محترمہ پاکستان کی خاموشی کو کمزوری نہ سمجھیں تو بہتر ہے
جس پاکستان کوکمزور سمجھا جارہا ہے وہ ساتویں بڑی فوجی طاقت اور جغرافیائی اعتبار سے اسکی اہمیت بنگلہ دیش سےکہیں زیادہ ہے
LOS ANGELES:
آپ نے یہ کہاوت تو ضرور سنی ہوگی کہ ''بڑے میاں تو بڑے میاں، چھوٹے میاں سبحان اللہ''۔ گزشتہ چند برس سے بنگلہ دیشی حکومت کا پاکستان کے حوالے سے رویہ کچھ ایسی ہی کیفیت کا شکار ہے۔ بنگلہ دیش اپنے قیام سے لے کر تا دم تحریر خطے میں موجود بڑے میاں یعنی بھارت کی کٹھ پتلی کے طور پر کام کرتا چلا آرہا ہے لیکن 2009ء میں بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کے برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستان کے حوالے سے اس کی ریاستی پالیسیوں میں غیر سنجیدہ اور جارحانہ رویہ دیکھنے میں آیا ہے۔
جس کی واضح مثال 1971ء کے سیاسی مقدمات کو دوبارہ کھولنے کی ترمیم کی صورت میں سامنے آئی۔ اس کےعلاوہ کئی سفارتی اہلکاروں کو ایک دوسرے کے ملک سے نکل جانے کے احکامات دیئے گئے۔ 2014ء میں جب بنگلہ دیش کی اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تو ایک طرف ان متنازعہ انتخابات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حسینہ واجد کی عوامی لیگ انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی جبکہ دوسری طرف چند ماہ بعد بھارت میں نریندر مودی جیسی انتہا پسند ذہنیت برسرِاقتدار آگئی۔
گویا حسینہ واجد میں پاکستان کے لئے موجود بغض کو اندرونی و بیرونی دونوں تائیدیں مل گئیں جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے محترمہ نے سب سے پہلے 1971ء کے ان سیاسی مقدمات کو بحال کردیا جنہیں ایک سہہ فریقی عالمی سمجھوتے کے تحت مشترکہ طور پر بند کرنے کے ساتھ دوبارہ نہ کھولنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش پر پابندی عائد کرتے ہوئے اس کے مرکزی رہنماوں اور بزرگ سیاستدانوں کو جبری طور پر ''غدار'' قرار دے کر تختہ دار پر لٹکا دیا گیا، جس کی عالمی سطح پر بھی کئی ممالک نے شدید مذمت کی۔ اِس عمل کے نتیجے میں پاکستان کے ساتھ سفارتی کشیدگی میں بھی کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ پاکستان نے اس دوران بھارت یا بنگلہ دیش کی طرح بڑھک بازی کے بجائے سفارتی سنجیدگی کا ثبوت دیتے ہوئے ہر معاملے پر مناسب انداز میں ردِعمل دیا جبکہ دوسری طرف بھارت نے بالواسطہ اور بلاواسطہ دونوں طریقوں سے بنگلہ دیشی حکومت کے اس رویے کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اُسے مزید کشیدگی اور بڑھک بازی پر بھی اکسایا۔
گزشتہ دنوں سارک کانفرنس میں بھارتی ایما پر شرکت سے انکار کرکے بنگلہ دیش نے بھارتی کٹھ پتلی ہونے کا گویا اعلان بھی کردیا۔ کانفرنس کے التواء کے چند ہی دن بعد بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد نے ایک بیان میں یہ کہہ کر بڑھک بازی کی انتہا کردی کہ،
حسینہ واجد نے یہ بیان تو یوں دیا جیسے پاکستان بنگلہ دیش کے مقابلے میں کوئی گیا گزرا ملک ہو اور حسینہ واجد نے ''شدید دباؤ'' کے باوجود تعلقات قائم رکھ کر پاکستان پر کوئی بہت بڑا احسان کر رکھا ہے۔ وہ شاید یہ بات بھول رہی ہیں کہ بدلتے عالمی منظر نامے میں پاکستان کا کردار بنگلہ دیش سے کہیں بڑی معاشی اور علاقائی طاقت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس وقت بھی پاکستان جنوبی ایشاء کی دوسری بڑی طاقت کے طور پر موجود ہے اور دنیا جانتی ہے کہ باہمی تعلقات کا فائدہ پاکستان کی نسبت بنگلہ دیش کو زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود بھی پاکستان نے کبھی سفارتی بیان بازی کا سہارا لیتے ہوئے کسی قسم کی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا، بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ پاکستان نے حد سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کیا۔
بنگلہ دیشی وزیراعظم کو یہ بات شاید کسی نے نہیں بتائی کہ پاکستان عالمی اور علاقائی سطح پر بنگلہ دیش سے بڑی طاقت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اپنے داخلی مسائل کے باوجود بھی پاکستان نے عالمی سطح پر ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے اپنا مقام بنایا ہے۔ پاکستان اس وقت جی ڈی پی (270 ارب ڈالر سالانہ) کے لحاظ سے بھارت کے بعد جنوبی ایشیا میں دوسری بڑی طاقت ہے جو بنگلہ دیش (173 ارب ڈالرسالانہ) سے تقریباََ دو گنا زیادہ ہے۔ سارک ممالک کے مجموعی جی ڈی پی میں 15 فیصد پاکستان کا حصہ ہے جو بھارت کے بعد دوسرا سب سے بڑا حصہ ہے۔ پاکستان دنیا کی ساتویں بڑی فوجی طاقت ہونے کے علاوہ ایٹمی طاقت بھی ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے پاکستان کی اہمیت بنگلہ دیش کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔
جنوبی ایشیاء میں بھارت کے بعد دوسری بڑی اقتصادی مارکیٹ بھی پاکستان ہے۔ او آئی سی میں پاکستان کا کردار بنگلہ دیش سے کہیں بڑا اور اہم ہے۔ زرعی پیداوار کے لحاظ سے بھی پاکستان دنیا کے صف اول کے ممالک میں شامل ہے۔ اگر یہ سب باتیں محترمہ حسینہ واجد صاحبہ کے علم میں ہیں تو انہیں یہ سمجھنے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں ہونا چاہیئے کہ باہمی تعلقات پاکستان کی نسبت بنگلہ دیش کیلئے زیادہ فائندہ مند ہیں لیکن شاید بنگلہ دیشی وزیراعظم بھارت نوازی میں ہر حد پار کرجانا چاہتی ہیں، اسی سبب وہ اپنے قومی مفاد پر مودی حکومت کی خوشنودی کو ترجیح دے رہی ہیں۔
گزشتہ دنوں چین کے صدر نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا جس میں بنگلہ دیش کی طرف سے چین کے ساتھ روابط بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ چین دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ مستقبل کی سپر پاور بھی ہے جس کے ساتھ یقینًا بنگلہ دیش اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوشش کرے گا اور اسے یہ کوشش کرنی بھی چاہیئے کہ یہی بنگلہ دیشی عوام کے حق میں بہتر ہے لیکن ایک بات جو حسینہ واجد کو ذہن نشین کرنی چاہیئے وہ یہ ہے کہ چین اس وقت پاکستان کا انتہائی مضبوط اتحادی ہے اور خطے میں پاک چین دوستی شاید سب سے زیادہ مضبوط دو طرفہ رشتہ ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے عظیم الشان منصوبے نے اس دوستی کو مزید بلندی تک پہنچا دیا ہے۔ چین ہر عالمی فورم پر پاکستان کا حامی رہا ہے اور یہ بات ہندوستان کو کبھی ہضم نہیں ہوئی۔
اگر بنگلہ دیش مستقبل کی سپر پاور کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرنا چاہتا ہے تو اس کیلئے ضروری ہوگا کہ وہ پاکستان کے ساتھ بھی اپنے تعلقات بہتر کرے، مزید یہ کہ افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ اقتصادی تعلقات اور براہِ راست تجارت کو فروغ دینے کیلئے پاک چین اقتصادی راہداری بنگلہ دیش کیلئے بھی ایک آئیڈیل روٹ ثابت ہوسکتا ہے اور بنگلہ دیش اس عظیم منصوبے سے اُسی صورت فائدہ اٹھا سکتا ہے کہ اگر پاکستان اور چین کے ساتھ اس کے تعلقات بہتر ہوں۔ چین کے علاوہ سعودی عرب اور ترکی جیسی عالمی طاقتیں بھی پاکستان کی مضبوط اتحادی ہیں جس کا ایک ثبوت اس وقت دنیا کے سامنے آیا جب جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش کے امیر مطیع الرحمان نظامی کو سزائے موت دینے پر ترکی نے شدید ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے اپنا سفیر واپس بلانے کے اعلان کردیا تھا۔
مندرجہ بالہ بیان کیے گئے احوال کے بعد ثابت یہ ہوا کہ پاک بنگلہ دیش اچھے تعلقات پاکستان کیلئے نہیں بلکہ خود بنگلہ دیش کیلئے فائدہ مند ہوں گے اور ایک اچھی حکومت وہ ہوتی ہے جو کسی بیرونی طاقت کی کٹھ پتلی بننے کے بجائے بین الاقوامی تعلقات میں اپنے قومی مفاد کو ترجیح دے۔ حسینہ واجد کو بھی چاہیئے کہ بھارت کی خوشامد کے بجائے اپنے قومی مفاد کو ترجیح دیں اور اپنی زبوں حال معیشت کی بہتری کیلئے عالمی تعلقات میں بڑھکیں مارنے کے بجائے دانشمندی کا مظاہرہ کریں کیونکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات ختم کرنے سے پاکستان کو تو نہیں البتہ خود آپ کو اور بنگلہ دیشی عوام کو ہی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ لہذا بنگلہ دیشی عوام پر رحم کرتے ہوئے داخلی اور خارجی امور میں سخت گیر رویے کو ترک کیجئے وگرنہ ہوسکتا ہے کہ تاریخ کی کتابوں میں آپ کا تذکرہ کرتے ہوئے مورخ کو یہ لکھنا پڑے کہ،
[poll id="1250"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ نے یہ کہاوت تو ضرور سنی ہوگی کہ ''بڑے میاں تو بڑے میاں، چھوٹے میاں سبحان اللہ''۔ گزشتہ چند برس سے بنگلہ دیشی حکومت کا پاکستان کے حوالے سے رویہ کچھ ایسی ہی کیفیت کا شکار ہے۔ بنگلہ دیش اپنے قیام سے لے کر تا دم تحریر خطے میں موجود بڑے میاں یعنی بھارت کی کٹھ پتلی کے طور پر کام کرتا چلا آرہا ہے لیکن 2009ء میں بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کے برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستان کے حوالے سے اس کی ریاستی پالیسیوں میں غیر سنجیدہ اور جارحانہ رویہ دیکھنے میں آیا ہے۔
جس کی واضح مثال 1971ء کے سیاسی مقدمات کو دوبارہ کھولنے کی ترمیم کی صورت میں سامنے آئی۔ اس کےعلاوہ کئی سفارتی اہلکاروں کو ایک دوسرے کے ملک سے نکل جانے کے احکامات دیئے گئے۔ 2014ء میں جب بنگلہ دیش کی اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تو ایک طرف ان متنازعہ انتخابات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حسینہ واجد کی عوامی لیگ انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی جبکہ دوسری طرف چند ماہ بعد بھارت میں نریندر مودی جیسی انتہا پسند ذہنیت برسرِاقتدار آگئی۔
گویا حسینہ واجد میں پاکستان کے لئے موجود بغض کو اندرونی و بیرونی دونوں تائیدیں مل گئیں جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے محترمہ نے سب سے پہلے 1971ء کے ان سیاسی مقدمات کو بحال کردیا جنہیں ایک سہہ فریقی عالمی سمجھوتے کے تحت مشترکہ طور پر بند کرنے کے ساتھ دوبارہ نہ کھولنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش پر پابندی عائد کرتے ہوئے اس کے مرکزی رہنماوں اور بزرگ سیاستدانوں کو جبری طور پر ''غدار'' قرار دے کر تختہ دار پر لٹکا دیا گیا، جس کی عالمی سطح پر بھی کئی ممالک نے شدید مذمت کی۔ اِس عمل کے نتیجے میں پاکستان کے ساتھ سفارتی کشیدگی میں بھی کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ پاکستان نے اس دوران بھارت یا بنگلہ دیش کی طرح بڑھک بازی کے بجائے سفارتی سنجیدگی کا ثبوت دیتے ہوئے ہر معاملے پر مناسب انداز میں ردِعمل دیا جبکہ دوسری طرف بھارت نے بالواسطہ اور بلاواسطہ دونوں طریقوں سے بنگلہ دیشی حکومت کے اس رویے کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اُسے مزید کشیدگی اور بڑھک بازی پر بھی اکسایا۔
گزشتہ دنوں سارک کانفرنس میں بھارتی ایما پر شرکت سے انکار کرکے بنگلہ دیش نے بھارتی کٹھ پتلی ہونے کا گویا اعلان بھی کردیا۔ کانفرنس کے التواء کے چند ہی دن بعد بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد نے ایک بیان میں یہ کہہ کر بڑھک بازی کی انتہا کردی کہ،
''پاکستان سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کیلئے ہم پر شدید دباؤ ہے''۔
حسینہ واجد نے یہ بیان تو یوں دیا جیسے پاکستان بنگلہ دیش کے مقابلے میں کوئی گیا گزرا ملک ہو اور حسینہ واجد نے ''شدید دباؤ'' کے باوجود تعلقات قائم رکھ کر پاکستان پر کوئی بہت بڑا احسان کر رکھا ہے۔ وہ شاید یہ بات بھول رہی ہیں کہ بدلتے عالمی منظر نامے میں پاکستان کا کردار بنگلہ دیش سے کہیں بڑی معاشی اور علاقائی طاقت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس وقت بھی پاکستان جنوبی ایشاء کی دوسری بڑی طاقت کے طور پر موجود ہے اور دنیا جانتی ہے کہ باہمی تعلقات کا فائدہ پاکستان کی نسبت بنگلہ دیش کو زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود بھی پاکستان نے کبھی سفارتی بیان بازی کا سہارا لیتے ہوئے کسی قسم کی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا، بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ پاکستان نے حد سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کیا۔
بنگلہ دیشی وزیراعظم کو یہ بات شاید کسی نے نہیں بتائی کہ پاکستان عالمی اور علاقائی سطح پر بنگلہ دیش سے بڑی طاقت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اپنے داخلی مسائل کے باوجود بھی پاکستان نے عالمی سطح پر ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے اپنا مقام بنایا ہے۔ پاکستان اس وقت جی ڈی پی (270 ارب ڈالر سالانہ) کے لحاظ سے بھارت کے بعد جنوبی ایشیا میں دوسری بڑی طاقت ہے جو بنگلہ دیش (173 ارب ڈالرسالانہ) سے تقریباََ دو گنا زیادہ ہے۔ سارک ممالک کے مجموعی جی ڈی پی میں 15 فیصد پاکستان کا حصہ ہے جو بھارت کے بعد دوسرا سب سے بڑا حصہ ہے۔ پاکستان دنیا کی ساتویں بڑی فوجی طاقت ہونے کے علاوہ ایٹمی طاقت بھی ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے پاکستان کی اہمیت بنگلہ دیش کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔
جنوبی ایشیاء میں بھارت کے بعد دوسری بڑی اقتصادی مارکیٹ بھی پاکستان ہے۔ او آئی سی میں پاکستان کا کردار بنگلہ دیش سے کہیں بڑا اور اہم ہے۔ زرعی پیداوار کے لحاظ سے بھی پاکستان دنیا کے صف اول کے ممالک میں شامل ہے۔ اگر یہ سب باتیں محترمہ حسینہ واجد صاحبہ کے علم میں ہیں تو انہیں یہ سمجھنے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں ہونا چاہیئے کہ باہمی تعلقات پاکستان کی نسبت بنگلہ دیش کیلئے زیادہ فائندہ مند ہیں لیکن شاید بنگلہ دیشی وزیراعظم بھارت نوازی میں ہر حد پار کرجانا چاہتی ہیں، اسی سبب وہ اپنے قومی مفاد پر مودی حکومت کی خوشنودی کو ترجیح دے رہی ہیں۔
گزشتہ دنوں چین کے صدر نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا جس میں بنگلہ دیش کی طرف سے چین کے ساتھ روابط بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ چین دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ مستقبل کی سپر پاور بھی ہے جس کے ساتھ یقینًا بنگلہ دیش اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوشش کرے گا اور اسے یہ کوشش کرنی بھی چاہیئے کہ یہی بنگلہ دیشی عوام کے حق میں بہتر ہے لیکن ایک بات جو حسینہ واجد کو ذہن نشین کرنی چاہیئے وہ یہ ہے کہ چین اس وقت پاکستان کا انتہائی مضبوط اتحادی ہے اور خطے میں پاک چین دوستی شاید سب سے زیادہ مضبوط دو طرفہ رشتہ ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے عظیم الشان منصوبے نے اس دوستی کو مزید بلندی تک پہنچا دیا ہے۔ چین ہر عالمی فورم پر پاکستان کا حامی رہا ہے اور یہ بات ہندوستان کو کبھی ہضم نہیں ہوئی۔
اگر بنگلہ دیش مستقبل کی سپر پاور کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرنا چاہتا ہے تو اس کیلئے ضروری ہوگا کہ وہ پاکستان کے ساتھ بھی اپنے تعلقات بہتر کرے، مزید یہ کہ افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ اقتصادی تعلقات اور براہِ راست تجارت کو فروغ دینے کیلئے پاک چین اقتصادی راہداری بنگلہ دیش کیلئے بھی ایک آئیڈیل روٹ ثابت ہوسکتا ہے اور بنگلہ دیش اس عظیم منصوبے سے اُسی صورت فائدہ اٹھا سکتا ہے کہ اگر پاکستان اور چین کے ساتھ اس کے تعلقات بہتر ہوں۔ چین کے علاوہ سعودی عرب اور ترکی جیسی عالمی طاقتیں بھی پاکستان کی مضبوط اتحادی ہیں جس کا ایک ثبوت اس وقت دنیا کے سامنے آیا جب جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش کے امیر مطیع الرحمان نظامی کو سزائے موت دینے پر ترکی نے شدید ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے اپنا سفیر واپس بلانے کے اعلان کردیا تھا۔
مندرجہ بالہ بیان کیے گئے احوال کے بعد ثابت یہ ہوا کہ پاک بنگلہ دیش اچھے تعلقات پاکستان کیلئے نہیں بلکہ خود بنگلہ دیش کیلئے فائدہ مند ہوں گے اور ایک اچھی حکومت وہ ہوتی ہے جو کسی بیرونی طاقت کی کٹھ پتلی بننے کے بجائے بین الاقوامی تعلقات میں اپنے قومی مفاد کو ترجیح دے۔ حسینہ واجد کو بھی چاہیئے کہ بھارت کی خوشامد کے بجائے اپنے قومی مفاد کو ترجیح دیں اور اپنی زبوں حال معیشت کی بہتری کیلئے عالمی تعلقات میں بڑھکیں مارنے کے بجائے دانشمندی کا مظاہرہ کریں کیونکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات ختم کرنے سے پاکستان کو تو نہیں البتہ خود آپ کو اور بنگلہ دیشی عوام کو ہی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ لہذا بنگلہ دیشی عوام پر رحم کرتے ہوئے داخلی اور خارجی امور میں سخت گیر رویے کو ترک کیجئے وگرنہ ہوسکتا ہے کہ تاریخ کی کتابوں میں آپ کا تذکرہ کرتے ہوئے مورخ کو یہ لکھنا پڑے کہ،
''متنازعہ انتخابات کے نتیجے میں برسرِ اقتدار آنے والی ایک سخت مزاج خاتون وزیر اعظم نے بھارتی خوشنودی کی خاطر اپنی قومی معیشت کو تاریکیوں کی جانب دھکیل دیا تھا''۔
[poll id="1250"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔