ہماری جنت
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ان کے بیٹے کی قربانی اس لیے مانگی گئی کہ اولاد کی محبت بہت اہمیت رکھتی ہے
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ان کے بیٹے کی قربانی اس لیے مانگی گئی کہ اولاد کی محبت بہت اہمیت رکھتی ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اﷲ کی محبت ہی میں اولاد کو قربانی کے لیے پیش کیا۔ ہم مسلمانوں کے لیے بھی اللہ عالی شان فرماتا ہے کہ تمام محبتوں سے بلند ہے میری محبت۔
کیونکہ وہ دنیا و جہانوں،آسمانوں کا مالک و مختار ہے، بنانے والا، سجانے والا ہے، اس لیے ذرہ ذرہ اللہ پاک کے حکم کا محتاج ہے۔ ہاں اس کے ساتھ ساتھ نافرمانیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے جو تاقیامت تک جاری رہے گا۔ امتحانات چلتے رہیں گے، لوگ آتے رہیں گے، جاتے رہیں گے، بس رہ جائیں گی ان کی کہانیاں، ان کی اچھائیاں، ان کی برائیاں۔
اولاد کی محبت میں انسان بڑے بڑے دھوکے دے دیتا ہے اور بڑے بڑے دھوکے کھا لیتا ہے، کچھ اولاد اللہ کی رحمت ہیں تو اس زمانے میں خاص طور پر کچھ بے تحاشا زحمت بنی ہوئی ہیں، مگر شاید قصور ان کا بھی نہیں ہے۔ اللہ اور اس کے نظام سے دوری یقین جانیے انسانوں کو کھوکھلا کیے دے رہی ہے۔ ہم ایک بناوٹی دنیا کا حصہ بنتے جا رہے ہیں، ہمارے الفاظ ہمارا ساتھ نہیں دیتے۔
ہمارا لائف اسٹائل ادھار ادھار سا لگتا ہے، جب مدرز ڈے، فادرز ڈے منایا جاتا ہے اور لوگ جوق در جوق اپنی ماؤں کو، والد کو پھول اور چاکلیٹ پیش کر رہے ہوتے ہیں اور باقی دنوں میں اپنی عیاشیوں میں غرق رہتے ہیں۔ مصروفیات ایسی ہیں کہ عجیب و غریب قسم کے دوست بنائے جاتے ہیں۔ ایک شام فٹ پاتھوں پر بنے ہوئے کیفے میں بیٹھے ہیں، دوسری شام کسی اور، ادھر کھا لیا، ادھر پی لیا، بس یہ زندگی کا اسٹائل۔
اگر اسی کو ہم اور آپ اسٹائل کہیں تو پھر فضول اور ناکارہ لوگ کن کو کہیں۔ ان لاڈ سے پلے ہوئے بچوں نے اپنی زندگی کو خود تماشا بنا لیا ہے۔ ادھر ادھر سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے اسٹائل بنالیتے ہیں اور سمجھنے لگے ہیں کہ ان کی مائیں جاہل عورتیں ہیں اور ان کے والد کمانے کی مشینیں۔ بس لوٹے جاؤ، کھاتے جاؤ۔ کئی والدین تو ہم نے ایسے دیکھے ہیں جن کی اولاد صرف اور صرف ان کی دولت پر نظریں جمائے بیٹھی ہیں۔
ہاں یہ وہی والدین ہیں جنھوں نے دن و رات اپنی زندگی کے ان کے بنانے کے لیے خرچ کردیے، ان کی پیدائش سے لے کر اپنے بڑھاپے تک نہ جانے کتنی بار جیے اور کتنی بار مرے۔ جہاں ہم اللہ پاک سے دور ہوتے ہیں، وہیں سے ہمارے لیے پریشانیوں کے سلسلے بھی شروع ہوجاتے ہیں، اللہ بے شک بہت کریم اور غفور ہے۔ وہ کبھی اپنے بندوں کو تکلیف نہیں دیتا، یہ تو ہماری ہی بدنصیبی ہوتی ہے کہ ہم الٹے چل پڑتے ہیں۔
کئی ایسے بزرگ والدین ہم دیکھتے ہیں جن کی اولاد باہر پڑھنے کے لیے گئیں اور پھر وہیں سیٹ ہوگئے، والدین کے لیے ملازم رکھ دیے گئے، کیسے کیسے دکھ یہ بوڑھے والدین برداشت کرتے ہیں، اپنے رشتے داروں میں حالات چھپاتے ہیں، بڑھاچڑھا کر اپنے بچوں کی نفرتوں سے بھرے ہوئے قصے سناتے ہیں، فرضی محبت کی کہانیاں بناتے ہیں اور اکثر راتوں میں اپنی تنہائیوں میں اداس، بے بس ہوتے ہیں، وہ محبتوں کی شدتیں ، وہ ماؤں کا اپنی اولاد کے لیے کلیجہ پھٹ جانا، کیا یہ بچے اتنے بے حس ہوجاتے ہیں کہ ان کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ بھی انسان ہیں جو جذبات رکھتے ہیں۔
پتا نہیں کیسے یہ یکدم اپنے والدین کے لیے اندھے ہوجاتے ہیں، باقی زندگی کی رنگینیاں ان کو بڑھ چڑھ کر نظر آرہی ہوتی ہیں، آپ کو ایک ماں کا قصہ بھی سنادیتے ہیں۔ بیٹے کی شادی ہوئی، بیوی گھر آئی، گھر چھوٹا تھا، دو کمرے کا گھر تھا، ماں ذرا بوڑھی ہوئی تو بیمار بھی رہنے لگی، بیوی کو ماں کی کھانسی پر اعتراض ہونے لگا۔
ایک دن اپنے محبت کرنے والے شوہر کو مشورہ دیا کہ ماں بہت بوڑھی ہوگئی ہے اور اکیلی بھی بہت ہیں، سارا دن بستر پر پڑی رہتی ہیں ان کی وجہ سے کمرہ بھی ریزرو ہے، اب اولاد بھی ہونے والی ہے۔ ایک کمرے کا ہی A.C چلتا ہے تو اپنی اولاد کو بھی AC میں رکھنا ہوگا۔ میاں نے پوچھا اب کیا کریں، بیوی نے مشورہ دیا اماں کو کسی اولڈ ہاؤس میں چھوڑ آئیں، دل بھی لگا رہے گا اور اپنے ہم عمر لوگوں میں خوش بھی رہیں گی۔
بیٹے صاحب بیوی کی محبت میں گرفتار ایک فرمانبردار شوہر بن گئے۔ اپنی ماں کی عظمت، محبت، خدمت، سب کچھ بھول گئے۔ دو تین دن کے بعد ماں کے پاس بیٹھے، ماں نے حیرت سے پوچھا خیریت تو ہے، بولا اماں دو چار دن کے لیے گھومنے چلی جائیں، ماں کو اور بھی حیرت ہوئی آنکھیں پھیلا کر پوچھا کہاں؟ بولا میرے کچھ لوگ اچھے جاننے والے ہیں تم خوش رہوگی، ماں نے کہا گرمی بہت ہے، آج کل تم تو AC سے باہر ہی نہیں نکلتے، کیسے مجھے چھوڑ کے آؤ گے، بیٹے نے کہا کل صبح تیار ہوجانا۔
دوسرے دن بیوی نے تمام کپڑے ڈال کر ایک چھوٹا سوٹ کیس بنایا، ماں کو ساتھ لے کر ایک اولڈ ہاؤس کی طرف نکل گیا۔ وہاں جا کر انٹری کروائی، ماں کو خدا حافظ ایسا کہا کہ پھر پلٹ کر خبر ہی نہ لی، کئی سال گزر گئے، بیٹے کا باپ بھی بن گیا اور بیٹا بڑا بھی ہوگیا، نہ کبھی وہ اولڈ ہاؤس گیا نہ کبھی وہاں سے فون آیا۔ بہت سال گزرنے کے بعد اچانک ایک دن فون کی گھنٹی بجی، اولڈ ہاؤس والے نے کہا آپ کی والدہ جانے والی ہیں، آخری بار آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔ حیران ہوکر اس نے خبر سنی اور سوچا اماں ابھی تک زندہ ہیں؟ بیوی کو بتایا، بیوی نے اجازت دے دی کہ مل آنا اور ان لوگوں سے ہی کہہ دینا کہ وہی دفنا دیں۔
دوسرے دن بیٹے صاحب ماں کے پاس پہنچے، جھریوں سے بھرا چہرہ، ایک چارپائی پر پڑا تھا، سخت گرمی ہو رہی تھی، پنکھا تک نہیں تھا، ایک نظر اس نے چاروں طرف ڈالی اور ایک جھرجھری سی لی، ماں نے آنکھیں کھولیں، بیٹے کا ہاتھ تھاما اور کہا کہ اس کمرے میں AC لگوا دو۔ بیٹا حیران ہوکر ماں کو دیکھنے لگا، جب رہ رہی تھیں تو کوئی فرمائش نہیں کی، اب جانے والی ہیں تو AC۔ حیرانی سے پوچھا کیوں ماں؟ AC کیوں لگوا دوں؟
ماں نے ذرا سی آنکھیں کھولی اور بولی بیٹا! میں تو جا رہی ہوں، شروع سے عادت ہوگئی تھی گرمی برداشت کرنے کی، تمہارے لیے ہی AC گھر میں لگوایا تھا تاکہ تم سکھ سے رہو۔ اب میں جا رہی ہوں مگر تمہاری وجہ سے بہت فکرمند ہوں۔ تم یہاں AC لگوالو گے تو سکون سے مرجاؤں گی۔ بیٹا مزید حیران ہوگیا کہ اماں جاتے جاتے کیا ہذیان بک رہی ہیں، سمجھا شاید دماغی طور پر بالکل ختم ہوگئی ہیں۔ بولا اماں یہاں AC کیوں لگواؤں جب کہ تم بھی جا رہی ہو؟
اماں نے آخری بار آنکھیں ذرا کشادہ کھولیں، آخری جملہ بولا اور مرگئی۔ ماں کا آخری جملہ ہی ہم سب کے لیے سبق ہے، اگر سمجھیں تو۔ ماں بولی بیٹا! تجھے AC کی عادت ہے اور یہاں تو پنکھا بھی نہیں۔ بہت گرمی ہوتی ہے، کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ بہت پریشان ہوجاتی ہوں یہ سوچ کر کہ جب تیرا بیٹا تجھے یہاں چھوڑ کے جائے گا تو تُو کیسے رہے گا؟ مجھے تیری طرف سے تسلی ہوجائے گی اگر تو یہاں AC لگوا لے گا تو، تجھے بھی تو یہیں آنا ہے آخر۔
کیونکہ وہ دنیا و جہانوں،آسمانوں کا مالک و مختار ہے، بنانے والا، سجانے والا ہے، اس لیے ذرہ ذرہ اللہ پاک کے حکم کا محتاج ہے۔ ہاں اس کے ساتھ ساتھ نافرمانیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے جو تاقیامت تک جاری رہے گا۔ امتحانات چلتے رہیں گے، لوگ آتے رہیں گے، جاتے رہیں گے، بس رہ جائیں گی ان کی کہانیاں، ان کی اچھائیاں، ان کی برائیاں۔
اولاد کی محبت میں انسان بڑے بڑے دھوکے دے دیتا ہے اور بڑے بڑے دھوکے کھا لیتا ہے، کچھ اولاد اللہ کی رحمت ہیں تو اس زمانے میں خاص طور پر کچھ بے تحاشا زحمت بنی ہوئی ہیں، مگر شاید قصور ان کا بھی نہیں ہے۔ اللہ اور اس کے نظام سے دوری یقین جانیے انسانوں کو کھوکھلا کیے دے رہی ہے۔ ہم ایک بناوٹی دنیا کا حصہ بنتے جا رہے ہیں، ہمارے الفاظ ہمارا ساتھ نہیں دیتے۔
ہمارا لائف اسٹائل ادھار ادھار سا لگتا ہے، جب مدرز ڈے، فادرز ڈے منایا جاتا ہے اور لوگ جوق در جوق اپنی ماؤں کو، والد کو پھول اور چاکلیٹ پیش کر رہے ہوتے ہیں اور باقی دنوں میں اپنی عیاشیوں میں غرق رہتے ہیں۔ مصروفیات ایسی ہیں کہ عجیب و غریب قسم کے دوست بنائے جاتے ہیں۔ ایک شام فٹ پاتھوں پر بنے ہوئے کیفے میں بیٹھے ہیں، دوسری شام کسی اور، ادھر کھا لیا، ادھر پی لیا، بس یہ زندگی کا اسٹائل۔
اگر اسی کو ہم اور آپ اسٹائل کہیں تو پھر فضول اور ناکارہ لوگ کن کو کہیں۔ ان لاڈ سے پلے ہوئے بچوں نے اپنی زندگی کو خود تماشا بنا لیا ہے۔ ادھر ادھر سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے اسٹائل بنالیتے ہیں اور سمجھنے لگے ہیں کہ ان کی مائیں جاہل عورتیں ہیں اور ان کے والد کمانے کی مشینیں۔ بس لوٹے جاؤ، کھاتے جاؤ۔ کئی والدین تو ہم نے ایسے دیکھے ہیں جن کی اولاد صرف اور صرف ان کی دولت پر نظریں جمائے بیٹھی ہیں۔
ہاں یہ وہی والدین ہیں جنھوں نے دن و رات اپنی زندگی کے ان کے بنانے کے لیے خرچ کردیے، ان کی پیدائش سے لے کر اپنے بڑھاپے تک نہ جانے کتنی بار جیے اور کتنی بار مرے۔ جہاں ہم اللہ پاک سے دور ہوتے ہیں، وہیں سے ہمارے لیے پریشانیوں کے سلسلے بھی شروع ہوجاتے ہیں، اللہ بے شک بہت کریم اور غفور ہے۔ وہ کبھی اپنے بندوں کو تکلیف نہیں دیتا، یہ تو ہماری ہی بدنصیبی ہوتی ہے کہ ہم الٹے چل پڑتے ہیں۔
کئی ایسے بزرگ والدین ہم دیکھتے ہیں جن کی اولاد باہر پڑھنے کے لیے گئیں اور پھر وہیں سیٹ ہوگئے، والدین کے لیے ملازم رکھ دیے گئے، کیسے کیسے دکھ یہ بوڑھے والدین برداشت کرتے ہیں، اپنے رشتے داروں میں حالات چھپاتے ہیں، بڑھاچڑھا کر اپنے بچوں کی نفرتوں سے بھرے ہوئے قصے سناتے ہیں، فرضی محبت کی کہانیاں بناتے ہیں اور اکثر راتوں میں اپنی تنہائیوں میں اداس، بے بس ہوتے ہیں، وہ محبتوں کی شدتیں ، وہ ماؤں کا اپنی اولاد کے لیے کلیجہ پھٹ جانا، کیا یہ بچے اتنے بے حس ہوجاتے ہیں کہ ان کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ بھی انسان ہیں جو جذبات رکھتے ہیں۔
پتا نہیں کیسے یہ یکدم اپنے والدین کے لیے اندھے ہوجاتے ہیں، باقی زندگی کی رنگینیاں ان کو بڑھ چڑھ کر نظر آرہی ہوتی ہیں، آپ کو ایک ماں کا قصہ بھی سنادیتے ہیں۔ بیٹے کی شادی ہوئی، بیوی گھر آئی، گھر چھوٹا تھا، دو کمرے کا گھر تھا، ماں ذرا بوڑھی ہوئی تو بیمار بھی رہنے لگی، بیوی کو ماں کی کھانسی پر اعتراض ہونے لگا۔
ایک دن اپنے محبت کرنے والے شوہر کو مشورہ دیا کہ ماں بہت بوڑھی ہوگئی ہے اور اکیلی بھی بہت ہیں، سارا دن بستر پر پڑی رہتی ہیں ان کی وجہ سے کمرہ بھی ریزرو ہے، اب اولاد بھی ہونے والی ہے۔ ایک کمرے کا ہی A.C چلتا ہے تو اپنی اولاد کو بھی AC میں رکھنا ہوگا۔ میاں نے پوچھا اب کیا کریں، بیوی نے مشورہ دیا اماں کو کسی اولڈ ہاؤس میں چھوڑ آئیں، دل بھی لگا رہے گا اور اپنے ہم عمر لوگوں میں خوش بھی رہیں گی۔
بیٹے صاحب بیوی کی محبت میں گرفتار ایک فرمانبردار شوہر بن گئے۔ اپنی ماں کی عظمت، محبت، خدمت، سب کچھ بھول گئے۔ دو تین دن کے بعد ماں کے پاس بیٹھے، ماں نے حیرت سے پوچھا خیریت تو ہے، بولا اماں دو چار دن کے لیے گھومنے چلی جائیں، ماں کو اور بھی حیرت ہوئی آنکھیں پھیلا کر پوچھا کہاں؟ بولا میرے کچھ لوگ اچھے جاننے والے ہیں تم خوش رہوگی، ماں نے کہا گرمی بہت ہے، آج کل تم تو AC سے باہر ہی نہیں نکلتے، کیسے مجھے چھوڑ کے آؤ گے، بیٹے نے کہا کل صبح تیار ہوجانا۔
دوسرے دن بیوی نے تمام کپڑے ڈال کر ایک چھوٹا سوٹ کیس بنایا، ماں کو ساتھ لے کر ایک اولڈ ہاؤس کی طرف نکل گیا۔ وہاں جا کر انٹری کروائی، ماں کو خدا حافظ ایسا کہا کہ پھر پلٹ کر خبر ہی نہ لی، کئی سال گزر گئے، بیٹے کا باپ بھی بن گیا اور بیٹا بڑا بھی ہوگیا، نہ کبھی وہ اولڈ ہاؤس گیا نہ کبھی وہاں سے فون آیا۔ بہت سال گزرنے کے بعد اچانک ایک دن فون کی گھنٹی بجی، اولڈ ہاؤس والے نے کہا آپ کی والدہ جانے والی ہیں، آخری بار آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔ حیران ہوکر اس نے خبر سنی اور سوچا اماں ابھی تک زندہ ہیں؟ بیوی کو بتایا، بیوی نے اجازت دے دی کہ مل آنا اور ان لوگوں سے ہی کہہ دینا کہ وہی دفنا دیں۔
دوسرے دن بیٹے صاحب ماں کے پاس پہنچے، جھریوں سے بھرا چہرہ، ایک چارپائی پر پڑا تھا، سخت گرمی ہو رہی تھی، پنکھا تک نہیں تھا، ایک نظر اس نے چاروں طرف ڈالی اور ایک جھرجھری سی لی، ماں نے آنکھیں کھولیں، بیٹے کا ہاتھ تھاما اور کہا کہ اس کمرے میں AC لگوا دو۔ بیٹا حیران ہوکر ماں کو دیکھنے لگا، جب رہ رہی تھیں تو کوئی فرمائش نہیں کی، اب جانے والی ہیں تو AC۔ حیرانی سے پوچھا کیوں ماں؟ AC کیوں لگوا دوں؟
ماں نے ذرا سی آنکھیں کھولی اور بولی بیٹا! میں تو جا رہی ہوں، شروع سے عادت ہوگئی تھی گرمی برداشت کرنے کی، تمہارے لیے ہی AC گھر میں لگوایا تھا تاکہ تم سکھ سے رہو۔ اب میں جا رہی ہوں مگر تمہاری وجہ سے بہت فکرمند ہوں۔ تم یہاں AC لگوالو گے تو سکون سے مرجاؤں گی۔ بیٹا مزید حیران ہوگیا کہ اماں جاتے جاتے کیا ہذیان بک رہی ہیں، سمجھا شاید دماغی طور پر بالکل ختم ہوگئی ہیں۔ بولا اماں یہاں AC کیوں لگواؤں جب کہ تم بھی جا رہی ہو؟
اماں نے آخری بار آنکھیں ذرا کشادہ کھولیں، آخری جملہ بولا اور مرگئی۔ ماں کا آخری جملہ ہی ہم سب کے لیے سبق ہے، اگر سمجھیں تو۔ ماں بولی بیٹا! تجھے AC کی عادت ہے اور یہاں تو پنکھا بھی نہیں۔ بہت گرمی ہوتی ہے، کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ بہت پریشان ہوجاتی ہوں یہ سوچ کر کہ جب تیرا بیٹا تجھے یہاں چھوڑ کے جائے گا تو تُو کیسے رہے گا؟ مجھے تیری طرف سے تسلی ہوجائے گی اگر تو یہاں AC لگوا لے گا تو، تجھے بھی تو یہیں آنا ہے آخر۔