کچھ پاکستان کرکٹ کو بھی لفٹ کرا دیں
کیا پی سی بی ملک کیلیے خدمات انجام دینے والوں کو میچ میں مدعو نہیں کر سکتا تھا؟
میں نے جلدی سے جیب سے پیسوں اور موبائل کو نکال کر بیگ میں رکھا،پرانے فون میں سم لگائی اور سکون سے بیٹھ گیا،فلائٹ لینڈ ہونے والی تھی اور یہ اشارہ تھا کہ میری منزل کراچی ہے، یہاں آپ دس لوگوں کو روک کر پوچھیں شاید ہی ان میں سے کوئی ایسا ہو جس کا فون چھننے سے بچ گیا ہو، شہر میں روزانہ کی تعداد میں گن پوائنٹ پر سیکڑوں موبائل اور پرس چھین لیے جاتے ہیں، اس لیے ہمارے لیے اضافی احتیاط لازم ہے۔
ایئرپورٹ سے باہر آتے ہوئے میں سوچنے لگاکہ پاکستان کا اولین نائٹ ٹیسٹ تو کل ختم ہو چکا لیکن اسٹیڈیم میں گہماگہمی اب نظر آ رہی تھی، دبئی میں پی ایس ایل کی تقریب سجنے والی ہے، جس طرح سے پی سی بی کے آفیشلز وہاں آئے ہوئے ہیں اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ قذافی اسٹیڈیم دبئی منتقل ہو چکا، بھرپور پلاننگ کے ساتھ کام ہو رہے ہیں، بورڈ نے اپنی ساری توانائیاں ڈرافٹنگ پر صرف کر دی ہیں، اچھی بات ہے ضرور ایسا کرنا چاہیے، مگر کیا یہ سب کچھ پاکستان کے اولین ڈے نائٹ اور 400 ویں ٹیسٹ کو یادگار بنانے کیلیے نہیں کرنا چاہیے تھا، اگر اس کی 25فیصد توانائی بھی لگا دی جاتی تو یادگار میچ کا سا سماں محسوس ہونے لگتا، اب پی ایس ایل کیلیے فرنچائززنے کئی سابق کرکٹرز کو دبئی بلایا ہے۔
کیا پی سی بی ملک کیلیے خدمات انجام دینے والوں کو میچ میں مدعو نہیں کر سکتا تھا؟ میں جتنا سمجھ سکا وہ یہ ہے کہ بورڈ کو ملکی کرکٹ کی ترقی میں کوئی دلچسپی نہیں، اس کا مقصد صرف پیسہ کمانا ہے، یقیناً خزانے میں رقم جمع ہونا کوئی بُری بات نہیں لیکن وہ خرچ کہاں ہو رہی ہے؟ ہم صرف پہلی پی ایس ایل کی مثال سامنے رکھتے ہیں، بڑا عظیم الشان میلہ سجانے کی باتیں ہوئیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ 70 سے 80 فیصد میچز میں گراؤنڈز خالی رہے، البتہ فائنل سمیت بعض میچز میں شائقین نے بھرپور دلچسپی لی، اسپانسرز بھی ملے،جہاز بھر بھر کے لوگوں کو دبئی لایا گیا، بقول پی سی بی حکام کروڑوں کی آمدنی ہوئی، مگراس کا فائدہ کہاں اٹھایا گیا؟ یقیناً اس ایونٹ سے بہت سے لوگ مالامال ہوئے مگر ملک کو کیا ملا؟
ہم نے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کا در ایونٹ یو اے ای میں کرا کے خود بند کر دیا، لوگ اب یہ کہتے ہیں کہ آپ اپنی لیگ تو باہر کراتے ہیں اور ہم سے آنے کا کہہ رہے ہیں، اب تو کوئی بورڈ آفیشل بھولے سے بھی نہیں کہہ رہا کہ ہم فلاں ٹیم کو بلا رہے ہیں کیونکہ ملک میں کرکٹ نہ ہونے سے بعض لوگ بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں،گوکہ اگلے ایڈیشن کا فائنل لاہور میں کرانے کی بات ہو رہی ہے مگر دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے،گذشتہ ایونٹ سے کھلاڑیوں نے یقیناً پیسہ کمایا لیکن سب نے نہیں، باہر کے کوچز کو صرف ڈگ آؤٹ میں بیٹھ کر چہرہ دکھانے کے کروڑوں روپے ملے لیکن اصل کام کرنے والے ملکی کوچز کو دو، تین لاکھ دے کر ٹرخا دیا گیا۔
ایونٹ کے ٹاپ کرکٹرز کی فہرست دیکھ لیں، ان میں دور دور تک کوئی نیا کھلاڑی دکھائی نہیں دے گا، صرف محمد نواز ایسے پلیئر ہیں جو آگے آئے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایونٹ سے نیا ٹیلنٹ لانے کی بات فضول تھی، پی ایس ایل کی تقریب میں خوب ہلا گلا ناچ گانا ہوا، پاکستان سے معروف شخصیات کو بلایا گیا، مگر یادگار ٹیسٹ میں دبئی کے اسکول چلڈرنز کو بلانے تک کی زحمت نہ کی گئی، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں ہماری ٹیم زوال کی جانب گامزن ہے، وہ تو ویسٹ انڈیز کی کمزور ٹیم آئی تو آسان فتوحات مل گئیں ورنہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ محدود اوورز کی کرکٹ میں کہاں کھڑے ہیں، بورڈ نئے ٹیلنٹ کی تلاش کیلیے کیا کر رہا ہے؟
یہ سوال پوچھنے میں ہم سب حق بجانب ہیں، ڈائریکٹر اکیڈمیز مدثر نذر نے آنے کے بعد سوائے انگلینڈ و دیگر ٹورز کے کیا اقدامات اٹھائے؟ جس طرح انھوں نے فرنچائزز کیلیے ٹرائلز کا انعقاد کیا پاکستان کیلیے ایسے کام کب کریں گے؟ انضمام الحق اینڈ کمپنی کب تک دبئی کی پانچ ستارہ ہوٹل میں ڈیلی الاؤنس سے لطف اندوز ہوتی رہے گی، کیا یہ ان کا کام نہیں کہ پاکستان میں آ کر نئے ٹیلنٹ کو ڈھونڈیں، یو اے ای میں موجود کھلاڑیوں میں سے اب وہ کون سا گوہر نایاب تلاش کریں گے،ویسے سلیکشن کمیٹی کا کام بہترین ہے، گھر بیٹھے رہو، سال میں چار، پانچ بار ٹیم منتخب کرنی ہوتی ہے، تنخواہ ہر ماہ ملے گی، دیگر مراعات الگ ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئی ملکی کرکٹ کیلیے نہیں سوچ رہا، ویسٹ انڈیز جیسی ٹیم کیخلاف نائٹ ٹیسٹ جیتنا مشکل ہو گیا تھا، میں نے جب پریس کانفرنس میں مصباح الحق کو دیکھا تو ان کے چہرے سے ہوائیاں اڑ رہی تھیں، کسی کھلاڑی کو رات میں پنک گیند سے کھیلنے کاکوئی تجربہ نہ تھا مگر انھیں ٹیسٹ کھیلنا پڑا،یہ بات سب جانتے ہیں کہ آگے ٹیم کو نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے مشکل دورے کرنے ہیں، دیکھتے ہیں ان میں کیا ہوتا ہے، ابھی تو سب ٹیسٹ سیریز کو بھول کر پی ایس ایل کے ڈرافٹ میں لگے ہوئے ہیں، کھلاڑیوں کو بھی ابوظبی ٹیسٹ سے زیادہ یہ فکر ہے کہ وہ کتنے میں فروخت ہوں گے، سب کچھ اب کمرشل ہوگیا ہے۔
پیسہ کمانا اچھی بات ہے مگر جس چیز کی وجہ سے پیسہ آ رہا ہے اسے نظر انداز نہ کریں، لیگ کے روح رواں نجم سیٹھی اب اسے پی سی بی سے الگ کرنے کی باتیں کر رہے ہیں، مگر یہ یاد رکھیں کہ یہ سارا میلہ اسی کی وجہ سے سجا، پیسہ بھی بورڈ کا لگا،جب کمانے کی باری آئی تو اب کہا جا رہا ہے کہ ''بورڈ کی سیاست سے الگ کیا جا رہا ہے'' اس کی وضاحت ضروری ہے،بھارت نے اگر آئی پی ایل کرائی تو اسے بہت فائدہ ہوا، نئے کھلاڑی ملے جو قومی ٹیم کیلیے کھیل رہے ہیں، مگر وہ ٹیسٹ کرکٹ کو نہیں بھولے، ہمارے بورڈ نے تاریخی میچ میں کیا کیا؟
جب کیمرے کے سامنے کھڑے ہو کر ٹرافی دینے کی باری آئی تو اعلیٰ عہدیدار بھی سامنے آ گئے، خالی اسٹیڈیم میں اولین ڈے نائٹ ٹیسٹ دیکھنے کے بعد اب میری بورڈ حکام سے صرف یہی گذارش ہے کہ جناب پی ایس ایل سے پیسہ ضرور کمائیں مگر کچھ پاکستان کرکٹ کو بھی لفٹ کرا دیں۔
ایئرپورٹ سے باہر آتے ہوئے میں سوچنے لگاکہ پاکستان کا اولین نائٹ ٹیسٹ تو کل ختم ہو چکا لیکن اسٹیڈیم میں گہماگہمی اب نظر آ رہی تھی، دبئی میں پی ایس ایل کی تقریب سجنے والی ہے، جس طرح سے پی سی بی کے آفیشلز وہاں آئے ہوئے ہیں اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ قذافی اسٹیڈیم دبئی منتقل ہو چکا، بھرپور پلاننگ کے ساتھ کام ہو رہے ہیں، بورڈ نے اپنی ساری توانائیاں ڈرافٹنگ پر صرف کر دی ہیں، اچھی بات ہے ضرور ایسا کرنا چاہیے، مگر کیا یہ سب کچھ پاکستان کے اولین ڈے نائٹ اور 400 ویں ٹیسٹ کو یادگار بنانے کیلیے نہیں کرنا چاہیے تھا، اگر اس کی 25فیصد توانائی بھی لگا دی جاتی تو یادگار میچ کا سا سماں محسوس ہونے لگتا، اب پی ایس ایل کیلیے فرنچائززنے کئی سابق کرکٹرز کو دبئی بلایا ہے۔
کیا پی سی بی ملک کیلیے خدمات انجام دینے والوں کو میچ میں مدعو نہیں کر سکتا تھا؟ میں جتنا سمجھ سکا وہ یہ ہے کہ بورڈ کو ملکی کرکٹ کی ترقی میں کوئی دلچسپی نہیں، اس کا مقصد صرف پیسہ کمانا ہے، یقیناً خزانے میں رقم جمع ہونا کوئی بُری بات نہیں لیکن وہ خرچ کہاں ہو رہی ہے؟ ہم صرف پہلی پی ایس ایل کی مثال سامنے رکھتے ہیں، بڑا عظیم الشان میلہ سجانے کی باتیں ہوئیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ 70 سے 80 فیصد میچز میں گراؤنڈز خالی رہے، البتہ فائنل سمیت بعض میچز میں شائقین نے بھرپور دلچسپی لی، اسپانسرز بھی ملے،جہاز بھر بھر کے لوگوں کو دبئی لایا گیا، بقول پی سی بی حکام کروڑوں کی آمدنی ہوئی، مگراس کا فائدہ کہاں اٹھایا گیا؟ یقیناً اس ایونٹ سے بہت سے لوگ مالامال ہوئے مگر ملک کو کیا ملا؟
ہم نے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کا در ایونٹ یو اے ای میں کرا کے خود بند کر دیا، لوگ اب یہ کہتے ہیں کہ آپ اپنی لیگ تو باہر کراتے ہیں اور ہم سے آنے کا کہہ رہے ہیں، اب تو کوئی بورڈ آفیشل بھولے سے بھی نہیں کہہ رہا کہ ہم فلاں ٹیم کو بلا رہے ہیں کیونکہ ملک میں کرکٹ نہ ہونے سے بعض لوگ بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں،گوکہ اگلے ایڈیشن کا فائنل لاہور میں کرانے کی بات ہو رہی ہے مگر دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے،گذشتہ ایونٹ سے کھلاڑیوں نے یقیناً پیسہ کمایا لیکن سب نے نہیں، باہر کے کوچز کو صرف ڈگ آؤٹ میں بیٹھ کر چہرہ دکھانے کے کروڑوں روپے ملے لیکن اصل کام کرنے والے ملکی کوچز کو دو، تین لاکھ دے کر ٹرخا دیا گیا۔
ایونٹ کے ٹاپ کرکٹرز کی فہرست دیکھ لیں، ان میں دور دور تک کوئی نیا کھلاڑی دکھائی نہیں دے گا، صرف محمد نواز ایسے پلیئر ہیں جو آگے آئے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایونٹ سے نیا ٹیلنٹ لانے کی بات فضول تھی، پی ایس ایل کی تقریب میں خوب ہلا گلا ناچ گانا ہوا، پاکستان سے معروف شخصیات کو بلایا گیا، مگر یادگار ٹیسٹ میں دبئی کے اسکول چلڈرنز کو بلانے تک کی زحمت نہ کی گئی، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں ہماری ٹیم زوال کی جانب گامزن ہے، وہ تو ویسٹ انڈیز کی کمزور ٹیم آئی تو آسان فتوحات مل گئیں ورنہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ محدود اوورز کی کرکٹ میں کہاں کھڑے ہیں، بورڈ نئے ٹیلنٹ کی تلاش کیلیے کیا کر رہا ہے؟
یہ سوال پوچھنے میں ہم سب حق بجانب ہیں، ڈائریکٹر اکیڈمیز مدثر نذر نے آنے کے بعد سوائے انگلینڈ و دیگر ٹورز کے کیا اقدامات اٹھائے؟ جس طرح انھوں نے فرنچائزز کیلیے ٹرائلز کا انعقاد کیا پاکستان کیلیے ایسے کام کب کریں گے؟ انضمام الحق اینڈ کمپنی کب تک دبئی کی پانچ ستارہ ہوٹل میں ڈیلی الاؤنس سے لطف اندوز ہوتی رہے گی، کیا یہ ان کا کام نہیں کہ پاکستان میں آ کر نئے ٹیلنٹ کو ڈھونڈیں، یو اے ای میں موجود کھلاڑیوں میں سے اب وہ کون سا گوہر نایاب تلاش کریں گے،ویسے سلیکشن کمیٹی کا کام بہترین ہے، گھر بیٹھے رہو، سال میں چار، پانچ بار ٹیم منتخب کرنی ہوتی ہے، تنخواہ ہر ماہ ملے گی، دیگر مراعات الگ ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئی ملکی کرکٹ کیلیے نہیں سوچ رہا، ویسٹ انڈیز جیسی ٹیم کیخلاف نائٹ ٹیسٹ جیتنا مشکل ہو گیا تھا، میں نے جب پریس کانفرنس میں مصباح الحق کو دیکھا تو ان کے چہرے سے ہوائیاں اڑ رہی تھیں، کسی کھلاڑی کو رات میں پنک گیند سے کھیلنے کاکوئی تجربہ نہ تھا مگر انھیں ٹیسٹ کھیلنا پڑا،یہ بات سب جانتے ہیں کہ آگے ٹیم کو نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے مشکل دورے کرنے ہیں، دیکھتے ہیں ان میں کیا ہوتا ہے، ابھی تو سب ٹیسٹ سیریز کو بھول کر پی ایس ایل کے ڈرافٹ میں لگے ہوئے ہیں، کھلاڑیوں کو بھی ابوظبی ٹیسٹ سے زیادہ یہ فکر ہے کہ وہ کتنے میں فروخت ہوں گے، سب کچھ اب کمرشل ہوگیا ہے۔
پیسہ کمانا اچھی بات ہے مگر جس چیز کی وجہ سے پیسہ آ رہا ہے اسے نظر انداز نہ کریں، لیگ کے روح رواں نجم سیٹھی اب اسے پی سی بی سے الگ کرنے کی باتیں کر رہے ہیں، مگر یہ یاد رکھیں کہ یہ سارا میلہ اسی کی وجہ سے سجا، پیسہ بھی بورڈ کا لگا،جب کمانے کی باری آئی تو اب کہا جا رہا ہے کہ ''بورڈ کی سیاست سے الگ کیا جا رہا ہے'' اس کی وضاحت ضروری ہے،بھارت نے اگر آئی پی ایل کرائی تو اسے بہت فائدہ ہوا، نئے کھلاڑی ملے جو قومی ٹیم کیلیے کھیل رہے ہیں، مگر وہ ٹیسٹ کرکٹ کو نہیں بھولے، ہمارے بورڈ نے تاریخی میچ میں کیا کیا؟
جب کیمرے کے سامنے کھڑے ہو کر ٹرافی دینے کی باری آئی تو اعلیٰ عہدیدار بھی سامنے آ گئے، خالی اسٹیڈیم میں اولین ڈے نائٹ ٹیسٹ دیکھنے کے بعد اب میری بورڈ حکام سے صرف یہی گذارش ہے کہ جناب پی ایس ایل سے پیسہ ضرور کمائیں مگر کچھ پاکستان کرکٹ کو بھی لفٹ کرا دیں۔