توہین عدالت کا ہتھیار نہ رہا تو عدلیہ غیر موثر ہوجائیگی سپریم کورٹ
سب کو چھوٹ دیدی گئی کہ توہین عدالت کرو اور آزاد پھرتے رہو؟اس طرح تو انصاف کا عمل رک جائیگا۔ آبزرویشن
توہین عدالت کا قانون انصاف کے اسلحہ خانے میں سب سے مؤثر ہتھیار ہے۔ یہ ہتھیار نہیں رہے گا تو عدلیہ غیر مؤثر ہوجائے گی۔ راتوں رات قانون نہیں بننے چاہئیں۔ یہ آبزرویشن چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے توہین عدالت قانون کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران دی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ توہین عدالت کا نیا قانون انصاف کے عمل کے منافی ہے اور اس قانون نے توہین عدالت کے آئینی شق کو غیر مؤثر کر دیا ہے۔ منگل کو توہین عدالت قانون 2012ء کے خلاف دلائل دیتے ہوئے لیاقت قریشی نے عدالت کو بتایا کہ مذکورہ قانون مناسب غور اور بحث کے بغیر منظو کیا گیا جس پر چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ مذکورہ قانون غور کے بغیر منظور ہوا۔
فاضل وکیل نے بتایا کہ حزب اختلاف نے منظوری کے وقت ایوان سے واک آؤٹ کیا جس پر جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ اگر قانون کو پرکھنے کا معیار حزب اختلاف کا واک آؤٹ ہو تو پھر کوئی قانون معیار پر پورا نہیں اتر سکے گا۔ فاضل وکیل نے کہا کہ مراعات یافتہ طبقے کو اس قانون کے ذریعے استثنٰی دیا گیا۔
حامد خان نے عدالت کو بتایا کہ اس قانون کے ذریعے پارلیمنٹ نے ایک عدالتی فیصلہ صادر کیا ہے اور قانون کی ایک شق کے ذریعے توہین عدالت کے پرانے فیصلے بھی ختم کرنا چا ہتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ نے توہین عدالت قانون کی منظوری میں جلد بازی کا مظا ہرہ کیا ہے اس سے پہلے بھی پارلیمنٹ جلد بازی کا مظاہرہ کر چکی ہے جب وزیر اعظم نواز شریف کو عدالت نے طلب کیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانون بنانے کا ایک طریقۂ کار ہے جس کی پیروی ضروری ہے۔
پارلیمنٹ کو قانون سازی کے لیے طلب کیا جائے تو قانون خود بخود نہیں بن جاتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دنیا بھر میں قانون بنانے سے پہلے اس پر سیر حاصل بحث کی جاتی ہے، پارلیمنٹ کو بتا نا پڑتا ہے کہ نئے قانون بنانے کا مقصد کیا ہے۔ چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ پہلے سے موجود قانون کی جگہ نئے قانون کا جواز بتانا پڑتا ہے اچانک نیا قانون نہیں بنتا۔ چیف جسٹس نے کہا یہ نہیں ہو تا کہ صبح اٹھو اور فیصلہ کرلو کہ نیا قانون لانا ہے۔ چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ آخر پرانے قانون کی موجودگی میں نیا قانون بنانے کی ضرورت کیوں پڑی؟۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 2003ء کے توہین عدالت کا قانون زیادہ شفاف ٹرائل فراہم کر رہا تھا اور اس کو آئینی ترمیم میں تحفظ بھی حاصل ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ توہین عدالت کے نئے قانون کے ذریعے آئین کی شق 248کادائرہ وسیع کر کے تمام سرکاری عہدیداروں کو استثنٰی دے دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کو مرضی کے مطا بق نہیں موڑا جاسکتا۔ اس ملک میں جمہوریت اور پارلیمانی اصولوں کو قائم کر نا ہے اس لیے اچھے قوانین بننے چا ہئیں۔ راتوں رات قانون نہیں بننے چا ہئیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت کے نئے قانون نے توہین عدالت کی آئینی شق کو غیر مؤثر کر دیا ہے، توہین کا دائر ہ صرف جج تک محدو کر دیا گیا ہے۔ حامد خان نے کہا کہ قانون عدلیہ کے آزادی کے منافی ہے۔ سپریم کورٹ کے اختیار کو کم کرنا غیر آئینی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اب یہ قانون صرف غریبوں کے لیے رہ گیا ہے، اس قانون کے ذریعے آرٹیکل 190کی بھی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایڈمنسٹریشن آف جسٹس کے بھی منافی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ قانون یہ ہے کہ اگر کوئی شخص توہین عدالت کا مرتکب ہو تو اسے فوری سزا ملنی چا ہیے لیکن جو قانون لایا گیا ہے اس نے سب کو چھوٹ دے دی ہے کہ توہین عدالت کرو اور شو کاز کے خلاف اپیل کرکے آزاد پھرتے رہو۔ چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ اس طرح تو عدلیہ کے لیے اپنے فیصلوں پر عمل درآمد مشکل اور عدالتیں غیر مؤثر ہوجائیں گی۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے سوال اٹھایا کہ ایسا کوئی قانون ہے جو اپیل کی صورت میں فیصلہ معطل کرتا ہو۔
حامد خان نے بتایا کہ زیر غور قانون، قانون کی حکمرانی کے تصور سے متصادم ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اس کو عدلیہ کے معاملات میں مداخلت نہیں کہا جا سکتا اس طرح تو انصاف کا عمل رک جائے گا۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اعلٰی عدلیہ میں پٹیشن ہمیشہ ریاستی مشینری کے جبر کے خلاف دائر ہوتی ہے، جب سرکار کسی کا بنیادی حق سلب کرے گی تو وہ عدلیہ سے رجوع کرے گا کیونکہ عام آدمی کو ریاستی جبر سے تحفظ کی ضرورت ہے لیکن جب سرکاری اہلکار عدالت آکر یہ کہیں گے کہ کر لو جو کرنا ہے تو پھر قانون کی حکمرانی کہاں رہ جائے گی، جسے استثنیٰ ہے عدالت چاہے بھی تو ان کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکے گی۔
چیف جسٹس نے کہا بات ذاتی انا یا انتقام کی نہیں، انصاف کے عمل اور عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کی ہے۔درخواست گزار اشرف گجر نے صدارتی استثنیٰ کا معاملہ اٹھایا لیکن چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ یہ معاملہ عدالت کے سامنے نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ توہین عدالت کا نیا قانون انصاف کے عمل کے منافی ہے اور اس قانون نے توہین عدالت کے آئینی شق کو غیر مؤثر کر دیا ہے۔ منگل کو توہین عدالت قانون 2012ء کے خلاف دلائل دیتے ہوئے لیاقت قریشی نے عدالت کو بتایا کہ مذکورہ قانون مناسب غور اور بحث کے بغیر منظو کیا گیا جس پر چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ مذکورہ قانون غور کے بغیر منظور ہوا۔
فاضل وکیل نے بتایا کہ حزب اختلاف نے منظوری کے وقت ایوان سے واک آؤٹ کیا جس پر جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ اگر قانون کو پرکھنے کا معیار حزب اختلاف کا واک آؤٹ ہو تو پھر کوئی قانون معیار پر پورا نہیں اتر سکے گا۔ فاضل وکیل نے کہا کہ مراعات یافتہ طبقے کو اس قانون کے ذریعے استثنٰی دیا گیا۔
حامد خان نے عدالت کو بتایا کہ اس قانون کے ذریعے پارلیمنٹ نے ایک عدالتی فیصلہ صادر کیا ہے اور قانون کی ایک شق کے ذریعے توہین عدالت کے پرانے فیصلے بھی ختم کرنا چا ہتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ نے توہین عدالت قانون کی منظوری میں جلد بازی کا مظا ہرہ کیا ہے اس سے پہلے بھی پارلیمنٹ جلد بازی کا مظاہرہ کر چکی ہے جب وزیر اعظم نواز شریف کو عدالت نے طلب کیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانون بنانے کا ایک طریقۂ کار ہے جس کی پیروی ضروری ہے۔
پارلیمنٹ کو قانون سازی کے لیے طلب کیا جائے تو قانون خود بخود نہیں بن جاتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دنیا بھر میں قانون بنانے سے پہلے اس پر سیر حاصل بحث کی جاتی ہے، پارلیمنٹ کو بتا نا پڑتا ہے کہ نئے قانون بنانے کا مقصد کیا ہے۔ چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ پہلے سے موجود قانون کی جگہ نئے قانون کا جواز بتانا پڑتا ہے اچانک نیا قانون نہیں بنتا۔ چیف جسٹس نے کہا یہ نہیں ہو تا کہ صبح اٹھو اور فیصلہ کرلو کہ نیا قانون لانا ہے۔ چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ آخر پرانے قانون کی موجودگی میں نیا قانون بنانے کی ضرورت کیوں پڑی؟۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 2003ء کے توہین عدالت کا قانون زیادہ شفاف ٹرائل فراہم کر رہا تھا اور اس کو آئینی ترمیم میں تحفظ بھی حاصل ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ توہین عدالت کے نئے قانون کے ذریعے آئین کی شق 248کادائرہ وسیع کر کے تمام سرکاری عہدیداروں کو استثنٰی دے دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کو مرضی کے مطا بق نہیں موڑا جاسکتا۔ اس ملک میں جمہوریت اور پارلیمانی اصولوں کو قائم کر نا ہے اس لیے اچھے قوانین بننے چا ہئیں۔ راتوں رات قانون نہیں بننے چا ہئیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت کے نئے قانون نے توہین عدالت کی آئینی شق کو غیر مؤثر کر دیا ہے، توہین کا دائر ہ صرف جج تک محدو کر دیا گیا ہے۔ حامد خان نے کہا کہ قانون عدلیہ کے آزادی کے منافی ہے۔ سپریم کورٹ کے اختیار کو کم کرنا غیر آئینی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اب یہ قانون صرف غریبوں کے لیے رہ گیا ہے، اس قانون کے ذریعے آرٹیکل 190کی بھی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایڈمنسٹریشن آف جسٹس کے بھی منافی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ قانون یہ ہے کہ اگر کوئی شخص توہین عدالت کا مرتکب ہو تو اسے فوری سزا ملنی چا ہیے لیکن جو قانون لایا گیا ہے اس نے سب کو چھوٹ دے دی ہے کہ توہین عدالت کرو اور شو کاز کے خلاف اپیل کرکے آزاد پھرتے رہو۔ چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ اس طرح تو عدلیہ کے لیے اپنے فیصلوں پر عمل درآمد مشکل اور عدالتیں غیر مؤثر ہوجائیں گی۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے سوال اٹھایا کہ ایسا کوئی قانون ہے جو اپیل کی صورت میں فیصلہ معطل کرتا ہو۔
حامد خان نے بتایا کہ زیر غور قانون، قانون کی حکمرانی کے تصور سے متصادم ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اس کو عدلیہ کے معاملات میں مداخلت نہیں کہا جا سکتا اس طرح تو انصاف کا عمل رک جائے گا۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اعلٰی عدلیہ میں پٹیشن ہمیشہ ریاستی مشینری کے جبر کے خلاف دائر ہوتی ہے، جب سرکار کسی کا بنیادی حق سلب کرے گی تو وہ عدلیہ سے رجوع کرے گا کیونکہ عام آدمی کو ریاستی جبر سے تحفظ کی ضرورت ہے لیکن جب سرکاری اہلکار عدالت آکر یہ کہیں گے کہ کر لو جو کرنا ہے تو پھر قانون کی حکمرانی کہاں رہ جائے گی، جسے استثنیٰ ہے عدالت چاہے بھی تو ان کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکے گی۔
چیف جسٹس نے کہا بات ذاتی انا یا انتقام کی نہیں، انصاف کے عمل اور عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کی ہے۔درخواست گزار اشرف گجر نے صدارتی استثنیٰ کا معاملہ اٹھایا لیکن چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ یہ معاملہ عدالت کے سامنے نہیں۔