ استعمال نہیں کرتے۔ رسول اللہؐ کے مبارک زمانے سے تقسیم میراث کے متنازعہ معاملات نمٹانے کے لیے ''دیوان المیراث'' کے نام سے ایک محکمہ کام کرتا تھا۔
عبدالشہزاد لکھتے ہیں ''فعال معاشرے اپنے فنکاروں کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی میں ہمہ وقت مستعد رہتے ہیں اور معاشرے کو اس طرف مائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ پرفارمنگ آرٹس کو صرف اور صرف کلچر کے نقطہ نظر سے دیکھے اور فنکاروں، موسیقاروں اور تخلیق کاروں کو فنکارانہ مقام دینا اور قبول کرنا شروع کردے۔ ہمیں بھی یہ کرنا ہوگا۔ ہمیں لغت میں درج لفظ مراثی کے املا اور اس کے معنی پر بھی نظرثانی کرنا ہوگی۔ ہمارے ادیبوں اور دانش وروں کو یہ بات اجاگر کرنا پڑے گی کہ مراثی اور مراسی عربی زبان کے الفاظ ہیں نہ کسی کی ذات سے اور نہ ہی گانے اور جگت بازی کرنیوالوں سے ان الفاظ کا کوئی تعلق بنتا ہے۔''
جہاں تک کلچر کا تعلق ہے تو اس کے معنی بہت وسیع ہیں۔ ہر وہ سرگرمی جو انسان کو ایک دوسرے سے یکجا کرتی ہے کلچر میں شامل اور فنون لطیفہ کا شعبہ موسیقی بھی کلچر میں شامل ہے۔ کلچر سے معاشرے کی پہچان ہوتی ہے، کیونکہ ہر معاشرے کا اپنا ایک علیحدہ کلچر ہوتا ہے اور وہ معاشرے کی ثقافتی زندگی کے عناصر کے بارے میں افراد کا انفرادی اور اجتماعی رویہ وجود میں آتا ہے۔ پروفیسر مرزا محمد منور نے اپنے ایک مضمون میں ہشام بن عبدالملک کے عہد کا ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ ہشام نے حدود سلطنت میں گانے بجانے کی ممانعت کردی تھی۔ جو شخص اس حکم کی خلاف ورزی کرتا اس کو سزا ملتی تھی۔
چونکہ گانے بجانے کا ذوق و شوق معاشرے کو متعدی بیماری کی طرح لاحق ہورہا تھا اس لیے ہشام نے ایسا شدید اقدام ضروری جانا تھا۔ بہرحال ایک روز ایک بوڑھا ہشام کی مجلس میں لایا گیا اور اس کے بارے میں شکایت کی گئی کہ بارہا سرزنش کے باوجود وہ گانے بجانے سے باز نہیں آتا ہے۔ ہشام نے حکم دیا کہ اس کے ہاتھ میں جو طنبورہ ہے وہی اس کے سر پر مارو۔ حکم کی تعمیل ہوئی، بوڑھا خاموش بیٹھا رہا، نہ معذرت کی، نہ فریاد۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ رونے لگا۔ ہشام حیران ہوا کہ اب تک خاموش بیٹھے رہنے کے بعد یہ اچانک کیوں رونے لگا؟ اس نے بوڑھے سے پوچھا: ''کیا ہوا کیوں رو رہا ہے؟'' بوڑھے نے جواب دیا: ''میں اس لیے رو رہا ہوں کہ جب امیرالمومنین بربط کو طنبورہ کہہ رہے ہیں تو باقی قوم کی بدذوقی کا کیا حال ہوگا؟''