کچھ احوال ہنر مند افراد کا
سرکاری سطح پر ایسی مثالی جامعہ تقریبا پاکستان میں علم کے خزانہ کا سب سے بڑا مرکز ہے
BADIN:
گزشتہ دنوں میرا شہر کراچی کی سب سے بڑی اعلی تعلیمی و علمی درسگاہ جامعہ کراچی جانے کا اتفاق ہوا۔ بہت ہی اچھا لگا۔ نہایت کشادہ اور وسیع و عریض رقبہ پر محیط نہایت پرسکون ماحول میں اور وہ بھی محدود مالی وسائل میں رہتے ہوئے معیاری علم کا حصول بلاشبہ اس سر زمین پاک کے چند خوش نصیب ذ ھین اور محنتی بچوں کوہی نصیب ہوا کرتاہے۔
سچ بات تو یہ ہے کہ سرکاری سطح پر ایسی مثالی جامعہ تقریبا پاکستان میں علم کے خزانہ کا سب سے بڑا مرکز ہے اور وہ بھی ایسے وقت میں جہاں جامعہ کی سطح سے نچلے سرکاری تمام تعلیمی ادارے تباہ و بربادی کابری طرح سے شکار ہیںاور تعلیم ایک کاروبار کا درجہ حاصل کر چکی ہو۔ طلوع آفتاب سے غروب آفتاب کے بعد چند گھنٹوں کی مختصر سی تاخیر تک یہاں علم کے حصول کے پیاسو ں کاتانتا بندھا رہتا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا ڈیپارٹمینٹ(کلیہ) ہو جہاں نو عمرطلبا و طالبات (بلخصوص طالبات) کی کثیر تعداد موجودنہ ہو۔
اسی دوران ہمیں معلوم ہوا کہ تیزی سے ہونے والی جدید ترقی کے پیش نظر کچھ انجنیرنگ اور دیگر سائنس و ٹیکنالوجی کے علوم سے متعلق کچھ نئے اضافی شعبہ جات بھی جامعہ میں شامل ہوئے ہیں۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق مضامین میں عملی تحقیق(Research) کاکام بھی ہنوزتیزی سے جاری ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کا صوفیانہ صوبہ سندھ کے سب سے بڑے آبادیاتی اس ساحلی شہر میں تعلیم کا معیار کیا ہے۔ سناہے تمام داخلے یونیورسٹی (جامعہ) کے مقرر کردہ میرٹ(قابلیت) کی بنیاد پر باقاعدہ تحریری ٹیسٹ کے کوا لیفائی کرنے اور دستیاب کوٹہ میں رہتے ہوئے ملنا نصیب ہوتا ہے۔
ماضی قریب یعنی کمپیو ٹرٹیکنالوجی کی آمد سے قبل عرصہ کی حا صل کردہ تعلیم کا جب موازنہ کیا جاتا ہے تو ایسا تاثر مل رہا ہوتا ہے جیسے یہ تعلیم بہت فرسودہ اور روایتی انداز کی ہے جو موجودہ جدید تعلیم سے میل ہی نہیں کھاتی۔ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ تعلیم کسی بھی دورکی ہوبشر طیکہ وہ محنت ، ایمانداری اور لگن کے ساتھ حا صل کی گئی ہو،بہرحال اس کی اہمیت اپنی جگہ ضرور ہے۔ہاں یو ں ضرورکہا جا سکتاہے کہ بدلتے ہوئے عا لمی حالات کے تناظر میں تعلیم کے مروجہ مضامین میں کچھ باب کا اضافہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
MA, BA, BSC, B.COM کی تعلیم کے شعبہ میں شناخت ثانوی حیثیت کی سی ہوکررہ گئی ہے۔ جدید عصرحاضر ان کی جگہ BS, BCS, MBA جیسی ڈگریوں کا متقاضی ہے جو عملی طورپر معاشی سرگرمیوںمیںممدثابت ہو سکے۔ کیونکہ گھمبیرمسائل میں گھرا ہوا ہمارے ملک کاتقریبا ہر شہری کابنیادی مسئلہ ہی معاشی اوراقتصادی ہے۔ بیروز گاری عروج پر ہے۔ صد افسوس ! ادب تو اب بے ادب ہوکررہ گیا ہے۔ ان ڈگریوںسے آ گے نظردوڑاتے ہیں توہمیں ایم فل (ماسٹر آ ف فلاسفی) اور پی ایچ ڈی P.Hdیعنی ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگریوں کی بہتات نظرآتی ہے (ماسوائے ملک کی معروف جامعا ت میں معمور تعلیمی تدریسی عملہ پروفیسرز، لیکچررز وغیرہ یا کسی تحقیقی ادارہ کے عملہ کے)۔
بہت معذرت کے ساتھ جس کو دیکھو فلاں ڈاکٹر، فلاں ڈاکٹر ۔ یقین کیجئے ! اب اس ڈگری پر شک کا گمان ہونے لگا ہے، اللہ خیر کرے ! ہم جیسا سیدھا سادھا آدمی لفظ ڈاکٹرسنکر یا پڑھ کریہی سمجھ بیٹھتا ہے کہ یہ کسی اسپتال کے طب کے معزز ڈاکٹر ہوں گے جسکو انسانیت کا مسیحا کہاجاتا ہے۔ قابل افسوس ہے یہ امر کہ انھی جامعات سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں فارغ التحصیل طلبا وطالبات ڈگریاں تو حاصل کرلیتے ہیں مگر حکومت کی ناقص پالیسیوں کے سبب اتنی تعداد کی کھپت ہی نہیں ہو پاتی۔
اپنے مخصوص شعبہ میں ملازمت کے حصول میں ناکامی کے بعد انھیں کسی بھی قسم کی ملازمت کر نے پر مجبو ر ہونا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر صحافت یا ابلاغ عامہ سے متعلق ماس کمیونیکیشن میں ڈگری ہولڈرز کا بینک میں کیا کام۔ انجینیرنگ کے ڈگری یافتہ کا بینک کی کمرشل سرگرمیوں سے کیا تعلق۔جو چیز جہاںکی ہے، وہیں اچھی لگتی ہے۔
ہمارے ہاں منعقدہ انٹرمیڈییٹ کے سالانہ امتحانات میں کامیاب ہونے والے طلبا و طالبات کی ایسی خاصی تعداد بھی ہوتی ہے جوان جامعات میں داخلوں کے مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترپاتے، ایسے ہی طلباکی منزل ذراکٹھن محسوس ہوتی ہے۔ ہمارے بہت سے نا عاقبت اندیش طلباء اپنی معاشی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے صرف نوکری پر ہی اکتفا کیوں کرتے ہیں، سمجھ سے بالاتر ہے۔ صنعتی اور کمرشل اداروں کی پرائیویٹایزیشن کے قبیع فعل کے بعد سے ان اداروں میں نوکری ملنااب اتنا آسان نہیں رہا اگر خوش قسمتی سے مل بھی جائے تو سوائے خون کی چوسائی کے کچھ نہیں۔ مزدور اورٹریڈ یونینوں کاوجود تقریبا غیر موثرہوگیا ہے۔
سرکاری نوکری کا ہمیں ایک فا ئدہ ضرور نظرآیاکہ سروس کی معیاد مکمل ہونے پر ماہانہ پینشن اور معقول رقم کاحصول۔ موصوف خود تو کوچہ فانی ہو گئے بیو ا پینشن کی حقدار ٹھہریں۔ کاروبارکے لیے کاروباری ما حول ، سرمایہ اور تجربہ کی ضرورت ہوتی ہے جو آپ کے پاس نہیں ۔سرمایہ ہے تجربہ نہیں، سرمایہ وہ بھی محدود، نقصان کا متحمل نہیںہو ا جا سکتا۔ اب کریں توکیا کریں۔ان تمام سماجی و معاشی مسائل کاواحد حل کسی ہنرکو اپنانے سے ہے۔
انٹرمیڈیٹ کے بعد پولی ٹیکنک کے تین یا چار سالہ ڈپلومہ ملک کی مختلف سرکاری اورنجی درسگاہوں میںکروائی جاتی ہیں۔ مگر آجکل کھابو ں کا دور ہے اوراس وقت کھانا پیناایک مربوط اور منافع بخش کاروباری صنعت کی شکل اختیار کرگیا ہے اور اس کاروباری شوق کی تکمیل مردحضرات ہی بخوبی پوری کر رہے ہیں۔
کھابوں کی اس ترقی پذیر شکل کو دیکھتے ہوئے حال ہی میں Culinary Art کے نام سے کچھ تعلیمی ادارے قائم ہوئے ہیں جو علاقائی اور عالمی معیار کے کھانوں کی تربیت فراہم کرتے ہیں جن کو اٹلین زبان میں (CHEF ) شیف کہاجاتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس وقت تقریباپوری دنیامیں شیف کی بڑی ڈیمانڈہے۔ادھرمغربی ممالک کی حکومیتں بھی ایسے ہی ہنر مندافراد کے لیے جامع منصوبہ بندی کر رہے ہیں اوران پر عملدرآمد بھی ہو چکاہے۔
میرے بھتیجا داماد جو آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں بطور I.Tانجینئر کے رہ رہے ہیں ۔گزشتہ دنوں وہ پاکستان آئے ہوئے تھے ملاقات ہوئی، بتا رہے تھے کہ ہمارے گھر کی کچن کی واش بیسن کا پائپ لیک کر گیا۔ ہم نے پلمبر جن کا نام ٹونی تھا بڑے ادب و احترام کے ساتھ ان سے فون پر اپنا مدعا بیان کیا بہر حال وہ اپنے دیے گئے وقت کے مطابق گھرپر پہنچ گئے۔
گھر میں ان کی بیگم (یعنی ہماری بھتیجی)جنھیں آسٹریلیا آئے ہوئے چند ہی ماہ ہوئے ہوں گے حسب معمول پاکستانی تلخ لہجہ میں اپنے شوہر نامداد سے بولی کہ دیکھیں دروازہ پر پلمبر آیا ہے ۔ان کے شوہر بڑے ناگواری سے بیگم کی طرف مخاطب ہوتے ہوئے بولے ذرا عزت سے نام لو یہ پاکستان نہیں ہے ۔یہ آدمی عام آدمی نہیں بلکہ گورنمنٹ کا رجسٹرڈ شدہ کوالیفائیڈ اور عزت دار پلمبر ہے جو بیک وقت تین بڑی جائیدادوں کا مالک ہے ۔
اب آپ آسٹریلیا کے ہنر مند افراد کا سماجی سٹیٹس اور پاکستان میں لوگوں کا طرز عمل اور رویہ ہنر مند افراد کے بارے میں کیا ہے وہ سب آپ کے سامنے ہے۔ پاکستان میں ہنر مند افراد Skilled Workersزیادہ تر ٹیکنیکل بورڈ سے سرٹیفکیٹ یافتہ ہوتے ہیں یا کسی پولی ٹیکنیک ادارہ سے تین یا چار سالہ ڈپلومہ یافتہ ہوتے ہیں ۔ہمارا سماجی کلچر کہہ لیجیے یا ہماری گھٹیا سوچ کہہ لیجیے، انصاف کے ساتھ بتائیے کہ آپ کام کی صورت میں معمولی روپے پیسوں میں ان لوگوں سے کس قدر بارگیننگ کرتے ہیں۔ دل چاہے گا فری میں کام کرالیں۔ البتہ کاروباری گداگروں کو ثواب کے چکر میں10روپے بھی عنایت فرما دیں گے۔
اس عمل سے محنت سے کمانے کی ایک طرف دل شکنی ہوتی ہے دوسری طرف پیشہ ور گداگروں کی بھیک مانگنے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔ ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی خوبی نوازتا خواہ وہ معذوری کی حالت ہی میںکیوں نہ ہومگر اللہ کی پاک ذات نے زرق حلال کے لیے کوئی اضافی خوبی ضرور دی ہو گی۔ ہنر مند کبھی بھوکا نہیں سوتا۔ خواہ وہ الیکٹریشن موٹریا موٹر سائیکل مکینک، شیفر ہوں، ہیر ڈریسر، ٹیلرز، تعمیراتی کسی بھی قسم ہنر کا حامل ہو ۔ کامیاب معاشی زندگی کا مستحق ہے۔
سیانے کہتے ہیں کہ تعلیم کے ساتھ متفرقہ علوم بالخصوص پیشہ ورانہ تعلیم یا ہنر بھی حاصل کر لیاجائے تو زندگی مزید سہل ہوجاتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ ''علم سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں اور جہالت سے بڑھ کر کوئی غربت نہیں''۔ اسی لیے گوئٹے بھی کہہ گیا''سائنس اور فن تمام دنیا کی میراث ہیں اوران کے سامنے قومیت کی حدیں حائل نہیں ہوسکیں''۔
گزشتہ دنوں میرا شہر کراچی کی سب سے بڑی اعلی تعلیمی و علمی درسگاہ جامعہ کراچی جانے کا اتفاق ہوا۔ بہت ہی اچھا لگا۔ نہایت کشادہ اور وسیع و عریض رقبہ پر محیط نہایت پرسکون ماحول میں اور وہ بھی محدود مالی وسائل میں رہتے ہوئے معیاری علم کا حصول بلاشبہ اس سر زمین پاک کے چند خوش نصیب ذ ھین اور محنتی بچوں کوہی نصیب ہوا کرتاہے۔
سچ بات تو یہ ہے کہ سرکاری سطح پر ایسی مثالی جامعہ تقریبا پاکستان میں علم کے خزانہ کا سب سے بڑا مرکز ہے اور وہ بھی ایسے وقت میں جہاں جامعہ کی سطح سے نچلے سرکاری تمام تعلیمی ادارے تباہ و بربادی کابری طرح سے شکار ہیںاور تعلیم ایک کاروبار کا درجہ حاصل کر چکی ہو۔ طلوع آفتاب سے غروب آفتاب کے بعد چند گھنٹوں کی مختصر سی تاخیر تک یہاں علم کے حصول کے پیاسو ں کاتانتا بندھا رہتا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا ڈیپارٹمینٹ(کلیہ) ہو جہاں نو عمرطلبا و طالبات (بلخصوص طالبات) کی کثیر تعداد موجودنہ ہو۔
اسی دوران ہمیں معلوم ہوا کہ تیزی سے ہونے والی جدید ترقی کے پیش نظر کچھ انجنیرنگ اور دیگر سائنس و ٹیکنالوجی کے علوم سے متعلق کچھ نئے اضافی شعبہ جات بھی جامعہ میں شامل ہوئے ہیں۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق مضامین میں عملی تحقیق(Research) کاکام بھی ہنوزتیزی سے جاری ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کا صوفیانہ صوبہ سندھ کے سب سے بڑے آبادیاتی اس ساحلی شہر میں تعلیم کا معیار کیا ہے۔ سناہے تمام داخلے یونیورسٹی (جامعہ) کے مقرر کردہ میرٹ(قابلیت) کی بنیاد پر باقاعدہ تحریری ٹیسٹ کے کوا لیفائی کرنے اور دستیاب کوٹہ میں رہتے ہوئے ملنا نصیب ہوتا ہے۔
ماضی قریب یعنی کمپیو ٹرٹیکنالوجی کی آمد سے قبل عرصہ کی حا صل کردہ تعلیم کا جب موازنہ کیا جاتا ہے تو ایسا تاثر مل رہا ہوتا ہے جیسے یہ تعلیم بہت فرسودہ اور روایتی انداز کی ہے جو موجودہ جدید تعلیم سے میل ہی نہیں کھاتی۔ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ تعلیم کسی بھی دورکی ہوبشر طیکہ وہ محنت ، ایمانداری اور لگن کے ساتھ حا صل کی گئی ہو،بہرحال اس کی اہمیت اپنی جگہ ضرور ہے۔ہاں یو ں ضرورکہا جا سکتاہے کہ بدلتے ہوئے عا لمی حالات کے تناظر میں تعلیم کے مروجہ مضامین میں کچھ باب کا اضافہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
MA, BA, BSC, B.COM کی تعلیم کے شعبہ میں شناخت ثانوی حیثیت کی سی ہوکررہ گئی ہے۔ جدید عصرحاضر ان کی جگہ BS, BCS, MBA جیسی ڈگریوں کا متقاضی ہے جو عملی طورپر معاشی سرگرمیوںمیںممدثابت ہو سکے۔ کیونکہ گھمبیرمسائل میں گھرا ہوا ہمارے ملک کاتقریبا ہر شہری کابنیادی مسئلہ ہی معاشی اوراقتصادی ہے۔ بیروز گاری عروج پر ہے۔ صد افسوس ! ادب تو اب بے ادب ہوکررہ گیا ہے۔ ان ڈگریوںسے آ گے نظردوڑاتے ہیں توہمیں ایم فل (ماسٹر آ ف فلاسفی) اور پی ایچ ڈی P.Hdیعنی ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگریوں کی بہتات نظرآتی ہے (ماسوائے ملک کی معروف جامعا ت میں معمور تعلیمی تدریسی عملہ پروفیسرز، لیکچررز وغیرہ یا کسی تحقیقی ادارہ کے عملہ کے)۔
بہت معذرت کے ساتھ جس کو دیکھو فلاں ڈاکٹر، فلاں ڈاکٹر ۔ یقین کیجئے ! اب اس ڈگری پر شک کا گمان ہونے لگا ہے، اللہ خیر کرے ! ہم جیسا سیدھا سادھا آدمی لفظ ڈاکٹرسنکر یا پڑھ کریہی سمجھ بیٹھتا ہے کہ یہ کسی اسپتال کے طب کے معزز ڈاکٹر ہوں گے جسکو انسانیت کا مسیحا کہاجاتا ہے۔ قابل افسوس ہے یہ امر کہ انھی جامعات سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں فارغ التحصیل طلبا وطالبات ڈگریاں تو حاصل کرلیتے ہیں مگر حکومت کی ناقص پالیسیوں کے سبب اتنی تعداد کی کھپت ہی نہیں ہو پاتی۔
اپنے مخصوص شعبہ میں ملازمت کے حصول میں ناکامی کے بعد انھیں کسی بھی قسم کی ملازمت کر نے پر مجبو ر ہونا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر صحافت یا ابلاغ عامہ سے متعلق ماس کمیونیکیشن میں ڈگری ہولڈرز کا بینک میں کیا کام۔ انجینیرنگ کے ڈگری یافتہ کا بینک کی کمرشل سرگرمیوں سے کیا تعلق۔جو چیز جہاںکی ہے، وہیں اچھی لگتی ہے۔
ہمارے ہاں منعقدہ انٹرمیڈییٹ کے سالانہ امتحانات میں کامیاب ہونے والے طلبا و طالبات کی ایسی خاصی تعداد بھی ہوتی ہے جوان جامعات میں داخلوں کے مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترپاتے، ایسے ہی طلباکی منزل ذراکٹھن محسوس ہوتی ہے۔ ہمارے بہت سے نا عاقبت اندیش طلباء اپنی معاشی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے صرف نوکری پر ہی اکتفا کیوں کرتے ہیں، سمجھ سے بالاتر ہے۔ صنعتی اور کمرشل اداروں کی پرائیویٹایزیشن کے قبیع فعل کے بعد سے ان اداروں میں نوکری ملنااب اتنا آسان نہیں رہا اگر خوش قسمتی سے مل بھی جائے تو سوائے خون کی چوسائی کے کچھ نہیں۔ مزدور اورٹریڈ یونینوں کاوجود تقریبا غیر موثرہوگیا ہے۔
سرکاری نوکری کا ہمیں ایک فا ئدہ ضرور نظرآیاکہ سروس کی معیاد مکمل ہونے پر ماہانہ پینشن اور معقول رقم کاحصول۔ موصوف خود تو کوچہ فانی ہو گئے بیو ا پینشن کی حقدار ٹھہریں۔ کاروبارکے لیے کاروباری ما حول ، سرمایہ اور تجربہ کی ضرورت ہوتی ہے جو آپ کے پاس نہیں ۔سرمایہ ہے تجربہ نہیں، سرمایہ وہ بھی محدود، نقصان کا متحمل نہیںہو ا جا سکتا۔ اب کریں توکیا کریں۔ان تمام سماجی و معاشی مسائل کاواحد حل کسی ہنرکو اپنانے سے ہے۔
انٹرمیڈیٹ کے بعد پولی ٹیکنک کے تین یا چار سالہ ڈپلومہ ملک کی مختلف سرکاری اورنجی درسگاہوں میںکروائی جاتی ہیں۔ مگر آجکل کھابو ں کا دور ہے اوراس وقت کھانا پیناایک مربوط اور منافع بخش کاروباری صنعت کی شکل اختیار کرگیا ہے اور اس کاروباری شوق کی تکمیل مردحضرات ہی بخوبی پوری کر رہے ہیں۔
کھابوں کی اس ترقی پذیر شکل کو دیکھتے ہوئے حال ہی میں Culinary Art کے نام سے کچھ تعلیمی ادارے قائم ہوئے ہیں جو علاقائی اور عالمی معیار کے کھانوں کی تربیت فراہم کرتے ہیں جن کو اٹلین زبان میں (CHEF ) شیف کہاجاتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس وقت تقریباپوری دنیامیں شیف کی بڑی ڈیمانڈہے۔ادھرمغربی ممالک کی حکومیتں بھی ایسے ہی ہنر مندافراد کے لیے جامع منصوبہ بندی کر رہے ہیں اوران پر عملدرآمد بھی ہو چکاہے۔
میرے بھتیجا داماد جو آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں بطور I.Tانجینئر کے رہ رہے ہیں ۔گزشتہ دنوں وہ پاکستان آئے ہوئے تھے ملاقات ہوئی، بتا رہے تھے کہ ہمارے گھر کی کچن کی واش بیسن کا پائپ لیک کر گیا۔ ہم نے پلمبر جن کا نام ٹونی تھا بڑے ادب و احترام کے ساتھ ان سے فون پر اپنا مدعا بیان کیا بہر حال وہ اپنے دیے گئے وقت کے مطابق گھرپر پہنچ گئے۔
گھر میں ان کی بیگم (یعنی ہماری بھتیجی)جنھیں آسٹریلیا آئے ہوئے چند ہی ماہ ہوئے ہوں گے حسب معمول پاکستانی تلخ لہجہ میں اپنے شوہر نامداد سے بولی کہ دیکھیں دروازہ پر پلمبر آیا ہے ۔ان کے شوہر بڑے ناگواری سے بیگم کی طرف مخاطب ہوتے ہوئے بولے ذرا عزت سے نام لو یہ پاکستان نہیں ہے ۔یہ آدمی عام آدمی نہیں بلکہ گورنمنٹ کا رجسٹرڈ شدہ کوالیفائیڈ اور عزت دار پلمبر ہے جو بیک وقت تین بڑی جائیدادوں کا مالک ہے ۔
اب آپ آسٹریلیا کے ہنر مند افراد کا سماجی سٹیٹس اور پاکستان میں لوگوں کا طرز عمل اور رویہ ہنر مند افراد کے بارے میں کیا ہے وہ سب آپ کے سامنے ہے۔ پاکستان میں ہنر مند افراد Skilled Workersزیادہ تر ٹیکنیکل بورڈ سے سرٹیفکیٹ یافتہ ہوتے ہیں یا کسی پولی ٹیکنیک ادارہ سے تین یا چار سالہ ڈپلومہ یافتہ ہوتے ہیں ۔ہمارا سماجی کلچر کہہ لیجیے یا ہماری گھٹیا سوچ کہہ لیجیے، انصاف کے ساتھ بتائیے کہ آپ کام کی صورت میں معمولی روپے پیسوں میں ان لوگوں سے کس قدر بارگیننگ کرتے ہیں۔ دل چاہے گا فری میں کام کرالیں۔ البتہ کاروباری گداگروں کو ثواب کے چکر میں10روپے بھی عنایت فرما دیں گے۔
اس عمل سے محنت سے کمانے کی ایک طرف دل شکنی ہوتی ہے دوسری طرف پیشہ ور گداگروں کی بھیک مانگنے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔ ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی خوبی نوازتا خواہ وہ معذوری کی حالت ہی میںکیوں نہ ہومگر اللہ کی پاک ذات نے زرق حلال کے لیے کوئی اضافی خوبی ضرور دی ہو گی۔ ہنر مند کبھی بھوکا نہیں سوتا۔ خواہ وہ الیکٹریشن موٹریا موٹر سائیکل مکینک، شیفر ہوں، ہیر ڈریسر، ٹیلرز، تعمیراتی کسی بھی قسم ہنر کا حامل ہو ۔ کامیاب معاشی زندگی کا مستحق ہے۔
سیانے کہتے ہیں کہ تعلیم کے ساتھ متفرقہ علوم بالخصوص پیشہ ورانہ تعلیم یا ہنر بھی حاصل کر لیاجائے تو زندگی مزید سہل ہوجاتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ ''علم سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں اور جہالت سے بڑھ کر کوئی غربت نہیں''۔ اسی لیے گوئٹے بھی کہہ گیا''سائنس اور فن تمام دنیا کی میراث ہیں اوران کے سامنے قومیت کی حدیں حائل نہیں ہوسکیں''۔