تصادم اور حکومت
آصف علی زرداری نے 5 سال ہوشیاری سے اپنی حکومت پوری کر لی
آصف علی زرداری نے 5 سال ہوشیاری سے اپنی حکومت پوری کر لی مگر نواز شریف کو اپنی حکومت چلانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ زرداری کی حکومت نے سندھ میں کوئی نئی تبدیلی اور مصنوعی ترقی بھی نہ کی بلکہ لاڑکانہ بھی جوں کا توں رہا اور کراچی شہر میں چائنا کٹنگ اور سرکلر ریلوے کی تمام لائنوں پر مکانات تعمیر ہو گئے۔
اس میں محض پی پی کو دوش نہیں دے سکتے بلکہ ان اتحادیوں کو بھی الزام دیا جا سکتا ہے۔ جس کا نتیجہ آج یہ ہو گیا ہے کہ درمیانی طبقہ اور عام غریب طبقے کی آمد و رفت بھی برباد ہو گئی ہے۔ ٹریفک جام ہو کر رہ گیا ہے۔ دنیا کے بڑے شہروں کا تصور بغیر سٹی ٹرین کے ممکن نہیں۔ ابھی بھی اتنی بگاڑ پیدا نہیں ہوئی ہے کہ کراچی ریلوے چلائی نہ جا سکے کوشش سے مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ دو کروڑ کا یہ شہر آنے والے وقت میں ڈھائی تین کروڑ کا ہو جائے گا۔ کیونکہ ہر روز کراچی شہر کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور حکومت کو مردم شماری کے نام سے لرزہ طاری ہوتا ہے۔
جوں جوں الیکشن کے دن قریب آتے جا رہے ہیں پیپلز پارٹی بھی غفلت سے جاگ اٹھی ہے۔ 16 ستمبر اتوار کو اس نے اپنی رونمائی کی۔ دن بھر کی ریلی اور مختلف مقامات پر تقاریر اور ایک اعتبار سے نصف شہر کا چکر لگایا اور لیاری اور کارساز پر اہم تقریر کی مگر کسی تقریر میں عام آدمی کے لیے کیا مراعات ہوگی اس کا تذکرہ نہ ہوا۔ ہاں واقعہ کربلا، شہادت اور حق کو اپنے گھر کی شہادتوں کے قریب تر دکھانے کی کوششیں کیں اور کہا کربلا حق اور باطل کی یہ جنگ تھی ظاہری طور پر انھوں نے موجودہ حکومت پر تنقید کی مگر وہ اس قسم کی نہ تھی کہ جس میں کوئی خاص تلخی پیدا ہو۔
البتہ وزیر اعلیٰ سندھ نے اس بار خود کو ایم کیو ایم سے کچھ فاصلے پر رکھا تھا اور سندھ کی تقسیم اور ان کی پارٹی کی تقسیم کے درمیان فاصلہ رکھا۔ اور ہلکے پھلکے زبانی وار کیے پی پی کو فعال بنانے کے لیے 27 دسمبر کو لیاقت باغ پنڈی میں جلسے کی بات انھوں نے بڑے زور و شور سے کی۔ مگر پاکستان میں بدلتی ہوئی کیفیت میں سیاست عمران خان کے گرد گھوم رہی ہے۔
ان کی یہ Solo سولو یعنی اکیلی تحریک ہے جو حکومت سے متصادم ہو رہی ہے گو کہ لوگوں کو وہ تن تنہا اسلام آباد بند کرنے کے لیے بلا رہے ہیں مگر بے خوف ہو کر بلاول بھٹو نے بھی کراچی ریلی میں جگہ جگہ تقریریں کیں اور نواز شریف کو ہلکا نشانہ بھی لگایا اور نواز شریف کو تخت رائیونڈ کا مالک قرار دیا جب کہ اس کا اطلاق خود ان پر بھی ہوتا ہے کیونکہ پرانے اور 48 اور پچاس سالہ پی پی کے کارکنوں پر ان کو فوقیت دے کر پارٹی چیئرمین بنا دیا گیا۔
انھوں نے دوران تقریر پاکستان کھپے کے نعرے بھی لگوائے گویا یہ پاکستان پر احسان کیا گیا ہے۔ اور تمام وہ نعرے جو بھٹو شہید نے اقتدار میں آنے سے قبل لگائے تھے حذف کر دیے گئے۔ کہاں گئے مزدور، کسان، کہاں گئے طلبا اور ہاری کہاں گیا روٹی کپڑا اور مکان۔ مجھے آج بھی اس بات پر فخر ہے کہ این ایس ایف نے بھٹو صاحب کی انتخابی مہم چلائی شہر بہ شہر قریہ بہ قریہ کو بہ کو اور کامیاب رہی۔ اور اس بات پر بھی فخر ہے کہ جب شیخ مجیب سے دوری ہوئی تو این ایس ایف پیچھے ہٹ گئی اور جب اہل ہوس نے بھٹو صاحب کو تختہ دار پر چڑھانے کی ٹھان لی تو ہم سب پھر اٹھے کہ بھٹو کو زنداں سے زندہ نکالیں گے مگر پارٹی نے ہمارے ساتھ وفا نہ کی اور بیگم نصرت بھٹو کو انھوں نے قانونی انصاف دلانے کی راہ دکھائی۔
وہ تمام وفادار نہ تھے جب کہ معراج محمد خاں بیگم نصرت بھٹو سے ملے تھے اور جہد مسلسل کی کوشش کی تھی اور ہم سب ساتھ تھے مگر اب ہمارے لب خاموش ہیں وہ انقلابی آوازیں مصلحت پرستی کے سیلاب میں خاموش ہیں۔ زیڈ اے بھٹو صاحب آج آپ کچھ زیادہ ہی یاد آ رہے ہیں۔ اس دن کی یاد 1968ء کا وہ تاریخی روشن دن کے گیارہ بجے جب آپ 70 کلفٹن پر اپنے بال ترشوا رہے تھے اور ہماری کابینہ کو اندر بلانے میں کچھ تاخیر پر ہم لوگ برملا برہم ہوئے تو آپ نے خود باہر آ کے لوگوں کو بلایا سب ایک خواب کی طرح یاد ہے۔
سب کچھ بدل چکا ہے وہ عاشقان جان و دل جاتے رہے۔ اب کوئی نہیں جن کا مدعا غریب کی فلاح ہو۔ گزشتہ 10 برس بہت برے گزرے۔ کراچی میں روزانہ مائیں اپنے بیٹوں کو دفناتی رہیں۔ لیاری وہ لیاری نہ رہا جو آپ کا پرامن علاقہ تھا لوگ گھروں سے بے گھر ہوئے ہر طرف لوٹ مار تھی بھتہ خور سرگرم ہوئے لوگ بے اماں بے مکاں ہوئے بی بی صاحبہ کو بھی لیاقت باغ میں قتل کر دیا گیا۔ لوگوں کی امیدیں خاک میں مل گئیں۔ اب بی بی شہید کا ایک بیٹا ہے جو کمر کس کے میدان میں آیا ہے لوگ اس کو دو نظروں سے دیکھ رہے ہیں کچھ مشکوک نظریں دماغ کو یہ پیغام دے رہی ہیں کہ اس کو فدائین جمہوریت نہ جاننا کیونکہ حالات بدلے ہوئے ہیں یہ تو اقتدار کی مسند کے نشین ہیں مگر وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔
آپ کے زمانے کے ایک طفل جو کرکٹر تھے عمران خان بھی میدان سیاست کے ایک شہسوار ہیں انھوں نے بھی رائیونڈ کے ایک ساکن اور وزیر اعظم نواز شریف صاحب کو للکارا ہے۔ دیکھیے کیا ہوتا ہے؟ قوی امکانات ہیں کہ وزیر اعظم کے شدید احکامات ہوں گے کہ عمران خان کی اس تحریک کو کچل دیا جائے۔ اب تک عمران خان کی پارٹی نے ایوب خان اور یحییٰ خان کے دباؤ کو نہیں دیکھا ہے یہ اس سے کہیں سخت ہو گا اور ایسا ہرگز نہ ہو گا کہ فیض آباد اور اسلام آباد کا زیرو پوائنٹ ایسا نہیں کہ نواز لیگ صفر پر آؤٹ ہو جائے۔
وہ 2 نومبر کو سخت گیر موقف اپنائے گی اور جمع ہونے کی نوبت ہرگز سہل نہ ہو گا جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ 2 نومبر اسٹیبلشمنٹ کی ایک تاریخ ہے جو نواز شریف پر دباؤ ڈالنے کے لیے تیار کی گئی ہے۔ اس عمل میں حزب اختلاف کی کوئی پارٹی بھی عمران خان کے ساتھ نہیں ہے۔ البتہ شیخ رشید ان کے ساتھ ہوں گے۔ مگر ڈاکٹر طاہر القادری ان کے ساتھ نہ ہوں گے۔ کوئی بڑا اختلاف تو عمران خان سے ڈاکٹر طاہر القادری کا نہیں مگر صرف اتنا ضرور ہے کہ علامہ صاحب قیادت میں ذرا بلند درجہ چاہتے تھے۔
اتفاق سے دونوں لیڈر حضرات انا کے خول میں جکڑے ہوئے ہیں۔ علامہ صاحب یہ چاہتے تھے کہ عمران خان ہر قدم ان سے پوچھ کے اٹھائیں جب کہ عمران خان مشاورت کے معاملہ میں نسبتاً فراخ دل واقع نہیں ہوئے ہیں مگر ہم وثوق سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ دونوں لیڈروں کے آج جو راستے جدا جدا ہیں تو اس میں غلطی کس کی ہے۔ ہاں یہ بات یقینی ہے کہ دونوں پارٹیوں کی مزاحمت مل کر واقعی سخت ہوتی۔ کیونکہ مزدور انجمنیں اور ہاری تحریک بڑے پیمانے پر مزاحمت کرتی نظر نہیں آ رہی ہیں۔
یہ ایک سخت مزاحمت کی کیفیت ہو گی مگر ماڈل ٹاؤن میں جو کچھ ہوا ہے وہ بھی (ن) لیگ کے لیے ایک سبق ہے ہو سکتا ہے کہ نواز لیگ نے نسبتاً ہلکا ہاتھ رکھے۔ مگر چونکہ دونوں جانب سے شدید مزاحمت کی توقع ہے تو آخری حد تک عمران خان کا نعرہ وقت سے پہلے ہی کہیں ختم نہ ہو جائے۔ البتہ اس سیاست کے تصادم کو ہم دو صوبوں کا تصادم بھی نہیں کہہ سکتے۔ لیکن نواز شریف کے سیاسی رویے کو دیکھتے ہوئے اور سیاسی دور بینی کو دیکھتے ہوئے کسی سیاسی عمل کی دوڑ درمیان میں ہوتی نظر آتی ہے ورنہ صورتحال کہیں واقعی مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان کی شکل اختیار نہ کر جائے کہ جب وہ چلتے تھے تو حکومت بند ہو جاتی تھی۔
جو لوگ پی پی کی کوئی تحریک سمجھ رہے ہیں کہ وہ درمیان میں کوئی مثبت قدم اٹھائے اس کی کوئی توقع نہیں۔ کیونکہ رفتہ رفتہ پی پی سندھ کی پارٹی بن کر رہ گئی ہے وہاں اس کے ہاتھ پاؤں مضبوط نہیں ویسے بھی آصف علی زرداری اور نواز شریف کے مابین کوئی واضح اختلاف نہیں البتہ پی ٹی آئی پر کریک ڈاؤن اکتوبر کے آخری ہفتے میں متوقع ہے گو کہ رائے ونڈ میں عمران خان کا شو کافی اہمیت کا حامل تھا ممکن ہے یہ ہو چونکہ تصادم حکومت کے لیے ناگزیر ہے تو یہ حکومت کی سخت گیری کی مثال ثابت ہو گا یہ شو طویل نہ ہو گا اس کے نتائج جلد سامنے آئیں گے خواہ وہ عمران خان کے لیے مثبت ہو یا منفی اس تحریک میں عمران خان کی سیاسی زندگی کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے کامیابی کی شکل میں 2018ء کے الیکشن کے نتائج اکتوبر کی تحریک میں ہی سامنے آ جائیں گے۔
اس میں محض پی پی کو دوش نہیں دے سکتے بلکہ ان اتحادیوں کو بھی الزام دیا جا سکتا ہے۔ جس کا نتیجہ آج یہ ہو گیا ہے کہ درمیانی طبقہ اور عام غریب طبقے کی آمد و رفت بھی برباد ہو گئی ہے۔ ٹریفک جام ہو کر رہ گیا ہے۔ دنیا کے بڑے شہروں کا تصور بغیر سٹی ٹرین کے ممکن نہیں۔ ابھی بھی اتنی بگاڑ پیدا نہیں ہوئی ہے کہ کراچی ریلوے چلائی نہ جا سکے کوشش سے مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ دو کروڑ کا یہ شہر آنے والے وقت میں ڈھائی تین کروڑ کا ہو جائے گا۔ کیونکہ ہر روز کراچی شہر کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور حکومت کو مردم شماری کے نام سے لرزہ طاری ہوتا ہے۔
جوں جوں الیکشن کے دن قریب آتے جا رہے ہیں پیپلز پارٹی بھی غفلت سے جاگ اٹھی ہے۔ 16 ستمبر اتوار کو اس نے اپنی رونمائی کی۔ دن بھر کی ریلی اور مختلف مقامات پر تقاریر اور ایک اعتبار سے نصف شہر کا چکر لگایا اور لیاری اور کارساز پر اہم تقریر کی مگر کسی تقریر میں عام آدمی کے لیے کیا مراعات ہوگی اس کا تذکرہ نہ ہوا۔ ہاں واقعہ کربلا، شہادت اور حق کو اپنے گھر کی شہادتوں کے قریب تر دکھانے کی کوششیں کیں اور کہا کربلا حق اور باطل کی یہ جنگ تھی ظاہری طور پر انھوں نے موجودہ حکومت پر تنقید کی مگر وہ اس قسم کی نہ تھی کہ جس میں کوئی خاص تلخی پیدا ہو۔
البتہ وزیر اعلیٰ سندھ نے اس بار خود کو ایم کیو ایم سے کچھ فاصلے پر رکھا تھا اور سندھ کی تقسیم اور ان کی پارٹی کی تقسیم کے درمیان فاصلہ رکھا۔ اور ہلکے پھلکے زبانی وار کیے پی پی کو فعال بنانے کے لیے 27 دسمبر کو لیاقت باغ پنڈی میں جلسے کی بات انھوں نے بڑے زور و شور سے کی۔ مگر پاکستان میں بدلتی ہوئی کیفیت میں سیاست عمران خان کے گرد گھوم رہی ہے۔
ان کی یہ Solo سولو یعنی اکیلی تحریک ہے جو حکومت سے متصادم ہو رہی ہے گو کہ لوگوں کو وہ تن تنہا اسلام آباد بند کرنے کے لیے بلا رہے ہیں مگر بے خوف ہو کر بلاول بھٹو نے بھی کراچی ریلی میں جگہ جگہ تقریریں کیں اور نواز شریف کو ہلکا نشانہ بھی لگایا اور نواز شریف کو تخت رائیونڈ کا مالک قرار دیا جب کہ اس کا اطلاق خود ان پر بھی ہوتا ہے کیونکہ پرانے اور 48 اور پچاس سالہ پی پی کے کارکنوں پر ان کو فوقیت دے کر پارٹی چیئرمین بنا دیا گیا۔
انھوں نے دوران تقریر پاکستان کھپے کے نعرے بھی لگوائے گویا یہ پاکستان پر احسان کیا گیا ہے۔ اور تمام وہ نعرے جو بھٹو شہید نے اقتدار میں آنے سے قبل لگائے تھے حذف کر دیے گئے۔ کہاں گئے مزدور، کسان، کہاں گئے طلبا اور ہاری کہاں گیا روٹی کپڑا اور مکان۔ مجھے آج بھی اس بات پر فخر ہے کہ این ایس ایف نے بھٹو صاحب کی انتخابی مہم چلائی شہر بہ شہر قریہ بہ قریہ کو بہ کو اور کامیاب رہی۔ اور اس بات پر بھی فخر ہے کہ جب شیخ مجیب سے دوری ہوئی تو این ایس ایف پیچھے ہٹ گئی اور جب اہل ہوس نے بھٹو صاحب کو تختہ دار پر چڑھانے کی ٹھان لی تو ہم سب پھر اٹھے کہ بھٹو کو زنداں سے زندہ نکالیں گے مگر پارٹی نے ہمارے ساتھ وفا نہ کی اور بیگم نصرت بھٹو کو انھوں نے قانونی انصاف دلانے کی راہ دکھائی۔
وہ تمام وفادار نہ تھے جب کہ معراج محمد خاں بیگم نصرت بھٹو سے ملے تھے اور جہد مسلسل کی کوشش کی تھی اور ہم سب ساتھ تھے مگر اب ہمارے لب خاموش ہیں وہ انقلابی آوازیں مصلحت پرستی کے سیلاب میں خاموش ہیں۔ زیڈ اے بھٹو صاحب آج آپ کچھ زیادہ ہی یاد آ رہے ہیں۔ اس دن کی یاد 1968ء کا وہ تاریخی روشن دن کے گیارہ بجے جب آپ 70 کلفٹن پر اپنے بال ترشوا رہے تھے اور ہماری کابینہ کو اندر بلانے میں کچھ تاخیر پر ہم لوگ برملا برہم ہوئے تو آپ نے خود باہر آ کے لوگوں کو بلایا سب ایک خواب کی طرح یاد ہے۔
سب کچھ بدل چکا ہے وہ عاشقان جان و دل جاتے رہے۔ اب کوئی نہیں جن کا مدعا غریب کی فلاح ہو۔ گزشتہ 10 برس بہت برے گزرے۔ کراچی میں روزانہ مائیں اپنے بیٹوں کو دفناتی رہیں۔ لیاری وہ لیاری نہ رہا جو آپ کا پرامن علاقہ تھا لوگ گھروں سے بے گھر ہوئے ہر طرف لوٹ مار تھی بھتہ خور سرگرم ہوئے لوگ بے اماں بے مکاں ہوئے بی بی صاحبہ کو بھی لیاقت باغ میں قتل کر دیا گیا۔ لوگوں کی امیدیں خاک میں مل گئیں۔ اب بی بی شہید کا ایک بیٹا ہے جو کمر کس کے میدان میں آیا ہے لوگ اس کو دو نظروں سے دیکھ رہے ہیں کچھ مشکوک نظریں دماغ کو یہ پیغام دے رہی ہیں کہ اس کو فدائین جمہوریت نہ جاننا کیونکہ حالات بدلے ہوئے ہیں یہ تو اقتدار کی مسند کے نشین ہیں مگر وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔
آپ کے زمانے کے ایک طفل جو کرکٹر تھے عمران خان بھی میدان سیاست کے ایک شہسوار ہیں انھوں نے بھی رائیونڈ کے ایک ساکن اور وزیر اعظم نواز شریف صاحب کو للکارا ہے۔ دیکھیے کیا ہوتا ہے؟ قوی امکانات ہیں کہ وزیر اعظم کے شدید احکامات ہوں گے کہ عمران خان کی اس تحریک کو کچل دیا جائے۔ اب تک عمران خان کی پارٹی نے ایوب خان اور یحییٰ خان کے دباؤ کو نہیں دیکھا ہے یہ اس سے کہیں سخت ہو گا اور ایسا ہرگز نہ ہو گا کہ فیض آباد اور اسلام آباد کا زیرو پوائنٹ ایسا نہیں کہ نواز لیگ صفر پر آؤٹ ہو جائے۔
وہ 2 نومبر کو سخت گیر موقف اپنائے گی اور جمع ہونے کی نوبت ہرگز سہل نہ ہو گا جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ 2 نومبر اسٹیبلشمنٹ کی ایک تاریخ ہے جو نواز شریف پر دباؤ ڈالنے کے لیے تیار کی گئی ہے۔ اس عمل میں حزب اختلاف کی کوئی پارٹی بھی عمران خان کے ساتھ نہیں ہے۔ البتہ شیخ رشید ان کے ساتھ ہوں گے۔ مگر ڈاکٹر طاہر القادری ان کے ساتھ نہ ہوں گے۔ کوئی بڑا اختلاف تو عمران خان سے ڈاکٹر طاہر القادری کا نہیں مگر صرف اتنا ضرور ہے کہ علامہ صاحب قیادت میں ذرا بلند درجہ چاہتے تھے۔
اتفاق سے دونوں لیڈر حضرات انا کے خول میں جکڑے ہوئے ہیں۔ علامہ صاحب یہ چاہتے تھے کہ عمران خان ہر قدم ان سے پوچھ کے اٹھائیں جب کہ عمران خان مشاورت کے معاملہ میں نسبتاً فراخ دل واقع نہیں ہوئے ہیں مگر ہم وثوق سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ دونوں لیڈروں کے آج جو راستے جدا جدا ہیں تو اس میں غلطی کس کی ہے۔ ہاں یہ بات یقینی ہے کہ دونوں پارٹیوں کی مزاحمت مل کر واقعی سخت ہوتی۔ کیونکہ مزدور انجمنیں اور ہاری تحریک بڑے پیمانے پر مزاحمت کرتی نظر نہیں آ رہی ہیں۔
یہ ایک سخت مزاحمت کی کیفیت ہو گی مگر ماڈل ٹاؤن میں جو کچھ ہوا ہے وہ بھی (ن) لیگ کے لیے ایک سبق ہے ہو سکتا ہے کہ نواز لیگ نے نسبتاً ہلکا ہاتھ رکھے۔ مگر چونکہ دونوں جانب سے شدید مزاحمت کی توقع ہے تو آخری حد تک عمران خان کا نعرہ وقت سے پہلے ہی کہیں ختم نہ ہو جائے۔ البتہ اس سیاست کے تصادم کو ہم دو صوبوں کا تصادم بھی نہیں کہہ سکتے۔ لیکن نواز شریف کے سیاسی رویے کو دیکھتے ہوئے اور سیاسی دور بینی کو دیکھتے ہوئے کسی سیاسی عمل کی دوڑ درمیان میں ہوتی نظر آتی ہے ورنہ صورتحال کہیں واقعی مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان کی شکل اختیار نہ کر جائے کہ جب وہ چلتے تھے تو حکومت بند ہو جاتی تھی۔
جو لوگ پی پی کی کوئی تحریک سمجھ رہے ہیں کہ وہ درمیان میں کوئی مثبت قدم اٹھائے اس کی کوئی توقع نہیں۔ کیونکہ رفتہ رفتہ پی پی سندھ کی پارٹی بن کر رہ گئی ہے وہاں اس کے ہاتھ پاؤں مضبوط نہیں ویسے بھی آصف علی زرداری اور نواز شریف کے مابین کوئی واضح اختلاف نہیں البتہ پی ٹی آئی پر کریک ڈاؤن اکتوبر کے آخری ہفتے میں متوقع ہے گو کہ رائے ونڈ میں عمران خان کا شو کافی اہمیت کا حامل تھا ممکن ہے یہ ہو چونکہ تصادم حکومت کے لیے ناگزیر ہے تو یہ حکومت کی سخت گیری کی مثال ثابت ہو گا یہ شو طویل نہ ہو گا اس کے نتائج جلد سامنے آئیں گے خواہ وہ عمران خان کے لیے مثبت ہو یا منفی اس تحریک میں عمران خان کی سیاسی زندگی کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے کامیابی کی شکل میں 2018ء کے الیکشن کے نتائج اکتوبر کی تحریک میں ہی سامنے آ جائیں گے۔