برائیوں اور غلطیوں پر نظر
ہماری مختلف جماعتوں کے جلسے جلوسوں اور احتجاج کے باعث عام لوگوں کو کس قدر پریشانی ہوتی ہے
ایک ٹی وی ٹاک شو میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نمایندے اپنی اپنی جماعتوں کی خوبیوں کے گن گا رہے تھے، حاضرین میں سے کسی نے ان سے کہا کہ کیا آپ لوگ اپنی اپنی جماعتوں کی کوئی ایک برائی بیان کرسکتے ہیں؟
اس پر ایک نمایندے نے کہا کہ میری جماعت کی سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ وہ مڈل کلاس قیادت رکھتی ہے۔ دوسرے نے کہا کہ وہ جمہوریت کی بات کرتی ہے، یہی اس کی اہم برائی ہے۔ تیسرے نے کہا کہ ہم انصاف کا نعرہ بلند کرتے ہیں، یہی ہماری برائی ہے۔
راقم کے ایک ساتھی نے یہ پروگرام دیکھنے کے بعد سوال کیا کہ ہماری تمام ہی جماعتیں خواہ بڑی ہوں یا چھوٹی، وہ سب کی سب کیوں اپنے آپ کو دودھ کا دھلا ہوا اور مخالف جماعت کو برائیو ں کا مجموعہ سمجھتی ہیں؟ ہمارے اس ساتھی کا یہ سوال بڑا اہم تھا۔
یہ معاملہ صرف ہماری سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہی نہیں ہے، یہ زندگی کے تقریباً تمام ہی معاملات میں نظر آتا ہے۔ خواہ کسی سرکاری ادارے میں چھوٹے پیمانے کے الیکشن ہوں یا کسی ادارے میں کوئی آفیشل میٹنگ ہو، ہر جگہ گروہ بندی یا پسند اور ناپسند کی بنیاد پر ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو بجائے سمجھنے کے الٹا مخالفت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے، ہر کوئی صرف اپنے نقطہ نظر کو صد فیصد درست سمجھتا ہے۔
اس قسم کا رویہ ٹی وی کے ٹاک شوز میں روز دیکھنے کو ملتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی جماعت میں کوئی خرابی ہی نہ ہو یا کسی جماعت میں کوئی خوبی ہی نہ ہو۔ قومی رہنماؤں کا کام قوم کی رہنمائی کرنا ہوتا ہے، مخالف کی خوبیوں کو سرے سے تسلیم نہ کرنے والا ایک انسان، حقیقت پسند انسان کیسے ہوسکتا ہے؟ اور خود قوم کی رہنمائی کے دعوے کیسے کرسکتا ہے؟ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم کرنے کا حوصلہ کیوں نہیں؟ کیا ایسا کردار رکھنے والے قوم کا کردار بدلنے کی سکت رکھتے ہیں؟ کیا ان کا کردار قوم کے لیے رول ماڈل ہوگا؟
شاید یہی وجہ ہو کہ ہمیں عام زندگی میں بھی یہی رویہ دیکھنے کو ملتا ہے، کسی آفس کی میٹنگ میں، محلے یا خاندان کی مجلس میں بھی ہم دوسروں کی خوبیوں کا کم ہی اعتراف کرتے ہیں اور عموماً آفیشل میٹنگ میں بھی بجائے حق اور صداقت کا ساتھ دینے کے ہم اپنے گروہ سے وابستہ لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اپنا بندہ اگر غلط بھی بولے تو ہر طرح سے اس کی حمایت کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ہم آخر ایسا کیوں کرتے ہیں؟ یہ تو قطعی غلط بات ہے۔ جب ہم سب اپنے آپ کو سچا اور کھرا قرار دیتے ہیں تو حق بات کہنے کی جسارت کیوں نہیں کرتے؟
ایک چھوٹی سی مثال لے لیں، ہماری مختلف جماعتوں کے جلسے جلوسوں اور احتجاج کے باعث عام لوگوں کو کس قدر پریشانی ہوتی ہے، راستے بند کر دینے کے کتنے ہی واقعات میں مریض دم توڑ گئے، مسافر وقت پر نہ پہنچ سکے۔ اس قسم کے واقعات پر ہمیشہ مختلف جماعتوں نے مخالف جماعتوں پر تنقید تو ضرور کی مگر جب خود ان کی جماعت کی جانب سے راستے بند ہوئے توکسی نے یہ تسلیم کرنے کی جرأت نہیں کی کہ ہاں یہ کام غلط ہوا ہے، عوام کو تکلیف پہنچی ہے اور وہ آیندہ ایسا نہیں ہونے دیںگے۔
اب یہی کچھ گلیوں محلوں میں لوگ کرنے لگے ہیں، گھریلو حتیٰ کہ مذہبی تقریب کے موقعے پر بھی راستے بند کرنا سب نے اپنا حق سمجھ لیا ہے اور کوئی اس پر شرمندہ بھی نہیں ہوتا، بلکہ ایسا رویہ ہوتا ہے کہ جیسے اس پر کوئی بڑا ثواب مل رہا ہو۔ خاندانی جھگڑوں میں بھی یہ روش عام ہوگئی ہے کہ ہر فریق اپنے آپ کو سو فیصد درست اور سامنے والے کو سو فیصد غلط قرار دے دیتا ہے۔ ہم یہ جائزہ نہیں لیتے کہ ہم سے بھی کوئی غلطی ہوسکتی ہے، تمام فریق الزام ایک دوسرے پر اس طرح ڈالتے ہیں بس سامنے والا ہی خطاؤں کا پتلا ہے اور ہم دودھ کے دھلے ہوئے ہیں۔
اس قسم کی روش سے مسائل کبھی حل نہیں ہوتے، بڑھتے ضرور ہیں۔ مسائل اس وقت ہی حل ہوں گے جب یہ تسلیم کیا جائے کہ غلطیاں صرف سامنے والے سے ہی نہیں ہم سے بھی ہو سکتی ہیں، ہم سے بھی خطا ہوسکتی ہے، ہم بھی دوسرے کی طرح انسان ہیں۔ ایسا تو شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ کوئی انسان غلطیاں نہ کرتا ہو، غلطیاں تو انسان ہی کرتا ہے لیکن حقیقت میں تو انسان وہی ہوتا ہے کہ جو اپنی غلطی کو بھی سمجھے، ان کا اعتراف کرے اور پھر ازالے کی کوشش بھی کرے۔
غلطی کے اعتراف اور اس کے ازالے کی کو شش کرنا بڑے دل و جگر کی بات ہے، ایسا کرنے والا ہی عظیم انسان ہوتا ہے اور ایک عظیم انسان ہی کسی قوم کی صحیح رہنمائی کرسکتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے کو ایسے عظیم انسانوں کی ضرورت ہے۔ ایسے ہی عظیم انسان و رہنماؤں کی ضرورت ہے مگر شاید یہ ناپید ہیں، کیونکہ ہم ہر روز ٹی وی پر دیکھتے ہیں کہ قوم کی رہنمائی کے اور ہمدرد ہونے کے دعوے دار ایک دوسرے کے فیصلوں کو غلط قرار دیتے ہیں، ایک دوسرے کی جماعت میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر کیڑے نکالتے ہیں، مگر ان سب کی نگاہ کبھی اپنی خامیوں کی طرف نہیں جاتی، اپنی جماعت میں کوئی برائی نظر نہیں آتی۔
یہ بڑی اہم اور قابل غور بات ہے کہ جب ہم اپنی کوتاہی پر نظر ڈالنا ہی پسند نہیں کریں گے، ان کو تسلیم ہی نہیں کریں گے، تو بھلا پھر ان کو دور کیسے کریں گے؟ شاید یہی وجہ ہے کہ ان جماعتوں کی خامیاں کبھی دور نہیں ہوتیں اور جب خامیاں دور نہ ہوں تو مسائل میں اضافہ تو ضرور ہوتا ہے مگر وہ ختم نہیں ہوتے۔
یہی وجہ ہے کہ آج اس قوم کے مسائل پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں جب کہ بجائے ان مسائل کے حل کے لیے کسی حقیقی پیش رفت کے، ایک دوسرے پر الزام لگایا جاتا ہے، ایک دوسرے کی برائیوں کو پیش کیا جاتا ہے جس کے باعث ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ کر اپنا قد کسی حد تک بلند تو کر لیا جاتا ہے مگر مسائل کبھی حل نہیں ہوتے۔
اگر ہم نے اپنے مسائل کم کرنے ہیں اور ان کا حل نکالنا ہے تو ہمیں سب سے پہلے اپنی غلطیوں کو جاننا ہوگا، دوسروں کی نہیں اپنی کوتاہیوں کو تلاش کرکے دور کرنا ہوگا اور یہ کام ایک گھر سے لے کر پارلیمنٹ تک کرنا ہوگا، کیونکہ یہ روش سب جگہ موجود ہے۔ ہمیں اس روش کو ترک کرنا ہوگا کہ مخالف ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے اور ہم بڑے پارسا اور نیک ہیں۔ ہم اپنے معاملات کا جائزہ غیر جانبدار ہوکر کیوں نہیں لیتے؟
غیر جانبداری کے ساتھ جائزہ خود اپنی ذات کے لیے بھی انتہائی ضروری ہوتا ہے جب کہ ہم اپنی ذات تو دور کی بات اپنی جماعتوں کے کردار اور پالیسوں کا غیر جانبدار ہوکر کبھی جائزہ نہیں لیتے اور ہمیشہ اپنی غلطیوں کا کوئی نہ کوئی جواز ڈھونڈ لیتے ہیں جس کے باعث اس ملک و قوم کے اجتماعی اور انفرادی مسائل میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوا ہے۔ کہنے کو یہ ایک چھوٹا اور عام سا مسئلہ ہے مگر اہم ترین مسئلہ ہے۔ آئیے اس اہم مسئلے پر غور کریں اور اپنی زندگی کو آسان بنائیں۔
اس پر ایک نمایندے نے کہا کہ میری جماعت کی سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ وہ مڈل کلاس قیادت رکھتی ہے۔ دوسرے نے کہا کہ وہ جمہوریت کی بات کرتی ہے، یہی اس کی اہم برائی ہے۔ تیسرے نے کہا کہ ہم انصاف کا نعرہ بلند کرتے ہیں، یہی ہماری برائی ہے۔
راقم کے ایک ساتھی نے یہ پروگرام دیکھنے کے بعد سوال کیا کہ ہماری تمام ہی جماعتیں خواہ بڑی ہوں یا چھوٹی، وہ سب کی سب کیوں اپنے آپ کو دودھ کا دھلا ہوا اور مخالف جماعت کو برائیو ں کا مجموعہ سمجھتی ہیں؟ ہمارے اس ساتھی کا یہ سوال بڑا اہم تھا۔
یہ معاملہ صرف ہماری سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہی نہیں ہے، یہ زندگی کے تقریباً تمام ہی معاملات میں نظر آتا ہے۔ خواہ کسی سرکاری ادارے میں چھوٹے پیمانے کے الیکشن ہوں یا کسی ادارے میں کوئی آفیشل میٹنگ ہو، ہر جگہ گروہ بندی یا پسند اور ناپسند کی بنیاد پر ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو بجائے سمجھنے کے الٹا مخالفت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے، ہر کوئی صرف اپنے نقطہ نظر کو صد فیصد درست سمجھتا ہے۔
اس قسم کا رویہ ٹی وی کے ٹاک شوز میں روز دیکھنے کو ملتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی جماعت میں کوئی خرابی ہی نہ ہو یا کسی جماعت میں کوئی خوبی ہی نہ ہو۔ قومی رہنماؤں کا کام قوم کی رہنمائی کرنا ہوتا ہے، مخالف کی خوبیوں کو سرے سے تسلیم نہ کرنے والا ایک انسان، حقیقت پسند انسان کیسے ہوسکتا ہے؟ اور خود قوم کی رہنمائی کے دعوے کیسے کرسکتا ہے؟ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم کرنے کا حوصلہ کیوں نہیں؟ کیا ایسا کردار رکھنے والے قوم کا کردار بدلنے کی سکت رکھتے ہیں؟ کیا ان کا کردار قوم کے لیے رول ماڈل ہوگا؟
شاید یہی وجہ ہو کہ ہمیں عام زندگی میں بھی یہی رویہ دیکھنے کو ملتا ہے، کسی آفس کی میٹنگ میں، محلے یا خاندان کی مجلس میں بھی ہم دوسروں کی خوبیوں کا کم ہی اعتراف کرتے ہیں اور عموماً آفیشل میٹنگ میں بھی بجائے حق اور صداقت کا ساتھ دینے کے ہم اپنے گروہ سے وابستہ لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اپنا بندہ اگر غلط بھی بولے تو ہر طرح سے اس کی حمایت کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ہم آخر ایسا کیوں کرتے ہیں؟ یہ تو قطعی غلط بات ہے۔ جب ہم سب اپنے آپ کو سچا اور کھرا قرار دیتے ہیں تو حق بات کہنے کی جسارت کیوں نہیں کرتے؟
ایک چھوٹی سی مثال لے لیں، ہماری مختلف جماعتوں کے جلسے جلوسوں اور احتجاج کے باعث عام لوگوں کو کس قدر پریشانی ہوتی ہے، راستے بند کر دینے کے کتنے ہی واقعات میں مریض دم توڑ گئے، مسافر وقت پر نہ پہنچ سکے۔ اس قسم کے واقعات پر ہمیشہ مختلف جماعتوں نے مخالف جماعتوں پر تنقید تو ضرور کی مگر جب خود ان کی جماعت کی جانب سے راستے بند ہوئے توکسی نے یہ تسلیم کرنے کی جرأت نہیں کی کہ ہاں یہ کام غلط ہوا ہے، عوام کو تکلیف پہنچی ہے اور وہ آیندہ ایسا نہیں ہونے دیںگے۔
اب یہی کچھ گلیوں محلوں میں لوگ کرنے لگے ہیں، گھریلو حتیٰ کہ مذہبی تقریب کے موقعے پر بھی راستے بند کرنا سب نے اپنا حق سمجھ لیا ہے اور کوئی اس پر شرمندہ بھی نہیں ہوتا، بلکہ ایسا رویہ ہوتا ہے کہ جیسے اس پر کوئی بڑا ثواب مل رہا ہو۔ خاندانی جھگڑوں میں بھی یہ روش عام ہوگئی ہے کہ ہر فریق اپنے آپ کو سو فیصد درست اور سامنے والے کو سو فیصد غلط قرار دے دیتا ہے۔ ہم یہ جائزہ نہیں لیتے کہ ہم سے بھی کوئی غلطی ہوسکتی ہے، تمام فریق الزام ایک دوسرے پر اس طرح ڈالتے ہیں بس سامنے والا ہی خطاؤں کا پتلا ہے اور ہم دودھ کے دھلے ہوئے ہیں۔
اس قسم کی روش سے مسائل کبھی حل نہیں ہوتے، بڑھتے ضرور ہیں۔ مسائل اس وقت ہی حل ہوں گے جب یہ تسلیم کیا جائے کہ غلطیاں صرف سامنے والے سے ہی نہیں ہم سے بھی ہو سکتی ہیں، ہم سے بھی خطا ہوسکتی ہے، ہم بھی دوسرے کی طرح انسان ہیں۔ ایسا تو شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ کوئی انسان غلطیاں نہ کرتا ہو، غلطیاں تو انسان ہی کرتا ہے لیکن حقیقت میں تو انسان وہی ہوتا ہے کہ جو اپنی غلطی کو بھی سمجھے، ان کا اعتراف کرے اور پھر ازالے کی کوشش بھی کرے۔
غلطی کے اعتراف اور اس کے ازالے کی کو شش کرنا بڑے دل و جگر کی بات ہے، ایسا کرنے والا ہی عظیم انسان ہوتا ہے اور ایک عظیم انسان ہی کسی قوم کی صحیح رہنمائی کرسکتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے کو ایسے عظیم انسانوں کی ضرورت ہے۔ ایسے ہی عظیم انسان و رہنماؤں کی ضرورت ہے مگر شاید یہ ناپید ہیں، کیونکہ ہم ہر روز ٹی وی پر دیکھتے ہیں کہ قوم کی رہنمائی کے اور ہمدرد ہونے کے دعوے دار ایک دوسرے کے فیصلوں کو غلط قرار دیتے ہیں، ایک دوسرے کی جماعت میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر کیڑے نکالتے ہیں، مگر ان سب کی نگاہ کبھی اپنی خامیوں کی طرف نہیں جاتی، اپنی جماعت میں کوئی برائی نظر نہیں آتی۔
یہ بڑی اہم اور قابل غور بات ہے کہ جب ہم اپنی کوتاہی پر نظر ڈالنا ہی پسند نہیں کریں گے، ان کو تسلیم ہی نہیں کریں گے، تو بھلا پھر ان کو دور کیسے کریں گے؟ شاید یہی وجہ ہے کہ ان جماعتوں کی خامیاں کبھی دور نہیں ہوتیں اور جب خامیاں دور نہ ہوں تو مسائل میں اضافہ تو ضرور ہوتا ہے مگر وہ ختم نہیں ہوتے۔
یہی وجہ ہے کہ آج اس قوم کے مسائل پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں جب کہ بجائے ان مسائل کے حل کے لیے کسی حقیقی پیش رفت کے، ایک دوسرے پر الزام لگایا جاتا ہے، ایک دوسرے کی برائیوں کو پیش کیا جاتا ہے جس کے باعث ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ کر اپنا قد کسی حد تک بلند تو کر لیا جاتا ہے مگر مسائل کبھی حل نہیں ہوتے۔
اگر ہم نے اپنے مسائل کم کرنے ہیں اور ان کا حل نکالنا ہے تو ہمیں سب سے پہلے اپنی غلطیوں کو جاننا ہوگا، دوسروں کی نہیں اپنی کوتاہیوں کو تلاش کرکے دور کرنا ہوگا اور یہ کام ایک گھر سے لے کر پارلیمنٹ تک کرنا ہوگا، کیونکہ یہ روش سب جگہ موجود ہے۔ ہمیں اس روش کو ترک کرنا ہوگا کہ مخالف ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے اور ہم بڑے پارسا اور نیک ہیں۔ ہم اپنے معاملات کا جائزہ غیر جانبدار ہوکر کیوں نہیں لیتے؟
غیر جانبداری کے ساتھ جائزہ خود اپنی ذات کے لیے بھی انتہائی ضروری ہوتا ہے جب کہ ہم اپنی ذات تو دور کی بات اپنی جماعتوں کے کردار اور پالیسوں کا غیر جانبدار ہوکر کبھی جائزہ نہیں لیتے اور ہمیشہ اپنی غلطیوں کا کوئی نہ کوئی جواز ڈھونڈ لیتے ہیں جس کے باعث اس ملک و قوم کے اجتماعی اور انفرادی مسائل میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوا ہے۔ کہنے کو یہ ایک چھوٹا اور عام سا مسئلہ ہے مگر اہم ترین مسئلہ ہے۔ آئیے اس اہم مسئلے پر غور کریں اور اپنی زندگی کو آسان بنائیں۔